سٹیٹسٹکس کی کلاس کی جانب سفر
Towards Statistics Class
ان دونوں کی اگلی کلاس سٹیٹسٹکس کی تھی جو ہیلتھ بلڈنگ کے بالکل متضاد ریاضی والی بلڈنگ میں تھی کیونکہ سٹیٹسٹکس ریاضی سے مماثل مضمون تھا۔ بلڈنگ آمنے سامنے ہونے کی وجہ سے راستہ کم تھا۔ شارلٹ اور بلال ایک دوسرے سے نظریں چرا رہے تھے۔ دونوں ہی انسانی اعضاء والی کلاس میں ڈسچارج ہونے پر ایک دوسرے سے کسی حد تک شرمندہ تھے۔ دونوں نے ہی یہ نہیں سوچا تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ بلال کو البتہ اس بات کا اندازہ تھا کہ جلد یا بدیر اسے مٹھ مارنی ہی پڑے گی لیکن اس کا خیال تھا کہ سب کلاسز کے اختتام پر آرام سے مارے گا۔ ہوا اس کے الٹ اور پہلی ہی کلاس میں وہ ڈسچارج ہو گیا۔ اب وہ دل میں یہی دعا مانگ رہا تھا کہ کاش شارلٹ نے اسے ڈسچارج ہوتے ہوئے نہ دیکھا ہو کیونکہ اس کا خیال تھا کہ شارلٹ کسی ایسے لڑکے کو ہر گز پسند نہیں کرے گی جو اپنے اوپر کنٹرول نہ رکھ سکا ہو۔
بلال کے برعکس شارلٹ نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ اسے کسی کلاس میں ڈسچارج ہونا ہو گا۔ وہ جنسی طور پر کوئی بہت مشتعل لڑکی تو تھی نہیں۔ تنہائی میں کبھی کبھار انگلی سے خود لذتی کیا کرتی تھی لیکن یہ تو سب ہی لڑکیاں کرتی ہیں۔ کم از کم شارلٹ کا تو یہی خیال تھا۔ وہ اپنے ارد گرد کالج میں اور باہر دیکھا کرتی تھی کہ لڑکیاں کیسے بھڑکیلے لباس پہنتی ہیں اور اپنے جنسی اعضا کو نمایاں کر کے دکھاتی ہیں۔ شارلٹ نے ایسا کبھی نہیں کیا تھا۔ اسے ایسے کاموں میں دلچسپی ہی نہیں تھی۔ جنسی طور پر اتنی کم مشتعل لڑکی کو یوں پہلی کلاس میں ڈسچارج ہونا پڑا تو شرمندگی ایک قدرتی ردعمل تھا۔ وہ بھی دل میں یہی دعا مانگ رہی تھی کہ بلال نے اسے ڈسچارج ہوتے نہ دیکھا ہو کیونکہ یقیناً وہ ایسی لڑکی کے ساتھ دن گزارنا پسند نہیں کرے گا جو خود پر قابو نہ رکھ سکی ہو۔
جب وہ کلاس سے نکلے تو سٹوڈنٹس کا رش قدرے کم تھا جسے دیکھ کر ان دونوں کو ایک خوش گوار حیرت ہوئی لیکن بلڈنگ سے باہر نکلے تو اچھا خاصہ رش نظر آیا۔ وہ دونوں ہیلتھ بلڈنگ سے ریاضی کی بلڈنگ کی جانب چلے تو سٹوڈنٹس انہیں راستہ دینے لگے۔ کچھ ہمدردی سے اور کچھ اس لئے کہ ان دونوں کو ننگا چلتے ہوئے دیکھ سکیں۔
راستہ اگرچہ کم تھا لیکن انہیں تب رکنا پڑا جب راستے میں ایک لڑکی نے بلال کو مخاطب کیا۔
"بلال مجھے اندازہ نہیں تھا تمہارا جسم کیسا شاندار ہے۔" یہ لڑکی لیزا تھی۔ بلال اسے صرف اس حد تک جانتا تھا کہ شوخ اور چنچل لڑکی ہے اور لڑکے اس پر مرتے ہیں۔ آج بھی لیزا نے ایسا ہی چست لباس پہن رکھا تھا جس سے اس کے سینے کے ابھار اور ان کے خدو خال واضح نظر آ رہے تھے۔
