Language:

Search

حلالہ (قسط نمبر 7) - Last Episode

  • Share this:

رات بھر جس عزو تناسل کو بار بار اپنی اندام نہانی میں لیا تھا، اسے قریب سے دیکھنے پر اسے اندازہ ہوا کہ یہ سائز میں کس قدر بڑا ہے. فاطمه نے علی کا عزو تناسل بارہا اپنے ہاتھوں میں لیا تھا اور اب بلال کا عزو تھامنے کے بعد وہ جان گئی تھی کہ بلال کا عزو تناسل علی کے عزو سے دو گنا لمبا ہے اور تقریباً موٹا بھی دگنا ہی ہے. موٹائی تو اتنی تھی کہ فاطمه کی مٹھی میں پورا نہیں آ رہا تھا. فاطمه نے دوسرا ہاتھ بھی استعمال کرنا شروع کر دیا اور دونوں ہاتھ اس پر اوپر نیچے پھیرنے لگی. بلال آنکھیں بند کے چت لیٹا تھا لیکن اس کے منہ سے آہ آہ کی آوازیں اس بات کا ثبوت تھیں کہ فاطمه کے ہاتھ سہی کام کر رہے تھے. فاطمه ایسے ہی ہاتھ پھرتی رہی. کبھی اوپر نیچے تو کبھی ہتھیلیاں گھما کر. مقصد تو بلال کو لذت پہنچانا تھا. فاطمه نے سوچا تو یہی تھا کہ ایسے بلال کا عزو تناسل ہاتھوں سے مسل کر ڈسچارج کرواۓ گی لیکن چند منٹوں میں ہی ساتھ والی مسجد کے سپیکر سے فجر کی اذان کی آواز آنے لگی. بلال اور فاطمه دونوں ہی نمازی تھے. اذان کی آواز سنتے ہی فاطمه نے منہ پھیر کر بلال کی جانب دیکھا جس نے آنکھیں کھول دی تھیں اور فاطمه کی جانب دیکھ رہا تھا. چند لمحے یونہی دیکھتے رہے اور پھر دونوں ہی مسکرا دیے. فاطمه نے ایک لمحے کے لئے بھی اپنے ہاتھ بلال کے عزو سے نہ ہٹاے تھے. فاطمه نے نظریں پھر سے عزو تناسل پر گاڑ دیں اور مزید جوش سے ہاتھ پھرنے لگی. اذان کی آواز کانوں میں پڑنے پر نہ جانے کیوں بلال کا مزہ دوبالا ہو گیا تھا. نہ جانے موزن کی آواز میں ایسا کیا تھا. فاطمه کو بھی ایسا ہی محسوس ہو رہا تھا. وہ سوچ رہی تھی کہ یقینا اس وقت اس کے تینوں بھائی اور والد مسجد جانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوے ہوں گے اور والدہ بھی وضو کر رہی ہوں گی. یہ سوچ کر کہ اس کے گھر والے الله کی عبادت کی تیاری کر رہے ہیں اور وہ خود بلال کا عزو تناسل تھامے بیٹھی ہے، اس کے دل میں شرارتی سی ہلچل پیدا ہو گئی. موذن جب حیی علی الفلاح پر پہنچا تو فاطمه کے ہاتھ مزید تیزی سے چلنے لگے. بلال اگرچہ مزے لے رہا تھا لیکن اسے معلوم تھا کہ صرف ہاتھوں سے ڈسچارج ہونے میں اسے بہت وقت لگے گا. وہ اٹھا بیٹھا اور بیڈ کے سرہانے سے تک لگا کر بیٹھ گیا. فاطمه کے جسم پر پیچھے سے ہاتھ پھرنے لگا. پہلے کمر پر اور پھر ہاتھ بارہا کر اس کے پستان دبانے لگا. ایک طرف موذن اذان دینے میں مشغول تھا تو دوسری طرف فاطمه اور بلال ایک دوسرے کے جسم سے لطف لینے میں. بلال کبھی کمر پر ہاتھ پھیرتا تو کبھی پستان پر. فاطمه بھی خوب مزے لے رہی تھی. بلال کی لطف سے بھرپور آوازیں فاطمه کو بھی اچھی لگ رہی تھیں. وہ تو جیسے فدا ہی ہو چلی تھی بلال پر. نجانے یہ اذان کا اثر تھا یا بلال سے پیار کا، فاطمه نے یکدم چہرہ جھکایا اور بلال کے عزو تناسل کے اگلے حصے کو چوم لیا. بلال کے لئے بھی یہ غیر متوقع تھا. فاطمه خود بھی اپنی ادا پر شرما گئی اور مڑ کر نہیں دیکھا. بلال کو البتہ خوشی ہوئی تھی. اس کا دل چاہا فاطمہ پھر سے ایسا کرے لیکن اس نے نہ تو فاطمه کو کچھ کہا، نہ ہی اپنے ہاتھوں سے اس بات کا اظھار کیا. اذان ختم ہونے کے قریب تھی جب فاطمه نے ایک بار پھر سے اپنا چہرہ نیچے کیا اور اب کی بار عزو تناسل کا اگلا حصّہ منہ میں لے کر اسے اپنے تھوک سے تر کر دیا. بلال فرط لذت سے پاگل ہو گیا. فاطمه اس کی آواز سن کر مزید جوشیلی ہو گئی اور بار بار یہی عمل دہرانے لگی. بلال کا عزو تناسل لوہے کی مانند سخت تھا. فاطمه کے لعاب سے چکنا ہو کر چمکنے لگا. فاطمه اپنا منہ اوپر نیچے کر کے اسے چوسنے لگی. ذائقہ نمکین لگا لیکن مزے کا. یہ پہلی بار تھا کہ اس نے مردانہ عزو تناسل منہ میں لیا تھا. اس نے ایسا کیوں کیا؟ اس کا تو اسے خود بھی نہیں پتا تھا. بس ہو گیا. خود بہ خود. جیسے یہ کوئی انہونی بات ہو ہی نہ. جیسے یہ سب قدرتی ہو.

