دشمن ِجاں ،کیسی ہو ... !
تم سوچتی ہو گی کہ کئی سالوں بعد مجھے، تمہیں خط لکھنے کا خیال کیسے آ گیا ... وہ بھی آج کے دور میں جب دنیا ایک ای میل کر کے برا بھلا سب کہ ڈالتی ہے ... بس … کل لبرٹی والے Dunkin Donuts سے گزر ہوا تو لگا جیسے میرا اس سے پہلے ایک جنم اور بھی تھا... جس میں تم تھیں اور میں ... اور اک ایسا جہاں ... جہاں کوئی کمی تھی ، نہ دوریاں ...نہ کوئی فکر یا کوئی مجبوریاں ...
وقت کب کیسے گزر گیا ... یہ معلوم اس لیے نہیں ہو پاتا کیونکہ وقت اپنی مرضی سے گزرتا ہے ... اور پیچھے ہم رہ جاتے ہیں ... گزرتے ہوئے وقت کی دھار سے ترشے ہوئے ...کبھی زمانے کے ماتھے کا جھومر بن کر ... یا اسی زمانے میں پہچان کی دھوپ کو ترسے ہوئے ...خیر ...
یادوں کی یلغار اتنی گھَنی تھی کہ glazed ڈونٹ کی مٹھاس اور کافی کی کڑواہٹ تک زبان پر اگ آئی تھی ... بے اختیار گاڑی روک کر اندر چلا گیا ...
جہاں ہم دونوں یا ہمارے کچھ اور دوست بیٹھا کرتے تھے وہ سب جگہیں پر تھیں... ہمیشہ کی طرح نو دولتیوں کی تعداد زیادہ تھی ... ہمارے پسندیدہ کونے والی ٹیبل کے پیچھے اب ایک شیشے کی دیوار بنا کر اس پر پانی کا آبشار گرا دیا ہے ... اچھا لگ رہا تھا ... ویٹر اب بھی ڈھیلے ہیں ... میں کئی منٹ تک بیٹھا تمہاری بیزاری اور بھوک کی عدم برداشت یاد کر کے مسکراتا رہا ... تم کتنا چڑ جاتی تھیں جب ویٹر بات ہی نہیں سنتے تھے اور" ایک منٹ ، میڈم ..." کہ کر کسی اور ٹیبل کو سرو کرنے لگتے تھے ... اور تمہیں لگتا تھا کہ یہ ان لڑکیوں کی میزوں کے گرد منڈلاتے رہتے ہیں جن کی جینز یا شرٹ حد سے زیادہ تنگ ہوتی تھی اور آنکھیں سینکنے کے وافر مواقع میسر ہوتے تھے ... اور میں تمہاری احمقانہ سادگی پر سر ہلاتا رہ جاتا تھا کیونکہ ہم ان کو ٹپ ہمیشہ نہ ہونے کے برابر دیتے تھے جبکہ باقی لوگ ان ویٹرز کو خوش کر دیا کرتے تھے ...
انہیں سوچوں میں دانت نکالے خلاؤں میں گھور رہا تھا کہ ایک ویٹر میرا جائزہ لیتا ٹیبل تک پہنچ ہی گیا .. . خجالت چھپاتے ہوئے آرڈر دیا ... بلاوجہ وہی آرڈر دے دیا جو ہمیشہ تمھارے ساتھ ہوتے ہوئے دیا کرتا تھا ... ٣ گلزیڈ ڈونٹ اور ٢ cuppaccino ..تمہاری ہیزل نٹ اور میری Mocha .. سردی تھی ورنہ تمہیں پتہ ہے گرمیوں میں ہم iced tea یا کافی ہی منگواتے تھے ... اب اتنے بڑے آرڈر کو دیکھ کر ہی بھوک اڑ گئی تھی ... پھر سوچا آج تم نہیں ہو جو مجھے اپنی کافی سے ایک سپ لینے سے روک سکو ... لیکن کپ ہونٹوں تک لا کر رک گیا... سوچا ... تم نے اپنی زندگی نہیں بانٹی میرے ساتھ ... نہ کبھی کوئی کتاب، نوٹس، کافی نہ ڈونٹ... نہ اپنے دل کا جنگل، نہ رونق ... تو اب اس ایک گھونٹ کا کیا فائدہ ... اپنی کافی پیتے ہوئے مجھے یہی لگتا رہا کہ کافی آج بہت زیادہ کڑوی ہے... شاید سوچ کی کڑواہٹ زبان میں سرایت کر جاتی ہے ... اسی لیے لوگ، لوگوں کو کڑوے لہجوں سے چھلنی کر کے مرنے کے لیے زندہ چھوڑ دیتے ہیں ... تمہیں نہیں سنا رہا ...شاید قلم بھی کافی پی کر آیا ہے اور میرے ہاتھوں اپنی کڑواہٹ اس کاغذ میں دفن کر رہا ہے ...
