وہ شام فیصل، شنکر اور فیصل کی والدہ فرحانہ کیلئے بہت یادگار ثابت ہوئی۔ شنکر جب ان کے گھر آیا تو دھوپ ڈھل رہی تھی۔ فیصل جو تمام صورتحال سے بے خبر تھا، شنکر کے آنے پر بہت خوش ہوا لیکن شنکر کو معلوم تھا کہ آج کی یہ شام روز کی طرح معمولی نوعیت کی نہیں ہے۔ شنکر کے آنے پر فیصل کی والدہ نے اسے ڈرائنگ روم میں ہی صوفے پر بٹھایا۔ اسی صوفے پر جس پر آج صبح ان کی منشی رام چند نے بہت اچھے سے چدائی بلکہ ٹھکائی کی تھی۔ فیصل کو بھی انہوں نے وہیں بلا لیا۔ فیصل کی والدہ نے بات شروع کی۔ جب فیصل کو پتہ چلا کہ شنکر تمام تر باتیں اس کی والدہ کو بتا چکا ہے تو وہ بے یقینی سے شنکر کی جانب دیکھنے لگا۔ شاید وہ یہ سمجھتا تھا کہ شنکر اس سے بے حد پیار کرتا ہے اور کوئی ایسا کام نہیں کرے گا جس سے اس کے اعتبار کو ٹھیس پہنچے۔ فیصل کی والدہ نے کچھ یوں انہیں سمجھانا شروع کیا:
"فیصل بیٹا! شنکر نے مجھے سب کچھ بتا دیا ہے۔ میری طرف دیکھو۔ میں غصے میں بالکل نہیں ہوں۔ صرف تم دونوں کو چند باتیں سمجھانا چاہتی ہوں۔ یہ اکیسویں صدی ہے۔ آئے روز ہم نئی نئی ایجادات، نئی نئی بیماریوں اور ان کے علاج کے متعلق سنتے ہیں۔ جہاں جدیدیت نے تحقیق کے ذریعے ترقی کی راہیں کھول دی ہیں، وہیں انسانی ذہن نے جرائم کے نت نئے طریقے بھی ڈھونڈ لئے ہیں۔ تم دونوں نے جو چیز انٹرنیٹ پر دیکھی ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ آج سے ہزاروں سال پہلے پتھر کے دور میں انسان ایسے ہی رہا کرتے تھے۔ ننگ دھڑنگ۔ پھر جیسے جیسے ترقی کی منازل طے ہوتی گئیں، انسان نے اپنا بدن ڈھانپنا شروع کر دیا۔ آج ہمارے معاشرے میں ننگے پن کو بے حیائ سے منسوب کیا جاتا ہے اور اسے معیوب سمجھا جاتا ہے۔ میری تم دونوں کو یہ نصیحت ہے کہ انٹرنیٹ پر جو بھی دیکھو اس پر آنکھیں بند کر کے محض اس لئے عمل کرنا شروع نہ کر دیا کرو کہ تمہارا نفس تمہیں اکسا رہا ہے۔ تم دونوں ہی عمر کے اس حصے میں ہو جب نئی نئی بلوغت آتی ہے اور انسان جنسی جذبے کے تحت بہت سے ایسے کام کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا جن پر اسے بعد میں پشیمانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔"
فیصل نے اپنی والدہ کو جواب دینے کیلئے منہ کھولا ہی تھا کہ شنکر نے اس کے ہونٹوں پر اپنی انگلی رکھ دی۔ اس نے مناسب سمجھا تھا کہ فیصل کی والدہ کو خود جواب دیا جائے: "آنٹی، آپ کی بات بالکل درست ہے لیکن میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ جو کچھ ہم نے انٹرنیٹ پر دیکھا ہے، وہ معاشرہ جنسی جذبات کی وجہ سے وجود میں نہیں آیا۔ ہم دونوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ وہ لوگ اگرچہ بغیر کپڑوں کے زندگی گزار رہے ہیں لیکن ان کا کوئی عمل بھی جنسی جذبے سے متاثر معلوم نہیں ہوتا۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم دونوں نوجوان ہیں اور اتنے لوگوں کو ایک ساتھ برہنہ دیکھ کر ہم بہک سکتے ہیں لیکن آپ کو اعتماد میں لینے کا مقصد ہی یہی ہے کہ آپ ہماری رہنمائی کریں۔"
