بوڑھے گورکن کے دونوں بیٹے ارد گرد سے بے نیاز یہ تیسری قبر کھودنے میں جتے ہوئے تھے...گورکن لڑکپن ہی سے اسی گاؤں میں قبریں کھود رہا تھا لیکن ایسا پہلے کبھی نہ ہوا تھا ... وہ اس قبرستان کے چپے چپے سے واقف تھا ... اس نے خود ہی امام صاحب کے لیے یہ مقام چنا تھا کیونکہ ان کے اجداد بھی اسی ٹکڑے میں دفن تھے ... قبر ہمیشہ کی طرح بغلی بنائی گئی تھی ... اس کے بیٹے بھی اچھا کام کرتے تھے لیکن امام صاحب سے اپنی خصوصی عقیدت کے پیش نظر پہلی قبر کی پیمائش اس نے خود کی تھی اور بغل بھی امام صاحب کے بھاری جثے کے مطابق خاصی کھلی ہی رکھی تھی تا کہ وہ اپنی آخری آرام گاہ میں تنگی محسوس نہ کریں ...
جنازہ آنے سے پہلے قبر بالکل تیار تھی ... وہ اس پر کئی بار پانی کا چھڑکاؤ بھی کر چکا تھا .. . کچھ بھی تو ایسا نہیں تھا جو عام حالات سے ہٹ کر ہوتا ... سوائے ...ایک ہلکی سی، انتہائی ناگوار بد بو کے ... وہ بھی اس وقت محسوس ہوئی جب جنازہ قبر کے بالکل ساتھ اتارا گیا ... کافور کی شاید کئی شیشیاں خالی کر دی گئی تھیں لاش پر .. پھر بھی اس کے بوڑھے نتھنوں میں وہ بدبو گھسی چلی جا رہی تھی جو ایسی لاشوں سے آتی تھی جو گندے نالے سے نکالی گئی ہوں ... وہ بری طرح الجھ گیا ... امام صاحب کی وفات ان کے گھر پر ہوئی تھی ... ایک رات بھلے چنگے سوئے مگر صبح جگانے پر بھی نہ جاگے ... محلے کا ڈاکٹر ٥ منٹ ہی میں آ گیا تھا... اس کے اندازے کے مطابق موت رات بارہ سے ایک بجے کے درمیان ہوئی ہو گی ... موسم گرم تھا لیکن اتنا بھی نہیں کہ لاش فوری طور پر گلنے لگتی ... اور فجر کے بعد ہی سے افسوس کے لیے آنے والوں کا تانتا بندھا تھا ...ظہر تک ان کی سب سے بڑی بیٹی بھی اپنے ٥ بچوں سمیت آ گئی تھی جس کا سسرال یہاں سے چوتھے ضلع کے ایک گاؤں میں واقع تھا .. . گرمی اور دور سے آئے لوگوں کا خیال کرتے ہوئے جلد ہی لاش کو قبر میں اتارا جانے لگا ... گورکن مٹی کی ایک ڈھیری کو ہموار کرنے کی خاطر کفن میں لپٹی لاش کے قریب ہوا ... بدبو شدید ہو گئی اور وہ مزید الجھ گیا ... امام صاحب کا کوئی بیٹا تو تھا نہیں ... ان کا سب سے بڑا داماد، جو ان کا شاگرد بھی تھا ، لاش کے سرہانے تھا اور امام صاحب کا بھانجا... پائنتی کی جانب ... جبکہ مسجد کا خادم اور گاؤں کے نمبر دار کا بیٹا قبر کے اندر تھے تا کہ لاش کو بغل میں اتار سکیں ... امام صاحب کا وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے چاروں جوان لاش سنبھالتے پسینے میں نہا گئے تھے ... ارد گرد کھڑے ہوئے بزرگوں کے مشورے الگ ناک میں دم کیے ہوئے تھے ... سب کے چہروں پر ہلکی کی ناگواری کی جھلک تھی جو یقیناً بدبو کے سبب تھی ... قبر میں کھڑے دونوں لڑکے کوشش کے باوجود لاش بغل میں نہ اتار سکے ... تیسری کوشش بھی ناکام ہو گئی تو انہوں نے پہلے ایک دوسرے کو اور پھر گورکن کی طرف دیکھا ... گورکن نچلا ہونٹ دانتوں میں دبائے قبر کے اوپر سانس روکے کھڑا تھا اور اس کا چہرہ بالکل سفید تھا ...