تمہارے نہ ہونے کا سب سے بڑا فائدہ اس ویٹر کو ہوا ... میں نے تقریباً آرڈر کی قیمت کے برابر اس کو ٹپ دے دی ... اتنے سالوں میں قیمتیں بہت بڑھ گئی ہیں ... تو سوچا ویٹر کی ٹپ بھی تو اوپر جانی چاہیے ... ابھی بھی کڑھتی ہو اتنی بڑی رقم کسی پر "رائیگاں" جاتے دیکھ کر ؟؟؟ لگتا تو ایسا ہی ہے کہ تم مل اونر کی بہو اور باپ کی مل میں ایم ڈی شوہر کی "ٹرافی وائف " بن کر بدلی نہیں ہو گی ... اچھا ہے... بدل جانے والے مجھے تو ویسے بھی زہر لگتے ہیں ...
باہر نکلا تو ایک چھوٹی سی بچی پلازہ کی سیڑھیوں پر ننگے پاؤں بیٹھی تھی ... لاہور کا دسمبر تو تم جانتی ہی ہو ... اس کے پاؤں کے ناخن نیلے ہو چلے تھے ... میں شاید اندر کے گرم ماحول سے نکلا تھا تو اس لیے کپکپی سی چڑھ گئی... اس کی آنکھوں کا بھورا کانچ تک سردی سے منجمد لگتا تھا ... میں نے تمہاری کافی اور ڈونٹ جو اندر سے پیک کروا لایا تھا اس بچی کو تھما دیے ... کافی ابھی بھی گرم تھی شاید کیوں کہ بچی نے جب وہ کپ اپنے دونوں پاؤں انگلیوں کے بیچ پھنسا لیا تو مجھے لگا بھورا کانچ پگھلنے لگا ہے ...میلی فراک میں کہیں کہیں بےبی پنک رنگ کی جھلک باقی تھی ... مجھے بچی کو یوں گھورتے دیکھ کر نجانے کہاں سے ایک عورت نکل کر آ گئی ...اس بچی نے فوری طور پر ایک ڈونٹ اس کی جانب بڑھا کر کہا ... "لے ، کھا لے بے بے "... میں نے چند ہزار نکال کر اس عورت کے ہاتھ پر رکھے ... پھر اس بچی کی طرف دیکھ کر پوچھا ... "ان پیسوں سے کیا لو گی ؟"
"روٹی" وہ جھٹ سے بولی ...
"اور ؟؟؟"
"کج وی نہی ... بس روٹی " وہ سر ہلا کر بولی
وہ لمحہ میری زندگی کا سرد ترین لمحہ تھا ... جس میں یہ احساس میرے اندر جم گیا کہ خدا کے بعد اس دنیا کی سب بڑی حقیقت بھوک ہے ... میں چاہ کر بھی اس کی ماں سے نہ کہ سکا کہ اس کو گرم کپڑے یا جوتے لے دینا .. . گاڑی تک پہنچا تو مڑ کر دیکھا .. وہ کافی پیتے ہوئے برے برے منہ بنا رہی تھی ... اور ایک بار پھر مجھے تمہاری یاد کے مہیب سائے نے ڈھانپ لیا ...
