"اب شارلٹ کی طرف توجہ کرتے ہیں" مسز زینب نے کہا اور شارلٹ ان کی بات پر مسکرا اٹھی۔ اس کی مسکراہٹ میں فخر تھا۔ اسی لمحے کا تو اسے انتظار تھا۔ اس نے ہاتھ اپنے پیچھے باندھ لئے اور آنے والے لمحات کا سوچ کر خوش ہونے لگی لیکن اس کی خوشی چند سیکنڈز میں ہی ہوا ہو گئی جب مسز زینب نے کہا کہ شارلٹ کے جسم میں دیکھنے کو کچھ خاص ہے ہی نہیں۔ صرف اس کی پھدی ہے اور اس کا دہانہ۔
مسز زینب کے تاثرات کے باوجود کئی لڑکوں کو شارلٹ کے ٹانگوں کے بیچ اس کی پھدی بہت اچھی لگی تھی اور مسز زینب کے تاثرات پر ان کے کئی سوال تشنہ ہی رہ گئے۔
شارلٹ البتہ مسز زینب کی بات پر کچھ زیادہ متاثر معلوم نہ ہوتی تھی۔ وہ ایک قدم آگے بڑھی اور ٹانگیں کھول کر تھوڑی سی جھک کر اپنی پھدی کے ہونٹ دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر پوری کلاس کو دکھانے لگی۔
"میں آپ سب کو کھول کر دکھاتی ہوں تاکہ سب کو پتہ چل جائے۔ یہ جو اوپر آپ کو ایک نقطہ سا نظر آ رہا ہے اسے کلٹ کہتے ہیں۔ پورا نام کلیٹورس ہے۔ تھوڑا سا نیچے وہ سوراخ ہے جہاں سے میں پیشاب کرتی ہوں اور اس سے تھوڑا سا نیچے وہ سوراخ ہے جہاں لڑکے اپنا لن گھساتے ہیں یعنی ویجائنہ۔"
شارلٹ کے بے باکانہ رویے پر پوری کلاس ساکت ہو کر رہ گئی تھی۔ لڑکیاں ذرا شرمسار معلوم ہوتی تھیں جبکہ لڑکوں کو اپنی پتلونوں میں لن کھڑے ہوتے محسوس ہو رہے تھے۔ جب شارلٹ نے اپنی پھدی کے اس دہانے کے بارے میں بتایا جہاں لڑکے لن ڈالتے ہیں تو ایک لڑکی بول اٹھی۔
"شارلٹ تم ٹھیک کہہ رہی ہو لیکن میرا خیال ہے کہ بلال کا لن اس دہانے میں نہیں سما سکتا۔" اس لڑکی کا نام ام کلثوم تھا۔
اس کی بات پر کلاس میں کوئی ردعمل نہیں آیا۔ یہ تھا بھی تو سچ۔ بلال کا لن واقعی بہت بڑا تھا۔
"شاید ایسا ہی ہو لیکن میں نے کونسا آج تک کسی کا لن یہاں گھسایا ہے۔ بس بتا رہی تھی کہ یہ جگہ ہے جہاں لن ڈالا جاتا ہے۔ مسز زینب آپ کے پاس سپیکولم ہے تو میں سب کو دکھا دیتی ہوں کہ میرا پردہ بکارت موجود ہے یا نہیں۔"
"ہاں چلو ایسا کرتے ہیں کہ کلاس کو دو گروپ میں بانٹ لیتے ہیں۔ شارلٹ تم یہاں بیٹھ جاؤ کرسی پر تاکہ لڑکے تمہارا قریب سے معائنہ کر سکیں جبکہ لڑکیاں بلال کا معائنہ کر لیں گی۔" مسز زینب کی بات پر لڑکے لڑکیاں دونوں کے جذبات مچل گئے۔
شارلٹ کلاس کے آخری بینچ پر جا کر بیٹھ گئی۔ جب وہ لڑکوں کے پاس سے گزر رہی تھی تو سینے پر چھوٹے چھوٹے مموں نے لڑکوں ہو جیسے بجلی گرا دی۔
اب پوری کلاس میں شاید بلال ہی واحد انسان تھا جسے اس سب تماشے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس نے سر جھکا لیا۔
