شارلٹ اور بلال کی آج کی دوسری کلاس سٹیٹسٹکس (statistics) کی تھی۔ یہ ریاضی کی بلڈنگ میں تھی۔ آج کی کلاس محض تعارفی کلاس تھی جس میں طلبا کو یہ بتانا مقصود تھا کہ اس مضمون میں کیا کیا شامل ہے تاکہ سب کو سلیبس سے آگاہی ہو جائے۔ شارلٹ مایوس تھی کیونکہ وہ ایک دوسرے استاد کی اسی موضوع کی کلاس میں داخل تھی اور تعارفی کلاس پہلے ہی لے چکی تھی۔ ایک طرح سے اس میں شارلٹ کا اپنا فایدہ بھی تھا۔ چونکہ وہ تعارفی کلاس پہلے ہی پڑھ چکی تھی اس لئے اس کے پاس موقع تھا کہ اپنا نالج طلبا کے سامنے بیان کر سکے اور ان پر رعب ڈال سکے۔ یہ سوچ کر شارلٹ کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔ لیکن بہرحال وہ اب بھی اس بات کی حامی تھی کہ یہ موضوع پروگرام کے شرکاء کیلئے بے کار ہے۔
کلاس کے استاد محترم جناب عباس صاحب بھی شارلٹ کے نقطہ نظر سے متفق تھے۔ سٹیٹسٹکس کی کلاس میں دو طلبا کا کپڑوں کے بغیر بیٹھنا ان کی سمجھ سے تو باہر تھا۔ اس کی بھلا کیا ضرورت تھی۔ انہوں نے تو اپنی کلاس کا نام بھی نہیں دیا تھا پروگرام میں شرکت کیلئے۔ یہ تو پرنسپل کا اپنا خیال تھا کہ یہ کلاس ضروری ہے۔ پرنسپل کا کہنا یہ تھا کہ پروگرام میں شامل طلبا کی زیادہ تر کلاسز سماجیات سے متعلق ہیں لہذا ایک کلاس سٹیٹسٹکس کی رکھ لیں تاکہ توازن رہے۔ سٹیٹسٹکس کے استاد عباس صاحب نے نہ تو ہاں کی اور نہ ہی ناں کی۔ وہ غیر جانبدار رہے لیکن پرنسپل کا حکم تو ماننا ہی تھا۔
اسی حکم کی پاداش میں تو آج بلال اور شارلٹ بغیر کسی لباس کے ان کی کلاس میں آ ٹپکے تھے۔ عباس صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے ان دونوں کو کلاس کے آخر میں خالی بینچ پر بیٹھنے کا کہا۔ یہ ان کے استقبال کرنے کا انداز تھا۔ وہ ایسے ہی تھے۔ ورنہ عموماً ہوتا تو یہ تھا کہ ٹیچر پروگرام کے شرکاء کو انتہائی گرم جوشی سے خوش آمدید کہتے اور ساتھ ہی لڑکے سے پوچھا جاتا کہ اسے ریلیف تو نہیں چاہئے کیونکہ اگر اس کا لن کھڑا ہو تو کلاس کے پہلے پانچ منٹ کے اندر اس کا مٹھ مار کر لن کو نرم کرنا ضروری ہوتا تھا۔ عباس صاحب دراصل یہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی کلاس کا نظم و ضبط دو ننگے طلبا کی وجہ سے خراب ہو۔ ویسے بھی یہ موضوع خاصہ مشکل تھا اور طلبا کو پڑھانا اچھا خاصا محنت طلب کام تھا۔ طلبا کی تو پہلے ہی اس موضوع میں۔ دلچسپی نہیں ہوتی تھی اور اوپر سے اب اگر دو ننگے طلبا کو ان کے سامنے بٹھا دیا جائے تو طلبا کی ساری توجہ ان ننگے جسموں پر ہی ہو گی اور پڑھائی کا بیڑہ غرق ہو جائے گا۔ یہی سوچ کر عباس صاحب نے ان دونوں کو پیچھے والی بینچ پر بٹھایا تھا۔
