Language:

Search

کالج (شارلٹ اور بلال) قسط نمبر 4

  • Share this:

غیر ارادی طور پر شارلٹ نے اپنے دونوں ہاتھ سینے پر باندھ لئے لیکن شاہ میر فورا بول پڑا:

"یہ تو شائد پروگرام کے مطابق غلط ہے."

شارلٹ کی مسکراہٹ میں اکتاہٹ تھی. پہلے ہی تجربے میں وہ کوئی شرمیلی لڑکی کے طور پر سامنے آ رہی تھی. اب تو وہ یہ سوچ رہی تھی کہ ہو نہ ہو شاہ میر ضرور پہلے سے اسکا یہاں انتظار کر رہا ہو گا کہ کب وہ اپنا ننگا بدن لے کر یہاں آتی ہے. عام حالت میں تو وہ کبھی بھی شاہ میر کو اپنے ممے کسی قیمت پر نہ دکھاتی لیکن اب اسے بغیر کسی قیمت کے یہ کام کرنا پڑ رہا تھا. اس نے ہاتھ بندھے رکھے لیکن مموں سے ذرا نیچے تاکہ اس کے گول مٹول سڈول ممے کسی کی نظروں سے پوشیدہ نہ رہیں. شارلٹ کی اس ادا میں یہ بات واضح تھی کہ شاہ میر کی فرمائش پوری کرنے میں اسکی رضا مندی شامل نہیں تھی. 

"جس طرح تم نے میرے لئے انہیں اٹھا کر رکھا ہے، اس سے تو ان کی خوبصورتی اور بڑھ گئی ہے." شاہ میر کے الفاظ میں شارلٹ کے مموں کے لئے تعریف تھی لیکن شارلٹ نے تو محض بازو باندھے تھے اور وہ بھی شاہ میر کی فرمائش پر نہیں. ارادتا نہ سہی لیکن ایسے بازو باندھنے پر اس کے دودھیا رنگ کے نرم ملائم ممے ذرا اوپر اٹھ سے گئے تھے جس سے مموں کی کشش مزید بڑھ گئی تھی.

کافی ہمت کر کے شارلٹ نے اپنے بازو علیحدہ کئے اور سائیڈوں پر گرا دئے. دیکھا جاۓ تو یہ ایک طرح سے اعلان شکست تھا. اگر صرف ایک دن پہلے شاہ میر نے شارلٹ کے مموں کی تعریف کی ہوتی تو جوابا اسے تھپڑ رسید ہوتا لیکن یہاں تھپڑ تو دور کی بات ہے، شارلٹ اونچی آواز میں بات تک نہیں کر سکتی تھی. پروگرام کے اصولوں میں سے ایک یہ بھی تھا کہ کسی فرمائش پر ممبر کو غصہ نہیں کرنا بلکہ شائستگی سے بات کرنا ہو گی. شارلٹ کو پتہ تو تھا کہ یہ آسان نہیں ہو گا لیکن عملا تجربہ کر کے اسے اصل مشکل کا احساس ہو رہا تھا.

"شکریہ شاہ میر! مجھے خوشی ہے کے تمھیں پسند آے" شارلٹ نے کہا.

شاہ میر کے لئے اس کا جواب غیر متوقع تھا. وہ تھوڑا سا گڑبڑا سا گیا. شارلٹ نے بھی یہ نوٹس کیا اور فورا موقع سے فائدہ اٹھاتے ہے بولی:

"شاہ میر، میں پروگرام کی دوسری ممبر ہوں اور مجھے اس پر فخر ہے."

"ہاں ہاں. فخر تو تمھارے تنے ہوے نپلز سے صاف نظر آ رہا ہے" شاہ میر کے جواب نے شارلٹ کا چہرہ شرم سے لال کر دیا اور اس نے سر جھکا لیا. مموں پر نظر پڑی تو اسے اندازہ ہوا کے نپلز بہرحال تنے ہوے ہی تھے لیکن مسلہ یہ تھا کہ بلال کے لن کی طرح ٹھنڈے پانی کے رومال سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑنے والا تھا. بلکہ یہ صبح صبح ٹھنڈی فضا ہی تھی جس کی وجہ سے یہ تنے تھے. بے اختیار شارلٹ کا خیال اس بات پر گیا ٹھنڈ سے لڑکوں کا لن سکڑتا ہے جبکہ لڑکیوں کے نپلز تن جاتے ہیں. شارلٹ نے سوچا اپنے ریسرچ پیپر میں اس بات پر بھی تحقیق کرے گی.