تم سے پہلی ملاقات کا احوال آج بھی دل میں تازہ ہے ...
پہلی میرٹ لسٹ لگی تھی اور تم اس میں اپنا نام نہ پا کر بہت محنت سے برے برے منہ بنا رہی تھیں ... تمہارا بےبی پنک ٹاپ تمہارے ہاتھوں کی ہر حرکت کے ساتھ تمہاری بلیو جینز سے تھوڑا سا اوپر اٹھتا تھا ... اور تمہارے گورے پیٹ کا لشکارا لڑکوں کی آنکھیں چندھیا کر رکھ دیتا تھا ... تمہاری معصومیت تب بھی حد سے سوا تھی ... بہت سوں کی طرح میں بھی گھائل تھا ... مجھے اپنا نام نہ آنے کی فی الحال کوئی فکر نہیں تھی کیوں کہ ابھی ٢ لسٹیں اور باقی تھیں اور مجھے معلوم تھا کہ میریٹ ٤ نمبر تو گر ہی جائے گا کہ مجھے داخلہ مل جائے ! لہذا مابدولت، جناب کو بہت فرصت سے تاڑ رہے تھے اور تم مجھے دیکھ کر اپنی ننھی سی ناک چڑھا دیتی تھیں !!! آہستہ آہستہ سب ہی کیفے کی جانب کھسک رہے تھے ... تم نے کوئی ہزارویں بار لسٹ چیک کی تو میں تمہارے قریب ہی کھڑا تھا ... تمہاری ناک کی ننھی سی لونگ مجھے بہت اچھی لگی ... اور تمہیں شاید میرا گھورنا شدید تپا گیا ... اور تم دھپ دھپ کرتی وہاں سے چلی گئیں ... اتنا ہمت والا تو میں کبھی بھی نہیں تھا کہ تم سے بات کرتا .. . وہ تو بھلا ہو اگلی لسٹ کا جس میں ہم دونوں کا نام آ گیا اور اتفاق سے ہمارا سیکشن بھی ایک ہی تھا ... میرے نوٹس اور حس مزاح تمہیں میرے قریب تو لے آئی لیکن اب سمجھ میں آتا ہے کہ تم نے اپنے دل میں مجھے کبھی وہ جگہ نہیں دی جو میں تمہیں اپنے دل میں دے چکا تھا ... ہم ہمیشہ سے ساتھ بیٹھا کرتے تھے لیکن ساتھ کبھی تھے نہیں... میں جانتا ہوں تم یہ پڑھتے ہوئے بھی ناک چڑھا رہی ہو گی کیونکہ میرے الفاظ تمہیں بناوٹی لگتے تھے اور اب بھی لگتے ہیں ... اور صرف الفاظ ہی کیا ... تمہیں تو میرے جذبات ، احساسات، معاملات اور صدقات تک بناوٹی لگتے تھے ... اب تو اور بھی لگتے ہوں گے ... کیونکہ اب تم طبقۂاشرافیہ میں شامل ہو !!! اور امارت کا چشمہ لگا کر دیکھو تو صاف نیت کا شفاف منظر بھی گدلا ہی دکھتا ہے !!! لیکن میری بات کی اہمیت ہی کیا ... میں کیا جانوں امراء و شرفاء اور ان کی عینکوں کو!!!!
جس بات کے لیے مرزا غالب بن کر یہ خط لکھنے کا کشٹ اٹھایا ہے وہ تو رہی جاتی ہے !!!
