Language:

Search

شارلٹ اور بلال قسط نمبر 09

  • Share this:

جب مسز زینب نے یہ کہا تب بھی ان کی نظریں بلال کے لن پر ہی تھیں جو کہ اب تقریباً نوے فیصد تنا ہوا تھا۔ اس حالت میں بھی یہ ایسا شاندار لگ رہا تھا کہ مسز زینب کیلئے خود پر کنٹرول رکھنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ وہ پہلے بھی بلال کے لن کو چھو چکی تھیں اور اب پھر سے چھونا چاہتی تھیں۔
دوسری طرف مسز زینب کی بات پر عمل کرتے ہوئے لڑکے جیسے شارلٹ پر ٹوٹ ہی پڑے۔ اگر علیم نے پیچھے سے شارلٹ کو اپنے بازوؤں میں نہ تھام لیا ہوتا تو وہ شاید فرش پر ہی گر جاتی کیونکہ لڑکے اس تیزی سے اس کے جسم پر جھپٹے تھے کہ شارلٹ کیلئے توازن برقرار رکھنا مشکل ہو گیا تھا۔ لڑکوں کی اپنے جسم میں اس قدر دلچسپی دیکھ کر شارلٹ کو خوشی ہوئی۔ صاف ظاہر تھا کہ ہر لڑکا اس کے بدن کے ایک ایک انچ کا بغور مطالعہ کرنا چاہتا ہے اور اگر ذیادہ تر لڑکوں کی توجہ اس کے جنسی اعضا پر ہے تو بھی کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ مسز زینب کا تو لیکچر ہی جنسی اعضا سے متعلق تھا تو ایسے میں لڑکوں نے شارلٹ کے جنسی اعضا پر ہی توجہ دینی تھی۔
لڑکوں کی اس قدر توجہ اور شارلٹ کے بدن کو چھونے کی خواہش میں کچھ دھکم پیل ہوئی اور مختار نے مسز زینب کو اونچی آواز میں شکایت لگائی کہ لڑکوں نے اسے سائیڈ پر دھکیل دیا ہے تو نہ چاہتے ہوئے بھی مسز زینب کو بلال کے لن پر سے نظریں ہٹانا ہی پڑیں۔
"سب لڑکے ادھر توجہ کریں۔ میری بات کان کھول کر سن لو۔ اگر اب مجھے شکایت ملی تو اور مجھے تمہارے پاس آنا پڑا تو تم سب پچھتاؤ گے۔ ڈسپلن سے مطالعہ کرو اور اپنی اپنی باری کا انتظار کرو تاکہ سب کو برابر موقع مل سکے" مسز زینب نے لڑکوں کو تنبیہہ کی۔ سچ بھی یہی تھا کہ اگر لڑکوں کی بد تمیزی کی وجہ سے مسز زینب کو بلال کا لن چھوڑ کر وہاں جانا پڑتا تو ان کا موڈ ازحد خراب ہو جاتا۔
مختار کو اب لڑکوں نے نہیں دھکیلا۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ ایسا موقع بار بار نہیں آتا اور اگر انہوں نے یہ سنہری موقع اپنی بچگانہ حرکتوں کی وجہ سے ضائع کر دیا تو نقصان بھی انہی کا ہو گا۔
شارلٹ نے بھی مسز زینب کی تنبیہہ کے بعد سکھ کا سانس لیا۔ سائنس اور تعلیم کی خاطر وہ اپنا بدن مطالعہ کیلئے پیش کرنے پر خوش تو تھی لیکن جب دھکم پیل ہوئی اور ہر لڑکے نے اس کے بدن کو ایک ساتھ چھونا چاہا تو وہ ایک مرتبہ تو گڑبڑا کر ہی رہ گئی تھی۔ خیر اب جبکہ مسز زینب نے لڑکوں کو جھڑک دیا تھا تو حالات کنٹرول میں تھے۔ اس کے بدن پر البتہ اب بھی کئی لڑکے ہاتھ پھیر رہے تھے۔ تعداد کا تو اسے اندازہ نہیں تھا لیکن اتنے سارے ہاتھ ایک ساتھ اپنے بدن پر محسوس کر کے شارلٹ کو کچھ عجیب سا لگ رہا تھا لیکن برا نہیں محسوس ہوا۔ ایک ہی وقت میں کئی ہاتھ اس کے مموں پر تھے۔ کچھ لڑکے اس کے نپلز کو دبا رہے تھے تو کچھ مموں کو۔ چند منٹ میں ہی شارلٹ گرم ہو گئی اور اسے اپنے پھدی میں بھی نمی محسوس ہونے لگی کیونکہ سب سے زیادہ لڑکے اس کی ٹانگوں کے درمیان ہی ہاتھ پھیرنا چاہ رہے تھے۔ سب کی کوشش یہ تھی کہ اس کی پھدی میں انگلی گھسا سکیں لیکن وہ سب محتاط تھے کہ کہیں شارلٹ کو تکلیف نہ پہنچا بیٹھیں۔ شارلٹ کی سانسیں تیز ہو رہی تھیں۔ وہ چاہتی بھی تو نہیں بتا سکتی تھی کہ کتنے ہاتھ اس کے بدن پر تھے کیونکہ یہ ہاتھ مسلسل حرکت میں تھے۔ ایک ہی ہاتھ کبھی اس کے مموں پر ہوتا تو کبھی نیچے ٹانگوں پر تو کبھی پیٹ پر تو کبھی اس کے کندھوں پر۔
"کیا میں پھر سے آپ سب کو کھول کر دکھاؤں؟" شارلٹ بول اٹھی۔
سب لڑکوں نے ہاں میں جواب دیا۔ ظاہر ہے کون یہ نہ چاہے گا کہ شارلٹ اپنی پھدی ان سب کو خود اپنے ہاتھوں سے کھول کر دکھائے۔ لڑکے ذرا سا پیچھے ہٹے تو شارلٹ نے اپنے ہاتھوں سے پھدی کے ہونٹ کھول کر دکھائے۔ چند لڑکے تو وہیں بیٹھ گئے اور قریب سے دیکھنے لگے۔
"کیا آپ کو کلیٹورس نظر آ رہا ہے؟" شارلٹ نے پوچھا۔ وہ تو یہی چاہتی تھی کہ سب لڑکے زنانہ جسم کے ہر پہلو سے آگاہ ہو سکیں۔
"آ تو رہا ہے لیکن یہ پہلے سے بڑا کیوں لگ رہا ہے؟" فرحان نے پوچھا جو نیچے بیٹھا قریب سے شارلٹ کی پھدی کو تکے جا رہا تھا۔ چند لڑکوں نے تو ہاتھ اپنی پتلونوں میں ڈال لئے تھے۔
"جب میں اسے چھیڑتی ہوں تو یہ بڑا ہو جاتا ہے۔ اور اتنی دیر سے جو آپ سب اسے چھو رہے ہو تو اس نے تو بڑا ہونا ہی تھا نا۔" شارلٹ نے کہا۔
فرحان سے رہا نا گیا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر شارلٹ کے کلیٹورس کو سہلایا اور کہنے لگا "کیا ایسے؟"
"آہ. ہاں ایسے لیکن زور سے نہ کرو۔ آرام سے" شارلٹ کی سانس فرحان کے چھونے پر ایک دم تیز ہو گئی تھی۔
"مجھے کرنے دو۔ میں کر کے دکھاتا ہوں" مختار نے کہا۔ فرحان کو غصہ تو آیا لیکن اس نے مختار کو جگہ دے دی اور خود ذرا سا سرک کر پیچھے ہو گیا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ مختار دوبارہ مسز زینب کو شکایت لگائے۔
مختار نے شارلٹ کی پھدی میں کلیٹورس کو سہلایا اور ایک انگلی اندر گھسا دی۔ شارلٹ کی سانس چڑھ گئی لیکن اس نے کچھ نہیں کہا۔ اب لڑکوں نے باری باری اس کی پھدی کو سہلانا شروع کر دیا۔ پہلے تو باریاں لگی رہیں لیکن لڑکوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے ایک ساتھ دو تین اور پھر چار چار لڑکے اس کی پھدی کو سہلانے لگے۔ کوئی کلیٹورس کو سہلاتا تو کوئی انگلی اندر گھسا دیتا۔ شارلٹ کو معلوم تھا کہ یہ سب پریکٹیکل تعلیم کا حصہ ہے اس لئے وہ انہیں روک تو نہیں سکتی تھی۔ وہ روکنا چاہتی بھی نہیں تھی لیکن مسلسل انگلیاں پھدی میں جانے سے نہ جانے کیوں اس کی ٹانگوں میں درد ہونے لگا تھا۔ اس نے ہاتھ اپنی پھدی سے ہٹا لئے اور نیچے بیٹھے لڑکوں میں سے کسی کے کندھوں پر رکھ کر سہارا لے کر کھڑی ہو گئی۔ جیسے ہی اس نے پھدی سے ہاتھ ہٹائے تھے تو اس کی پھدی کے ہونٹ بند ہونے لگے لیکن تب ہی ایک لڑکے نے فوراً ہاتھ بڑھا کر دوبارہ کھول دیے تاکہ دیگر لڑکوں کو انگلی گھسانے یا کلیٹورس سہلانے میں دقت پیش نہ آئے۔