یہ اس کی زندگی میں اس کی اپنی کھودی ہوئی پہلی قبر تھی جو اس نے اپنی آنکھوں سے تنگ ہوتے دیکھی ... جیسے ہی لاش بغل میں اتاری جانے لگی اسے محسوس ہوا کہ بغل کا خلا تنگ ہو گیا ہے ... اس کے وہم کی تصدیق فوری طور پر ہو گئی ... لاش کسی صورت اس تنگ خلا سے نہیں گزر سکتی تھی ... لڑکوں نے دہائی دی تو ان کو باہر آنے کا کہ کر ٢ ادھیڑ عمر آدمی بکتے جھکتے قبر میں اتر آئے ... وہ بھی لاش بغل میں اتارنے میں ناکام ہوئے تو ان میں سے ایک نے اپنے صافے سے بغل کا خلا ناپا اور پھر لاش کا ناپ لیا ...
"در فٹے منہ ، کرم دینا " ... وہ گورکن کی طرف دیکھ کر چٹخا ... " پورے 3 فٹ سوہڑی (تنگ) آ قبر ، میرے حساب نال !!!"
"ابے دی کڈی پیمائش اج تئیں اک سوتر و ی اگے پچھے نہی ہوئی ، ٹھیکیدارا " گورکن کا بیٹا اپنے باپ کے دفاع میں بول اٹھا...
کرم دین گورکن اپنی کانپتی ہوئی ٹانگوں پر مزید کھڑا نہ رہ سکا ... اس کے بیٹوں نے اسے گرنے سے بچایا اور اس کو سہارا دے کر بٹھا دیا ... چہ مگوئیاں ہونے لگیں ہر کوئی اپنی عقل کے مطابق مشورہ دینے لگا ...
"چوہدری صاب " گورکن نمبردار کو مخاطب کرتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر بولا ... "لگدا کوئی غلطی ہو گئی ... میں نوی قبر کڈ ھ دینا واں "
نمبردار نے آنکھ کے اشارے سے اس کو اجازت دی ... اور لوگوں کو حوصلے اور صبر کے ساتھ انتظار کرنے کی تلقین کرنے لگا ... لوگ ادھر ادھر چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں بٹ گئے اور مرحوم کی زندگی کا از سر نو پوسٹ مارٹم کرنے لگے ... جب تک دوسری قبر کھدتی ، وہ آسانی سے مرحوم کے جنتی یا دوزخی ہونے کا فیصلہ کر سکتے تھے !
گورکن نے اپنے بیٹوں کو ساتھ لیا اور پہلی قبر سے کچھ ہٹ کر زمین کے ایک ٹکڑے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا ... "اٹھ بائی اٹھ "
"ہیں ... اینی وڈی ، ابا ؟؟؟؟" اس کے بیٹے حیرت سے بولے ...
گورکن نے جواب دینے کی بجائے پھاوڑا لیا اور پہلی ضرب لگائی ... اس کی دیکھا دیکھی ... وہ دونوں بھی جلدی جلدی ہاتھ چلانے لگے ... گڑھا گہرا ہونے لگا ... گورکن کو مٹی کچھ زیادہ نرم محسوس ہو رہی تھی... اس نے بیٹوں سے کہا کہ گہرا کھودنے کے بجائے قبر کی لمبائی اور چوڑائی پہلے بڑھا لی جائے ... مقررہ حد تک دونوں اطراف میں کھودنے کے بعد انہوں نے پھر سے گڑھا گہرا کرنا شروع کیا ... ٢ فٹ مزید کھودنے کے بعد مٹی مزید نرم ہو گئی ... کدال اور پھاوڑا بہت گہرائی تک مار کرنے لگے ... چند ہی لمحوں میں ان کے اوزاروں کے سروں پر خون دکھائی دینے لگا ... وہ ٹھٹک کر رک گئے ... احتیاط کے ساتھ مٹی ہٹاتے ہوئے انہوں نے گڑھے کا جائزہ لینا شروع کیا ... ایک کافی بڑا سانپ کئی ٹکڑوں میں نظر آیا ... تینوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ... یہ بھی نئی بات تھی ... اس سے پہلے کبھی قبر کھودتے ہوئے ان کو کوئی سانپ نہیں ملا تھا ... وہ بھی اتنی گہرائی میں ... گورکن کو اپنے دل کی دھڑکن اپنے کانوں میں محسوس ہو رہی تھی ... وہ قبر کی دیواروں کو دیکھنے لگا جن میں چھوٹے چھوٹے سوراخ سے نظر آ رہے تھے جیسے کسی کیڑے کا بل ہو ... کوئی چیز رینگتی ہوئی سوراخ سے بھر آئی ... اس کے پیچھے تو جیسے پوری فوج ...چھوٹے چھوٹے سانپ، بچھو، نجانے کتنی قسم کے رینگنے والے کیڑے ... وہ تینوں اچھل کر قبر سے باہر نکلے ... گڑھا تیزی سے ان کیڑوں سے بھرتا جا رہا تھا ... ایک دوسرے کے اوپر کلبلاتے ، مچلتے ، قبر سے نکلنے کی کوشش میں اوپر سے اوپر چڑھ رہے تھے ...