شارلٹ کو لیزا ایک آنکھ نہ بھائی۔ اسے ایسی نمائشی لڑکیاں سخت نا پسند تھیں۔ صرف بڑے بڑے ممے ہونا تو کوئی ایسی قابلیت نہیں ہے نا۔ اب یہی دیکھ لیں کہ شارلٹ ننگی کھڑی تھی لیکن بلال کی توجہ لیزا پر تھی کیونکہ کپڑوں میں ہونے کے باوجود اس کے بڑے بڑے ممے لڑکوں کو اپنی جانب متوجہ کر رہے تھے۔ ظاہر ہے اسے برا ہی محسوس ہونا تھا کہ وہ ننگی کھڑی ہے ساتھ اور بلال اسے دیکھنے کی بجائے لیزا کو دیکھے جا رہا ہے۔ لیکن شارلٹ نے فوراً اپنے جذبات پر قابو پا لیا۔ وہ سوچنے لگی کہ اگر محض بلال کے لیزا کو گھورنے کی وجہ سے اسے برا محسوس ہو رہا ہے تو اس میں اور لیزا میں فرق ہی کیا رہ گیا۔ نہیں وہ اتنی حقیر نہیں ہے۔
"توبہ تمہارا تو لن بھی کتنا بڑا ہے۔ اف خدایا" لیزا نے کہا۔ بلال کا لن اب سویا ہوا تھا اور نرم پڑ گیا تھا لیکن اس حالت میں بھی یہ بتانا مشکل نہیں تھا کہ عام لڑکوں کے سائز سے کافی بڑا ہے۔
"شکریہ لیزا۔" بلال نے محتاط لہجے میں جواب دیا۔
جواباً لیزا مسکرا دی۔ اس نے ایک ٹانگ سے وزن دوسری پر منتقل کیا جس سے اس کے کولہے مٹک اٹھے اور بلال انہیں نوٹس کیے بغیر نہ رہ سکا۔
شارلٹ خاموشی سے دیکھتی رہی۔ شاید وہ اب بھی کسی حد تک جیلس تھی۔ اگر بلال کو دیکھنا ہی تھا تو اسے دیکھتا نا۔ وہ تو الف ننگی ہے۔ لیزا جو دکھا رہی تھی اس سے کہیں زیادہ شارلٹ دکھا سکتی تھی۔ اس کا دل تو کیا کہ بلال کو کندھے پر تھپتھپا کر اپنی جانب متوجہ کرے کہ اے مسٹر میں یہاں ہوں۔
"بلال کیا تم اسے کھڑا کر کے دکھاؤ گے ہم سب کو؟" لیزا نے ہونٹوں پر شرارتی مسکراہٹ سجائے بلال سے فرمائش کر ڈالی جس پر مجمعے میں سے کافی آوازیں آنے لگیں۔ لڑکے خاص کر یہ نہیں چاہتے تھے کہ بلال اپنا لن کھڑا کرے بلکہ اکثر کی خواہش تھی کہ لن کھڑا کرنے میں ناکامی پر بلال شرمندہ ہو۔
بلال تو خود حیرت زدہ تھا کہ لیزا نے یہ کیا فرمائش کر ڈالی۔ یہ تو گزری کلاس سے بھی بدتر تھا۔ وہاں کم از کم ایک استانی تو تھیں نا جو سب کو کنٹرول میں رکھے ہوئے تھیں۔ یہاں تو ایسا کچھ نہیں۔ وہ سوچنے لگا یہ آیا یہ پروگرام کے اصولوں کے مطابق بھی ہے یا نہیں۔ کسی لڑکے سے لن کھڑا کرنے کی فرمائش تھی ہی اتنی عجیب و غریب۔ اس نے مڑ کر سیکیورٹی گارڈ کی طرف دیکھا لیکن جواب میں ایک ہمدردی نگاہ کے سوا کچھ نہیں ملا۔ یقیناً یہ پروگرام کی خلاف ورزی نہیں ہے کیونکہ لیزا نے انتہائی شائستگی سے سوال کیا تھا۔
لیکن مسلہ یہ تھا کہ بلال ایسے لن کو چٹکی بجا کر تو کھڑا نہیں کر سکتا تھا نا۔ کلاس میں تو لڑکیوں کے ہاتھوں کا لمس اس کے لن کو کھڑا رکھنے میں مددگار ثابت ہوا تھا۔ یہاں تو معاملہ مختلف تھا۔ اتنی نگاہیں تھی کہ بلال کو شرمندگی محسوس ہو رہی تھی اور شرمندگی میں لن کھڑا کرنا ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہے۔ اوپر سے ابھی چند منٹ پہلے ہی وہ ڈسچارج بھی ہوا تھا۔ ڈسچارج ہونے کے بعد تو لن ویسے ہی کافی دیر تک سویا رہتا ہے۔
