بلال کا تجربہ شارلٹ سے قدرے مختلف تھا۔ شاید اس لئے کہ مسز زینب خود اس کے پاس موجود تھیں اور انہوں نے لڑکیوں کو بلال کے مردانہ بدن سے آگاہ کرنے کا بیڑہ خود اٹھایا۔ آخر کو وہ استانی تھیں تو یہ ان کا فرض تھا کہ لڑکیوں بلال کے جسم کو سمجھنے کے صحیح طریقہ سے آگاہ کریں، خاص کر اس کے لن کو کیسے ہینڈل کرنا ہے یہ تو مسز زینب نے ہی بتانا تھا نا۔ جب لڑکیاں بلال کے گرد دائرے میں کھڑی ہو گئیں تو مسز زینب نے بلال کے لن کو جڑ سے پکڑ لیا اور لڑکیوں سے مخاطب ہوئیں:
"چلو بچیو اب ہم کوشش کرتے ہیں کہ اسے پھر سے مکمل تناؤ کی حالت میں لے آئیں کیونکہ تناؤ کی حالت میں ہی مطالعہ کا فایدہ ہو گا۔ کیا خیال ہے؟"
"یس مس" سب لڑکیوں نے جواب دیا۔ سب ہی کی نظریں مسز زینب کے ہاتھ پر تھیں جس سے انہوں نے بلال کا لن تھام رکھا تھا۔
بلال نے آنے والے لمحات کیلئے خود کو ذہنی طور پر تیار کیا۔ مسز زینب نے اس کے لن پر ہاتھ آگے پیچھے پھیرنا شروع کر دیا۔ مسز زینب کی دلچسپی تو ان کے چہرے سے عیاں تھی لیکن بلال کنفیوژ تھا۔ ایک طرف تو اسے مزہ آ رہا تھا۔ پہلے بھی کئی لڑکیوں سے وہ ہینڈ جاب لے چکا تھا اور لڑکیوں کے نرم ہاتھ اپنے لن پر محسوس کرنا اسے اچھا لگتا تھا لیکن یہاں معاملہ کچھ اور تھا۔ یہ تو ایک کلاس تھی اور بے شک اس کے جسم کا مطالعہ کلاس کا موضوع رہا ہو، تھا تو وہ ایک انسان ہی۔ اب جس طرح سے اسے ٹریٹ کیا جا رہا تھا ایسا لگتا تھا جیسے اس کے بدن میں صرف لن ہی ہے جس کی کوئی اہمیت ہے۔ وہ مانتا تھا کہ لن کافی بڑا ہے لیکن مسز زینب کو کم از کم لن کے علاؤہ بھی چیزوں کو ڈسکس کرنا چاہیے تھا۔
مسز زینب نے جب اس کے لن پر ہاتھ پھیرنا شروع کیا تو کچھ ہی دیر میں لڑکوں کی جانب سے بدنظمی پر انہیں ڈانٹنا پڑا لیکن اس کے باوجود بلال کا لن جلد ہی کھڑا ہو گیا۔ کسی بھی لڑکے کا لن ایسی حالت میں کیسے کھڑا نہ ہوتا جبکہ مسز زینب جیسی شفیق استانی کے تجربہ کار ہاتھ لن پر ہوں اور اتنی ساری لڑکیاں چہرے پر مسکراہٹ سجائے لن کو گھور رہی ہوں۔
"اب دیکھو بچیو! اب یہ مکمل تن گیا ہے تو اس کے تمام حصے واضح ہیں۔ یہ دیکھو ٹوپا، یہ کھال جسے فورسکن کہتے ہیں اور یہ جڑ" مسز زینب نے اپنے ہاتھ سے ہر حصے کو چھو کر دکھایا۔
"مسز زینب کیا ہم بھی اسے ہاتھ لگا سکتی ہیں؟" کرن نے شائستگی سے پوچھا۔