وہ تینوں کچھ دیر سن ہو کر قبر کو گھورتے رہے ... پھر گورکن ہی کو ہوش آیا ...
"بند کرو ...بند کرو قبر " وہ کانپتی ہوئی آواز میں بولا
وہ پاگلوں کی طرح مٹی قبر میں بھرنے لگے ... لوگ ان کو قبر بند کرتے دیکھ کر ان کے ارد گرد جمع ہونے لگے ... بہت سوں کو کیڑے، سانپ اور بچھو نظر آئے ... لمحوں میں گاؤں بھر کو پتہ چل گیا ... کمزور دل لوگ تو عصر کی نماز کا بہانہ کر کے جانے لگے ...گورکن نے اپنے بیٹوں کو تیسری قبر کھودنے پر لگا دیا اور خود وہ یہ قبر اچھی طرح سے بھرنے لگا ... اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے مگر وہ مسلسل مٹی قبر میں بھرتا رہا ...
اب تو نمبر دار پریشان ہو گیا ... امام صاحب ساری زندگی اسی گاؤں میں رہے تھے ... بظاہر کوئی خرابی نہیں تھی لیکن اب سوچ رہا تھا کہ کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہے جس کی وجہ سے ان کی تدفین میں مسائل ہو رہے ہیں ... لاش سے آنے والی بو بڑھنے لگی تھی اور اس کے قریب کھڑے رہنا دو بھر ہو رہا تھا ... لاش جس چارپائی پر پڑی تھی اس کے چاروں پایوں کے نیچے دھات کے پیالے رکھ کر ان میں پانی بھر دیا تھا کیونکہ چونٹیوں کی یلغار چارپائی پر کافی دیر سے جاری تھی ... اور ایک بار چونٹیاں لاش سے چمٹ جاتیں تو ان سے جان چھڑانا، نا ممکن ہو جاتا!
اندھیرا چھا چکا تھا جب تیسری قبر تیار ہوئی ... سٹریٹ لائٹ کی پیلی کمزور روشنی میں قبرستان یرقان زدہ لگ رہا تھا ... گورکن نے یہ قبر بھی ضرورت سے زیادہ کھلی رکھی تھی ... جو گنے چنے لوگ رہ گئے تھے وہ سوچ رہے تھے کہ اب تو امام صاحب نہایت آسانی سے اس قبر میں سما سکتے ہیں ... نمبر دار نے موبائل کی ٹارچ کی روشنی میں قبر کا جائزہ لیا ... صاف ستھری ، کشادہ قبر ... اس نے لاش کو قبر میں اتارنے کا اشارہ کیا ... امام صاحب کے داماد اور بھانجے سمیت سبھی لوگ پیچھے ہٹ گئے ... اکثر نے ناک پر رومال یا ہاتھ رکھے ہوئے تھے ... نمبر دار نے گورکن کی طرف دیکھا تو اس نے اپنے بیٹوں کو اشارہ کیا ... ان دونوں نے بہت مشکل سے لاش اٹھا کر قبر میں اتاری... اندرگورکن اور نمبردار کھڑے تھے ... انہوں کے لاش بغل میں اتارنے کی کوشش کی ... قبر ایک بار پھر تنگ ہو چکی تھی ... گورکن نے ایک چھوٹا اوزار اٹھا کر بغل کے کنارے چھیلنے شروع کر دیے ... جونہی کچھ جگہ بنی.. انہوں نے لاش اس خلا میں ٹھونس دی ... زبردستی ... پورا زور لگا کر اس کو بغل میں گھسا دیا ... کفن رگڑ کھا کر جگہ جگہ سے پھٹ گیا... لاش بری طرح پھنس گئی... یوں لگتا تھا کہ دوہری ہو گئی ہو ... وہ دونوں بری طرح ہانپ رہے تھے ... لیکن پوری جان لگا رہے تھے ... ان کو واضح طور پر محسوس ہوا کہ لاش مسخ ہو گئی ہے جیسے اس کی ہڈیاں ایک دوسری میں گھس گئی ہوں... گورکن نے بغل کے خلا کو بند کرنے کے لیے تختے لگانے شروع کیے ... چہرے والا حصّہ بند کرتے ہوئے اسے لگا کہ اس نے سانپ کی پھنکار سنی ہے ... وہ اچھل کر باہر نکلا... نمبر دار جانے کب قبر سے نکل کر دورجا کھڑا ہوا تھا ... گورکن نے بد حواسی میں ہاتھوں ہی سے قبر میں مٹی بھرنا شروع کی ... اس کے بیٹوں نے بھی ساتھ دیا اور یوں وہ عشاء کے بعد تدفین سے فارغ ہوئے ...