شاہ میر کے تبصرے نے سیکورٹی گارڈ کو ایک قدم آگے آنے پر مجبور کر دیا کیونکہ پرگرام ممبرز کے جسمانی اعضاء کا مذاق بنانے کی اجازت بہرحال کسی کو نہیں تھی اور شاہ میر کے لہجے میں کسی حد تک مذاق بھی تھا. پھر بھی سیکورٹی گارڈ کو یقین نہیں تھا کہ خلاف ورزی ہوئی ہے اسلئے اس نے شاہ میر کو روکا نہیں.

"نپلز ہی نہیں، تمہاری ٹانگوں کا درمیانی حصّہ بھی بہت اچھا لگ رہا ہے" شاہ میر نے لفظ پھدی استعمال نہ کرنا ہی مناسب سمجھا. 

شاہ میر کے یکے بعد دیگرے تبصروں پر شارلٹ کا دل چاہا کے اپنا جسم اسکی نظروں سے چھپا لے لیکن یہ پروگرام کے اصولوں کی خلاف ورزی ہوتی. لہٰذہ اس نے کچھ نہیں کیا اور ایسے ہی کھڑی رہی. اسے معلوم تھا کہ شاہ میر جان بوجھ کر اسے تنگ کر رہا ہے. اب شارلٹ کو اس بات پر بھی غصہ آ رہا تھا کہ اس نے صبح صبح اپنی پھدی کے بال کیوں صاف کئے. کچھ بال ہوتے تو شائد حالات بہتر ہوتے. لیکن پھر اچانک اس کے ذہن میں پرنسپل آفس والا سین گھوم گیا.

"پرنسپل کو بھی اچھی لگی تھی" شارلٹ نے کہا.

"ہاں ظاہر ہے. لگی ہو گی." شاہ میر نے جواب دیا.

شارلٹ نے بات تو کر دی لیکن پھر خود ہی جھینپ گئی. دراصل پرنسپل کا حوالہ دینا وہ بھی پھدی پسند کرنے کے متعلق، یہ کچھ غیر مناسب بات تھی. اگرچہ پرنسپل کی تو یقیناً کوئی غلط نیت نہیں تھی. وہ تو شارلٹ کے بارے ایسا سوچ نہیں سکتے تھے. اتنے معزز استاد تھے. شائد شاہ میر کے سامنے ننگی کھڑی ہونے کا اثر اس کے دماغ پر ہونے لگا تھا. شارلٹ نے سوچا اسے اپنی ہمت مجتمع کرنی چاہئے. اپنے پہلے ہی امتحان میں یوں شرمندہ ہونا اسے زیب نہیں دیتا. اس نے ہونٹوں پر مسکراہٹ لا کر شاہ میر کو جواب دیا:

"مجھے امید ہے شاہ میر کہ تمھیں بھی میری پسند آئ ہو گی. بالوں کے بغیر زیادہ اچھی لگتی ہے نا"

شارلٹ کی بات سے شاہ میر کو چپ لگ گئی. جوزف اور پیٹر دونوں ہنس رہے تھے لیکن پتا نہیں کس بات پر کیونکہ شارلٹ کی چکنی بنا بالوں والی پھدی کے نظارے میں تو ہنسنے والی کوئی بات نہیں تھی. شائد نروس تھے بیچارے. شارلٹ کی تو یہی سمجھ میں آیا.

"شارلٹ کیا تم میرے لئے ایک پوز بناؤ گی؟" شاہ میر کی بات شارلٹ کے لئے متوقع تھی. ظاہر ہے وہ یہ موقع کیوں ہاتھ سے جانے دے گا. 

"ہاں ہاں شاہ میر. کیوں نہیں. بتاؤ کیسا پوز پسند کرو گے؟" شارلٹ نے پوچھا. زبان سے تو الفاظ ادا کر دئے لیکن اسے یقین نہیں تھا کہ وہ کیا کہے جا رہی ہے. لگتا ہے کپڑے اتارنے سے اس کی سوچ میں کافی تبدیلیاں آ رہی تھیں اور آنے والا دن کافی رنگین گزارنے والا تھا.