شنکر نے بڑی مہارت سے بات کا رخ ہی تبدیل کر دیا تھا۔ دراصل جب اس نے فیصل کی والدہ کا رویہ اتنا نرم اور ہمدردانہ پایا تو اس نے سوچا کیوں نہ انہیں بھی اس معاملے میں شامل کر لیا جائے۔ فیصل کی والدہ بھی شنکر کی بات سن کر کسی حد تک متجسس ہوئیں ورنہ اب تک وہ یہی سمجھ رہی تھیں کہ دونوں بچے ہوس اور ٹھرک کے ہاتھوں مجبور ہو کر انٹرنیٹ پر گندی ویڈیوز دیکھتے رہے ہیں اور اب احساس گناہ میں مبتلا ہو کر اعتراف کر رہے ہیں۔
فیصل کی والدہ کو سوچ میں گم دیکھ کر شنکر نے اپنی بات جاری رکھی: "آنٹی، ہم چاہتے ہیں کہ آپ کو بھی اس طرز زندگی سے روشناس کروا دیں۔ شاید ہم اپنی بات ٹھیک طریقے سے بیان نہیں کر پا رہے یا پھر ہماری کم عمری اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے ہماری بات میں اتنا وزن نہیں کہ آپ کو قائل کر سکیں۔ اگر آپ ایک بار خود سے یہ سب دیکھ لیں تو شاید آپ زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکیں اور یقیناً یہی ہمارے لئے بہتر بھی ہو گا کیونکہ ہم دونوں ہی آپ کی رہنمائی کے متمنی ہیں۔"
فیصل کی والدہ کے چہرے کے تاثرات اس بات کا پتہ دیتے تھے کہ وہ شنکر کی باتوں سے متاثر ہیں۔ بلاشبہ اس کی باتیں اپنی عمر کے لحاظ سے کہیں زیادہ میچیور تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ فیصل کی والدہ نے شنکر کی باتوں پر اثبات میں سر ہلایا اور کہنے لگیں: "ٹھیک ہے بیٹا، میں تیار ہوں۔ فیصل کے والد کی وفات کے بعد میرے لئے فیصل اور تم دنیا میں سب سے اہم ہو۔"
ویسے بھی اگر فیصل کی والدہ سخت رویہ اختیار کرتیں اور غصے کا اظہار کرتیں تو یہ نہ صرف فیصل اور شنکر کو کسی حد تک ان سے متنفر کر دیتا بلکہ یہ بھی ممکن تھا کہ وہ دونوں کوئی غلط راہ اختیار کر بیٹھتے جس کا انجام سب کیلئے تباہ کن ہوتا۔ فیصل اور شنکر دونوں ہی فیصل کی والدہ کے ردعمل سے انتہائی خوش تھے۔
فیصل کی والدہ نے بچوں کی خوشی کی خاطر اس بات پر اقرار تو کر لیا کہ وہ ان کے کہنے پر نیوڈزم سے متعلق مواد ان کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنے کیلئے تیار ہیں لیکن جب وہ تینوں کمپیوٹر سکرین پر نظر آنے والی ننگی تصاویر دیکھ رہے تھے تو فیصل کی والدہ کے جذبات عجیب سے تھے۔ انہیں اندر ہی اندر یہ فکر بھی تھی کہ کہیں وہ خود ہی ان بچوں کو کسی غلط راہ پر تو نہیں دھکیل رہیں۔ اگر ایسا ہوا تو وہ خود کو کبھی معاف نہیں کر پائیں گی۔ ان کی زندگی میں پہلے ہی اتنی پیچیدگیاں تھیں جس کا ان دونوں بچوں کو بالکل علم نہ تھا۔ اگرچہ شنکر ان کے گھر منشی رام چند کی آمد کو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا لیکن فیصل کی والدہ کو اچھی طرح علم تھا کہ شنکر ایسا لڑکا نہیں جو کسی کے بارے میں لوگوں سے باتیں کرتا پھرے۔ ویسے بھی فیصل کی والدہ کا ارادہ تھا کہ فیصل سے علیحدگی میں اسے سمجھانے کے انداز میں اپنا شریک راز بنا لیں گی۔ لیکن وہ تو بعد کی بات تھی، فی الحال تو جو کچھ کمپیوٹر سکرین پر نظر آ رہا تھا، اس کے حوالے سے انہیں کوئی فیصلہ کرنا تھا۔ شنکر کے پاس کمپیوٹر کے کی بورڈ اور ماؤس کا کنٹرول تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ فیصل کے مقابلے میں وہ خود زیادہ اچھی طرح فیصل کی والدہ کو سمجھا سکتا تھا۔ فیصل کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ وہ تو ویسے بھی شنکر کی خوشی میں خوش تھا۔ شنکر فیصل کی والدہ کو نیوڈزم طرز زندگی سے متعلق مختلف اصول و ضوابط کے بارے میں رہنمائی فراہم کر رہا تھا۔ جو اصول و ضوابط اور قواعد شنکر بتا رہا تھا، فیصل کی والدہ ان سے کافی متاثر معلوم ہو رہی تھیں۔
