جب عائشہ بار بار نا میں سر ہلاتی تو سفیان سمجھ گیا کہ یہ طریقہ درست نہیں۔ عائشہ کو خود پسند کرنا چاہیے۔ اس نے عائشہ سے کہا کہ خود پسند کر لو۔ عائشہ نے اسے بتایا کہ ایسے بیٹھ کر پسند کر بھی لیں تو کیا وہ آدمی مان جائے گا؟ اس سے بات کون کرے گا اس بارے میں؟ واقعی سفیان کا تو اس طرف دیہان ہی نہیں گیا۔ وہ تو بس اپنی پاکدامن نئی نویلی بیوی کو کسی غیر مرد کے ساتھ سیکس کرتے تصور کر کے گرم ہوا جا رہا تھا۔ عائشہ بھی گرم تھی لیکن کم از کم اسے اپنے جذبات پر قابو کر کے دماغ استعمال کرنے کا ہوش تھا۔
عائشہ نے سفیان کو بتایا کہ بہتر یہ ہے کہ جب وہ طواف کریں تو کوئی نہ کوئی ضرور عائشہ کو چھیڑے گا، اسے بلا لیں گے۔
سفیان فوراً مان گیا۔
دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے طواف کیلئے مختص حصے کی جانب بڑھے اور طواف کا آغاز کیا۔ چند منٹوں میں ہی عائشہ کو اپنے کولہوں پر کسی کا لمس محسوس ہونے لگا۔ اس نے مڑ کر نہیں دیکھا لیکن جو اس نے محسوس کیا، اسے اچھا لگا۔ اس کی اندام نہانی تر ہونے لگی اور اس نے سفیان کے ہاتھ پر اپنے ہاتھ کا دباؤ بڑھا دیا۔ یہ سفیان کیلئے اشارہ تھا کہ عائشہ کو یہ مرد پسند ہے۔ سفیان نے نظر بچا کر پیچھے دیکھا تو ایک لمحے کو اس نے سوچا عائشہ کو بتا دے کہ یہ تو کالا حبشی ہے لیکن اس نے کچھ سوچ کر عائشہ کو کچھ نہ بتایا بلکہ حبشی کو اشارے سے اپنے پیچھے آنے کا کہا۔
پھر اس نے عائشہ کا ہاتھ تھامے طواف سے باہر نکلنے کیلئے سائیڈ پر ہونا شروع کر دیا۔ حبشی کچھ فاصلے سے ان کے پیچھے آ رہا تھا۔ عائشہ چاہنے کے باوجود مڑ کر اسے دیکھنے کی ہمت نہ کر پائی۔
سفیان اور عائشہ تیز تیز قدم اٹھائے ہوٹل کی طرف بڑھ رہے تھے۔ عائشہ کا دل اتنا تیز دھڑک رہا تھا کہ لگتا تھا سینہ چیر کر باہر آ جائے گا۔ سفیان کا بھی کچھ ایسا ہی حال تھا۔
دونوں کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ واقعی یہ سب کچھ اصل زندگی میں ہو رہا ہے۔ ایسا احساس ہو رہا تھی جیسے دونوں کوئی خواب دیکھ رہے ہوں۔
یہ خواب والی فیلنگ برقرار ہی رہتی لیکن جب عائشہ نے کمرے میں پہنچ کر مڑ کر دیکھا تو وہ اسے ایک دم سے جھٹکا لگا۔ سفیان حبشی سے ہاتھ ملا کر اسے کمرے میں بلا رہا تھا۔ عائشہ کے تو قدم ایک جگہ رک سے گئے تھے لیکن اس نے خود کو سنبھالا اور جب سفیان نے حبشی کا عائشہ سے تعارف کروایا کہ یہ میری بیوی ہیں تو عائشہ نے مسکراتے ہوئے اس حبشی سے ہاتھ ملایا۔ حبشی کے ہاتھ کا دباؤ اپنے ہاتھ پر محسوس کر کے جیسے اس کے جسم میں کرنٹ سا دوڑ گیا۔ حبشی نے بھی اس کے نازک ہاتھوں کو معنی خیز انداز میں دبایا تھا۔ عائشہ سفیان کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئی جبکہ حبشی سنگل صوفے پر۔ اسے عربی آتی تھی جبکہ سفیان اور عائشہ کو تو صرف قرآن کی حد تک ہی عربی کا پتہ تھا یا پھر مرحبا اور چند اور الفاظ ازبر تھے۔
سفیان اور حبشی ٹوٹی پھوٹی عربی اور انگریزی میں بات چیت کرنے لگے جبکہ عائشہ سر جھکائے بیٹھی تھی۔ حبشی شاید وقت ضائع کرنے کے موڈ میں نہیں تھا اس لئے اس نے کچھ ہی دیر میں سفیان سے اپنی جگہ تبدیل کر لی۔
