Language:

Search

شارلٹ اور بلال قسط نمبر 11

  • Share this:

"بچیو دیکھو لن کو نظر انداز مت کرنا آپس کی باتوں میں۔ زندگی میں کئی مواقع ایسے آئیں گے جب آپ کو کسی مرد کے لن کو پکڑ کر اسے خوش کرنا ہو گا اس لئے توجہ لن پر رکھیں تاکہ آپ کچھ سیکھ سکیں۔" مسز زینب نے سب لڑکیوں کو کہا۔
"مس اب میری باری ہے" سارہ نے کہا۔
ان میں کئی لڑکیاں ایسی تھیں جو پہلے ہی لن سے واقف تھیں۔ سمیرہ بھی ان میں سے ایک تھی وہ اپنے بوائے فرینڈ کو کئی مرتبہ ہینڈ جاب دے چکی تھی اور اب بھی مڑ مڑ کر شارلٹ والی سائیڈ دیکھ رہی تھی کیونکہ اس کا بوائے فرینڈ اشرف بھی اسی کلاس میں تھا اور وہ متجسس تھی کہ اشرف شارلٹ کے ساتھ کیا کر رہا ہے۔ کیا وہ اسے چھو رہا ہے جیسے سارہ کو چھوتا ہے۔
عظمیٰ البتہ لن سے بالکل ناواقف تھی لیکن اس کے باوجود وہ لن کا قریب سے مشاہدہ کرنے کی خواہشمند تھی۔
اس وقت صورتحال یہ تھی کہ کرن لن پر ہاتھ پھیر رہی تھی، مائرہ پیچھے سے ہاتھ گھسا کر ٹٹوں کے نیچے انگلیاں پھیر رہی تھی جبکہ علینہ نے ٹٹے پکڑ رکھے تھے اور سہلا رہی تھی۔ عظمیٰ نے کرن کے ساتھ ہی اپنا ہاتھ بھی لن پر رکھ دیا اور محسوس کرنے لگی کہ یہ کتنا موٹا اور لمبا ہے۔ سخت بھی بہت تھا۔
"عظمیٰ بیٹی آپ اس کے ٹوپے کو کیوں نہیں پکڑ کر دیکھتیں؟" مسز زینب نے کہا۔
"پکڑ لوں مس؟" عظمیٰ اس تاثر کے زیر اثر تھی کہ شاید ٹوپے کو چھونا غلط ہو گا اس لئے اس نے کنفرم کرنا مناسب سمجھا۔
"ہاں ہاں پکڑو بھئی۔ سب حصوں کو باری باری دیکھو اور ان کا مشاہدہ کرو۔"
اب پانچ لڑکیاں ایک ساتھ بلال کے مخصوص اعضا سے کھیل رہی تھیں۔ ایسے میں بلال جو پیچھے موجود بلیک بورڈ کا سہارا لینا پڑا۔ ہاتھ بڑھا کر اس نے ایک کنارا تھام لیا۔ زندگی میں کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ پانچ لڑکیاں اکٹھی اس کے لن سے یوں چپکی ہوں گی۔
"چلو بچیو باقی لڑکیوں کو بھی باری دو اب"
لڑکیاں اپنی جگہ سے ہٹ گئیں اور ان کی جگہ دوسری لڑکیوں نے لے لی۔ اس طرح ہاتھ تبدیل ہونے پر بلال کی ایکسائٹمنٹ مزید بڑھنے لگی۔ وہ سوچنے لگا ایسے کتنی دیر وہ مزید برداشت کر پائے گا۔ ان لڑکیوں کے نرم و نازک ہاتھ اور پھر ان کا یوں احتیاط سے لن اور ٹٹوں کو سہلانا اسے بہت گرم کئے جا رہا تھا۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ بادل ناخواستہ اسے مسز زینب کو بتانا ہی پڑے گا کہ وہ ڈسچارج ہونے کے قریب ہے۔ یا پھر بتائے بغیر ایسے ہی کسی لڑکی کے منہ پر ڈسچارج ہو جائے۔
"دیکھو بچیو۔ یہ جو کھال ہے نا لن کے اوپر اسے کھینچ لیں تو ٹوپا نظر آنے لگتا ہے اور اگر آپ نیچے کی طرف دیکھیں تو لن کے بالکل نیچے آپ کو کھال نظر آئے گی یہ بالکل ایسی ہی کھال کی طرح ہے جیسی کھال ہماری سب کی زبان کے نیچے ہوتی ہے۔ "
مسز زینب کی بات پر کئی لڑکیوں نے ذو معنی چہرے بنائے۔ جو لڑکی ٹوپے پر ہاتھ پھیر رہی تھی اس کے ہاتھ وہیں رک گئے۔
"لیکن مس ہم لن جیسی چیز کو منہ میں تو نہیں نا لیں گے۔ ہیں نا؟" کرن نے پوچھا۔ وہ آج کافی بولڈ سوالات کر رہی تھی۔ اس کے سوال پر کئی لڑکیاں دبے دبے انداز میں ہنس پڑیں۔
