فیصل حسب معمول اپنے موبائل فون پر پورن فلمیں دیکھ رہا تھا جب اس کی توجہ ایک ویڈیو نے اپنی طرف مبذول کروا لی۔ ویڈیو کا ٹائٹل تھا "نیوڈسٹ بیچ"۔ فیصل نے ویڈیو چلائی تو معلوم ہوا کہ یہ ویڈیو چھپ کر فلمائی گئی ہے خفیہ کیمروں کے ذریعے اور اس میں نارمل پورن فلموں والی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ آدھے گھنٹے کی اس ویڈیو میں اسے نہ تو کسی مرد کا لنڈ کھڑا نظر آیا تھا اور نہ ہی کوئی عورت کسی مرد کا لنڈ منہ میں لئے لالی پاپ کی طرح چوستی نظر آئی تھی۔ اگر کچھ تھا تو صرف ننگا پن۔ اگرچہ ننگا پن بھی فیصل کے لنڈ کو کھڑا کرنے کیلئے کافی تھا لیکن وقتی طور پر ہی بس۔ فیصل نے تو اس امید پر ویڈیو چلائی تھی کہ یقیناً اس میں ساحل سمندر پر لوگوں کی موجودگی میں چند لوگ سیکس کریں گے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ ساحل سمندر پر لوگ تو کافی سارے تھے لیکن پوری ویڈیو میں انہوں نے کوئی ایسا عمل نہیں دہرایا جو کہ کپڑوں میں ملبوس لوگ کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ اگر ان میں اور باقی لوگوں میں کوئی فرق تھا تو صرف کپڑوں کا۔ باقی تمام کام ان کے عام لوگوں جیسے ہی تھے۔ سمندر کی لہروں سے اٹھکھیلیاں کرتے بچے، ریت پر دھوپ سینکتے افراد اور فیملیز پکنک مناتے ہوئے۔ فیصل نے اس امید پر پوری ویڈیو دیکھ ڈالی کہ شاید آخر میں ہی کوئی سیکس سین ہو لیکن مایوسی ہی اس کا مقدر بنی۔ لیکن اس ویڈیو نے فیصل کے دماغ میں تجسس کی نئی جہتیں پیدا کر دی تھیں۔ اس کیلئے نہ صرف یہ نئی بات تھی بلکہ ایسا سوچنا بھی محال تھا کہ اتنے لوگ ننگے ایک ساتھ پھر رہے ہوں اور کوئی سیکس تو دور کی بات، کوئی کسی کو چھیڑ بھی نہیں رہا تھا۔ دوسری بات یہ کہ مردوں کے لنڈ بھی لٹکے ہوئے تھے۔ اپنا تو اسے پتہ تھا کہ برقع پوش لڑکیوں اور خواتین کو دیکھ کر بھی اسے اپنے لنڈ کو کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا تھا تو اگر کسی لڑکی یا عورت کو ننگی دیکھ لیتا تو شاید وہ بے قابو ہی ہو جاتا۔ نہ جانے یہ تجسس تھا یا پھر ٹھرک تھی جس نے فیصل کو مجبور کیا کہ وہ گوگل پر نیوڈزم لکھ کر سرچ کرے۔ وجہ جو بھی رہی ہو، فیصل کو تجسس کے ساتھ ساتھ مزہ بھی آ رہا تھا۔ پہلے پہل اس نے نیوڈسٹ ویب سائٹس پر تصاویر دیکھنے پر اکتفا کیا۔ ایک ہاتھ سے لند تھامے جب اس نے ننگی تصاویر دیکھنا شروع کیں تو اسے ذیادہ وقت نہیں لگا ڈسچارج ہونے میں۔
ڈسچارج ہونے پر ٹھرک تو ہوا ہو گئی لیکن تجسس برقرار رہا۔ یکے بعد دیگرے کئی ویب سائٹس کو دیکھنے کے بعد فیصل کو ایسا لگنے لگا جیسے اس نے کوئی نئی دنیا دریافت کر لی ہو۔ وہ دسویں جماعت کا طالب علم تھا اور اپنی بیوہ ماں کے ہمراہ دہلی میں رہتا تھا۔ اس عمر میں نئی نئی بلوغت کی وجہ سے انسان خصوصاً لڑکوں میں ٹھرک پن بے انتہا ہوتا ہے۔ فیصل کا بھی یہی حال تھا لیکن جب فیصل نے برہنہ طرز زندگی کو ایکسپلور کیا تو اسے اندازہ ہوا کہ اس کا تعلق سیکس سے نہیں ہے اور فیصل کے اس طرز زندگی کو اپنانے کے پیچھے بھی ٹھرک پن سے زیادہ تجسس کا جذبہ کار فرما تھا۔
گھر میں جب بھی موقع ملتا، فیصل کپڑے اتار دیتا۔ اس کا گھر اتنا بڑا نہیں تھا لیکن فیصل کا اپنا کمرہ تھا جس میں وہ آزادانہ ننگا رہ کر سکول کا کام کرتا، ویڈیو گیمز کھیلتا اور جب ٹھرک بہت بے چین کرتی تو کسی نیوڈسٹ لڑکی کا تصور کر کے مٹھ مار لیتا۔ شروع شروع میں تو فیصل کا لنڈ کھڑا ہی رہتا جب تک وہ کپڑے نہ پہنتا لیکن بتدریج اسے ننگا رہنے کی عادت ہونے لگی۔ اپنے کمرے میں تو وہ ننگا رہ لیتا تھا لیکن اب اس کا دل کرتا تھا کہ کچھ نیا کیا جائے۔ کچھ انوکھا۔ کچھ سپیشل۔ اگرچہ معاشرتی اور مذہبی اصولوں کی وجہ سے وہ یہ بات اپنی والدہ سے نہیں کر سکتا تھا لیکن بچپن میں والد کے انتقال کے بعد سے اپنی والدہ سے انتہائی قریبی تعلق کی وجہ سے فیصل کا دل چاہا تھا کہ یہ بات سب سے پہلے اپنی والدہ سے ڈسکس کرے۔ شاید اسکی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس کی والدہ فرحانہ نے نہ صرف فیصل کو کبھی باپ کی کمی محسوس نہ ہونے دی تھی بلکہ فیصل کی تربیت ایسے انداز میں کی تھی کہ فیصل اپنی والدہ سے کوئی بات پوشیدہ نہ رکھتا تھا سوائے اپنی پورن فلمیں دیکھنے کی عادت کے۔
بہرحال، دل اور دماغ کی اس جنگ میں فتح دماغ کی ہوئی جس نے فیصل کو اپنی والدہ سے یہ بات کرنے سے روکا تھا۔ کیونکہ فیصل کو یہ ڈر بھی تھا کہ ہو سکتا ہے فیصل کی والدہ یہ نتیجہ اخذ کریں کہ فیصل جنسی طور پر اپنی ہی والدہ میں دلچسپی لے رہا ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ فیصل نے ہمیشہ والدہ کو مقدس رشتہ جانا تھا اور ان کے بارے میں ایسی سوچ بھی رکھنا اس کیلئے تکلیف دہ تھا۔ غیر متوقع نتائج کے ڈر سے فیصل نے والدہ کی بجائے اپنے سکول کے دوست سے یہ بات کرنے کا فیصلہ کیا جس کا نام شنکر تھا۔ شنکر اس کا بچپن کا دوست تھا جس کا فیصل کے گھر بھی آنا جانا تھا۔