فاطمه کے منہ کی گرمی بلال کے لئے ناقابل برداشت تھی. محض ایک منٹ میں ہی اسے محسوس ہونے لگا جیسے وہ ڈسچارج ہونے کے قریب ہی. فاطمہ کو بھی بلال کے عزو تناسل میں تھرتھراہٹ محسوس ہوئی تھی لیکن اس نے منہ نہیں ہٹایا اور بدستور چوستی رہی. بلال ایک زوردار جھٹکے سے ڈسچارج ہوا. فاطمه کو ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے گاڑھے پانی کا پائپ فل پریشر سے اس کے منہ میں کھول دیا ہو. فاطمه کا منہ ایک ہی جھٹکے میں سفید گاڑھے لیس دار مادے سے بھر گیا اور اس نے بے اختیار منہ پیچھے کیا لیکن اتفاقاً ہاتھ عزو تناسل پر ہی رہے اور عزو کا رخ چہرے کی جانب ہی رہا جس میں سے ایک کے بعد ایک جھٹکے سے مادہ منویہ فاطمه کے چہرے پر گرتا رہا. ایسا لگتا تھا جیسے کوئی توپ گولے فائر کر رہی ہو. فاطمه کی آنکھیں ناک گال ہونٹ پیشانی اور بالوں کا کچھ حصّہ مادہ منویہ کی رنگت میں رنگ کر سفید ہو گۓ تھے. الله الله کر کے جھٹکے ختم ہوے. بلال بے سدھ ہو کے ایسے ہی بیٹھا رہا. فاطمه نے مڑ کر دیکھا تو بلال اس کے چہرے کو دیکھتا ہی رہ گیا. مادہ منویہ سے لتھڑا چہرہ نہ جانے کیوں اسے اس قدر بھلا معلوم ہو رہا تھا. فاطمه تو جیسے ہکی بکی رہ گئی تھی. اسے امید نہیں تھی کہ بلال کے عزو سے نکلنے والا مادہ اس قدر زیادہ ہو گا لیکن ایک بات پر اسے حیرت تھی کہ اسے مادہ منویہ سے بالکل گھن نہیں آئ بلکہ اسکا نمکین ذائقہ زبان پر بہت بھلا معلوم ہوا. جتنا مادہ منہ میں گیا تھا وہ اس نے حلق سے اندر اتار لیا اور انگلیوں پر لگا ہوا مادہ بھی چاٹنے لگی. فاطمه کو یوں اپنا مادہ منویہ چاٹتے دیکھ کر بلال کو اس پر پیار آ گیا. وہ اس کی مدد کرنے لگا. چہرے پر لگا مادہ اپنی انگلیوں پر لگا کر فاطمہ کو چٹانے لگا. فاطمه خوب شوق سے چاٹتی رہی حتی کہ چہرہ صاف ہو گیا.

دن نکل آیا تھا. بلال نے کپڑے پہنے, فاطمه کو ایک زوردار جپھی ڈال کر خدا حافظ کہا اور پھر آہستہ سے اسے تین بار طلاق دے کر دروازہ کھول کر باہر نکل گیا. فاطمه نے بھی جلدی سے کپڑے پہن لئے. کچھ ہی دیر میں فاطمه کی والدہ کمرے میں آ گئیں اور اپنی بیٹی کو گلے سے لگا کر بھینچنے لگیں. فاطمہ کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گۓ. اسے اپنی والدہ سے بہت محبت تھی. بیڈ کی حالت دیکھ کر فاطمه کی والدہ رات بہت کی روداد سمجھ گئیں. ویسے بھی فاطمه کی لذت بھری چیخوں نے ساری رات نہ صرف انہیں بلکے فاطمه کے والد کو بھی بیدار رکھا تھا. بھائی بھی یقیناً ساتھ والے کمرے میں سے آتی بہن کی آوازیں سنتے رہے ہوں گے. 

ناشتہ کرنے کے بعد جب فاطمه غسل کے لئے غسل خانے میں گئی اور جسم پر پانی بہایا تب اسے احساس ہوا کہ رات بھر بلال کے ساتھ مباشرت کے نتیجے میں اس کی اندام نہانی کے ہونٹ سوج سے گۓ ہیں اور ہلکی ہلکی جلن بھی محسوس ہو رہی تھی لیکن یہ جلن ناقابل برداشت نہیں تھی. لذت اس سے کہیں زیادہ تھی. 

اسی دن مغرب کے بعد فاطمه کا نکاح علی سے دوبارہ کر دیا گیا اور وہ رخصت ہو کر پھر سے اپنے حقیقی شوہر کے گھر لوٹ آئ. ننھی سکینہ بھی بہت خوش تھی. 


 

Quratulain Tahira

Quratulain Tahira