Language:

Search

کتیا 1

  • Share this:

"بھؤؤ بھؤ بھؤؤ" زینب نے حلق سے کتیا کی آواز نکالی تو دونوں بچے کھلکھلا کر ہنس اٹھے۔ زینب انہیں ہنستا دیکھ کر اتنی خوش ہوئی کہ ایک لمحے کو دنیا کے تمام غم بھلا بیٹھی۔ معصوم بچوں کے چہروں پر ہنسی دیکھنے کو اس کی آنکھیں ترس ہی تو گئی تھیں۔ جب سے اس کے شوہر کی ایک ٹریفک حادثے میں بے وقت موت ہوئی تھی غم نے نہ صرف اسے نڈھال کر کے رکھ دیا تھا بلکہ بچوں کے چہروں سے بھی ہنسی جیسے غائب ہی ہو گئی تھی۔

'پاپا کب آئیں گے, ماما'

'پاپا کہاں گئے ہیں؟'

'ماما، کیا ہم پاپا کے پاس نہیں جا سکتے؟'

یہ اور اس جیسے کتنے ہی سوالات تھے جو اس کے بچے اکثر پوچھتے تھے لیکن زینب کے پاس ان سوالات کے کوئی جواب نہیں تھے۔ بہت مشکل سے اب کہیں دو مہینے بعد جا کر اس کے بچے نئی روٹین کے عادی ہونے لگے تھے اور باپ کی غیر موجودگی کے باوجود ہنسی ان کے چہرے پر آئی تھی۔

آغاز میں تو زینب محض بچوں کو بہلانے کی غرض سے کتوں جیسی آوازیں نکالا کرتی تھی لیکن بتدریج اس میں کچھ دوسرے عناصر بھی شامل ہونے لگے۔ ہتھیلیاں اور گھٹنے نیچے ٹیک کر کتیا کی طرح بچوں کو چل کر دکھاتی اور ساتھ ہی منہ سے ایسی آوازیں نکالتی جیسے وہ سچ مچ کوئی کتیا ہو۔ بچے بھی زینب کے اس کرتب سے اتنے مانوس ہو چلے تھے انہیں کوئی اور بہلاوا پسند ہی نہیں آتا تھا۔ بلاشبہ اس کا آغاز زینب نے بچوں کو لبھانے کی نیت سے کیا تھا لیکن جیسے جیسے وہ یہ کام دہراتی گئی ویسے ویسے اسے بچوں کے سامنے کتیا بننے میں ایک عجیب سی لذت محسوس ہونے لگی۔ رات کو بچوں کو سلانے کے بعد جب وہ اپنے کمرے میں لوٹتی یا پھر دن میں بچوں کی غیر موجودگی میں گھر میں تنہا ہونے پر وہ جان بوجھ کر کتیا بنی رہتی۔ بھری جوانی میں بیوگی کا دکھ سہنے کے باوجود زینب کے حسن میں کوئی زوال نہیں آیا تھا۔ اس کا جسم بھرا بھرا سا تھا لیکن اسے موٹاپا ہر گز نہیں کہا جا سکتا تھا۔ چست کپڑے پہنتی تو جسم کے ابھار نمایاں ہو کر سامنے آ جاتے اور دیکھنے والا کوئی بھی فرد یہ تصور کئے بنا نہ رہ پاتا کہ یہ جسم بنا کپڑوں کے کیسا دکھتا ہو گا۔ اگرچہ زینب برقعہ زیب تن کئے بنا باہر نہیں جاتی تھی لیکن برقعے کے باوجود اس کیلئے یہ تقریب اً نا ممکن ہی تھا کہ وہ لوگوں کی نظروں سے بچ سکے۔ اس کے جسم میں ایک منفرد ہی کشش تھی جو برقعہ پہننے کے باوجود لوگوں کو اپنی جانب کھینچتی تھی۔ سبزی لینے کیلئے زینب کو روزانہ قریبی مارکیٹ جانا پڑتا تھا۔ اپنی مرضی سے سبزی چننے کیلئے اسے جھکنا پڑتا جس سے برقعے میں چھپے اس کے کولہے نمایاں ہو جاتے۔ اس کے کولہے تھے بھی کافی بڑے۔ اپنی ہم عمر خواتین سے تو بڑے ہی تھے۔ گول مٹول۔ جیسے تربوز کے دو دانے۔ لیکن اس کے جسم میں صرف کولہے ہی پر کشش نہیں تھے۔ سینے پر موجود دو عدد پستان باوجود سائز میں بڑے ہونے کے فخریہ تنے رہتے تھے۔ زینب نے اسی وجہ سے برا کا استعمال بھی ترک کر دیا تھا کیونکہ برا پہننے کا مقصد تو ویسے بھی پورا ہو رہا تھا۔

