Language:

Search

فیصل قسط نمبر 3

  • Share this:

فیصل کی دلچسپی اس دن کے بعد سے لڑکیوں میں کافی کم ہو گئی تھی۔ اسے اب لڑکیوں کو دیکھ کر کچھ ذیادہ خوشی نہیں ہوتی تھی جبکہ شنکر میں اس کی دلچسپی اتنی بڑھ گئی تھی کہ سکول میں ہاتھ ملانے پر بھی فیصل کا لنڈ ایک دم تن جاتا تھا۔ اس کا اپنے لنڈ پر اتنا کنٹرول بھی نہیں تھا جتنا شنکر کو تھا۔ دوسری جانب شنکر پر اس دن کے واقعے کا اثر تو ہوا تھا لیکن اس سے اس کی لڑکیوں میں دلچسپی کم نہ ہوئی تھی بلکہ اور بڑھ گئی تھی۔ اس سب کے باوجود شنکر اپنے دل سے فیملی نہ ہونے کا احساس زائل نہ کر پایا تھا۔ اب وہ روز فیصل کے گھر جایا کرتا تھا جہاں دونوں ننگے ہو کر ایک ساتھ پڑھتے، گیمز کھیلتے اور جب ذیادہ ہارنی ہوتے تو ایک دوسرے کی مٹھ مارتے۔ ایسے میں فیصل کے جذبات حد سے بڑھتے جا رہے تھے۔ وہ شنکر کے لنڈ سے بہت متاثر تھا۔ شنکر کے کمرے میں داخل ہوتے ہی اسے بھینچ لیتا اور اس کے کپڑے اتار کر اس کے جسم پر والہانہ انداز میں بوسے ثبت کرنے لگتا۔ یہ بوسے تمام جسم بشمول لنڈ پر ہوتے لیکن لنڈ پر بوسہ دیتے وقت فیصل لنڈ منہ میں لے کر چوسنے لگتا۔ شنکر بھی خوب مزے لیتا تھا۔ اب روز کا معمول یہ تھا کہ سکول کے بعد شنکر اور فیصل اکٹھے فیصل کے گھر آتے۔ فیصل کی والدہ کھانا تیار رکھتی تھیں۔ تینوں اکٹھے کھانا کھاتے۔ شنکر اگرچہ ہندو تھا لیکن فیصل اور اس کی والدہ نے کبھی اسے اس بات کا احساس نہ ہونے دیا تھا بلکہ فیصل کی والدہ تو شنکر کو فیصل سے بھی بڑھ کر پیار کیا کرتی تھیں۔ شنکر کو بھی فیصل کی والدہ کی شکل میں ایک ماں نصیب ہو گئی تھی۔ کھانے کے بعد دونوں فیصل کے کمرے میں جاتے جہاں فیصل فوراً شنکر کو اور خود کو لباس سے بے نیاز کر دیتا اور شنکر کا لنڈ چوس کر اس کی اور اپنی منی نکالتا۔ فیصل کی تو یہ حالت تھی کہ شنکر کا لنڈ منہ میں لے کر چوس رہا ہوتا تھا اور شنکر سے بھی پہلے ڈسچارج ہو جاتا تھا۔ فیصل کی شنکر سے محبت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا تھا کہ وہ شنکر کے لنڈ سے نکلنے والی منی کو ضائع نہیں کرتا تھا بلکہ پی جاتا تھا۔ منی نکالنے کے بعد دونوں ایک دوسرے سے چپک کر ننگے سو جاتے۔ شام سے ذرا پہلے اٹھ کر سکول کا کام کرتے، پھر کمپیوٹر پر ویڈیو گیمز کھیلتے یا انٹرنیٹ پر مختلف چیزیں دیکھتے۔ مغرب کے وقت شنکر کپڑے پہن کر فیصل کے گھر سے رخصت ہو جاتا تھا۔
آہستہ آہستہ فیصل کی دلچسپی لڑکیوں میں بالکل ہی ختم ہو گئی۔ اب تو وہ کسی لڑکی کو ننگا بھی دیکھ لیتا تو اس کے لنڈ میں ذرا بھی ہلچل نہ ہوتی۔ شنکر کو بھی اس بات کا اندازہ تھا کہ فیصل اب گے بن چکا ہے۔ حقیقت تو یہ تھی کہ شنکر فیصل کے رویے سے کسی قدر پریشان بھی تھا کیونکہ فیصل کا رویہ بعض اوقات حد سے بڑھ جاتا تھا۔ شنکر فیصل کو محض ایک دوست سمجھتا تھا لیکن فیصل کا یہ تقاضا تھا کہ شنکر بھی اس سے اتنی ہی والہانہ محبت کرے جیسے فیصل شنکر سے کرتا تھا۔ شنکر کیلئے یہ نا ممکن تھا کیونکہ وہ فیصل کی طرح گے نہیں تھا۔ فیصل سے لنڈ چسوانے کا مزہ اپنی جگہ لیکن وہ اب بھی لڑکیوں میں ہی انٹرسٹڈ تھا۔ فیصل کا رویہ بتدریج مزید انتہا کی طرف جا رہا تھا جس نے شنکر کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اسے کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے گا ورنہ کہیں فیصل کوئی انتہائی اقدام نہ اٹھا لے۔
شنکر نے بہت سوچا اور بلاآخر اس فیصلے پر پہنچا کہ فیصل کی والدہ کو اعتماد میں لیا جائے۔ اسی مقصد پر عمل کرنے کیلئے اس نے فیصل کو بتایا کہ وہ کل چھٹی پر ہو گا۔ اگلے دن جب فیصل سکول میں تھا اور شنکر کے بغیر اداسی سے کلاسیں پڑھ رہا تھا تو شنکر فیصل کے گھر جا پہنچا۔
