"چلیں مائیکل" خدیجہ نے مائیکل کا ہاتھ پکڑتے ہوئے ایک لمبی سانس لی جس سے اس کے ممے سینے پر اور اوپر ہو گئے۔
"اوکے بچو" سیکیورٹی گارڈ نے ان دونوں سے کہا۔
"اوہ کیا آپ اندر نہیں آئیں گے؟" خدیجہ نے سیکیورٹی گارڈ سے پوچھا۔ لنچ ٹائم پر سیکیورٹی گارڈ کو کمرے میں نہ بلانا اور کھانے کا نہ پوچھنا خدیجہ کے نزدیک کوئی اچھا کام نہیں تھا لیکن وہ کر بھی کیا سکتی تھی۔
"فکر نہ کرو خدیجہ ۔ مسز ایڈورڈز نے میرے لئے لنچ کا علیحدہ انتظام کر رکھا ہے۔" سیکیورٹی گارڈ نے خدیجہ کو بتایا۔
"پھر ٹھیک ہے " خدیجہ کو تسلی ہو گئی۔
"چلو ٹھیک ہے بچو۔ پھر ملتے ہیں کچھ دیر میں" سیکیورٹی گارڈ نے کہا اور وہاں سے روانہ ہو گیا۔
پرنسپل نے خود مائیکل اور خدیجہ کو دروازے پر خوش آمدید کہا۔ پروگرام کے آغاز میں پرنسپل کا بہت بڑا ہاتھ تھا اور وہ پروگرام کے پہلے شرکا کو یہ دکھانا چاہتے تھے کہ وہ ان دونوں کی بے انتہا سپورٹ کرتے ہیں۔
"آئیے آئیے ۔ ہمیں خوشی ہے کہ آپ دونوں نے ہمیں اپنے ساتھ لنچ کا موقع فراہم کیا۔ آپ دونوں ہی بہت اچھے لگ رہے ہیں اور مجھے امید ہے کہ دن بہت دلچسپ گزرا ہو گا۔ بھئی ہم سے تو اب انتظار نہیں ہو رہا پوری روداد سننے کا۔"
مائیکل سوچنے لگا پرنسپل اس کا عائشہ کے منہ پر ڈسچارج ہونا کس نگاہ سے دیکھیں گے۔ شاید وہ اسے ناپسند ہی کریں۔
"یس سر۔" مائیکل نے پرنسپل کو جواب دیا۔
پرنسپل نے مائیکل سے ہاتھ ملایا اور پھر خدیجہ کی جانب توجہ کی۔
"اوہ خدیجہ ۔ اپ نے کٹنگ کروا لی بھئی واہ۔"
"سر؟" خدیجہ کنفیوژ ہو گئی۔
"میرا مطلب ہے جھانٹوں کی تراش خراش ہو گئی نا۔ " پرنسپل نے خدیجہ کی پھدی کی جانب اشارہ کر کے کہا اور بات جاری رکھی "جس نے بھی کی ہے کیا خوب کی ہے۔ میں ہمیشہ یہی سوچتا تھا کہ خواتین اپنے سر کے بالوں پر اتنا وقت صرف کرتی ہیں۔ میری اپنی بیوی کہیں جانا ہو تو گھنٹہ لگا دیتی ہے تیار ہونے میں۔ اور جو بال سب سے زیادہ اہم ہیں انہیں سراسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ میرے خیال میں تو یہ والے بال کہیں زیادہ اہم ہیں۔"
خدیجہ لاجواب ہو گئی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ پرنسپل کی بات کا کیا جواب دے لیکن اسے جواب دینا بھی نہیں پڑا کیونکہ پرنسپل نے پھر سے بولنا شروع کر دیا۔
"شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اکثر خواتین یہی سوچتی ہیں کہ یہ جگہ تو صرف ایک ہی شخص نے دیکھنی پے لہذا اس پر کوئی توجہ نہیں دینی چاہیے حالانکہ میرے خیال میں اگر ایک ہی شخص نے دیکھنی ہے تو وہ شخص کافی اہمیت کا حامل ہوا نا جسے آپ یہ جگہ دکھا رہی ہیں۔ اس حساب سے تو آپ کو اس شخص کیلئے اپنی یہ جگہ زیادہ بہتر طریقے سے پیش کرنی چاہیے۔ کیا خیال ہے؟"
