Language:

Search

فیصل قسط نمبر 2

  • Share this:

فیصل نے جب یہ بات شنکر کو بتائی تو اس کا ردعمل بھی فیصل سے کچھ مختلف نہ تھا۔ حیرت اور ٹھرک پن۔ اب حالت یہ تھی کہ دونوں اپنے اپنے گھروں میں موقع ملنے پر ننگے رہا کرتے اور سکول میں اپنے اپنے تجربات ایک دوسرے سے ڈسکس کرتے لیکن جلد ہی وہ دونوں کچھ مزید کرنے کیلئے بے چین ہو گئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک دن شنکر کے فیصل کے گھر آنے پر دونوں نے اکٹھے ننگا ہونے کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ فرحانہ گھر پر ہی تھیں لیکن وہ عموماً فیصل اور شنکر کے درمیان مداخلت نہیں کرتی تھیں کیونکہ وہ دونوں اکثر ویڈیو گیمز ہی کھیلا کرتے تھے۔ انہیں کیا خبر تھی کہ ان کا سپوت اب ویڈیو گیمز سے نکل کر بالغ گیمز کی حدود میں قدم رکھ چکا ہے۔ شنکر اور فیصل کے پہلی بار ایک دوسرے کے سامنے ننگے ہونے پر تقریباً ایک جیسے ہی جذبات تھے۔ اگرچہ دونوں ہی لڑکیوں کی جانب رغبت رکھتے تھے اور ان کی پورن دیکھنے کی عادت بھی لڑکی اور لڑکے کے درمیان جنسی تعلق تک ہی محدود تھی لیکن ایسے ایک دوسرے کو ننگا دیکھنے پر دونوں کے لنڈ ایک دم تن گئے تھے۔ باوجود تناؤ کے، لنڈ چھپانے کی کوشش نہ فیصل نے کی نہ ہی شنکر نے۔ دونوں کی عمر برابر تھی اور قد و قامت بھی ایک جیسا تھا لیکن شنکر کا لنڈ فیصل کے لنڈ سے قدرے بڑا تھا۔ شاید اسکی وجہ یہ ہو کہ فیصل کے لنڈ کی کھال بچپن میں ہی ختنوں کی وجہ سے کاٹ دی گئی تھی جبکہ شنکر کا لنڈ مکمل قدرتی حالت میں بڑھ کر اس حالت کو پہنچا تھا۔
فیصل نے لیپ ٹاپ اٹھایا اور دونوں بیڈ پر ٹیک لگا کر انٹرنیٹ پر نیوڈزم یعنی ننگے طرز زندگی کے اصولوں پر تحقیق کرنے لگے۔
دونوں کو ہی اندازہ نہیں تھا کہ یہ تحقیق انہیں اس قدر گرم کر دے گی کہ لنڈ پکڑنا ناگزیر ہو جائے گا لیکن ہوا یہی۔ نیوڈزم پر تحقیق تصاویر کے بغیر ادھوری ہے اور تصاویر دیکھنے پر کسی بھی نئے نیوڈسٹ مرد کا لنڈ اکڑنا قدرتی بات ہے۔ دونوں نے ایک ہاتھ میں اپنا اپنا لنڈ پکڑ رکھا تھا اور نظریں کمپیوٹر سکرین پر تھیں۔ جیسے جیسے ننگی تصاویر سکرین پر نظر آتی جاتی تھیں، ویسے ویسے ان کا جذبہ بھی عروج پر پہنچ رہا تھا۔ فیصل کو ڈسچارج ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ ایک جھٹکے سے اس کے لنڈ سے منی اور منہ سے آہ نکل گئی۔ شنکر فیصل کے مقابلے میں زیادہ مضبوط معلوم ہوتا تھا کیونکہ وہ اب بھی ڈسچارج نہیں ہوا تھا۔ فیصل کی ٹھرک منی نکلتے ساتھ ہی ٹھنڈی پڑ گئی اور وہ غسل خانے میں لنڈ اور باقی جسم دھونے چلا گیا۔ شنکر بدستور کمپیوٹر سکرین پر نظریں گاڑے تحقیق میں مشغول تھا۔ اس کی تحقیق کا فوکس فیملی نیوڈزم تھا۔ شنکر ایک یتیم بچہ تھا اور حکومت کے قائم کردہ یتیم خانے میں رہا کرتا تھا۔ شاید اسی لئے اس کا فوکس فیملی پر زیادہ تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کاش اس کے بھی والدین ہوتے جن کے ساتھ مل کر وہ یہ طرز زندگی اپنا سکتا۔
فیصل غسل خانے سے واپس آ کر بیڈ پر نڈھال ہو گیا۔ اس کا لنڈ اب للی میں تبدیل ہو گیا تھا۔ ویسے تو کھڑے ہونے پر بھی اس کے لنڈ کی لمبائی شنکر کے لنڈ سے واضح طور پر کم تھی لیکن اب تو بالکل ہی چھوٹا سا ہو گیا تھا۔ فیصل کو خود بھی اندازہ تھا کہ شنکر کا سائز کافی بڑا ہے۔ اگرچہ نیوڈزم میں لنڈ کی لمبائی چوڑائی یا جسم کے کسی بھی خدوخال کی وجہ سے احساس برتری یا کمتری کی گنجائش نہیں ہوتی لیکن چونکہ انسانی ذہن معاشرتی رویوں کی وجہ سے اس طرز پر ڈھل چکا ہے کہ ایسی باتیں نظر انداز کرنا تقریباً ناممکن ہی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ فیصل کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ وہ شنکر سے کمتر ہے۔ شنکر کے دل میں بھی احساس برتری تو تھا لیکن وہ فیصل کا گہرا دوست تھا اس لیے اس نے ہر ممکن کوشش کی کہ اس کا اندازہ چہرے کے تاثرات یا اس کی باڈی لینگویج سے نہ ہونے پائے۔ فیصل جب بیڈ ہر لیٹا تو شنکر نے اس کے چہرے کے تاثرات سے ہی بھانپ لیا تھا کہ وہ اداس ہے۔