بلال البتہ عباس صاحب کے اس رویے سے خوش تھا۔ اسے ریلیف چاہئے بھی نہیں تھا اور سچ تو یہ تھا کہ جتنا وہ باقی طلبا کی نظروں سے اوجھل رہے اس کیلئے اتنا ہی اچھا تھا۔ اس نے یہ سن رکھا تھا کہ پروگرام کے پہلے دو طلبا مائیکل اور خدیجہ کو ہر کلاس میں طلبا کی توجہ کا مرکز بنا کر رکھا گیا تھا۔ (مائیکل اور خدیجہ سے متعلق جاننے کیلئے میری اس موضوع پر کہانی پڑھیں۔) اب جبکہ بلال کو سب سے پیچھے بیٹھنے کا موقع ملا تو اس کیلئے تو یہی سب سے بڑا ریلیف تھا۔
شارلٹ البتہ مایوس تھی۔ اس نے پروگرام میں شرکت ہی اس لئے کہ تھی کہ اپنا لوہا منوا سکے۔ اگر ایسے ہی کلاس کے آخری بینچ پر بیٹھنا پڑا تو وہ اپنی ڈائری میں صرف یہی لکھ پائے گی کہ ننگے بدن پر لکڑی کے بینچ کا لمس کیسا ٹھنڈا ٹھنڈا محسوس ہوتا ہے۔ یا پھر یہ کہ کیسے طلبا چپکے چپکے اس کے مموں کو دیکھنے کیلئے مڑ رہے تھے۔ لیکن اس سب کا کسی بھی سائنسی مقالے سے بھلا کیا تعلق۔ وہ تو اپنا آج کا تجربہ کسی سائنسی میگزین میں چھپنے کیلئے بھیجنا چاہتی تھی۔ پچھلی کلاس تو پھر بھی کسی حد تک دلچسپ تھی لیکن اب سٹیٹسٹکس کا لیکچر سننا تو بہت بورنگ کام تھا۔
عباس صاحب نے گلا کھنکار کر کلاس کو اپنی جانب متوجہ کیا اور بولے:
"جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ آج کا ہمارا موضوع ہے مرکزی رحجان اور نارمل خم"
عباس صاحب کی بات پر کسی طالب علم نے کچھ نہ کہا۔ اکثر طلبا کی کوشش تھی کہ گردن موڑ کر پیچھے بیٹھے شارلٹ اور بلال کو دیکھ سکیں۔ لڑکوں کی نظریں شارلٹ پر تھیں جو ڈیسک پر ہاتھ رکھے غور سے عباس صاحب کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کا انداز ایسا معصومانہ تھا کہ لگتا تھا جیسے اسے اپنے ننگے ہونے کہ خبر ہی نہ ہو اور صرف پڑھائی کا ہوش ہو۔ لڑکیاں البتہ کسی بھی خاص نظارے سے محروم تھیں کیونکہ ڈیسک کے اوپر سے بلال کا سینہ ہی نظر آ رہا تھا اور خواہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو تھا تو سینہ ہی نا۔ اس کا لن تو آگے بیٹھے تمام طلبا کی نظروں سے اوجھل تھا۔ صرف اسی قطار میں بیٹھی لڑکیوں کو نظر آرہا تھا جو بلال اور شارلٹ والی قطار میں بیٹھی تھیں۔ نہ جانے کیا وجہ تھی کہ ان لڑکیوں کے پین بار بار نیچے گر رہے تھے اور جو بھی لڑکی جھک کر پین اٹھاتی وہ بعد میں سرگوشیوں میں ساتھ بیٹھی سہیلیوں کو کچھ بتانے لگتی۔ کلاس میں کھسر پھسر کی آوازیں آنے لگیں اور یہی وہ چیز تھی جس کا عباس صاحب کو ڈر تھا۔ ایک لمحے کو انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ شارلٹ اور بلال کو سامنے بٹھا دیں سب کے لیکن اس طرح تو سب کی نظریں ان پر ہی رہیں گی اور بلیک بورڈ کو کوئی نہیں دیکھے گا جبکہ عباس صاحب کو سلیبس کے مطابق لیکچر ڈلیور کرنا تھا۔ انہیں طلبا کو اوسط کی مختلف اقسام پڑھانی تھیں۔
پٹاخ!!!!!!