سفیان اپنے سامنے اپنی بیوی کو اس حبشی کے پہلو میں بیٹھا دیکھ کر پاگل ہوا جا رہا تھا۔ اس کی نظریں حبشی کے ہاتھوں پر تھیں۔ ایک ہاتھ اس نے عائشہ کی گردن کے پیچھے سے گزار کر اس کے کندھے پر رکھا ہوا تھا جبکہ دوسرے ہاتھ سے عائشہ کا منہ اپنی طرف کر کے اس کے خوبصورت چہرے کے خدو خال دیکھ رہا تھا۔ عائشہ نے ایک لمحے کیلئے اس کی آنکھوں میں دیکھا اور فوراً ہی نظریں جھکا لیں۔ اسے بے انتہا شرم آ رہی تھی۔ ایک غیر مرد اس کے ساتھ چپکا بیٹھا تھا جبکہ اس کا شوہر جس کا اس کے جسم پر حق تھا وہ سامنے بیٹھا دیکھ رہا تھا۔ حبشی نے عائشہ کو مزید کچھ سوچنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر منہ اوپر کیا اور اپنے ہونٹ عائشہ کے ہونٹوں پر رکھ دئیے۔ پہلے پہل تو صرف بوسے ہوئے لیکن بتدریج حبشی نے عائشہ کے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لے کر زبان سے چوسنے شروع کر دئیے۔ عائشہ کی آنکھیں ہنوز بند تھیں لیکن اب وہ بھی حبشی کا ساتھ دے رہی تھی بوس و کنار میں۔ شرم تو اب بھی تھی لیکن اب ہوس بھی تھی جو بڑھتی جا رہی تھی۔ نہ جانے حبشی کے ہاتھوں میں ایسا کیا تھا کہ عائشہ کو اپنا بدن سلگتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ حبشی کے ایک ہاتھ مسلسل اس کی کمر پر پھیر رہا تھا لیکن احرام کے اوپر سے ہی۔
سفیان کی حالت خراب تھی۔ اس کا عضو تناسل اتنا سخت کو گیا تھا کہ ساری زندگی کبھی اتنا سخت نہیں ہوا تھا۔ اپنی بیوی کو یوں اس حبشی کی بانہوں میں پگھلتا دیکھ کر وہ خود بھی پگھلتا جا رہا تھا۔ اس کی نظریں عائشہ پر جمی ہوئی تھیں اور ہاتھ اپنے عضو تناسل پر جسے وہ احرام سائیڈ پر کر کے باہر نکال چکا تھا۔ حبشی اور عائشہ اس قدر گرم جوشی سے بوس و کنار میں مشغول تھے کہ جیسے ایک دوسرے میں کھو گئے ہوں اور دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہو گئے ہوں۔ حبشی نے عائشہ کے احرام کے اندر ہاتھ ڈال کر اس کی کمر پر ہاتھ ملنا شروع کر دیا۔ عائشہ کو اس کے ہاتھ کا لمس بے چین کئے دے رہا تھا۔ وہ بھی اب حبشی کا بھرپور ساتھ دے رہی تھی۔ دوران بوسہ اس حبشی نے عائشہ کا احرام پیچھے سے اوپر اٹھا دیا تھا اور جب اس نے احرام اتارنے کیلئے چند لمحات کا توقف کیا اور عائشہ کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ جدا کئے تو ان چند لمحات میں عائشہ اور سفیان کی نظریں ٹکرائیں۔ کہنے کو چند لمحات تھے مگر سفیان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے جب حبشی نے عائشہ کا احرام اتار کر اسے الف ننگی کر دیا تو سفیان کے عضو تناسل سے منی کا فوارہ چھوٹ گیا۔ اس نے اپنے عضو تناسل کو اتنی زور سے دبایا کہ منہ سے آہ نکل گئی۔
سفیان کی آہ سن کر حبشی بھی اس کی جانب متوجہ ہوا لیکن سفیان کو ڈسچارج ہوتے دیکھ کر اس کی ہنسی چھوٹ گئی۔ عائشہ نے حبشی کو ہنستے دیکھا تو خود بھی مسکرانے لگی۔ سفیان کے سارے جذبات ہوا ہو چکے تھے۔ وہ اٹھ کر واش روم کی طرف بھاگا تاکہ مادہ منویہ صاف کر سکے۔ واش روم کا دروازہ بند کر کے وہ ایک دم نیچے گر گیا اور دروازے کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ عائشہ اور حبشی کی ہنسی کی آوازیں اب بھی اس کے کانوں میں پڑ رہی تھیں۔ نہ جانے حبشی کیا کر رہا تھا کہ عائشہ دھیمے دھیمے ہنس بھی رہی تھی۔ سفیان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ سوچنے لگا کہ وہ ہوس میں یہ کیا کر بیٹھا ہے۔ اتنی پیاری بیوی کو ایک غیر مرد کی بانہوں میں دے کر کیا اس نے بہت سنگین غلطی کر دی ہے؟ اس کی سوچیں بتدریج بڑھتی چلی گئیں اور وہ رونے لگا۔ حتیٰ الامکان کوشش کی کہ اس کی آوازیں باہر نہ جانے پائیں۔