انہوں نے شنکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "جو قوانین تم اس طرز زندگی کے متعلق بتا رہے ہو، یہ تو واقعی بہت شاندار ہیں لیکن مجھے یہ ڈر ہے کہ خونی رشتوں یا پھر مقدس رشتوں سے منسلک افراد ایک دوسرے کے سامنے ننگے ہوں تو ان کے درمیان جنسی تعلق کا اندیشہ بہرحال ہو ہی سکتا ہے۔"
شنکر نے ان کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا: "آنٹی، آپ کی بات بالکل درست ہے لیکن تعلقات خواہ خونی ہوں یا نہ ہوں، یہ خطرہ بہرحال باقی رہے گا لیکن میں نے جو تحقیق کی ہے نیوڈزم سے متعلق، میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جنسی تعلقات کسی سے بھی ہوں، بات ایک ہی ہے۔ خونی تعلقات والے لوگوں سے جنسی تعلقات کو اگرچہ ہمارے معاشرے میں برا سمجھا جاتا ہے اور سائنس نے بھی اپنے بہن بھائیوں اور ماں باپ سے جنسی تعلقات قائم کرنے سے منع کیا ہے لیکن اس دور جدید میں ایسی ایجادات بھی منظر عام پر آ چکی ہیں جن کے استعمال سے ہم خونی رشتوں میں جنسی تعلقات کے برے اثرات سے بچ سکتے ہیں۔ مثلاً ایک خطرہ یہ ہے کہ خونی رشتوں سے جنسی تعلقات کے نتیجے میں اگر حمل ٹھہر جائے تو اولاد کا جسمانی یا ذہنی معذور ہونے کے چانسز بڑھ جاتے ہیں لیکن اس کا علاج سائنس نے دیا ہے کونڈوم کی شکل میں اور مانع حمل گولیوں کی شکل میں بھی۔ دوسری بات یہ ہے کہ خونی رشتوں کا تقدس اور ان سے جنسی تعلقات قائم کرنے سے ممانعت ہمارے معاشرے میں تو رائج ہے لیکن کوئی بھی ذی شعور شخص ان پابندیوں کو خاطر میں لانا پسند نہیں کرے گا۔"
فیصل کی والدہ ذہنی طور پر تقریباً قائل ہو چکی تھیں لیکن سالہاسال کی ذہنی آبیاری کے باعث اپنے بیٹے اور اس کے دوست کے سامنے کپڑے اتار کر مکمل ننگی ہونا ایک ایسا عمل تھا جو ان کیلئے ناممکن تھا لیکن شنکر شاید مکمل تیاری کے ساتھ آیا تھا یا پھر وہ تھا ہی اتنا ذہین کہ موقع کی مناسبت سے دلائل دے کر کسی کو بھی قائل کر سکتا تھا۔ اس نے جب دیکھا کہ فیصل کی والدہ ذہنی طور پر تو قائل معلوم ہوتی ہیں لیکن عملی طور پر اسے اپنانے سے ہچکچا رہی ہیں تو اس نے بات کرنے میں ہی بہتری سمجھی: "آنٹی، یہ آرٹیکل دیکھیں۔ اس میں پہلی بار اس طرز زندگی کو اپنانے والے لوگوں کیلئے رہنمائی ہے۔ اگر آپ کہیں تو چیدہ چیدہ اصول پڑھ کر سناؤں؟"
ظاہر ہے فیصل کی والدہ کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ انہوں نے اثبات میں سر ہلایا۔