خدیجہ نے ہمیشہ یہ چاہا تھا کہ کبھی کسی سینئر ٹیچر کے ساتھ علمی گفتگو کرے لیکن اسے کیا پتہ تھا کہ یہ علمی گفتگو خواتین کی پھدی کے بالوں کے بارے میں ہو گی۔
"جی سر۔ آپ کی بات درست ہے" خدیجہ بس اتنا ہی کہہ پائی۔
پرنسپل کا دل چاہا کہ خدیجہ سے کہہ دے کہ ہاں اس کٹنگ سے تمہاری پھدی کے دو رسیلے ہونٹ نظر آنے لگے ہیں اس لئے یہ کٹنگ بہت ضروری تھی لیکن انہوں نے بس یہی کہنے پر اکتفا کیا: "بہرحال مجھے خوشی ہوئی یہ کٹنگ دیکھ کر۔ بہت خوبصورت لگ رہی ہے "
"شکریہ سر" خدیجہ کو ایک دن اپنی پھدی کے بالوں کی تعریف میں شکریہ کہنا پڑے گا۔ ایسا تو کبھی اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔
"مجھے خوشی ہے کہ خدیجہ کہ آپ نے پروگرام کو بہتر بنانے کیلئے عملاً اس میں حصہ لیا۔ مسز وارن نے مجھے بتایا تھا کہ خدیجہ بہت ہی پرجوش لڑکی ہے اور وہ کامیابی کیلئے ہر حد تک جا سکتی ہے اور مجھے اب اندازہ ہو رہا ہے کہ مسز وارن کی بات سو فیصد درست تھی"
خدیجہ نے پرنسپل کے منہ سے اتنی تعریفیں سن کر یہی فیصلہ کیا کہ انہیں یہ نہ بتائے کہ یہ کٹنگ اس نے خود نہیں بلکہ مسز رابعہ نے کی ہے۔
"جی سر۔ میں نے سوچا کہ جب سب نے اسے دیکھنا ہی ہے تو کیوں نہ اسے بہتر بنایا جائے تاکہ اچھی لگے۔" خدیجہ نے کٹنگ کا سارا کریڈٹ خود لے لیا۔
"شاباش شاباش " پرنسپل خدیجہ کو بازو سے پکڑ کر مسز وارن کے پاس لے گئے۔ "چلو مسز وارن کو دکھائیں۔ وہ سب سے زیادہ خوش ہوں گی یہ دیکھ کر "
"یس سر" خدیجہ نے دل ہی دل میں دعا کہ پرنسپل اسے ایسے باری باری سب کے سامنے لے جا کر اس کی پھدی کی نمائش نہ کرے اور یہ سلسلہ بس مسز وارن تک ہی محدود رہے۔
مائیکل بے چارہ دروازے کے پاس ہونقوں کی طرح کھڑا تھا۔ مہمانوں میں کافی سارے مرد تھے جنہوں نے بہت قیمتی سوٹ پہن رکھے تھے۔ ان کے سامنے مائیکل کا صرف کالے رنگ کے موزے اور جوتے پہن کر کھڑے ہونا مضحکہ خیز ہی لگ رہا تھا۔ اس نے سب سے پہلے سائیکالوجی کے پروفیسر مسٹر ٹرمپ سے ہاتھ ملایا۔
"بیٹا مجھے یہ بتاؤ کہ تمہارے ذہن میں اس وقت کیا ہے۔ تم ابھی اس وقت کیا سوچ رہے ہو؟" پروفیسر نے سوال داغ دیا۔
"سر؟" مائیکل ان کے غیر متوقع سوال سے گھبرا سا گیا۔ وہ تو سوچ رہا تھا کہ اس کا حال چال پوچھا جائے گا۔
"سر میرا خیال ہے بتانا نامناسب ہو گا" مائیکل نے بات بنانا چاہی۔