پچھلے مہینے رائل پام کلب میں دیکھا تھا تمہیں ... سرخ پھولوں سے سجی فان ساڑی میں تم اپسرا ہی لگ رہی تھیں!!! تمہاری بیضوی ناف کا چھید اور اس میں پڑی ہوئی ننھی سی سونے کی زنجیری میں جکڑا ہیرا تمہارے گورے پیٹ پر صدقے واری جا رہا تھا ... تمہیں ادھر ادھر دیکھنے کی فرصت ہی نہیں تھی کیونکہ تمہارے کنگن، ہیرے اور شان و شوکت دیکھ کر جل بھن جانے والی سبھی ایلیٹ کلاس عورتوں نے تمہیں گھیر رکھا تھا جو جھوٹی تعریفیں کرتی تھکتی نہیں تھیں ! تسکین کے شرارے تمہاری مترنم ہنسی میں پھوٹتے اور گالوں میں غرور کی لالی گھولتے صاف دکھائی دیتے تھے... تمہیں خوش دیکھ کر اچھا لگا... لیکن یہ بھی میری خوش فہمی ہی نکلی ... تم سے جڑے ہر احساس کی طرح ... جب میں نے تمہارے شوہر کو ،سب کے سامنے ، تم پر چلاتے دیکھا ...ایک ہی سانس میں اس نے تمہیں
gold digger, useless cu*nt, pathetic excuse for a wife
اور نجانے کیا کیا کہ دیا ... تمہارے وہاں سے چلے جانے کے بعد بھی بہت کچھ کہتا رہا جس کا لب لباب بس یہی تھا کہ وہ اکثر تمہیں تمہاری اوقات یاد کرواتا رہتا ہے ... کبھی زبان سے اور اکثر ہاتھ سے ... پہلے سوچا شاید نشے میں ہو گا ... لیکن تھوڑی دیر اس کو نزدیک سے جانچا تو سمجھ گیا وہ ایک ذہنی مریض ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے کوئی محفوظ نہیں !!! ویٹر تو ویٹر ، اس کے اپنے دوست اور ملنے والے بھی اس سے فاصلہ رکھنے پر مجبور تھے ...
یہ سب دہرانے کا مقصد تمہیں اذیت دینا یا خدانخواستہ تمہاری تذلیل کرنا نہیں ... محض یہ پوچھنا تھا کہ تم تو کبھی بھی ایسی نہیں تھیں کہ اتنی ذلت اور تشدد برداشت کر سکو ... تو اب تک تم نے خود کو اس قید سے نکالنے کی کوشش کیوں نہیں کی ؟؟؟ شاید تم نے سمجھوتہ کر لیا ہے کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا یا تم اپنی تذلیل کو اس لائف سٹائل کی قیمت سمجھ کر تواتر سے آنے والے کسی بِل کی طرح ادا کر رہی ہو چاہے وہ کتنا ہی بے جا اور مہنگا کیوں نہ ہو !!!
لیکن سنو ! بات یہ ہے کہ کسی بھی قید سے نکلنے کے لیے کچھ کر گزرنے کی ضرورت ہوتی ہے ...اور کچھ کر گزرنے کے لیے محض ایک دھکے کی، جو ہمیں خوف کی حد پھلانگ کر منزل کی جانب لڑھکنے پر مجبور کر دے !!!
تمہیں ثمینہ یاد ہے ؟ وہی جس سے میں کبھی بات کر لیتا یا نوٹس شیئر کر لیتا تھا تو تم شدید چڑ جاتی تھیں ... جس کی تمہیں کبھی شکل پسند آئی اور نہ پہناوا ...جس کو کبھی تم نے اپنے ساتھ بھی نہیں بیٹھنے دیا تھا کہ تمہاری ظاہری خوبصورتی کا سورج اس کی روح کے چاند سے گہنا نہ جائے ...جس کی معصومیت تمہیں مکرو فریب لگتی تھی اور جس کی ذہانت تمہاری نظر میں بس توجہ حاصل کرنے کا ذریعہ تھی ... یاد ہے؟ یاد ہی ہو گی کیونکہ جن سے تمہیں ہارنے کا ڈر ہوتا تھا وہ تمہیں یاد ہی رہتے تھے !!! جیسے الحان عظیم ... ہمارے سیشن کا سب سے ذہین لڑکا ... جس کی تمام تر ذہانت اس کی معذوری کے سامنے بےبس ہو جاتی تھی ... جس کی غربت ہر کسی کو غربت نہیں بلکہ چھوت کی بیماری لگتی تھی اور سبھی اس سے کنی کترا کر نکل جاتے تھے ... اور تم ... تمہیں تو لگتا تھا اس کو ہمارے کالج میں داخلے کا کوئی حق نہیں تھا ... یاد ہے؟؟ اس نے کسی کے ساتھ مل کر اپنا میگزین نکالا ہے، "الحان" کے نام سے، جو کافی ہٹ جا رہا ہے ...