"میں جانتی ہوں کہ کئی لڑکیاں اسے برا سمجھتی ہیں اور میں اتنا ہی کہوں گی کہ زندگی میں آپ نے کوئی ایسا کام نہیں کرنا جو آپ کو پسند نہ ہو لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ دوں کہ کوئی کام اگر آپ کو پسند ہو تو اس وجہ سے نہیں رکنا کہ لوگ کہا کہیں گے یا یہ سب کی نظر میں برا ہے۔" مسز زینب نے سمجھانے کے انداز میں کہا۔
"مس کیا آپ نے منہ میں لیا ہے کبھی کسی کا؟" کرن ایک کے بعد ایک مشکل سوال کئے جا رہی تھی۔
مسز زینب نے لیا تو تھا لیکن اسے کئی برس بیت چکے تھے۔ لیکن یاد اب بھی باقی تھی۔
"ہاں لیکن اتنا بڑا نہیں لیا کبھی" مسز زینب نے جواب دیا۔
بلال کا برا حال تھا۔ وہ مسلسل کوشش کر رہا تھا کہ اپنے آپ کو قابو میں رکھے لیکن لڑکیوں کے ہاتھ اور پھر ان کی باتیں یہ سب اس کیلئے بہت زیادہ تھا۔
"میرا نہیں خیال کہ میں لے سکتی ہوں اتنا بڑا اپنے منہ میں۔" سارہ بول اٹھی۔
کچھ لڑکیاں اپنا منہ کھول کر اندازہ لگانے لگیں کہ کیا واقعی ان کا منہ اتنا کھل بھی سکتا ہے جتنا بلال کا لن موٹا تھا۔
"ہاں یہ تو اتنا موٹا ہے کہ اگر منہ میں لیا جائے تو اسے دانتوں سے بچانا مشکل ہو جائے گا۔"
بلال جانتا تھا کہ یہ سچ ہے۔ اس کے ساتھ ایسا ہو چکا تھا۔
"کیوں نہ ہم کوشش کر کے دیکھیں؟" مسز زینب نے تجویز دی۔
اب کی بار لڑکیوں کے منہ حیرت سے کھلے رہ گئے جب انہوں نے اپنی استانی کو گھٹنوں کے بل بلال کے سامنے بیٹھتے دیکھا۔
"ثمینہ آپ اس کو جڑ سے پکڑ کر سہلاتی رہیں اور فرح آپ ٹٹوں کو سہلانا جاری رکھیں تاکہ یہ کھڑا ہی رہے۔ میں کوشش کرتی ہوں کہ منہ میں لے سکوں۔"
"یس مس" ان دونوں نے جواب دیا۔
سب کی سانسیں رک گئیں اور مکمل توجہ سے سب مسز زینب کو دیکھنے لگیں۔ اس لمحے مسز زینب کی عزت سب لڑکیوں کے دل میں بڑھ گئی۔ وہ بطور ایک استانی کے جس طرح اپنی سٹوڈنٹس کو سکھانے کیلئے ہر حد تک جانے کیلئے تیار تھیں، ایسا بہت کم ٹیچر کرتی ہیں۔ ساتھ ہی یہ سوچ بھی کچھ لڑکیوں کو پریشان کر رہی تھی کہ کہیں مسز زینب اپنے دانتوں سے بلال کا لن کھرچ نا ڈالیں یا پھر کہیں بلال ہی کنٹرول نہ کھو بیٹھے اور مسز زینب کے منہ میں ڈسچارج ہو جائے۔
مسز زینب نے اپنا منہ پورا کھول لیا جتنا وہ کھول سکتی تھیں۔ بالکل ایسے جیسے کسی ڈینٹسٹ کے پاس دانتوں کی صفائی کرواتے وقت کھولتے ہیں۔ منہ کھول کر آپ اپنا منہ بلال کے لن کے قریب لائیں اور اس کا ٹوپا منہ میں لے لیا۔ بلال کا لن ان کے منہ میں صحیح فٹ آیا لیکن اب زبان ہلانے کی گنجائش نہ رہی تھی۔ اس لئے انہوں نے غوں غاں میں ہی اپنی کامیابی سے لڑکیوں کو آگاہ کیا۔
"واؤ"
"زبردست"
لڑکیاں متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔
اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مسز زینب اپنا منہ بلال کے لن سے ہٹا لیتیں کیونکہ انہوں نے کامیابی سے پریکٹیکل کر کے لڑکیوں کو دکھا دیا تھا لیکن ایک بار منہ میں لے کر باہر نکالنے کا ان کا دل نہیں کر رہا تھا۔ الٹا انہوں نے زبان سے بلال کا ٹوپا چاٹنا شروع کر دیا۔ لن کی بھینی بھینی خوشبو ان کے نتھنوں میں گھس رہی تھی اور انہیں مدہوش کئے دے رہی تھی۔ اتنے برس کے بعد انہیں کسی لن کو منہ میں لینے کا موقع ملا تھا اور وہ بھی اتنا بڑا تو وہ کیسے اتنی جلدی چھوڑ دیتیں۔
