شنکر کے جاتے ہی منشی رام چند صوفے سے اٹھ کھڑے ہوئے اور فیصل کی والدہ کے قریب آ کر انہیں ہوس بھرے انداز میں دبوچ لیا۔ منشی رام چند فیصل کی والدہ کے بدن پر ہاتھ پھیرتے جاتے تھے اور ساتھ ہی ان کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ ثبت کر کے چوستے جاتے تھے۔ فیصل کی والدہ کسمسائ سی معلوم ہوتی تھیں جیسے وہ اس سب کو برا سمجھتی ہوں لیکن کرنے پر مجبور ہوں۔ بدقت انہوں نے منشی رام چند کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ چھڑائے اور کہنے لگیں کہ منشی صاحب دروازہ تو بند کر لینے دیجئے۔ کوئی آ گیا تو خوامخواہ تماشا بن جائے گا۔
منشی صاحب نے بھی انہیں بس اتنا ہی موقع دیا تھا کہ وہ دروازہ بند کر کے واپس آ سکیں کیونکہ ان کی واپسی تک منشی صاحب اپنے بدن کو کپڑوں سے بے نیاز کر چکے تھے۔ اول تو ان کے بدن پر کپڑے تھے ہی کتنے۔ ایک دھوتی اور ایک چولہ۔ کپڑوں کی قید سے آزاد ہو کر ان کا آٹھ انچ لمبا لنڈ ہوا میں ایسے لہرا رہا تھا جیسے فیصل کی والدہ کو سلامی دے رہا ہو۔ منشی رام چند شاید وقت ضائع کرنے کے بالکل قائل نہیں تھے کیونکہ انہوں نے ایک منٹ کے اندر اندر فیصل کی والدہ کو بھی کپڑوں سے بے نیاز کر دیا تھا۔ فیصل کی والدہ کا جسم انتہائی خوبصورت تھا۔ اس عمر میں بھی ان کے جسم میں ایسی کشش تھی کہ دیکھ کر معلوم نہیں ہوتا تھا کہ انکی عمر چالیس کے قریب ہے۔ منشی ان کے بدن پر ندیدوں کی طرح ٹوٹ پڑے۔ پستان منہ میں لے کر چوسنے لگے۔ ایک ہاتھ فیصل کی والدہ کی چوت پر رکھ کر اسے مسلنے لگے لیکن منشی صاحب میں اتنی برداشت نہیں تھی اور شاید وہ جلدی میں بھی تھے کیونکہ انہوں نے ایک آدھ منٹ ہی چومنے چاٹنے میں لگایا ہو گا۔ انہوں نے وہیں صوفے پر فیصل کی والدہ کو جھکا دیا اور پیچھے سے اپنا کالا سیاہ لنڈ فیصل کی والدہ کی چوت میں داخل کر دیا۔ جتنا منشی کا رنگ سیاہ تھا، فیصل کی والدہ کا رنگ اس کا بالکل متضاد تھا۔ منشی صاحب کا لنڈ اندر جاتے ہی فیصل کی والدہ کے منہ سے چیخ نکل گئی کیونکہ منشی صاحب میں ذرا رحم نہیں تھا۔ ایک ہی جھٹکے میں پورا لنڈ اندر تک گھسا دیا تھا اور اب جھٹکے پر جھٹکا مار رہے تھے۔ ہر جھٹکے کے ساتھ فیصل کی والدہ کے منہ سے آہ نکلتی تھی۔ منشی صاحب نے فیصل کی والدہ کے گھنے بال پیچھے سے تھام رکھے تھے اور جب وہ زور سے جھٹکا لگاتے تو بال پیچھے کی جانب کھنچتے تھے۔ ایک طرف منشی صاحب کے لمبے لنڈ کے جھٹکوں سے ہونے والی تکلیف تو دوسری طرف بالوں کے کھینچنے سے درد۔ فیصل کی والدہ بہت تکلیف میں تھیں اور منشی صاحب کو اس کا کوئی احساس نہ تھا۔ انہیں اگر کسی بات کا احساس تھا تو وہ صرف اپنے مزے پورے کرنے کا تھا۔ منشی صاحب کی نظریں فیصل کی والدہ کے سڈول چوتڑوں پر گڑی تھیں۔ ہر جھٹکے کے ساتھ چوت میں اندر باہر ہوتے لنڈ کو دیکھتے ہوئے منشی صاحب کو زیادہ وقت نہ لگا۔ محض پانچ منٹ میں ہی انہوں نے اپنی منی فیصل کی والدہ کی چوت میں خارج کر دی۔ منی نکال کر انہوں نے لنڈ باہر نکالا اور دھوتی اور چولہ پہن کر ایسے چلتے بنے جیسے یہ سب کام ان کی روزمرہ کارروائی کا حصہ ہو۔ انہوں نے فیصل کی والدہ سے ںہ تو کوئی بات کی تھی اور نہ ہی منی نکلنے کے بعد ان پر نظر ڈالی تھی۔ فیصل کی والدہ نڈھال ہو کر صوفے ہر ڈھیر ہو گئی تھیں جبکہ منشی صاحب کب کے باہر کی راہ پدھار چکے تھے۔ فیصل کی والدہ نے اپنی ساری ہمت جمع کی اور کچھ دیر ایسے ہی پڑے رہنے کے بعد اٹھ کر دروازے کی کنڈی لگائی۔ پھر غسل خانے میں جا کر رگڑ رگڑ کر اپنے بدن کی صفائی کی۔ خصوصاً چوت کو اندر تک دھویا کہ کہیں منشی رام چند کی منی کا کوئی قطرہ اندر نہ رہ جائے۔ دوپہر ہونے تک فیصل کی والدہ نے کھانا بھی تیار کر لیا تھا اور جب فیصل گھر آیا تو اس نے اپنی والدہ کے چہرے پر وہی معصومیت اور نرمی دیکھی جو وہ روزانہ دیکھتا تھا۔ اس بے چارے کو کیا معلوم تھا کہ اس کی والدہ اس کی خاطر کیا کیا برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ فیصل کے ساتھ شنکر نہیں آیا تھا۔ فیصل کی والدہ نے فیصل سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ شنکر آج سکول بھی نہیں آیا تھا۔ فیصل کی والدہ فیصل سے اس بارے میں بات تو کرنا چاہتی تھیں جو کچھ شنکر نے انہیں بتایا تھا لیکن وہ چاہتی تھیں کہ یہ سب بات شنکر کی موجودگی میں ہی ہونی چاہیے۔ اسی لئے انہوں نے کوئی بات نہ چھیڑی اور حسب معمول اپنا رویہ بالکل نارمل رکھا۔