"مناسب نامناسب ہم پر چھوڑو اور فوراً بتاؤ " مسٹر ٹرمپ نے کہا۔
"سر میں یہ سوچ رہا تھا کہ آپ سب کو بتاؤں کہ میں کالج کا سب سے بڑا آئی ٹی مقابلہ جیتا ہوا یے " مائیکل نے کہا۔
"اوہ۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ تم ایسا کیوں سوچ رہے تھے۔" مسٹر ٹرمپ شاید اپنا سارا علم مائیکل پر آزمانے پر تلے ہوئے تھے۔
"کیا مطلب سر" مائیکل نے ادب سے پوچھا۔
"دیکھو بیٹا تم یہاں سب کے سامنے اپنے آپ کو بہت چھوٹا محسوس کر رہے ہو اور اس طرح اپنی کوئی کامیابی گنوا کر تمہیں لگے گا جیسے تم نے سچویشن میں توازن پیدا کر لیا ہے۔" مسٹر ٹرمپ کا اشارہ چھوٹے پن سے یقیناً مائیکل کے لن کی ہی طرف تھا۔ ابھی مائیکل جواب دینے کیلئے کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ ایک خوبصورت سی عورت قریب آ گئیں۔
"ایکس کیوز می ۔ میں اپنا تعارف کروا دوں۔ میں پروفیسر عافیہ ہوں۔ مائیکل آپ کی سیٹ میری سیٹ کے ساتھ ہے۔ چلئے میں آپ کو دکھا دوں۔"
پروفیسر عافیہ مائیکل کو بازو سے پکڑ کر اپنی سیٹ کی جانب چل پڑیں۔ ساتھ ہی انہوں نے مائیکل کو دھیمے لہجے میں کہا کہ وہ مسٹر ٹرمپ کو نظر انداز کر دے کیونکہ ٹرمپ کا ہر کسی سے ایسا ہی رویہ ہوتا تھا۔
مائیکل نے اثبات میں سر ہلایا۔
"مائیکل کیا آپ نے لفظ پروجیکشن سنا ہے؟" پروفیسر عافیہ نے مائیکل سے پوچھا۔
"جی میڈم اس کا مطلب ہے جب آپ کوئی ایسی بات کہہ دیں جو کوئی اور کہنا چاہ رہا ہو۔'" مائیکل نے اپنی طرف سے کافی علمی جواب دیا تھا لیکن پروفیسر متاثر نہیں ہوئیں تھی۔
"نہیں مائیکل ۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے جب آپ کسی پر کوئی الزام لگائیں لیکن دراصل وہ الزام خود آپ پر صادق آتا ہو اور آپ اس سچائی کا سامنا کرنے کی ہمت نہ رکھتے ہوں۔ میرا خیال ہے اس کی ایک مثال تو ابھی ابھی آپ نے مسٹر ٹرمپ کے ساتھ گفتگو میں دیکھ ہی لی ہے "
مائیکل پروفیسر کی بات پر مسکرا اٹھا۔ ویسے مسٹر ٹرمپ کی بات میں وزن تو تھا کیونکہ مائیکل کا لن تھا ہی بہت چھوٹا۔
"تمہیں پتہ ہے میں کون ہوں؟" پروفیسر عافیہ نے مائیکل سے پوچھا۔
"جی۔ آپ پروفیسر عافیہ ہیں" مائیکل کو پتہ تھا کہ ان کی بات کا یہ جواب نہیں ہے۔
پروفیسر عافیہ ہنس پڑیں۔
"اوہو مائیکل ۔ چھپانے کی کوشش مت کرو۔ ویسے بھی ننگے ہو کر کچھ چھپانا ویسے بھی مشکل ہے۔"
"یس میڈم " مائیکل کو پروفیسر عافیہ کا یوں اس کے ننگے پن کی یاددہانی کرنا اچھا نہیں لگا تھا۔
پروفیسر چلتے چلتے تک گئیں اور مائیکل کی طرف منہ کر کے بولیں: "مائیکل کیا تمہیں اپنے ننگے پن سے کوئی مسلہ ہے؟"