بلال خود بھی بے انتہا جوش میں تھا۔ اپنی ٹیچر کا منہ اپنے لن کے گرد محسوس کر کے وہ پاگل نہ ہوتا تو کیا ہوتا۔ ساتھ ہی دو لڑکیوں کے ہاتھ بھی اس کے جسم پر تھے جو لن کو نیچے سے اور ٹٹوں کو سہلا رہی تھیں۔ اب جبکہ مسز زینب نے اس کے لن کو کسی لالی پاپ کی طرح چوسنا شروع کر دیا تو بلال کیلئے یہ برداشت سے باہر ہو گیا۔
"مس ٹٹے پہلے لٹک رہے تھے اب سخت ہوتے جا رہے ہیں" فرح جو ٹٹوں پر معمور تھی وہ بول اٹھی۔
مسز زینب کو اس کا مطلب اچھی طرح معلوم تھا۔ کئی اور لڑکیوں کو بھی اندازہ تھا کہ ٹٹے ٹائٹ ہونے کا کیا مطلب ہے۔ مسز زینب کے پاس وقت کم تھا۔ انہیں جو بھی کرنا تھا جلد کرنا تھا۔ اگر وہ منہ ہٹا لیتیں تو بلال کے لن سے نکلنے والی منہ فرش پر گرتی، ان کے چہرے پر بھی گرتی اور ہو سکتا تھا کہ لڑکیوں کے صاف ستھرے یونیفارم پر بھی کوئی چھینٹ جا گرتی اور اپنی بیٹیوں کے یونیفارم پر منی کے چھینٹے دیکھ کر ان کے والدین برا بھی مان سکتے تھے۔ مسز زینب کو اب یاد آیا کہ اس کلاس کیلئے انہیں یونیفارم کی بجائے لیبارٹری والے سفید کوٹ پہنانے چاہئے تھے۔ خیر اب دیر ہو چکی تھی۔ مسز زینب نے بلال کی منی اپنے منہ میں ہی لینے کا فیصلہ کیا۔ وہ خود بھی بلال کی منی چکھنا چاہتی تھیں۔ ایک جوان تگڑے توانا لڑکے کی منی منہ میں لے کر وہ لڑکیوں کو یہ بھی دکھا سکتی تھیں کہ یہ کوئی ایسا برا عمل نہیں ہے۔
یہ عین وہی وقت تھا جب شارلٹ بھی ڈسچارج ہو رہی تھی۔ اس نے دو لڑکوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر خود کو سہارا دے رکھا تھا اور ہاتھ اتنی مضبوطی سے ان کے کندھوں پر رکھے تھے کہ ناخن جیسے گوشت میں گڑ ہی گئے تھے۔
"اوہ مائی ۔۔۔" وہ فقرہ بھی مکمل نہ کر سکی اور زوردار جھٹکوں کے ساتھ ڈسچارج ہونے لگی۔ ایک انگلی آگے پھدی میں اور ایک انگلی پیچھے سوراخ میں تھی اور وہ کسی ماہی بے آب کی طرح ہچکولے کھا رہی تھی۔ اس کیلئے یہ زندگی کا پہلا تجربہ تھا جب وہ اس قدر شدت سے ڈسچارج ہوئی تھی۔ لڑکے مسلسل اس کے جسم سے کھلواڑ جاری رکھے ہوئے تھے۔ جب وہ ڈسچارج ہو رہی تھی تو لڑکوں کیلئے بھی یہ ایک زبردست نظارہ تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے شارلٹ اپنے اوپر کنٹرول کھو بیٹھی ہو اور اس نے خود کو ہوس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہو۔ ایک کے بعد ایک جھٹکا اس کے جسم کو لگ رہا تھا۔ کئی لڑکے جنہوں میں پینٹ میں ہاتھ ڈال کر لن پکڑ رکھا تھا وہ بھی شارلٹ کو ڈسچارج ہوتے دیکھ کر برداشت نہ کر پائے اور پتلونوں میں ہی منی خارج کر بیٹھے۔
بلال البتہ خوش قسمت تھا۔ اس کی منی مسز زینب کے منہ میں نکلی اور خوب نکلی۔ بلال جیسے جوان لڑکے سے یہی توقع تھی کہ اس کی منی کی مقدار کافی زیادہ ہو گی اور اس نے بھی مایوس نہیں کیا تھا۔ اتنی دیر سے جو وہ برداشت کر رہا تھا اب جبکہ منی نکالنے کا وقت آیا تو مسز زینب حیران ہی رہ گئیں کہ اتنی زیادہ منی!!!!
