Language:

Search

حلالہ (قسط نمبر 2)

  • Share this:

علی نے فاطمہ کو بارہا فون کیا لیکن فاطمہ نے بات نہیں کی. اس کے والد شدید مذہبی رحجان رکھتے تھے اور ان کی طرف سے واضح ہدایت موجود تھیں کہ علی کے عمل سے ان کا نکاح ختم ہو چکا ہے اور وہ دونوں ایک دوسرے کے لئے نا محرم ہیں. علی خود بھی سمجھتا تھا کہ اس کے عمل کا ازالہ بہت مشکل ہے. غصے میں وہ فاطمہ جیسی خوبصورت فرمانبردار، دیندار اور پیار کرنے والی بیوی سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا. جب فاطمہ سے بات نا ہو پائی تو مجبوراً اس کے والد صاحب کو فون کیا اور معافی کا خواستگار ہوا. فاطمہ کے والد نرم مزاج طبیت کے ملک تھے لیکن دین کے معاملے میں کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کرتے تھے. انہیں احساس تھا کہ علی اپنی غلطی پر شرمسار ہے لیکن دین کی رو سے چونکہ نکاح باطل تھا اسلئے وہ خود بھی مجبور تھے. انہوں نے علی کو بھی یہی بات سمجھی کہ وہ کسی عالم دین سے مشوره کریں گے کہ اس صورت حال کا کیا حل ہو سکتا ہے. عالم دین سے بات کرنا محض ایک فرض پورا کرنا تھا ورنہ فاطمه کے والد خود دین کا بہت علم رکھتے تھے. انہیں معلوم تھا کہ جب شوہر طلاق دے دے تو دوبارہ رجوع کرنے کے لئے حلالہ کرنا ضروری ہو جاتا ہے لیکن یہ تو کتابی علم تھا. عملی زندگی میں حلالہ کیسے کرنا ہے، اس بارے انھیں کوئی علم نہیں تھا. نا ہی کسی ایسے بندے سے واقفیت تھی جو اس عمل سے گزر چکا ہو. ایک پہلو یہ بھی تھا کہ ایسی باتیں لوگ خفیہ ہی رکھتے ہوں گے اور بات بھی ایسی ہی تھی کہ خفیہ رکھنا ہی مناسب تھا.

سب سے پہلے تو انہیں اپنی بیٹی کو اعتماد میں لینا تھا اور اسے دین کی معلومات سے متعلق آگاہی دینا تھا. باپ ہونے کے ناطے جوان شادی شدہ بیٹی سے ایسی باتیں کرتے جھجھک محسوس ہونا قدرتی تھا. اسی لئے انہوں نے اپنی زوجہ یعنی فاطمہ کی والدہ سے بات کی تاکہ وہ فاطمه کو مستقبل کے مراحل سے آگاہ کر سکیں.

چونکہ علی فاطمه سے رجوع کا خواہشمند تھا اور والدہ کے پوچھنے پر فاطمه نے بھی رضامندی کا اظھار کیا تھا، اس لئے رجوع میں صرف دینی مسائل کی ہی رکاوٹ تھی. علی، فاطمہ اور اس کے تمام گھر والے بشمول اس کے والد، والدہ، بھائیوں کے سب ہی یہ چاہتے تھے کہ یہ معاملہ احسن طریقے سے نمٹ جاۓ.

فاطمه کے والد نے رسماً ایک عالم دین سے مشوره کیا. اگرچہ فاطمه کے والد کو کافی حد تک علم تھا کہ عالم دین کا جواب کیا ہو گا لیکن اس ملاقات میں عالم دین نے فاطمه کے والد کی خوب رہنمائی کی اور فاطمه کے والد کو خوشی ہوئی کہ انہوں نے بنا کسی عالم دین سے مشورے کے کوئی بھی کام نا کرنے کا فیصلہ کیا. 

