ہوش سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ اپنی والدہ کو ننگی دیکھنا فیصل کیلئے ایک منفرد تجربہ تھا۔ سینکڑوں مرتبہ انٹرنیٹ پر ننگی لڑکیوں اور عورتوں کو دیکھنے کے باوجود جب اپنی والدہ کو ننگی دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔ فیصل کی والدہ بیڈروم سے نکل کر ڈرائنگ روم میں داخل ہوئیں تو نہ صرف فیصل بلکہ شنکر کی نگاہیں بھی ان کے بدن پر ٹک کر رہ گئیں تھی۔ بات ہی ایسی تھی۔ فیصل کی والدہ کا بدن کسی بھی خوبصورت لڑکی سے کم نہ تھا۔ سفید دودھیا رنگ۔ گہرے کالے بال۔ گہری سیاہ آنکھیں۔ انتہائی متناسب جسم۔ سڈول پستان یعنی ممے جن کا سائز نہ تو بہت بڑا تھا کہ سینے پر ڈھلکیں اور نہ ہی بہت چھوٹا تھا۔ سینے پر ایسے آویزاں تھے کہ دیکھنے والا مبہوت ہو جائے۔ مموں پر گہرے گلابی رنگ کے نپلز ایسے لگتے تھے جیسے کیک پر فروسٹنگ۔ ان کے مموں کا سائز 34 انچ کے قریب ہو گا۔ پتلی کمر اور کولہے بڑے بڑے لیکن اتنے بڑے نہیں کہ بے ڈھنگے معلوم ہوں۔ گول مٹول کولہے جو چلتے ہوئے اوپر نیچے ہوتے تو دیکھنے والے کا دل بھی ان کولہوں کی حرکت کے ساتھ دھڑکنے لگتا۔ اگرچہ فیصل کی والدہ کو کمرے سے نکل کر صوفے پر بیٹھنے میں بمشکل کوئی دس سیکنڈز لگے ہوں گے لیکن فیصل اور شنکر کیلئے یہ دس سیکنڈز دس گھنٹوں کے برابر تھے۔ انہوں نے اتنے قلیل عرصے میں ہی فیصل کی والدہ کے جسم کا بغور جائزہ لے لیا تھا جس کا اندازہ ان کے کھڑے لنڈ سے بخوبی ہو رہا تھا۔ فیصل کی والدہ ننگی ہونے سے پہلے کسی قدر نروس ضرور تھیں لیکن جب انہوں نے سوچا کہ جن کے سامنے وہ ننگی ہونے جا رہی ہیں وہ کوئی اجنبی تو ہیں نہیں۔ ایک تو ان کی اپنی سگی اولاد ہے جس کو وہ بچپن میں خود ننگا کر کے نہلا چکی ہیں اور اس کے بچپن میں خود بھی کئی مرتبہ اس کے سامنے ننگی ہو چکی ہیں۔ رہ گیا شنکر تو وہ بھی ان کے بیٹے کی ہی طرح ہے لہٰذا ان دونوں سے شرم کھانے کی بجائے انہیں تو کانفیڈینٹ ہونا چاہیے۔
سوچا تو شنکر نے بھی یہی تھا کہ فیصل کی والدہ کو ننگی دیکھ کر بھی اپنے لنڈ پر قابو رکھے گا تاکہ ان پر یہ تاثر ڈالا جا سکے کہ وہ ایک کانفیڈینٹ لڑکا ہے اور اپنے آپ پر قابو رکھنے میں ماہر ہے لیکن جب پہلی ہی نظر فیصل کی والدہ کے ننگے مرمریں بدن پر پڑی تو لنڈ نے دماغ کی بات سننے سے انکار کر دیا۔ فیصل اور شنکر احتراماً فیصل کی والدہ کے استقبال کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ نہ صرف وہ خود بلکہ لگتا تھا کہ ان کے لنڈ بھی فیصل کی والدہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے سلامی دے رہے تھے۔ فیصل کی والدہ نے دانستہ ان دونوں کے عضو تناسل پر نظر ڈالنے سے احتراز برتا تھا لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی صوفے کی جانب بڑھتے ہوئے ایک اچٹتی ہوئی نظر ڈال ہی لی تھی۔