فیصل آنکھیں بند کئے لیٹا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کاش اس کا لنڈ بھی بڑا ہوتا۔ کم از کم شنکر جتنا تو ہوتا تاکہ شرمندگی نہ ہوتی۔ شنکر نے جب فیصل کو دیکھا تو اس سے رہا نہ گیا۔ وہ فوراً اٹھ کر فیصل کے قریب آیا اور فیصل کا ہاتھ تھام لیا۔ فیصل نے فوراً آنکھیں کھول دیں۔ شنکر نے پیار بھرے لہجے میں پوچھا کہ دوست کیا بات ہے؟ کیوں پریشان ہو؟
فیصل تو پہلے ہی اداس تھا، اب شنکر کے اتنے پیار سے پوچھنے پر بے اختیار اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ شنکر کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اپنے دوست کو کیسے دلاسا دے۔ اس نے پہلے تو فیصل کا ہاتھ تھام کر اسے زبانی دلاسے دئے کہ وہ چپ ہو جائے لیکن فیصل کی حالت دیکھ کر اسے فیصل کو گلے لگانا پڑا۔ دونوں کے ننگے بدن ایک دوسرے سے ٹکرائے۔ پہلے بھی دونوں کئی بار گلے مل چکے تھے لیکن بنا لباس کے پہلی بار گلے ملنے پر ایک عجیب سا احساس دونوں کے دلوں میں پیدا ہو گیا۔ اس احساس کو نہ تو ٹھرک کہا جا سکتا ہے نہ کچھ اور۔ بس ایک بے نام سا جذبہ۔ اسی جذبے کا اثر تھا کہ فیصل رونا بھول گیا۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ اس کے سوئے لنڈ میں دوبارہ سے زندگی کے آثار نمودار ہو رہے ہیں۔ دونوں کے لنڈ آپس میں چھو رہے تھے۔ شنکر کو بھی ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ فیصل کا لنڈ اکڑتا جا رہا ہے۔ اگرچہ فیصل اب رو نہیں رہا تھا لیکن دونوں بدستور گلے لگے ہوئے تھے۔ وہی عجیب سا بے نام جذبہ تھا جو ان دونوں نوجوان لڑکوں کو مجبور کر رہا تھا کہ وہ ایسے ہی گلے لگے رہیں۔ پہل شنکر نے کی۔ اس نے فیصل کا منہ تھوڑا پیچھے کیا اور محبت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ گاڑ دئیے۔ اف۔ دونوں ہی ہواؤں میں اڑ رہے تھے۔ ایسے ہی چومتے ہوئے فیصل نے ایک ہاتھ بڑھا کر شنکر کا لنڈ تھام لیا۔ بظاہر تو یہ معمولی بات تھی حالات کے تناظر میں لیکن اس کا اثر دو آتشہ تھا۔ لنڈ تھامنے کی دیر تھی کہ شنکر کے لنڈ سے منی کا فوارہ نکلا اور فیصل کے لنڈ ٹٹوں اور جانگوں کو سفید کریم سے تر کر گیا۔ فیصل کا لنڈ بھی مکمل تنا ہوا تھا۔ ابھی شنکر کے لنڈ سے منی کا سلسلہ ختم بھی نہ ہوا تھا کہ فیصل کے لنڈ نے بھی منی نکال دی لیکن فیصل کے لنڈ سے منی نکلنے کے عمل کو فوارہ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ شنکر کے مقابلے میں نہ صرف منی کم تھی بلکہ جھٹکے بھی بہت کم پاور فل تھے۔ اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا تھا کہ فیصل کے لنڈ سے جو منی نکلی وہ شنکر کے اتنے قریب ہونے کے باوجود فیصل کی اپنی ہی ٹانگوں پر لگی۔ جھٹکے تو اسے محسوس ہوئے تھے لیکن ان جھٹکوں میں وہ طاقت نہیں تھی کہ منی کو اچھال کر دور پھینک سکتے۔
یہ دن ان دونوں کی زندگی میں سنگ میل ثابت ہوا کیونکہ اس دن کے بعد سے ان دونوں کی دوستی محبت میں تبدیل ہو گئی۔ خصوصاً فیصل کیلئے۔ اس کی تابعدار قسم کی طبیعت کی وجہ سے اب اسے شنکر سے والہانہ محبت تھی۔ ٹھرک سے بھی بڑھ کر۔
 

Quratulain Tahira

Quratulain Tahira