Language:

Search

عمرہ ہنی مون 14 - Last Episode

  • Share this:

نہ جانے دونوں کتنی دیر ایسے ہی پڑے رہے۔ پہل حبشی نے کی۔ وہ اٹھ کر عائشہ کی دائیں جانب لیٹ گیا اور عائشہ کو بھی اہنے ساتھ چپکا لیا۔ چومنے چاٹنے سے دونوں کو گرم ہونے میں کچھ ہی منٹ لگے۔ اس بار حبشی نے عائشہ کو گھوڑی بنا کر پیچھے سے اس کی اندام نہانی میں اپنا گھوڑے کے سائز کا عضو تناسل داخل کیا۔ عائشہ کیلئے ہر پوزیشن میں سیکس پہلے سے مزیدار ثابت ہوا۔ سفیان ایسے ہی بیٹھا رہا۔ اپنی بیوی کو حبشی کے ہاتھوں استعمال ہوتے دیکھتا رہا۔ اس کی نظروں کے سامنے حبشی نے کئی بار عائشہ کے ساتھ مباشرت کی۔ کئی بار عائشہ نے حبشی کے عضو تناسل پر چڑھ کر اچھل اچھل کر مزے لئے۔ کئی بار حبشی نے عائشہ کو گود میں اٹھا کر سیکس کیا۔ کئی بار عائشہ نے حبشی کا عضو تناسل چوسا۔ کئی بار حبشی عائشہ کی اندام نہانی میں ڈسچارج ہوا۔ تقریباً ساری رات وہ دونوں سیکس کرتے رہے۔ سفیان نیچے فرش پر ہی لیٹ گیا اور آنکھیں بند کر لیں۔ کافی دیر تک اس کے کانوں میں اپنی بیوی اور اس حبشی کی لذت آمیز آوازیں آتی رہیں۔ اسے کچھ پتہ نہیں چلا کب وہ نیند کی وادی میں جا پہنچا۔
جب آنکھ کھلی تو بستر پر کوئی نہیں تھا اور غسل خانے سے پانی کی آوازیں آ رہی تھیں۔ ڈرتے ڈرتے اس نے غسل خانے کا دروازہ کھولا لیکن اس کی توقعات کے برعکس وہاں عائشہ اکیلی نہا رہی تھی۔ سفیان کو دیکھ کر عائشہ نے اشارہ کیا جیسے اسے بلا رہی ہو۔ سفیان جو ابھی تک رات والے احرام میں ملبوس تھا، اسے اتار کر فوراً عائشہ کے پاس جا پہنچا اور اسے بھینچ کر گلے لگایا۔ عائشہ حیران تھی کہ سفیان اس طرح پھوٹ پھوٹ کر کیوں رو رہا ہے۔ اسے تو خوش ہونا چاہیے۔ لیکن اس نے کچھ کہا نہیں۔
سفیان نے کچھ دیر رونے کے بعد عائشہ کو اپنی محبت کا یقین دلانا شروع کر دیا جیسے اسے ڈر کو کہ عائشہ اسے چھوڑ کر کسی اور سے محبت کرنے لگے گی۔ عائشہ نے اسے تسلی دی کہ وہ بھی اس سے بہت زیادہ محبت کرتی ہے۔ بمشکل سفیان کے جذبات قابو میں آئے۔
رات کے واقعات پر نہ سفیان نے کوئی بات کی نہ ہی عائشہ نے۔ عائشہ کو ڈر تھا کہ سفیان کہیں غصہ نہ کر جائے۔ خصوصاً سفیان کے سونے کے بعد کے واقعات پر جب حبشی اور عائشہ بستر ہر ننگے چپک کر سوئے تھے جبکہ سفیان نیچے فرش پر ٹیڑھا میڑھا سو رہا تھا۔ جب ان کی آنکھ کھلی تھی تب بھی سفیان ایسے ہی سو رہا تھا۔ حبشی اور عائشہ نے غسل خانے میں اکٹھے نہاتے ہوئے بھی سیکس کیا تھا اور حبشی اسے خدا حافظ کہہ کر ابھی رخصت ہی ہوا تھا جب سفیان کی آنکھ کھلی تھی۔ عائشہ نے یہ سب باتیں سفیان کو بتانی مناسب نہیں سمجھیں۔
دونوں نے سامان پیک کیا اور ٹیکسی میں بیٹھ کر ائیرپورٹ کی طرف روانہ ہو گئے جہاں سے انہیں واپس پاکستان جانا تھا۔ ایسا زبردست ہنی مون تو عائشہ کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ ٹیکسی ائیرپورٹ کی طرف رواں دواں تھی اور وہ سوچوں میں گم تھی کہ کیسی عجیب بات ہے کہ وہ چاہتے ہوئے بھی گزرے ہوئے تمام واقعات کسی سے کبھی شئیر نہیں کر پائے گی۔ جب سفیان نے ہاتھ بڑھا کر اس کے کندھے کے پیچھے سے اس کا سر اپنے کندھے پر رکھا تو عائشہ کو اس کی آنکھوں میں پہلے کی سی چمک نظر آئی جس کا مطلب تھا کہ ابھی اور بہت کچھ ہونا باقی ہے۔

 
Quratulain Tahira

Quratulain Tahira