عباس صاحب نے اپنی چھڑی زور سے ڈیسک پر ماری۔ سب طالب علم ایک دم سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور توجہ عباس صاحب پر مرکوز کر لی۔ شارلٹ کو ان کی آنکھوں میں غصہ اور جھنجھلاہٹ نظر آ رہی تھی۔
"بس، تماشا ختم! ہاں کلاس میں دو ننگے طلبا موجود ہیں لیکن میں ان کے ننگے جسموں کیلئے اپنا لیکچر قربان نہیں کر سکتا۔ آپ لوگ یہاں پڑھنے آئے ہیں نا کہ شارلٹ کے مموں یا بلال کے لن کو گھورنے۔ لہذا توجہ واپس پڑھائی پر مرکوز کیجئے۔ آج کا ہمارا موضوع ہے مرکزی رحجان اور اوسط"
عباس صاحب تو یہ کہہ کر لیکچر دینے میں مشغول ہو گئے اور طلبا کو مرکزی رحجان سے متعلق باریکیوں سے آگاہ کرنے لگے لیکن طلبا پھر بھی مڑ مڑ کر ان دونوں کو دیکھتے ہی رہے۔ آخر کو دو ننگے جسم سٹیٹسٹکس جیسے بورنگ سبجیکٹ سے کہیں زیادہ دلچسپ تھے۔ دل ہی دل میں پرنسپل کو گالیاں دیتے عباس صاحب نے لیکچر جاری رکھا۔ یہ پرنسپل کا ہی تو قصور تھا کہ بچوں کی پڑھائی میں خلل ڈال کر رکھ دیا تھا۔ انہیں اندیشہ تھا کہ جو کچھ وہ آج پڑھا رہے ہیں کل پھر سے دہرانا پڑے گا کیونکہ بچوں کی توجہ نہ ہونے کے سبب انہیں سمجھ ہی نہیں آئے گا۔
"چلئے اب ہم مرکزی رحجان کا ایک عملی تجربہ کرتے ہیں۔ ناپنے کیلیے میرے پاس یہ فیتہ موجود ہے۔" عباس صاحب بدستور پڑھانے پر ہی مصر تھے۔ ان کی بات سن کر شارلٹ کو اپنی کلاس یاد آ گئی۔ بعینہ یہی تجربہ اس کلاس میں بھی کیا گیا تھا جس میں شارلٹ داخل تھی۔ شارلٹ کو یہ تجربہ اتنا کوئی خاص پسند نہیں آیا تھا۔ اس نے ہاتھ کھڑا کر کے عباس صاحب کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی۔
"سر!" شارلٹ کی آواز پر عباس صاحب چونک اٹھے۔ انہیں توقع نہیں تھی کہ شارلٹ یا بلال میں سے کوئی کچھ بولے گا۔ ان کا خیال تھا کہ ننگا پن دیکھنے کی چیز ہے اور کوئی اگر ننگا ہے تو اس کا مقصد دوسروں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانا ہے اور اب جبکہ انہوں نے دونوں کو پیچھے بٹھایا تھا تو شارلٹ کا بات کرنا بھی یقیناً اپنی جانب توجہ مبذول کروانے کی ایک کوشش ہی ہے۔
"جی شارلٹ" عباس صاحب کے لہجے میں ہچکچاہٹ تھی۔ جیسے انہیں شارلٹ کا بات کرنا پسند نا آیا ہو۔
"سر یہ ٹھیک ہے کہ اونچائی یعنی قد ناپ کر ہم سینٹرل پوائنٹ جانچ سکتے ہیں اور یہ کہ انگلیوں کی لمبائی بھی متوازن انداز میں تقسیم ہوتی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ اگر ہم کسی اور چیز کا ناپ لینے تو تجربہ ذیادہ دلچسپ ہو جائے گا۔" شارلٹ نے کہا۔