*****
قبرستان سے باہر آتے ہی نمبر دار نے اپنی بیوی سے کہ کر امام صاحب کی بیوہ کو بلوایا ... وہ اپنی سب سے بڑی بیٹی کے ساتھ آئی تھی ... نمبر دار نے گورکن کو بھی بلوایا تھا جو ایک کونے میں کھویا کھویا سا بیٹھا تھا ... دونوں ماں بیٹی لوگوں سے کچھ نہ کچھ تو سن ہی چکی تھیں ... مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ دونوں کے چہرے پر ایک سکون سا تھا ... کوئی اداسی نہیں تھی جو شوہر یا باپ کی وفات پر چہروں پر نظر آنا لازم تھی ... نمبر دار کچھ دیر ان کے چہرے دیکھتا رہا ... پھر اس نے گورکن کو اشارہ کیا ... اس نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر سب کہ سنائی ... کیسے پہلی قبر اس نے تنگ ہوتے دیکھی... کس مشکل سے اس نے سانپ ، بچھو اور دیگر خطرناک کیڑوں سے بھری ہوئی دوسری قبر بند کی ... اور کس مصیبت سے اس نے امام صاحب کو تیسری تنگ قبر میں زبردستی گھسیڑا... اور یہ بھی کہ اسے یقین ہے کہ تیسری قبر میں بھی سانپ تھے اور ہیں ... اور اس نے یہ بھی کہا کہ سب جانتے ہیں کہ امام صاحب کو ان کی قبر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھی لیکن اس کی وجہ کیا ہے یہ شاید صرف وہ دونوں ہی بتا سکتی ہیں ...گورکن کے خاموش ہونے پر کمرے میں قبرستان جیسے خاموشی چھا گئی ...
امام صاحب کی بیوہ کچھ دیر بالکل خاموش بیٹھی خلا میں گھورتی رہی ...
"آپ جانتے ہیں چوہدری صاحب ... یہ میری سب سے بڑی بیٹی ہے " ... وہ بولی تو آواز صاف اور ہموار تھی ..."اس کی شادی امام صاحب نے محض چودہ برس کی عمر میں اپنے ہی ایک شاگرد سے کر دی تھی "
یہ کوئی نئی بات نہیں تھی ...اس لیے کوئی کچھ نہ بولا ... سب ہی کو پتہ تھا کہ امام صاحب نے راتوں رات رشتہ کر دیا تھا لڑکی کا ... اور پہلے ٢ سال لڑکا بھی گھر داماد رہا ...
"میری بیٹی کا شوہر ایک اچھا انسان ہے ... لیکن وہ شاگرد ہونے کے باعث امام صاحب کے بہت زیر ٕاثر رہا ... ان کی مرضی کے خلاف وہ کچھ نہیں کرتا تھا... شاید اب بھی نہ کرے "
نمبردار اور اس کی بیوی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ... دونوں ہی کچھ نہیں سمجھ پا رہے تھے کہ بات امام صاحب سے ہٹ کر ان کے داماد کی طرف کیوں چلی گئی ...
"میرا داماد قدرتی طور پر بانجھ ہے ... وہ باپ نہیں بن سکتا "
کمرے میں موجود تمام افراد چونک گئے ... سب جانتے تھے کہ امام صاحب کی بیٹی کے پانچ بچے ہیں ...
"لیکن ... پھر آپ کی بیٹی کے بچے ؟؟؟ وہ کس کے ہیں؟ "... نمبر دار کی بیوی حیرت سے بولی
امام صاحب کی بیوہ نے جواب دینے کی بجائے سر جھکا لیا ...
امام صاحب کی بیٹی، جو کافی دیر سے سر جھکائے بیٹھی تھی ، سر اٹھا کر سکون سے بولی:
"وہ سب ابا کے بچے ہیں !!! "
کمرے میں مہیب سناٹا چھا گیا ... یوں لگتا تھا کہ جیسے قبر سے سب سانپ ، بچھو نکل کر کمرے میں رینگنے لگے ہوں... سب دم سادھے بیٹھے رہ گئے !!!
ختم شد