"ظاہر ہے میڈم۔ سب کے سامنے ننگا ہونا کسے پسند ہوتا ہے " مائیکل کو ان کا سوال ہی بے تکا لگا تھا۔ ایک پروفیسر کو ایسا فضول سوال نہیں پوچھنا چاہئے۔
"پھر تو افسوس ہے۔ بہت افسوس ہے۔ کیونکہ مجھے تو حسد ہو رہا تھا کہ کاش میں تم میں سے ایک ہوتی۔" پروفیسر نے مائیکل کو ہاتھ کے اشارے سے اس کی کرسی دکھائی۔
"واقعی؟" مائیکل کی آنکھوں میں بے یقینی تھی۔
"ہاں مائیکل۔ دیکھو نا ایسے ننگے ہو کر تم دنیا کو یہ دکھا رہے ہو کہ تم کتنے بہادر ہو اور تمہیں اپنے جسم سے کوئی مسلہ نہیں ہے۔ کاش ایک دن پروگرام میں ٹیچرز کو بھی شامل کیا جائے۔"
مائیکل کو اب سمجھ آیا کہ پروفیسر عافیہ ہیں کون۔ یہ پروفیسر ان افراد میں سے ایک تھیں جن کے ذہن میں پہلی بار یہ آئیڈیا آیا تھا۔
"آئی ایم سوری پروفیسر ۔ اس اینگل سے تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا" مائیکل نے کہا۔ وہ اب اپنی کرسیوں کی پشت پر کھڑے تھے۔
"مائیکل ۔ کیا میں آپ کے چوتڑ کو چھو سکتی ہوں؟"
"میرا خیال ہے چھونا پروگرام کے اصولوں کے خلاف ہے" مائیکل نے سرگوشی کے سے انداز میں کہا لیکن اس کی بات درست نہیں تھی۔ چھونا طلبا کیلئے تو منع تھا لیکن اساتذہ کی سرپرستی میں چھونے کی اجازت تھی جیسا کہ مسز رابعہ اور مسز میمونہ کی کلاس میں ہوا تھا۔
"تم یہ سمجھنا کہ یہ بھی تمہاری تعلیم کا ہی حصہ ہے"
کرسیوں کی پشت پر کھڑے ہو کر جبکہ ان کی اپنی پشت پر دیوار تھی، پروفیسر عافیہ نے اپنا ہاتھ مائیکل کے چوتڑ پر آہستگی سے رکھ دیا۔ ردعمل میں مائیکل کے چوتڑ سکڑتے ہوئے بھی انہیں محسوس ہوئے۔ مائیکل نے انہیں منع نہیں کیا۔ اسے ان کے ہاتھ کا لمس اچھا لگ رہا تھا۔ پروفیسر عافیہ ایسے ہاتھ پھیر رہی تھیں جیسے وہ مائیکل کی حوصلہ افزائی کر رہی ہوں۔ انہیں اس جوان لڑکے کے اتنے نرم نرم چوتڑ بہت بھا رہے تھے۔ انہوں نے اپنا ہاتھ پھیلایا اور ہتھیلی میں مائیکل کے دونوں چوتڑ پکڑ لئے۔ مائیکل کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے مسکراتے ہوئے انہوں نے مائیکل کے چوتڑ دبا دئے۔
"کیا تم مجھے، اپنی پروفیسر کو اپنے سامنے ننگی دیکھنا پسند کرو گے؟"
