فیصل اپنی والدہ میں آنے والی تبدیلیوں پر حیران تھا۔ اس نے کبھی اپنی والدہ کو اس روپ میں نہیں دیکھا تھا۔ شنکر سے اس کی دوستی برقرار تھی لیکن لاشعوری طور پر وہ اس بات کو تسلیم کر چکا تھا کہ شنکر اس سے برتر مرد ہے۔ جسمانی لحاظ سے بھی اور جنسی لحاظ سے بھی۔ جب بھی شنکر اس کے گھر آتا تو فیصل کی والدہ اور شنکر آپس میں گھل مل جاتے، چومتے چاٹتے ایک دوسرے کو اور فیصل کو ایسے نظر انداز کر دیتے جیسے اس کا وجود ہی نہ ہو۔ جس دن پہلی بار شنکر نے اس کی والدہ کو چودا، اس سے اگلے دن منشی رام چند آئے۔ شنکر کے تجویز کردہ منصوبے کے مطابق ہی فیصل اور شنکر دونوں نے چھپ کر فیصل کی والدہ کو منشی جی سے چدتے دیکھا۔ فیصل نے دو دن میں اپنی والدہ کو دو ہندو لنڈ لیتے دیکھ لیا تھا۔ جب منشی جی اس کی والدہ کی ٹھکائی کر رہے تھے تو فیصل کے لنڈ سے بغیر ہاتھ لگائے ہی مادہ منویہ خارج ہو گیا تھا۔ شنکر کا لنڈ البتہ کھڑا رہا تھا اور جب منشی جی رج کر چدائی کرنے کے بعد چلے گئے تھے تو شنکر نے فیصل کی والدہ کی چوت میں اپنا لنڈ ڈال کر ایسے پیلا تھا کہ فیصل کی والدہ کی آہ آہ آسمان کو چھو رہی تھی۔
اب صورتحال یہ تھی کہ فیصل شنکر اور اس کی والدہ ہر معاملے میں رازدار تھے۔ تینوں گھر میں ننگے رہتے اور صرف گھر سے باہر جانے پر ہی کپڑے پہنتے۔ شنکر ذیادہ سے ذیادہ وقت فیصل کے گھر میں گزارتا اور صرف رات گزارنے کیلئے اپنے گھر جاتا۔ کئی مرتبہ پڑھائی کا بہانہ کر کے رات بھی فیصل کے گھر گزارتا لیکن پڑھتا وہ فیصل کی والدہ کے ساتھ تھا۔
اس ساری صورتحال میں فیصل صرف دیکھ کر ہی مزے لیتا تھا۔ اس کے دل میں کئی مرتبہ خواہش پیدا ہوتی کہ اس کی والدہ اسے بھی اپنی چوت سے نوازیں لیکن اس کی والدہ تو شنکر کے لنڈ کی دیوانی تھیں۔ فیصل اپنے اندر اتنی ہمت نہیں پاتا تھا کہ خود سے اپنی والدہ کو کچھ کہہ سکتا لیکن اب بتدریج اس کی جنسی طاقت کمزور پڑتی جا رہی تھی۔ اپنی والدہ کو شنکر سے چدتے دیکھ کر کئی مرتبہ بغیر ہاتھ لگائے، اس کے لنڈ سے منی نکل جاتی۔
سیکس کے بعد شنکر اور فیصل کی والدہ ایک دوسرے سے چپک کر لیٹے رہتے اور سرگوشیوں میں باتیں کرتے رہتے۔ ایسا لگتا تھا جیسے دونوں ایک دوسرے سے بے انتہا محبت کرنے لگے ہوں لیکن فیصل کو بعد میں معلوم ہوا کہ یہ محبت ذرا مختلف قسم کی ہے۔
دراصل ہوا یوں کہ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، شنکر اپنے دوستوں کو بھی فیصل کے گھر لانے لگا۔ جب پہلی بار فیصل نے شنکر کے ساتھ اس کے دوست کرتار سنگھ کو دیکھا تو گڑبڑا گیا تھا۔ ایک وجہ تو یہ تھی کہ فیصل ننگا تھا اور اس نے یہ سمجھ کر دروازہ کھولا تھا کہ دروازے پر شنکر ہی ہو گا۔ جب کرتار سنگھ کو اس کے ساتھ دیکھا تو بے اختیار ایک ہاتھ اپنی للی پر رکھ کر چھپانے لگا۔ ایک تو اس کا لنڈ پہلے ہی چھوٹا سا تھا اور اوپر سے سویا ہوا تھا اور اس پر بھی سہاگہ یہ کہ کرتار سنگھ کو دیکھ کر شرم سے مزید چھوٹا ہو گیا تھا۔ کرتار سنگھ کی بے ساختہ ہنسی چھوٹ گئی۔ شنکر بھی ہنسنے لگا۔ فیصل کا دل چاہا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔ شنکر کم از کم اسے بتا ہی دیتا۔
فیصل کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب فیصل کی والدہ نے مکمل ننگی حالت میں ان دونوں کا استقبال کیا۔ پہلے انہوں نے کپڑے پہنے پہنے ہی اس کی والدہ سے معانقہ کیا اور پھر ننگے ہو کر۔ کرتار سنگھ کا لنڈ بھی شنکر جتنا ہی تھا لیکن سکھ ہونے کے ناطے اس کے جسم پر بال گھنے تھے۔ ٹٹوں پر بھی بال تھے اور جھانٹے بھی بہت لمبے تھے۔
تینوں بیٹھ کر باتیں کرنے لگے اور فیصل کو کسی نے لفٹ تک نہ کروائی۔ شنکر نے البتہ اسے رعونت بھرے لہجے میں کھانے پینے کیلئے کچن سے کچھ لانے کو ضرور کہا تھا۔ فیصل لے تو آیا لیکن جب میز پر چیزیں سجانے کے بعد وہ صوفے پر بیٹھنے لگا تو شنکر نے اسے روک دیا۔ فیصل کو شرمندگی کا ایک اور زوردار جھٹکا لگا جب شنکر نے اسے بتایا کہ وہ ان کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتا اور جب تک شنکر یا اس کا کوئی دوست گھر میں موجود ہو گا، فیصل صرف زمین پر بیٹھے گا۔
فیصل نے آنکھوں میں التجا لئے اپنے والدہ کئ طرف دیکھا۔ گویا وہ یہ توقع کر رہا تھا کہ اس کی والدہ شنکر کو جھڑک کر اس کا ساتھ دیں گی لیکن جب اس کی والدہ نے شنکر کی تائید کی تو فیصل آنکھوں میں چھلکتے آنسو لئے ایک طرف زمین پر بیٹھ گیا۔ وہ تینوں باتیں کرتے رہے۔ جب کسی چیز کی ضرورت ہوتی تو اسے حکم صادر کر دیا جاتا جیسے فیصل کوئی نوکر ہو۔ فیصل نے سوچا کہ وہ اپنے ہی گھر میں نوکر بن کر رہ گیا ہے لیکن اسے اپنی اوقات کا صحیح اندازہ تب ہوا جب شنکر کرتار سنگھ اور اس کی اپنی والدہ نے اس کے ساتھ کتوں والا سلوک کرنا شروع کر دیا۔ شنکر اور کرتار سنگھ فیصل کا مذاق اڑاتے تھے اور فیصل کی والدہ ہنس کر ان کا ساتھ دیتی تھیں۔