"پہلا اصول بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک دوسرے کو ننگا دیکھنے پر جنسی ہیجان ایک قدرتی بات ہے۔ اس سے پریشان نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی جنسی جذبے کے زیر اثر کوئی ایسا کام کرنا چاہیے کہ جس پر بعد میں پچھتاوا ہو۔ یہ بات نصیحت کی جاتی ہے کہ پہلی بار ایک دوسرے کے سامنے ننگے ہونے کی بجائے بہتر یہ ہے کہ علیحدگی میں ننگا ہوا جائے اور اس کے بعد ایک دوسرے کے سامنے آیا جائے۔ ہر ممکن حد تک جسم کے اعضائے مخصوصہ کو چھونے سے گریز کیا جائے۔ مردوں کے عضو تناسل کسی بھی خاتون کو ننگی دیکھ کر تن جاتے ہیں، اس سختی کو برا نہ سمجھا جائے کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ مرد بھی ننگے پن میں ڈھل جاتے ہیں اور عموماً ایک دو مہینے کے بعد یہ حالت ہوتی ہے کہ مردوں کو اپنے عضو تناسل پر مکمل کنٹرول ہو جاتا ہے۔ یہ بنیادی ہدایات ہیں۔"
شنکر بڑے ہی مناسب انداز میں فیصل کی والدہ کو سمجھا رہا تھا لیکن اندر سے وہ خود بھی خاصا گرم ہو رہا تھا۔ اس کا لنڈ مکمل تنا ہوا تھا۔ فی الحال تو بیٹھے ہونے کی وجہ سے یہ سختی سب کی نظروں سے پوشیدہ تھی لیکن وہ نہیں چاہتا تھا کہ فیصل کی والدہ کے ساتھ نیوڈزم کا آغاز ہی اس بات سے ہو کہ وہ اسے مکمل تنے ہوئے لنڈ کے ساتھ دیکھیں۔ اس نے علیحدگی میں ننگے ہونے کی تجویز بھی اسی لئے پیش کی تھی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ فیصل کی والدہ بھی کم گرم نہیں تھیں اور انہیں تجسس بھی تھا کہ ان کا بیٹا اب ننگا ہو کر کیسا لگتا ہو گا۔ بچپن میں تو وہ اسے بے شمار مرتبہ ننگا دیکھ چکی تھیں۔ آخری مرتبہ جب انہوں نے اسے ننگا دیکھا تھا تب اس کی عمر محض سات برس تھی اور اب وہ سولہ سال کا تھا۔ رہ گیا شنکر تو اسے تو فیصل کی والدہ نے کبھی بھی ننگا نہیں دیکھا تھا لہذا اس کے بارے میں تو وہ ایکسائیٹڈ تھیں ہی۔ اس ساری صورتحال میں سب سے برا حال فیصل کا تھا۔ وہ شنکر کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھا تھا اور شنکر اور اپنی والدہ کے درمیان ہونے والی گفتگو سن کر اپنے آپ پر قابو نہ رکھ پایا تھا۔ نتیجتاً جیب میں ہاتھ ڈال کر لنڈ پکڑنے کی غلطی کر بیٹھا اور جب اپنی والدہ کو ننگی تصور کیا تو اس سے کنٹرول نہ ہوا۔ عین اس وقت جب فیصل کی والدہ ننگی ہونے کیلئے اپنے بیڈروم میں جانے کیلئے اس کے کمرے سے باہر نکلیں، اسی وقت فیصل کے لنڈ سے منی خارج ہو گئی۔ شنکر بھی فیصل کے منہ سے نکلنے والی آہ پر سمجھ گیا لیکن اپنے اس دوست کے خود پر کنٹرول نہ ہونے کے معاملے میں وہ کر ہی کیا سکتا تھا۔ جب فیصل اپنا لنڈ مسلنے میں مشغول تھا اور اپنی والدہ کو ننگی تصور کر رہا تھا، شنکر اور اس کی والدہ نیوڈزم کو اپنانے کیلئے اصول طے کر رہے تھے۔ انہوں نے یہ طے کیا تھا کہ فیصل کی والدہ اپنے بیڈروم میں جا کر ننگی ہوں اور وہ دونوں یہیں اس کمرے میں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو پہلے بھی ننگا دیکھ چکے تھے۔ اس کے بعد تینوں ڈرائنگ روم میں اکٹھے ہوں۔
منی نکلنے پر فیصل کے جذبات یکلخت ٹھنڈے پڑ گئے اور وہ اپنے آپ کو دل ہی دل میں برا بھلا کہنے لگا کہ وہ کس قسم کا بیٹا ہے جو اپنی ماں کو ننگی دیکھے گا اور اپنی ماں کا سوچ کر مٹھ بھی مار چکا ہے۔ قریب تھا کہ وہ رنگ میں بھنگ ڈالتا اور صورتحال کا بیڑہ غرق کر دیتا، شنکر نے اسے سمجھایا کہ اس میں کچھ بھی غلط نہیں اور جو کچھ بھی اس کے ذہن میں ہے یہ معاشرے میں لوگوں کی غلط ذہنی آبیاری کا نتیجہ ہے۔ فیصل نے شنکر کی بات پر اثبات میں ہلایا۔ شنکر نے سکھ کا سانس لیا اور کپڑے اتارنے لگا۔