'کیا یہ اصولوں کے خلاف نہیں؟" تسلی کیلئے بلال نے سیکیورٹی گارڈ سے پوچھا۔
"نہیں بچے۔ اصولوں کے مطابق ہے فرمائش۔ آپ کوشش تو کرو نا۔" سیکیورٹی گارڈ نے جواب دیا۔
بلال سمجھ گیا کہ چار و ناچار اسے یہ کرنا ہی ہو گا یا کم از کم کوشش کرنی ہو گی۔ اس نے ہاتھ سے اپنا نرم لن پکڑا اور کھال پیچھے کر لی۔ مجمعے سے ایک دم آوازیں آئیں جیسے حیرت کا اظہار کیا گیا ہو۔ ذیادہ آوازیں لڑکیوں کی تھیں۔ بہت سی لڑکیوں نے آج تک کسی لڑکے کو اپنا لن سہلاتے نہیں دیکھا تھا اور پبلک میں تو شاید کسی نے بھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ سب سانس روکے بلال کو لن مسلتے دیکھ رہی تھیں۔
بلال البتہ مشکل میں تھا۔ لن کھڑا کرنے کیلئے ہاتھ لن پر مسلتے دیکھ کر مشت زنی کا گمان ہوتا تھا اور یہ کام تو وہ ان گنت مرتبہ کر چکا تھا۔ کسی کی فرمائش پر پبلک میں ایسا کرنا البتہ اس کا پہلا تجربہ تھا اور پبلک بھی ایسی جس میں کئی لڑکیاں اپنی مسکراہٹ سے اس کا مذاق بنا رہی ہوں اور لڑکے بھی تضحیک کرنے کیلئے تیار ہوں۔ ایسے میں بلال کی شرمندگی بڑھنے لگی اور ہاتھ سے لن سہلانے کا کوئی فایدہ نہ ہوا۔
"بلال کیا ہوا۔ نہیں ہو رہا کھڑا؟" لیزا نے بناوٹی ہمدردانہ لہجہ بنا کر بلال سے پوچھا جو نہ تو ہاں میں جواب دے سکتا تھا نہ ہی ناں میں۔ کیونکہ دونوں طرح اس کی اپنی ہی بے عزتی ہونی تھی۔
"لگتا ہے تمہیں ہمیشہ لن کھڑا کرنے میں دقت ہی ہوتی ہے" لیزا کی مسکراہٹ اب شیطانی مسکراہٹ لگ رہی تھی۔ اس کی بات پر کئی لڑکیاں ہنس پڑی تھیں۔
"میرا مطلب ہے کہ اتنا بڑا لن کھڑا کرنے کیلئے شاید ذیادہ وقت لگتا ہو۔ اور ذیادہ مشقت بھی۔" لیزا نے پھر لقمہ دیا۔
بلال بس یہ چاہتا تھا کہ یہ چپ کر جائے کمینی۔
"دوستو چلو کلاس میں چلیں۔ یہ تو پھسڈی نکلا بھئی۔ پروگرام میں شرکت کرنے چلے ہیں اور فرمائش پوری کرنے کی اوقات نہیں ہے۔" لیزا نے اب کی بار لڑکیوں سے مخاطب ہوکر کہا۔ شارلٹ نے اس کی بات پر ناک بھوں چڑھائی۔
"شارلٹ یار تم ہی مدد کر دو بے چارے کی" لیزا نے شارلٹ سے مخاطب ہو کر کہا۔ شارلٹ چپ رہی۔
سیکیورٹی گارڈ البتہ چپ نہ رہا اور کہنے لگا "لیزا پروگرام میں شرکت کا اصول ہے کہ کلاس کے باہر ایک دوسرے کو جنسی طور پر چھونا منع ہے"
"جی جی مجھے معلوم ہے۔ میں یہ تھوڑی کہہ رہی کہ شارلٹ بلال کا لن پکڑ لے۔ میں تو یہ کہہ رہی ہوں کہ کوئی ایسا پوز بنا کر دکھا دے کہ بلال کا لن کھڑا ہو جائے۔" لیزا نے سیکیورٹی گارڈ کو جواب دیا۔
شارلٹ کو لیزا کی تجویز کچھ ایسی بری نہیں لگی۔
"مجھے تو خوشی ہو گی مدد کر کے" شارلٹ نے لیزا کو جواب دیا۔ شارلٹ ہر گز یہ نہیں چاہتی تھی کہ بلال فرمائش پوری کرنے میں ناکام ہو۔