مائیکل ان کی بات سن کر گرم ہو گیا اور لن انگڑائی لینے لگا۔ اس نے نظر گھمائی۔ اس کا لن کرسی کی وجہ سے سب کی نظروں سے اوجھل تھا۔ ویسے بھی اکثر لوگ آپس میں مشغول تھے۔ کوئی بھی یہ نہیں چاہتا تھا کہ ننگے لڑکے یا لڑکی کو گھورتا ہوا پکڑا جائے۔ لیکن پھر بھی اکثر لوگ نظریں چرا کر خدیجہ کو دیکھ رہے تھے جو دو انتہائی سینئر پروفیسرز کے درمیان کھڑی کچھ کہہ رہی تھی۔ مائیکل کو نہیں پتہ تھا کہ الفاظ کیا تھے لیکن یہ واضح تھا کہ دونوں پروفیسر خدیجہ کی باتوں کو بہت غور سے سن رہے تھے۔ مائیکل کو لگا جیسے وہ دونوں پروفیسر خدیجہ کے مموں کو نہ دیکھنے کی اپنی سی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ خدیجہ کے ممے اس کی باتوں ، سانسوں اور ہاتھوں کے اشاروں سے بار بار اوپر نیچے دائیں بائیں ہل رہے تھے۔ عین اس وقت پرنسپل نے خدیجہ کی پھدی کی طرف اشارہ کیا اور خدیجہ شرما کر رہ گئی کیونکہ اب ان تینوں کی نظریں اس کی پھدی پر جمی تھیں۔ مائیکل کا لن خدیجہ کو یوں شرماتے دیکھ کر ایک دم سے کھڑا ہو گیا۔
پروفیسر عافیہ نے بھی دیکھا کہ مائیکل کی نظریں کہاں پیں۔
"مائیکل ، یہ میری وجہ سے کھڑا ہوا ہے یا تمہاری دوست خدیجہ کی وجہ سے؟" پروفیسر عافیہ کے لہجے میں بناوٹی غصہ تھا۔
مائیکل کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا کہے۔ اس کا لن کھڑا ہونے کی وجہ تو وہ دونوں ہی تھیں لیکن حقیقت یہی تھی کہ پروفیسر عافیہ کا ہاتھ اہنے چوتڑوں پر محسوس کر کے وہ زیادہ گرم ہوا تھا۔ اسے مسز رابعہ کا مامتا بھرا لمس یاد آ گیا۔ اس نے سوچا کاش پروفیسر عافیہ بھی اس کی مٹھ ماریں۔ کبھی کبھی تو مائیکل کو پروگرام واقعی بہت اچھا لگنے لگتا تھا۔
"مائیکل کیا اس ہفتے کے آخر میں تم میری مدد کر سکتے ہو؟" پروفیسر عافیہ نے مائیکل کے جواب دینے کا انتظار نہیں کیا اور نیا سوال داغ دیا۔
"جی میڈم۔ اگر کوئی اسائنمنٹ نہ ہوئی تو ضرور"
"ہو سکتا ہے ہم دونوں آپس میں کوئی پرائیویٹ پروگرام شروع کر لیں" پروفیسر عافیہ نے آہستہ سے کہا۔ ساتھ ہی وہ مائیکل کے چوتڑوں کے درمیان انگلیاں اوپر نیچے پھیر رہی تھیں۔
مائیکل ان کی بات پر چونک اٹھا اور ان کی طرف منہ کرنے کی کوشش میں اس کا لن کرسی سے ٹکرا گیا۔
"ایکس کیوز می" مائیکل نے پروفیسر عافیہ سے پوچھا لیکن ان کے جواب دینے سے پہلے ہی پرنسپل نے کوئی اعلان شروع کر دیا۔
"میری درخواست ہے کہ سب لوگ اپنی اپنی سیٹوں پر براجمان ہو جائیں۔ ہمارے معزز دونوں مہمانان کی ابھی اور بھی دو کلاسز باقی ہیں اور ہم یقیناً انہیں لیٹ نہیں کرنا چاہیں گے۔"
مائیکل جلدی سے اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا تاکہ اس کا کھڑا لن کسی کو نظر نہ آئے۔ پرنسپل کرسی صدارت پر بیٹھے تھے اور خدیجہ مائیکل کے بالکل سامنے میز کی دوسری طرف۔ خدیجہ کے ساتھ مسز وارن بیٹھی تھیں جبکہ مائیکل کے ساتھ پروفیسر عافیہ۔