پہلا جھٹکا لگا تو منی کا ایک بڑا سا چھینٹا ان کے حلق سے ٹکرایا جس سے ان کو ابکائی آ گئی لیکن انہوں نے منہ نہ ہٹایا تاکہ کہیں لڑکیاں یہ نہ سمجھیں کہ منی منہ میں لینا کوئی غلط کام ہے اور اس سے تکلیف ہوتی ہے۔ مسز زینب نے بلال کے لن کو منہ میں ہی گھمانا شروع کر دیا جس سے منی کے چھینٹے بدستور نکل رہے تھے۔ بہت ساری منی تو انہوں نے حلق کے راستے نگل ہی لی لیکن بلال تھا کہ بس ہی نہیں کر رہا تھا۔ خود وہ مسز زینب کی کاوشوں سے بے خبر تھا۔ شارلٹ کی طرح وہ بھی ہوس میں کھو گیا تھا۔ ڈسچارج ہوتے وقت اسے لگ رہا تھا جیسے ٹانگوں سے جان نکل گئی ہو، دل کی رفتار بے گناہ بڑھ گئی تھی اور وہ خود کو ہواؤں میں اڑتا محسوس کر رہا تھا۔
بلاآخر جب بلال کے جھٹکے ہلکے ہوتے ہوتے ختم ہو گئے تو مسز زینب نے انتہائی احتیاط سے اپنا منہ اس کے لن سے پیچھے کیا۔ وہ احتیاط کر رہی تھیں کہ منی فرش پر نہ گر جائے۔
"مس آپ ٹھیک ہیں؟" ایک لڑکی نے پوچھا۔
"میں کھیک ہو" مسز زینب نے جواب دیا لیکن منہ میں منی بھری ہونے کی وجہ سے صحیح بول نہ پائیں۔
"مس آپ لگ نہیں رہیں"
"آلے میں ییک یو" پھر سے توتلا سا جواب دے سکیں وہ۔ مسز زینب جانتی تھیں کہ وہ نہ صرف ٹھیک ہیں بلکہ بہت خوش بھی۔ رات کو بستر میں لیٹ کر وہ آج کیا سوچیں گی انہیں اچھی طرح معلوم تھا۔
اسی وقت سکول کا گھنٹہ بج اٹھا جو اس بات کی جانب اشارہ تھا کہ کلاس کا وقت ختم ہو گیا ہے۔
"خلاخ خخم" مسز زینب نے منہ میں منی لئے سب سے کہا۔
سب لڑکے لڑکیاں کلاس سے نکل گئے۔ ظاہر ہے سب کو ہی جلدی تھی کہ کلاس سے باہر نکل کر دوسری کلاسز میں اپنے دوستوں کو بتا سکیں جو کچھ انہوں نے دیکھا۔
بلال اور شارلٹ نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ دونوں کلاس کے متضاد کونوں میں کھڑے تھے۔ دونوں کو احساس تھا کہ کیا ہو چکا تھا اور دونوں ہی ایک دوسرے سے اس بارے بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔ بلال نے پہلے کئی بار جب اپنے ہی ہاتھ سے اپنے آپ کو لذت پہنچائی تھی تو ڈسچارج ہونے کے بعد ایک عجیب سا احساس گناہ اسے آ گھیرتا تھا۔ یہ احساس آج ان دونوں کو ہو رہا تھا۔ کچھ احساس گناہ کچھ شرمساری کے ملے جلے جذبات لئے بلال شارلٹ کی جانب بڑھا اور اس کا ہاتھ تھام کر کہنے لگا "جو بھی ہوا خاصہ دلچسپ تھا۔"
"ہاں ہاں کافی دلچسپ" شارلٹ نے جواب دیا۔
دونوں کلاس سے باہر نکل آئے جہاں سیکیورٹی گارڈ ان کا منتظر تھا تاکہ انہیں اگلی کلاس کی جانب لے جائے۔

 
Quratulain Tahira

Quratulain Tahira