بہرحال، زینب جب بھی تنہا ہوتی تو کپڑے اتار دیتی اور گھٹنوں کے بل کتیا کی طرح چلتی اور ذہن میں یہ تصور کرتی کہ جیسے وہ حقیقت اً ایک کتیا ہی ہے۔ اس نے اپنے کمرے میں کتوں کے پانی پینے کا برتن اور کھانے کا برتن بھی رکھ لیا تھا۔ کھانے پینے کیلئے ہاتھ استعمال کرنا بھی اس نے چھوڑ دیا تھا اور براہ راست منہ استعمال کر کے برتن سے کھانے لگی تھی۔ زینب کو خود بھی نہیں معلوم تھا کہ وہ کتیا کیوں بنتی جا رہی ہے لیکن وہ خود کو روک بھی نہیں پا رہی تھی۔

اگلے دن بچوں کو سکول بھیج کر زینب سبزی لینے کیلئے گھر سے نکلی۔ دکان گھر سے پانچ منٹ کے فاصلے پر تھی اور زینب کو وہاں پہنچنے کیلئے تین گلیوں سے گزر کر جانا پڑتا تھا۔ اپنے گھر والی گلی سے جیسے ہی زینب دوسری گلی میں جانے کیلئے مڑی، اس کے قدم جہاں تھے وہیں رک گئے۔ سامنے ایک موٹا تازہ کتا کالے رنگ کا کتا زبان باہر نکالے کھڑا تھا۔ زینب اس ہانپتے کتے کو دیکھ کر گھبرائی نہیں۔ اسے معلوم تھا کہ اگر کتوں کے سامنے ذرا بھی بزدلی کا مظاہرہ کیا جائے تو وہ پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ زینب کے دل میں تو ویسے بھی رتی برابر ڈر نہیں تھا۔ اس کی جگہ کوئی اور ہوتی تو شاید چیخ مار کر دوڑ لگا دیتی لیکن زینب ٹکٹکی باندھے کتے کو دیکھتی رہی۔ کتا بھی زینب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے گھور رہا تھا۔ اس کی باہر لٹکتی زبان سے رال ٹپک رہی تھی۔ ایک آدھ منٹ ایک دوسرے کو گھورنے کے بعد کتے کی باڈی لینگویج میں تبدیلی آئی اور وہ دم ہلانے لگا۔ زینب کے قریب آ کر اس کے پاؤں چاٹنے لگا۔ زینب کی حالت عجیب تھی۔ اس کا دل کر رہا تھا کہ فور اً کتیا والی پوزیشن میں آ جائے اور اس کتے کو گلے لگا لے۔ کتے کی زبان سے ٹپکتی رال سے گھن تو دور کی بات ہے، زینب کا تو دل کر رہا تھا کہ اپنی زبان سے اسے چاٹ ڈالے۔ اسے اپنی ٹانگوں کے درمیان نمی محسوس ہوئی۔ اچانک گلی کے دوسرے سرے سے ایک آدمی نمودار ہوا اور زینب کی جانب آنے لگا۔ زینب کے تصورات کا تانتا ٹوٹ گیا اور اس نے جلدی سے اپنے پاؤں سمیٹ کر دکان کی جانب قدم بڑھا دیئے۔ زینب کی سانس ایسے چڑھی ہوئی تھی جیسے وہ کوئی بہت مشقت والا کام کرتی رہی ہو۔ کتا کچھ دیر دم ہلاتا زینب کے پیچھے آیا اور شاید وہ زینب کے ساتھ ساتھ ہی رہتا لیکن گلی میں آنے والے آدمی نے سمجھا کہ شاید کتا زینب کو تنگ کر رہا ہے اس لئے اس نے زمین سے ایک پتھر اٹھا کر کتے کی جانب پھینکا جس سے ڈر کر کتا وہاں سے بھونکتا ہوا بھاگ کھڑا ہوا۔ زینب کے تیز تیز اٹھتے قدم کتے کی آواز سن کر ایک دم رک گئے اور اس نے مڑ کر دیکھا۔ برقعے میں ہونے کی وجہ سے وہ آدمی زینب کے چہرے کے تاثرات نہ دیکھ پایا لیکن اگر وہ دیکھ پاتا تو حیران ہی ہوتا کیونکہ زینب کے چہرے پر انتہائی خونخوار تاثرات تھے۔ ایسے تاثرات جیسے وہ اس آدمی کا خون پی جانا چاہتی ہو۔ بڑی مشکل سے اس نے خود ہر قابو پایا اور دل ہی دل میں اس آدمی کو گالیاں دیتے ہوئے مارکیٹ کی جانب چل دی۔ گھر واپسی پر زینب کی نگاہیں اس کتے کو تلاش کرتی رہیں لیکن وہ کہیں نظر نہ آیا۔ گھر پہنچ کر اس نے عبایا اور کپڑے اتار کر ایک طرف پھینکے اور کتیا کی طرح گھٹنوں کے بل ایک کونے میں بیٹھ کر کتوں کی طرح آوازیں نکالنے لگی جیسے کوئی کتا رو رہا ہو۔ ایسے ہی بیٹھی وہ اس آوارہ کتے کے بارے میں سوچتی رہی کہ کاش وہ اس وقت اس کے پاس ہوتا۔ زینب کی آنکھوں سے بھی آنسو بہہ رہے تھے اور اس کی چوت بھی تر تھی۔ زینب بالکل ایک کتیا بنتی جا رہی تھی۔
 

Quratulain Tahira

Quratulain Tahira