Language:

Search

ہنی مون ان جرمنی قسط نمبر 2

  • Share this:

بہرحال، رات کو جب ہم شہریار کے دوست مارٹن کے گھر پہنچے تو ڈور بیل دینے پر انجیلا نے دروازہ کھولا. انجیلا مارٹن کی بیوی تھی. انجیلا مکمل ننگی تھی اور اس نے گود میں اپنی بیٹی کو اٹھا رکھا تھا جس کی عمر تقریباً ڈیڑھ سال کے قریب لگتی تھی. وہ بھی مکمل ننگی تھی. اس نے نہایت گرم جوشی سے ہمارا استقبال کیا. جرمن لوگوں کا ملنے کا طریقہ ہمارے یہاں سے مختلف ہے. پاکستان میں تو خواتین صرف خواتین سے ہی ہاتھ ملاتی ہیں لیکن جرمنی میں خواتین اور مردوں کی تمیز کے بغیر سب ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے ہیں. اگر ملنے والے لوگوں کا درمیان بےتکلفی ہو تو ایک دوسرے کے گال پر بوسہ بھی دیتے ہیں. انجیلا نے البتہ صرف ہینڈ شیک پر ہی اکتفا کیا. ہاتھ ملانے کے بعد اس نے مارٹن کو آواز دی. مارٹن بھی ایسے ہی ننگ دھڑنگ ڈرائنگ روم سے باہر آ کر ہم سے ملا. میری نظریں خود بہ خود نیچے کی طرف تھیں. ہاتھ ملاتے وقت تو میں نے انجیلا اور مارٹن کی آنکھوں میں دیکھا تھا لیکن اس کے بعد سے میری نظریں مسلسل زمین میں گڑی تھیں. انہوں نے ہمیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا جہاں انکا بڑا بیٹا جوزف ٹیلی ویژن پر کارٹون دیکھ رہا تھا. جوزف کی عمر چار سال تھی. جوزف اور انجیلا ایک صوفے پر بیٹھ گئے جبکہ میں اور شہریار دوسرے صوفے پر. شہریار کو تو وہ لوگ پہلے سے جانتے تھے اسلئے کافی حد تک بے تکلفی سے باتیں ہونے لگیں. میری جھکی نظروں کو البتہ زیادہ دیر تک وہ لوگ نظر انداز نہ کر سکے. شہریار نے میرا طرف کرواتے ہوئے انہیں بتا دیا تھا کہ میں ساری عمر پاکستان میں ہی رہتی آئی ہوں اس لئے میرے روئیے سے اگر انہیں نا گوری کا احساس ہو تو برا نہ مانیں. ننگے تو وہ دونوں تھے لیکن شرم مجھے آ رہی تھی. پہل انجیلا نے کی. اس نے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ روبینہ شائد آپ ہمیں دیکھتے ہوے شرما رہی ہیں. میرے پاس جواب میں کہنے کو کچھ نہیں تھا کیوں کہ سچ تو یہی تھا کہ میں شرما رہی تھی لیکن کب تک. ایسے کسی کے گھر جا کر نظریں جھکا کر بیٹھنا ویسے بھی مروجہ آداب کے خلاف ہے. مجھے بلا آخر اپنی نظریں اٹھا کر ان کی طرف دیکھنا ہی پڑا. میں نے انہیں بتایا کہ میرا تعلق جس جگہ سے ہے وہاں پر لوگ برہنہ پن کو غلط کاموں سے منسوب کرتے ہیں اسلئے میری شرم فطری ہے اور اس پر برا نہ منایا جائے. میں نے اگرچہ انجیلا کی آنکھوں میں دیکھ کر بات کی تھی لیکن نظریں ایک ہی جگہ مرکوز رکھنا مشکل تھا اور نہ چاہتے ہوے بھی میری نظریں ہر اس جگہ پر گئیں جہاں دیکھنے سے میں احتراز برت رہی تھی. جی ہاں، آپ درست سمجھے. انجیلا اور مارٹن دونوں ہی بہت ملنسار لوگ تھے. بجائے برا ماننے کے وہ لوگ تو اس وجہ سے فکر مند تھے کہ کہیں ان کے مہمان کو کسی وجہ سے تکلیف نہ پہنچے. میں متاثر ہوے بغیر نا رہ سکی. مارٹن نے بات کو آگے بڑھتے ہوے کہا کہ میری بات درست ہے اور واقعی آغاز میں ننگے پن سے مانوس ہونا ذرا مشکل معلوم ہوتا ہے. مارٹن کی بات کو سپورٹ کرتے ہوے انجیلا نے تجویز پیش کی کہ اگر میں چاہوں تو وہ دونوں کپڑے پہننے کے لئے تیار ہیں. اب میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا. یہ لوگ تو مہمان نوازی کی ہر حد کراس کرتے جا رہے تھے. انجیلا نے یہ تجویز اس لئے پیش کی تھی کہ وہ سمجھ رہی تھی کہ میزبانوں اور مہمانوں کے درمیان یہ تناؤ اسلئے بھی ہے کہ میزبانوں نے کچھ بھی نہیں پہنا جبکہ مہمان مکمل لباس میں ملبوس بیٹھے ہیں اور اس تناؤ کو دور کرنے کے لئے یا تو میزبانوں کو کپڑے پہن لینے چاہئیں یا پھر