رائل پام میں ، میں تم سے ملنا چاہتا تھا ... پھر سوچا تم اتنی خوش ہو ... کیوں تمہارا موڈ آف کروں ... یہ بتا کر کہ میں نے تمہارے لیے بن باس لینے کی بجائے شادی کر لی ہے !!! اور وہ بھی اس لڑکی سے جس سے تمہارا حسد اور نفرت مثالی ہے !!! اپنے دل اور اپنی زندگی میں تمہاری جگہ میں نے اس لڑکی کو دے دی جس کو تم اپنی اترن نہ دو ! شاید اس تکلیف کا بدلہ لینے کے لیے جو میرے خلوص بھرے ہاتھ کو جھٹک کر تم نے مجھے دی تھی !!!
ہاں ، تمکنت !!! تمہاری شادی کے صرف ایک سال بعد میں نے ثمینہ سے شادی کر لی تھی !!! ہمارا ایک بیٹا ہے جس کا نام میں نے الحان بن ہاشم رکھاہے ...اس الحان عظیم کے نام پر جس کا محض نام ہی تمہاری طبیعت مکدر کرنے کے لیے کافی تھا ... میں اپنی چھوٹی سی دنیا میں بہت خوش ہوں اور مطمئن بھی ... تمہیں بھی بہت خوش سمجھتا تھا کہ لیکن اب پتہ چلا کہ تم نے خود پر عذاب مسلط کر رکھا ہے جو ہر لمحہ تم سے عزت نفس کا خراج مانگتا ہے !!! اور تم اس عذاب سے نکلنے کے لیے جس قوت اور ہمت کی منتظر ہو وہ ہمیشہ سے تمہارے اندر ہے ... حسد اور نفرت کی طاقت !!!
میں اور ثمینہ ایک دوسرے کے ساتھ بہت خوش ہیں ! اور ہمارا کلاس فیلو الحان تو بہت ہی خوش ہے ... ایک خوش نہیں ہو تو تم نہیں ہو ! اور خود نا خوش رہ کر ہم سب کی خوشی تم برداشت کیسے کر سکتی ہو ؟؟؟
اس خط کے ذریعہ ہونے والی ہماری آدھی ملاقات کو وہ دھکا سمجھو جو تمہیں کچھ کر گزرنے پر مجبور کر دے !!!! تم ہم سب سے ہار رہی ہو جو تمہیں گوارا نہیں ...اس نام نہاد شادی میں ، بس نام کی بیگم صاحبہ بن کر میرے ، ثمینہ اور الحان کے ماضی سے بھی زیادہ بری زندگی جی رہی ہو تم ! ہم سے حسد اور مقابلے ہی کی خاطرسہی ، اس ٹوٹے ہوئے رشتے کی کرچیاں اپنے پاؤں سے نکال پھینکو اور ایک نئی زندگی شروع کرو !!!
میں یہ بھی جانتا ہوں کہ زبانی ، کلامی دعوؤں پر تمہیں یقین نہیں آتا ... اس لیے اپنی اور ثمینہ کی شادی اور الحان کی پیدائش کی کچھ تصاویر بھیج رہا ہوں ! اور ہاں الحان کے تازہ شمارے کی ایک کاپی بھی !!! امید ہے جلنے کڑھنے اور کچھ کر گزرنے کے لیے یہ سب بہت کافی ہو گا !
فقط
تمہارے ماضی کا انمٹ نقش
ہاشم
ختم شد