عالم دین نے فاطمه کے والد کو سمجھایا کہ دین کی ضروریات میں ہمیں دنیاوی منطقوں کو نظر انداز کر دینا چاہئے. بعض اوقات ہمیں دین کی راہ میں ایسا لگ رہا ہوتا ہے جیسے اس حکم کا کوئی مقصد نہیں. ایسا ہر گز نہیں. بات صرف اتنی سی ہوتی ہے کہ وہ منطق ہمارے ناپائیدار انسانی ذہن کی بساط سے بڑھ کر ہوتی ہے اور ہمارے محدود صلاحیت کے دماغ الله کی آفاقی منطق کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں. ہم انسان چونکہ اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں اس لئے الله کے احکام کو ہی بلا ضرورت سمجھنے لگتے ہیں اور ایسے ایمان جاتا رہتا ہے. نکاح حلالہ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا ہے. دیگر مذہب کے افراد کا اس کی مخالفت کرنا تو سمجھ آتا ہے لیکن جب مسلمان ہی اپنے دین کے احکام کی خلاف ورزی کریں اور کھلم کھلا مذاق بنا لیں تو دکھ ہوتا ہے. نکاح حلالہ مستند حوالوں سے ثابت ہے.

عالم دین صاحب اپنا علم نچھاور کر رہے تھے اور فاطمه کے والد بغور سن رہے تھے. عالم دین نے بہت سی روایت بتائیں لیکن ان میں اہم یہ چند احادیث تھیں:

جامع الترمذی حدیث نمبر ١١١٨:

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رفاعہ قرظی کی بیوی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: میں رفاعہ کے نکاح میں تھی۔ انہوں نے مجھے طلاق دے دی اور میری طلاق طلاق بتہ ہوئی ہے۔ پھر میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کر لی، ان کے پاس صرف کپڑے کے پلو کے سوا کچھ نہیں ہے ۱؎، آپ نے فرمایا: ”تو کیا تم رفاعہ کے پاس لوٹ جانا چاہتی ہو؟ ایسا نہیں ہو سکتا جب تک کہ تم ان ( عبدالرحمٰن ) کی لذت نہ چکھ لو اور وہ تمہاری لذت نہ چکھ لیں“

سنن النسائ حدیث نمبر ٣٤٣٦:

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ایسے شخص کے متعلق پوچھا گیا جس نے اپنی عورت کو طلاق دی۔ اس عورت نے دوسری شادی کر لی، وہ دوسرا شخص ( تنہائی میں ) اس کے پاس گیا اور اسے جماع کیے بغیر طلاق دے دی۔ تو کیا اب یہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جائے گی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، وہ اس وقت تک پہلے کے لیے حلال نہ ہو گی جب تک کہ اس کا دوسرا شوہر اس کے شہد کا اور وہ عورت اس دوسرے شوہر کے شہد کا ذائقہ و مزہ نہ چکھ لے“۔

سنن النسائ حدیث نمبر ٣٤٤٤

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو اپنی بیوی کو تین طلاقیں ( مغلظہ ) دے دیتا ہے پھر اس سے دوسرا آدمی نکاح کر لیتا ہے اور ( اسے لے کر ) دروازہ بند کر لیتا ہے، پردے گرا دیتا ہے، ( کہ کوئی اندر نہ آ سکے ) پھر اس سے جماع کیے بغیر اسے طلاق دے دیتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ پہلے والے شوہر کے لیے اس وقت تک حلال نہ ہو گی جب تک اس کا دوسرا شوہر اس سے جماع نہ کر لے“

عالم دین کی باتوں پر غور کرتے فاطمه کے والد جب گھر آ رہے تھے تو انہیں نکاح حلالہ کے حوالے سے دینی معاملات کا بخوبی علم ہو چکا تھا. اب بس وہ اس کام کو منتقی انجام تک پہنچانا چاہتے تھے تاکہ ان کی پیاری پھولوں جیسی بیٹی واپس اپنے شوہر علی کے عقد میں جا سکے.
 

Quratulain Tahira

Quratulain Tahira