مسز زینب سمجھتی تھیں کہ اجازت دئے بنا چارہ نہیں کیونکہ انہوں نے لڑکوں کو بھی تو شارلٹ کے بدن کو چھونے کی اجازت دی تھی۔
"ہاں ہاں کیوں نہیں۔ ادھر آؤ" انہوں نے بلال کا لن پکڑ کر کرن کی جانب کیا اور اسے اپنے پاس بلایا لیکن دل ان کا بالکل نہیں کر رہا تھا کہ بلال کا لن چھوڑیں۔ بحیثیت ایک استانی کے کیسی کیسی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔
کرن کے چہرے پر البتہ مسکراہٹ تھی۔ اس نے قریب آ کر بلال کا لن پکڑا اور حیرت سے کہنے لگی:
"مس یہ کتنا بڑا ہے نا۔ میرے تو ہاتھ میں آ بھی نہیں رہا۔ آپ نے اتنا بڑا دیکھا ہے کبھی پہلے؟"
کرن کا سوال ذاتی نوعیت کا تھا لیکن مسز زینب نے اس کی حوصلہ شکنی کی بجائے جواب دینا ہی مناسب سمجھا۔ ویسے بھی یہاں سب لڑکیاں ہی تو تھیں اور لڑکیاں جب تنہا ہوں گی تو آپس میں ایسی باتیں کریں گی۔ اچھا ہے کہ انہیں ان سب باتوں کا علم ہونا ہی چاہیے۔ بطور ایک معلمہ کے مسز زینب کا فرض تھا کہ اپنی کلاس کی لڑکیوں کے ساتھ اپنے تجربات شئیر کریں جس سے زندگی میں ان سب کی رہنمائی ہو سکے۔
"نہیں بیٹی۔ اتنا بڑا آج تک نہیں دیکھا میں نے۔ چلو اب کسی اور کو بھی باری دو۔ شاباش"
بلال سوچ رہا تھا کہ اس کی موجودگی کو تو سب نے جیسے فراموش ہی کر دیا تھا۔ بس اس کے لن پر سب کا فوکس تھا۔ لن میں تو دلچسپی تھی لیکن جس کا یہ لن تھا اس میں کسی کہ دلچسپی نہیں تھی۔
مائرہ آگے بڑھی اور کرن کے ہاتھ سے بلال کا لن لے لیا۔
"پتہ نہیں بھئی میری تو سمجھ سے باہر ہے کہ اتنا بڑا کوئی لڑکی کیسے لے سکتی ہے" اس کے تاثرات بھی کرن سے ملتے جلتے ہی تھے۔ اس کی بات پر کافی لڑکیوں نے سر ہلایا تھا جیسے وہ سب اس سے اتفاق کرتی ہوں۔
مائرہ کے بعد مائرہ کے بعد ردا کی باری تھی۔ لڑکوں کے برعکس لڑکیوں میں ڈسپلن تھا اور وہ بلال کے لن کو ایک دوسرے کے ساتھ شئیر کرنے میں بالکل برا محسوس نہیں کر رہی تھیں۔
"یہ بڑا ضرور ہے لیکن آپ سب یہ جان کر حیران ہوں گی کہ لڑکیوں کی پھدی میں اس قدر گنجائش ہوتی ہے کہ وہ بڑے بڑے لن بھی اپنے اندر سما لیتی ہیں۔ اسے قدرت کا ایک معجزہ کہہ لو" مسز زینب نے لڑکیوں کی تسلی کروائی۔ وہ خود بھی ایک مرتبہ اپنی پھدی میں ایک کافی بڑے سائز کا ربڑ کا لن لے چکی تھیں لیکن یہ بات کلاس میں بتانی نامناسب تھی۔
"آپ کہتی ہیں تو ٹھیک ہی ہو گا لیکن مجھے یقین نہیں آتا۔ اگر اتنا بڑا لیا جائے تو مزہ تو کیا آنا ہے درد ہی ہو گا." ردا نے کہا۔