اس اثنا میں علیم جو شارلٹ کے پیچھے کھڑا تھا کافی کچھ کر چکا تھا۔ باقی لڑکے شارلٹ کے آگے مصروف تھے جبکہ علیم پیچھے سے خوب مزے لے رہا تھا۔ پہلے تو اس نے محض شارلٹ کے چوتڑ پکڑنے پر ہی اکتفا کیا لیکن آہستہ آہستہ اس نے جی بھر کر شارلٹ کے چوتڑوں سے مزے لئے۔ چوتڑوں کی دراڑ میں ہاتھ ڈال کر پیچھے سے شارلٹ کی پھدی کو چھوا تو کبھی اس کے نرم نرم چوتڑوں پر ہلکی سی چپت بھی رسید کر ڈالی۔ شارلٹ نے اسے بالکل نہیں روکا بلکہ اس کے رویے سے تو ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اپنا پچھواڑا علیم کو پیش کر رہی ہو۔ کسی بھی لڑکے کیلئے اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے کہ ایک لڑکی خود سے اپنے چوتڑ اسے پیش کرے۔
جب علیم نے دیکھا کہ لڑکے آگے کی طرف نیچے بیٹھ کر شارلٹ کی پھدی کو سہلا رہے ہیں تو وہ بھی بیٹھ گیا اور ہاتھوں سے شارلٹ کے چوتڑ کھول کر دیکھنے لگا۔ تنگ سا گلابی سوراخ دیکھ کر علیم سے رہا نا گیا اور اپنی انگلی اس سوراخ کے ارد گرد پھیرنے لگا۔ یہ وہ وقت تھا جب شارلٹ خود اپنی پھدی کھولے کھڑی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ علیم بہت متجسس لڑکا ہے جو اس کے چوتڑوں کے بیچ دیکھنا چاہ رہا یے۔ شارلٹ نے روکا نہیں کیونکہ وہ چاہتی تھی کہ علیم کا تجسس علم پر منتج ہو۔ لیکن ساتھ ہی وہ خود بھی یہ سوچ رہی تھی کہ کہیں علیم مزید تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر انگلی اس سوراخ میں گھسانا نہ چاہے۔ اور ہوا بھی یہی۔ چند سیکنڈز میں ہی شارلٹ کو اس کی انگلی اپنے چوتڑوں کے درمیانی سوراخ میں گھسنے کیلئے زور لگاتی محسوس ہونے لگی۔ اس نے اپنے چوتڑ ڈھیلے چھوڑ دئے تاکہ علیم کو مشکل نہ ہو لیکن یہ سوراخ بالکل خشک تھا اس لئے علیم کیلئے انگلی گھسانا تقریباً ناممکن ہی تھا۔ اوپر سے لڑکے اس کی پھدی سے چھیڑ چھاڑ بھی جاری رکھے ہوئے تھے تو ایسے میں چوتڑ خود بخود ٹائٹ ہوئے چلے جا رہے تھے اور ڈھیلا چھوڑنا بہت مشکل تھا۔ یہ تو شکر ہے کہ علیم نے مزید تگ و دو کرنے کی بجائے انگلی پیچھے کر لی۔ جہاں شارلٹ اس بات پر خوش تھی کہ وہ علیم کی انگلی گھسنے سے ہونے والے درد سے بچ گئی وہیں اسے اس بات کا بھی افسوس تھا کہ ایک طالب علم کے تجسس کو منطقی انجام تک نہ پہنچا سکی۔
علیم نے البتہ انگلی اس لئے ہٹائی تھی تاکہ انگلی کو تر کر سکے۔ اس نے چوتڑوں کے بیچ سے ہاتھ گزار کر شارلٹ کی پھدی سے انگلی تر کی جہاں کئی اور لڑکوں کے ہاتھ بھی اس نمی کو سمیٹنے میں مصروف تھے۔ علیم کے دل میں اچانک نہ جانے کیا بات آئی کہ اس نے اپنا چہرہ شارلٹ کے چوتڑوں میں گھسا دیا اور زبان نکال کر شارلٹ کے اس خشک سوراخ کو چاٹنے لگا۔ شاید اس نے سوچا تھا کہ بجائے انگلی تر کرنے کے زبان سے ہی تر کر دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔
"اوہ اوہ" شارلٹ کے منہ سے بے اختیار نکل گیا۔ وہ سوچنے لگی کہ یہ لڑکا تو بہت قریب سے علم حاصل کرنے پر مصر ہے۔ شارلٹ کو اس کی ناک اپنے چوتڑوں کے درمیان محسوس ہو رہی تھی۔ علیم کی زبان اپنے سوراخ پر محسوس کر کے پہلی مرتبہ تو اسے جیسے جھٹکا ہی لگ گیا اور ایک دم سے آگے ہونے پر اس کی پھدی ایک لڑکے کے چہرے کے بالکل قریب پہنچ گئی تھی۔ وہ لڑکا یہی سمجھا تھا کہ شارلٹ نے خود آگے کی ہے تاکہ وہ زیادہ توجہ سے دیکھ سکے۔ پیچھے موجود علیم البتہ مسلسل شارلٹ کے چوتڑوں کے درمیان زبان رگڑنے لگا جس سے شارلٹ کی بے چینی بڑھنے لگی اور اس کی پھدی آگے پیچھے ہوتی رہی۔ سب لڑکے یہی سمجھے کہ شارلٹ کو بھی لڑکوں کے یوں چھونے پر بہت مزہ آ رہا ہے۔ دکھنے میں وہ بیشک چھوٹی عمر کی لگتی تھی لیکن آنکھوں پر عینک سجائے اپنی بالوں سے بے نیاز پھدی میں انگلی محسوس کر کے مزے لیتے وقت پورے دنوں کی معلوم ہوتی تھی۔
علیم کو بھی بہت مزہ آ رہا تھا۔ اسے ہر گز یہ توقع نہیں تھی کہ شارلٹ کے چوتڑوں کے درمیانی سوراخ کو چاٹنے میں اس قدر لذت ہو گی۔ وہ تو یہی سوچا کرتا تھا کہ یہ جگہ گندی ہوتی ہے لیکن آج اس کا نظریہ تبدیل ہو گیا تھا۔ اسے اپنے گالوں پر شارلٹ کے نرم نرم چوتڑ محسوس ہو رہے تھے جس سے اس کا مزہ دوبالا ہوتا چلا جا رہا تھا۔ اسے یقین تھا کہ کوئی اور لڑکا ایسے شارلٹ کو مزہ نہیں پہنچا سکتا جیسے وہ پہنچا رہا تھا۔
کچھ دیر میں شارلٹ نارمل ہو گئی اور اسے بہت مزہ آنے لگا۔ وہ خود بھی حیران تھی کہ اس جگہ پر کسی کی زبان محسوس کرنے میں اس قدر مزہ ہو سکتا ہے۔ اسے یہ تو اندازہ نہیں تھا کہ ایسے چاٹنے سے وہ لڑکا کون سا علم حاصل کر رہا ہے لیکن اپنے بارے اس نے ایک نئی بات دریافت ضرور کر لی تھی۔ اب وہ جنسی طور پر مزید گرم ہوتی جا رہی تھی۔
اگر تو صرف ایک لڑکا ہی ہوتا جو اس کے چوتڑوں کے درمیان زبان رگڑ رہا ہوتا تو شاید وہ اتنی گرم نہ ہوتی لیکن یہاں تو لڑکوں کی پوری فوج تھی۔ بیک وقت اس کے مموں پر ہاتھوں کا دباؤ، اس کی پھدی میں انگلیاں اور پھر اس کے چوتڑوں کے درمیان ایک زبان ، یہ سب مل کر شارلٹ کو بے گناہ مشتعل کئے چلے جا رہے تھے۔ اس کی سانسیں بہت تیز ہو گئی تھیں اور اس نے جن لڑکوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے ایک دم سے اس کے ہاتھ جیسے کندھوں میں دھنس سے گئے۔ اس کی گرفت مضبوط ہو گئی۔ لڑکے سمجھ گئے کہ شارلٹ شاید ڈسچارج ہونے لگی ہے۔ وہ اور تن دہی سے شارلٹ کے بدن کو سہلانے لگے۔ شارلٹ کی آنکھیں چڑھ گئیں اور وہ لذت کی بلندیوں پر پہنچنے لگی۔ عین اسی وقت اسے اپنے چوتڑوں کے درمیان سے زبان محسوس ہونا رک گئی لیکن پھر ایک لمحے میں زبان کی جگہ انگلی نے لے لی جو کہ مکمل تر تھی اور سوراخ تر ہونے کی وجہ سے اندر گھسنے میں ذرا بھی مسلہ نہ ہوا۔
"اوہ مائی گاڈ" اس کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی۔ اب وہ اپنے جذبات چھپانے کی کوشش کر بھی نہیں رہی تھی۔ آگے اور پیچھے دونوں جانب سے اس کے دونوں تنگ سوراخوں میں انگلیاں گھسی ہوئی تھیں اور ان انگلیوں کی حرکات محسوس کر کے وہ پنجوں کے بل کھڑی ہو گئی اور منہ سے مسلسل آہ آہ کی آوازیں نکالنے لگی۔

 
Quratulain Tahira

Quratulain Tahira