آخری بینچ پر بیٹھ کر شارلٹ انتظار کرنے لگی کہ لڑکے اس کے پاس آئیں اور اس کے جسم کا معائنہ کریں۔ اس نے گہری سانس لے کر اپنے حواس درست کئے۔ یہ اس کا پہلا معائنہ تھا اور وہ چاہتی تھی کہ ہر کام خوش اسلوبی سے سر انجام پائے۔ لڑکوں کیلئے بھی یہ زنانہ جسم کے بارے میں علم حاصل کرنے کا ایک اچھا موقع تھا۔
لڑکوں کی دلچسپی کا تو اس سے ہی پتہ چلتا تھا کہ اپنے اپنے بینچز سے اٹھ کر شارلٹ کے قریب آنے کی اتنی جلدی تھی کہ ایک دو لڑکے لڑکھڑا کر گر بھی گئے۔ ہر کوئی چاہتا تھا کہ شارلٹ کے قریب جگہ مل جائے۔ سب لڑکوں نے شارلٹ کو ایسے گھیر لیا جیسے وہ سب کوئی بھوکے کتوں کا گروہ ہوں۔ شارلٹ کو ذرا عجیب سا لگا۔ کچھ لڑکوں کی پتلون میں شارلٹ کو واضح ابھار بھی نظر آئے۔ اسے کسی قدر مایوسی ہوئی۔ وہ تو اسے سراسر ایک سائنسی مطالعے کے طور پر دیکھ رہی تھی لیکن یہاں یقیناً معاملہ سائنسی نہیں بلکہ جنسی تھا۔ اپنے بارے میں تو اسے یقین تھا کہ اگر کسی کلاس میں اسے مردانہ جسم کے مطالعے کا ایسے موقع ملے تو وہ ساری توجہ علم حاصل کرنے پر ہی رکھے گی۔ لیکن اسے یہ بھی اندازہ تھا کہ لڑکوں کی نیچر ہی ایسی ہوتی ہے اور ایک ننگی لڑکی کو دیکھ کر لن کھڑا ہونا کچھ ایسا غلط بھی نہیں۔ یہ سوچ کر شارلٹ کسی حد تک مطمئن ہو گئی۔ ویسے بھی صبح اس کی امی نے بھی تو کہا تھا کہ شارلٹ بہت حسین لڑکی ہے۔ اب ان لڑکوں کے لن کھڑے دیکھ کر شارلٹ کو اپنی امی کی بات سچ ثابت ہوتی نظر آ رہی تھی۔
آج تک کلاس میں جو بھی سائنسی تجربات ہوئے تھے ان میں مینڈکوں اور مچھلیوں کے آپریشن ہی شامل تھے۔ ظاہر ہے اس سب کے مقابلے میں ایک جیتی جاگتی ننگی لڑکی کے جسم کا اتنے قریب سے معائنہ لڑکوں کو بھانا ہی تھا۔
شارلٹ بینچ سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی اور لڑکوں نے اسے گھیرے میں لے لیا۔ ہر کوئی اس سے قریب سے قریب تر ہونے کا خواہشمند تھا۔ ایسے میں کچھ دھکم پیل بھی ہوئی لیکن جلد ہی سب سیٹل ہو گئے۔ علیم کو بالکل شارلٹ کے پیچھے جگہ ملی۔ وہ بالکل شارلٹ کے پیچھے اتنا قریب کھڑا تھا کہ پتلون میں تنا ہوا لنڈ شارلٹ کے چوتڑوں کی دراڑ سے مس ہونے لگا۔ شارلٹ کے چوتڑ بالکل گول مٹول تھے۔
علیم کا تو یہ حال تھا جبکہ سامنے کھڑے لڑکے بھی شارلٹ کی دوسری دراڑ کو گھورے چلے جا رہے تھے۔ جو لڑکے ذرا پیچھے تھے ان کی نظر نہ تو چوتڑوں پر پڑ رہی تھی اور نہ ہی پھدی پر لہذا وہ شارلٹ کے ممے دیکھنے پر ہی اکتفا کر رہے تھے۔
اس سب کے باوجود کسی نے شارلٹ کو چھونے کی کوشش نہیں کی تھی۔ ان سب کو معلوم تھا کہ یہ اصولوں کے خلاف ہے اور ایسا کرنے پر سزا بھی مل سکتی ہے۔
"بھئی صرف دیکھنا نہیں ہے۔ اپنے ہاتھوں سے بھی مطالعہ کیجئے۔" مسز زینب نے تو جیسے سب لڑکوں کے دل کی بات کہہ دی۔