دستک دینے پر فیصل کی والدہ نے دروازہ کھولا جو شنکر کو دروازے پر دیکھ کر حیران رہ گئیں۔ شنکر نے انہیں بتایا کہ وہ ایک ضروری بات کرنا چاہتا ہے۔ فیصل کی والدہ نے شنکر کو اندر بلا تو لیا لیکن شنکر ان کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر دل ہی دل میں حیران ضرور ہوا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ کسی اور کا انتظار کر رہی ہوں۔ بہرحال، شنکر کو فیصل کی والدہ نے ڈرائنگ روم میں صوفے پر بٹھایا اور خود اس کے سامنے بیٹھ گئیں۔ شنکر نے انہیں بتانا شروع کیا کہ کس طرح اس نے اور فیصل نے انٹرنیٹ پر ایک ایسا معاشرہ دیکھا جس میں لوگ لباس کے بغیر رہتے ہیں۔ شنکر نے جان بوجھ کر انہیں یہ بات نہیں بتائی کہ فیصل اور وہ ایک دوسرے کی مٹھ بھی مارتے ہیں اور ننگے ہو کر اکٹھے سوتے بھی ہیں۔ فیصل کی والدہ شنکر کے منہ سے یہ سب باتیں سن کر حیران تو تھیں لیکن وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ یہ اکیسویں صدی ہے اور لوگ نئی نئی چیزیں اپنا رہے ہیں۔ انہوں نے شنکر کی تمام روداد تحمل سے سنی۔ وی ویسے بھی بہت شفیق خاتون تھیں اور انہیں غصہ بہت کم آتا تھا۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ نہ تو وہ بہت بوڑھی خاتون تھیں اور نہ ہی ان پڑھ۔ ان کی عمر قریب کوئی انتالیس برس رہی ہو گی اور وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نہ ہونے کے باوجود اتنی تعلیم یافتہ ضرور تھیں کہ ان کا اخلاق اپنی عمر کی خواتین سے لاکھ گنا بہتر تھا۔
شنکر کی تمام روداد کا جواب دینے کیلئے انہوں نے منہ کھولا ہی تھا کہ دروازے کی گھنٹی بج اٹھی۔ اول تو فیصل کی والدہ پہلے ہی شنکر کو دیکھ کر گھبرا گئی تھیں اور دوران گفتگو بھی دروازے کی جانب ان کی نظریں بار بار اٹھ رہی تھیں لیکن جب گھنٹی بجی تو ان کے چہرے کا رنگ یکدم فق ہو گیا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ چوری کرتے رنگے ہاتھوں پکڑی گئی ہوں۔ گھنٹی بجانے والے میں بھی صبر نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ وہ بھی بیل پر بیل دئیے جا رہا تھا۔ فیصل کی والدہ صوفے سے اٹھیں اور مردہ قدموں کے ساتھ دروازے کی جانب بڑھیں۔ شنکر تو یہ سوچ کر آیا تھا کہ فیصل کی والدہ غصے ہونگی اور اسے انہیں منانے کیلئے نہ جانے کتنے دلائل دینے پڑیں گے اور ہو سکتا ہے توبہ ہی کرنی پڑے اس سب گورکھ دھندے سے لیکن یہاں تو صورتحال بالکل ہی مختلف تھی۔
شنکر جس جگہ بیٹھا تھا وہاں سے دروازہ بخوبی نظر آ رہا تھا اور اس کی نظریں بھی دروازے کی جانب جاتی فیصل کی والدہ پر ہی گڑی تھیں۔ دروازہ کھولنے کی دیر تھی، آنے والے نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، جھٹ سے اندر داخل ہو گیا جیسے یہ اس کا اپنا گھر ہو۔ شنکر نے فیصل کے گھر میں آنے والے اس شخص کو ایک نظر میں ہی پہچان لیا تھا۔ یہ منشی رام چند تھے۔ علاقے کے معزز آدمی تھے اور غریبوں کی مدد کے حوالے سے خاصے مشہور تھے۔ شنکر نے انہیں نمستے کہا۔ فیصل کی والدہ کو کچھ کہنے کا موقع ہی نہ ملا تھا کیونکہ سب کچھ اس تیزی سے ہوا تھا۔ فیصل کی والدہ بھی دروازہ بند کر کے واپس چلی آئیں۔ شنکر ایک ذہین لڑکا تھا۔ اس نے ساری صورتحال کا اندازہ لگا لیا تھا۔ یقیناً فیصل کی والدہ نے منشی رام چند سے قرض لیا ہو گا اور اب وہ قرض اقساط میں واپس کر رہی ہیں۔ یہاں تک تو اس کا اندازہ سو فیصد درست تھا لیکن یہ بات اس کیلئے حیرانی کا باعث تھی کہ فیصل کی والدہ قرض واپس کیسے کر رہی ہیں کیونکہ ان کا ذریعہ معاش تو محض وہ رقم تھی جو غربت الاؤنس کی مد میں حکومت انہیں فراہم کرتی تھی۔ شنکر نے وہاں سے نکل جانے میں ہی عافیت جانی۔ اس نے فیصل کی والدہ کو سلام کیا اور اجازت چاہی۔ فیصل کی والدہ گم سم کھڑی تھیں۔ انہوں نے محض سر ہلا کر اسے سلام کا جواب دیا اور شنکر گھر سے رخصت ہو گیا۔
 

Quratulain Tahira

Quratulain Tahira