فیصل کی والدہ نے اپنا بدن چھپانے کی قطعی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔ ان کی چوت کے ارد گرد بال اگے ہوئے تھے جن کی وجہ سے دہانہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ ایسے ہی اپنے بیٹے اور اس کے دوست کے دل اور لنڈ پر بجلیاں گراتے ہوئے وہ چلتی ہوئی آ کر صوفے پر بیٹھ گئیں۔ شنکر اور فیصل ان کے مدمقابل صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ درمیان میں ایک مستطیل میز رکھی تھی۔ فیصل کی والدہ کو اچھی طرح سے معلوم تھا کہ ان کے ننگے بدن کی تاب لانا ان بچوں کے بس میں نہیں۔ شاید اسی لئے وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھی تھیں تاکہ ان کی پھدی بچوں کی نظر سے دور رہے۔ فیصل اور شنکر بھی صوفے پر بیٹھ گئے لیکن ان کے لنڈ بدستور کھڑے تھے۔ کمرے میں ایک عجیب سی آکورڈ خاموشی چھا گئی تھی جسے فیصل کی والدہ نے ہی توڑا اور گفتگو کا آغاز کیا۔ انہوں نے براہ راست ان دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے نیوڈزم کے حوالے سے سوال پوچھنا شروع کئے۔ کچھ دیر گفتگو کے بعد ان تینوں کی توجہ کا فوکس جسم نہ رہا۔ حتی کہ فیصل کا لنڈ بھی سو گیا۔ ایسے ہی نہ جانے کتنی دیر باتیں کرتے رہے کہ کھانے کا وقت ہو گیا۔ فیصل کی والدہ کھانا لگانے کیلئے اٹھیں تو باورچی خانے کی جانب جاتے ہوئے ان کے اوپر نیچے دائیں بائیں ہلتے کولہوں نے دونوں نوجوانوں کو پھر سے گرم کر دیا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ سوچتے فیصل کی والدہ نے انہیں بھی آواز دے کر بلا لیا کہ وہ کھانا لگانے میں ان کی مدد کریں۔ کھانے کے بعد شنکر اور فیصل نے برتن سمیٹنے اور دھونے میں مدد کی۔ اس کے بعد شنکر اپنے ہوسٹل روانہ ہو گیا جبکہ فیصل اور اس کی والدہ اپنے اپنے کمرے میں سونے کیلئے چلے گئے۔ جانے سے پہلے البتہ ان تینوں نے ہی جو گفتگو کی تھی اس میں یہ طے پایا تھا کہ ایک دوسرے کی موجودگی میں تینوں افراد کپڑے پہننے سے گریز کریں گے اور اس طرز زندگی کو اپنی زندگیوں میں مکمل طور پر نافذ کریں گے۔ یہ اور بات ہے کہ وعدہ کرنے کے ٹھیک پندرہ منٹ بعد جب شنکر جا چکا تھا تو فیصل اپنے کمرے میں لنڈ تھامے وحشیانہ انداز میں مٹھ مار رہا تھا۔ کمپیوٹر سکرین پر اپنی والدہ کی پرانی تصاویر دیکھ کر۔ اگرچہ تصاویر میں وہ کپڑوں میں ملبوس تھیں لیکن فیصل کو اب اپنی والدہ ننگی ہی نظر آ رہی تھیں۔ دوسری جانب فیصل کی والدہ بھی اپنی چوت مسل رہی تھیں لیکن ان کے ذہن میں فیصل کی بجائے شنکر کا لنڈ گھوم رہا تھا۔ صبح منشی صاحب سے چدائی کی ناخوشگوار یادیں کبھی کی رفع ہو چکی تھیں۔
شنکر نے بھی ہوسٹل پہنچ کر سب سے پہلے واش روم کا رخ کیا جہاں اس نے اپنے گہرے دوست فیصل کی والدہ کا تصور کر کے ایک زوردار مٹھ ماری۔