"اگر تمھیں برا نہ لگے تو." شاہ میر نے احتیاط برتنا ہی مناسب سمجھا. "کیا تم میرے لئے ایسے پوز بنا سکتی ہو جیسے کوئی شہزادی اپنا لباس اٹھا کر اپنا جسم بادشاہ کو پیش کر رہی ہو"

"لیکن میں نے تو کوئی لباس پہنا ہی نہیں" شارلٹ نے کہا.

"ہاں مجھے پتہ ہے لیکن فرض کر لو" شاہ میر نے کہا.

شارلٹ نے گہری سانس لی جس سے اس کے تنے ہوے ممے کچھ اور ابھر گئے. ہونٹوں پر میٹھی سی مسکراہٹ سجا کر اپنے اندرونی جذبات چھپاتے ہوے اس نے شاہ میر کے لئے پوز بنایا جیسے وہ اپنی قمیض اٹھاۓ اپنا جسم بادشاہ سلامت کو پیش کر رہی ہو.

جوزف نے نظریں ہٹا لیں کیونکہ اسے اندیشہ تھا کہ اسکا لن کھڑا ہو جاۓ گا.

شارلٹ نے یہ بات نوٹس کی اور اسے اچھا لگا کہ کم از کم کسی کو تو احساس تھا. لیکن دوسری طرف اسے یہ بات بھی یاد تھی کہ پروگرام کے مطابق سب کو اپنے خوف کا سامنا کرنا چاہئے. 

"ایسے ہی رہنا کچھ دیر. تم ایسے بہت پیاری لگ رہی ہو." شاہ میر نے کہا.

شارلٹ کی بھنویں چڑھ گیں اور ہونٹوں پر سے مسکراہٹ غائب ہو گئی. ایک تو پوز ہی عجیب تھا. ہوا میں ہاتھ بلند کئے ایک ٹانگ اٹھانے سے اس کی پھدی تھوڑی سی کھل گئی تھی، اوپر سے اس پوز میں وہ خود کو شہزادی سے زیادہ بندی محسوس کر رہی تھی. جیسے کوئی غلام.

ان تین لڑکوں نے تو اسے نچا کر رکھ دیا تھا. پیٹر کی پتلون میں اسے لن کا ابھار صاف نظر آ رہا تھا. 

پتہ نہیں کتنی دیر تک یوں پوز بنا کر رکھنا تھا اسے. 

"بہت خوب شارلٹ. اتنا زبردست نظارہ کروانے کا شکریہ. اب ذرا رخ دوسری طرف کرو اور اپنے چوتر کھول کر دکھاؤ. میں ہمیشہ سے تمھارے چوتروں کے درمیان دیکھنا چاہتا تھا." شاہ میر نے کہا.

شارلٹ بے اختیار مسکرا اٹھی کہ کم از کم پوز سے تو جان چھوٹی.

اس سے پہلے کہ شارلٹ نیا پوز بناتی، سیکورٹی گارڈ بول اٹھا:

"بس بچو. ایک ہی پوز کی اجازت ہے. دوسرے پوز کی فرمائش کی اجازت نہیں ہے."

"اچھا چلیں جوزف تو کر سکتا ہے نہ فرمائش دوسرے پوز کی؟" شاہ میر نے پوچھا.

"نہیں" سیکورٹی گارڈ نے کور جواب دے دیا: "ایک وقت میں ایک ہی پوز. اب چلو اپنی کلاس میں جو. ہم خود بھی لیٹ ہو رہے ہیں"

شارلٹ کے چہرے پر تو مسکراہٹ چھا سی گئی. وہ  آج تک کبھی کسی کلاس میں لیٹ نہیں ہوئی تھی اور آج بھی لیٹ ہونے کا اس کا کوئی ارادہ نہیں تھا.شارلٹ نے تیز تیز قدم بڑھاۓ اور بلال اس کا ساتھ دینے لگا. شاہ میر اور اس کے دوست پیچھے سے شارلٹ کے ہلتے مٹکتے چوتڑ دیکھ  کر رہ گئے. شاہ میر نے پتلون میں ہاتھ ڈال کر لن کو ہاتھ لگایا. شارلٹ کی چکنی پھدی کا نظارہ وہ کبھی نہیں بھول پاۓ گا. اس نے سوچا.

 
Quratulain Tahira

Quratulain Tahira