اس کی بات کچھ ایسی غلط بھی نہیں تھی۔ بلال کو اپنے ہی پرانے واقعات یاد آ گئے لیکن اس نے دانستہ چپ سادھے رکھی۔
"اچھا لڑکیو لن کے ساتھ ساتھ ٹٹوں پر بھی فوکس کریں۔ جہاں لن بے انتہا سخت معلوم ہوتا ہے وہیں ٹٹے بالکل متضاد یعنی نرم و نازک ہوتے ہیں۔" مسز زینب نے موضوع تبدیل کرنے کی کوشش کی۔
کرن جو بلال کے لن کو ہاتھ سے چھو کر دیکھ چکی تھی وہ آگے بڑھی تاکہ بلال کے ٹٹوں کو بھی ہاتھ لگا کر دیکھ سکے۔ آگے کھڑی لڑکی کو سائڈ پر کر کے اس نے ہاتھ بڑھایا اور ٹٹے ہاتھ میں پکڑ لئے لیکن شاید اسے اندازہ نہیں تھا کہ یہ حساس ہوتے ہیں اس لئے اس نے زور سے پکڑ لئے جس پر بلال کے منہ سے ایک دم چیخ نکل گئی اور وہ درد سے دوہرا ہو گیا۔ کرن نے ہڑبڑا کر ٹٹے فوراً چھوڑ دئیے۔
"اوہ مائی گاڈ مس یہ کیا ہوا آئی ایم سو سوری" وہ سمجھی تھی کہ شاید اس نے بلال کو زخمی کر دیا ہے۔
بلال کو تکلیف کی حالت میں بھی یہ بات محسوس ہوئی کہ ٹٹے اس کے دبے، تکلیف اسے ہوئی لیکن کرن نے اس کی تکلیف کے بارے میں بھی مسز زینب سے پوچھا۔ کیسے سب نے اسے فراموش کر رکھا تھا۔
"ارے نہیں کچھ نہیں ہوا۔ بلال جیسے توانا شخص یہ معمولی درد کچھ بھی نہیں۔" مسز زینب کی بات پر بلال نے انہیں گھور کر دیکھا لیکن وہ لڑکیوں کی جانب متوجہ تھیں۔
"لیکن پھر بھی احتیاط لازم ہے۔ دیکھو مجھے۔" موقع سے فایدہ اٹھا کر مسز زینب نے بلال کے ٹٹوں کو ہاتھ میں لے کر لڑکیوں کو عملاً دکھایا۔ "یہ دیکھو ایسے ہتھیلی کا پیالہ بنا کر ٹٹوں کو پکڑو آرام سے اور پھر ایک انگلی اور انگوٹھے کو آرام سے پھیرو۔ سمجھی اب؟"
"میں پھر سے کر لوں مس؟ اب زور سے نہیں دباؤں گی۔ پلیز" کرن نے پوچھا۔
"ہاں ہاں کیوں نہیں"
کرن نے بالکل مسز زینب کی طرح بلال کے ٹٹوں کو ہتھیلی میں لے کر انگلی پھیرنا شروع کر دی۔
"کتنے نرم ہیں یہ اف" اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
"ایک بات بتاؤں۔ بعض لڑکے ٹٹوں کے پیچھے کافی حساس ہوتے ہیں۔ ہاتھ پھیر کر دیکھو۔" مسز زینب نے کہا۔
مائرہ نے فوراً موقع سے فایدہ اٹھایا اور پیچھے سے بلال کی ٹانگوں کے درمیان ہاتھ ڈال کر ٹٹوں کے پیچھے ہاتھ لگایا۔ بلال ایک دم اچھل پڑا۔ یہ جگہ واقعی اس کیلئے حساس تھی۔ لڑکیاں البتہ بلال کے یوں اچھلنے پر ہنس پڑی تھیں۔