"کسی اور چیز۔ کیا مطلب؟" عباس صاحب کو شارلٹ کی بات سمجھ نہیں آئی تھی لیکن طلبا آپس کی سرگوشیوں میں تکے لگانے لگے کہ شارلٹ کس چیز کا ناپ لینا چاہتی ہے۔
"سر یقیناً آپ کو بھی معلوم ہو گا کہ پروگرام کے اصولوں کے مطابق شرکا نے کلاس بنا کسی لباس کے اٹینڈ کرنی ہوتی ہے۔ میرا کہنے کا مطلب یہ تھا کہ کیوں نہ ہم مردانہ عضو تناسل یعنی لن کی لمبائی کا ناپ لیں۔" شارلٹ کی بات پر کلاس میں جیسے ہو کا عالم طاری ہو گیا۔ مکمل خاموشی لیکن لڑکیوں کے چہروں پر مسکراہٹ اس بات کی علامت تھی کہ انہیں شارلٹ کی تجویز پسند آئی تھی۔ شاید اس طرح سٹیٹسٹکس کا مضمون کم بورنگ ہو جائے۔
عباس صاحب شارلٹ کی بات سن کر سن ہی ہو گئے۔ انہیں اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔
"شارلٹ مجھے معلوم ہے کہ پروگرام میں اس کی اجازت ہے لیکن مضمون کی مناسبت سے میں یہ تجربہ ضروری نہیں سمجھتا۔ ویسے بھی یہ ایک غیر مناسب عمل ہے۔" عباس صاحب نے کہا۔
شارلٹ تقریباً مایوس ہو چلی تھی جب ایک لڑکی بول اٹھی۔
"سر پلیز۔ مزہ آئے گا نا۔ انگلیوں سے تو بہتر ہے نا یہ۔ پلیز پلیز" یہ لڑکی عابدہ تھی۔ اس کی دیکھا دیکھی کئی اور لڑکیوں نے بھی پلیز پلیز کی گردان شروع کر دی۔
عباس صاحب شاید سختی سے ڈانٹ کر سب کو خاموش کروا دیتے لیکن ان کے ذہن میں اچانک ایک خیال آیا جس نے انہیں ایسا کرنے سے روک لیا۔ خیال یہ تھا کہ کیوں نہ شارلٹ کی بات مان کر اس تجربے کو پڑھائی کیلئے استعمال کیا جائے۔ ان دونوں کے ننگے پن سے فایدہ اٹھا کر بچوں کو سٹیٹسٹکس پڑھا دی جائے۔ یقیناً اس سے پرنسپل بھی خوش ہوں گے۔
"ٹھیک ہے۔ پھر ایسا کریں کہ سب لڑکے اپنی پتلونیں اتار دیں اور ہر ڈیسک پر ایک لڑکی اور ایک لڑکا ہونا چاہیے۔ میں آپ سب کیلئے فیتے کا بندوبست کرتا ہوں تاکہ ناپ لیا جا سکے۔"
"سر کیا ہم اپنا ناپ خود نہیں لے سکتے" ایک لڑکے نے عباس صاحب سے پوچھا۔
"نہیں ماجد۔ لڑکیاں غیر جانبداری سے ناپ لیں گی۔ لڑکے اگر خود اپنے لن کا ناپ لیں گے تو مجھے ڈر ہے کہ ایک دو انچ کا اضافہ نا کر دیں۔" عباس صاحب کی بات پر لڑکیاں کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔ ان کی بات کچھ ایسی غلط بھی نہیں تھی۔ اس کا ثبوت لڑکوں کی کھسیانی ہنسی تھی۔