مہمان بھی کپڑے اتار کر ننگے ہو جایئں. اس سے چونکہ دونوں پارٹیاں ایک ہی حالت میں آ جایئں گی تو تناؤ اور شرم قدرتی طور پر ہی اپنے آپ ختم ہو جائے گا. اب ظاہر ہے کہ مہمانوں کو کپڑے اتارنے کی تجویز دینا تو غیر مناسب تھا، خاص طور پر ایسی صورتحال میں کہ مہمان پہلے ہی ننگے پن سے شرم محسوس کر رہی ہو. بہرحال، اسکی تجویز پر میں دل میں بہت شرمندہ ہوئی. یہ سوچ بھی میرے ذہن میں بار بار آ رہی تھی کہ شہریار کو بھی میری وجہ سے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے. ان سب سوچوں کے جنجھٹ سے چھٹکارا پانے کے لئے میں نے وہ فیصلہ کیا کہ جسکی توقع مجھے اپنے آپ سے بھی کبھی نہیں تھی. میں نے انجیلا کی بات کے جواب میں اسے کہا کہ انہیں کپڑے پہننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ کسی مہمان کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی کے گھر جا کر ان کا رہن سہن کا طریقہ تبدیل کرے بلکہ مناسب یہ ہے کہ مہمانوں کو میزبانوں کے رنگ میں ڈھل جانا چاہئے کم از کم جب تک وہ مہمان ہیں تب تک لہٰذہ شہریار اور میں بھی اپنے کپڑے اتار دیتے ہیں تاکہ ہم ایک دوسرے سے کھل کر بات چیت کر سکیں کسی رکاوٹ کے بغیر. میری تجویز پر نہ صرف مارٹن اور انجیلا خوش ہوے بلکہ شہریار کے چہرے کے تاثرات بھی دیدنی تھے. اس نے میری طرف پیار سے دیکھا اور میں نے اس کی نظروں سے بھانپ لیا کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے. ایسا لگتا تھا جیسے وہ آنکھوں سے کہ رہا ہو کہ روبینہ! مجھے تم پر فخر ہے. 
کسی کے سامنے ننگا ہونا بذات خود ایک مشکل عمل ہے لہٰذہ ننگے ہو کر بے تکلفی سے ایک دوسرے سے باتیں کرنا کسی ایسے شخص کے لئے جو ساری زندگی پاکستان جیسے ملک میں رہی ہو جہاں بازو ننگے کرنے پر بھی فساد کھڑا ہو سکتا ہے، کافی مشکل بلکہ تقریباً نا ممکن کام ہے. اس کے باوجود میں ننگی ہو گئی. سب کے سامنے ننگی ہونے کا حوصلہ نہ تھا مجھ میں. انجیلا کے ساتھ علیحدہ کمرے میں جا کر اپنے متوازن جسم کو کپڑوں کی قید سے آزاد کروایا. دل ہی دل میں یہ بھی شکر ادا کیا کہ میرے پیریڈز نہیں چل رہے تھے. میرا جسم اگرچہ انجیلا کے گورے چٹے جسم جیسا نہ سہی لیکن خدو خال کے لحاظ سے اس کے جسم سے کہیں بہتر تھا. میں نے ہمیشہ اپنی خوراک پر توجہ دی تھی تاکہ وزن زیادہ نہ بڑھے. یونیورسٹی لائف میں بھی میں روزانہ ورزش کیا کرتی تھی. انجیلا کے منہ سے اپنے جسم کی تعریف سن کر میرا حوصلہ بڑھا تھا. کپڑوں میں جب میں گھر سے بھر نکلا کرتی تھی تو ہمیشہ مردوں کی نظروں کا مرکز ہوا کرتی تھی. شائد اسکی وجہ میرا چست لباس بھی ہوا کرتا تھا. کوئی مانے یا نہ مانے یہ سچ ہے کہ ایک لڑکی یا خاتون کو اگر کوئی مرد گھورے تو اسے پتا چل جاتا ہے. آپکو میری یہ بات شائد سچ نہ لگے لیکن میں نے خود بار ہا محسوس کیا تھا کہ مردوں کے ٹکٹکی باندھ کر گھورنے پر میرے جسم میں ایک ایسا احساس ہوتا تھا جس کو میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی. یہاں موجود خواتین میری بات سے اتفاق کریں گی. کہنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ اگر کوئی مجھے ہوس ناک نظروں سے گھورے یا ویسے ہی نگاہ ڈالے، مجھے معلوم ہو جاتا تھا. کپڑوں میں ملبوس ہونے کے باوجود نوے فیصد لوگوں کی نظروں میں ہوس ہی ہوتی تھی. کپڑے اتار کر جب شہریار اور مارٹن کے سامنے آئی تو قدرتی طور پر ان دونوں کی نظریں میرے ننگے بدن پر پڑیں. اپنے شوہر کا تو مجھے اندازہ تھا اور اسکی نظریں مجھے ہمیشہ اچھی معلوم ہوتی تھیں لیکن مارٹن کا میرے جسم کو دیکھنا ایک نیا ہی احساس تھا. اس کی نظروں میں ہوس نہیں تھی یا کم از کم مجھے تو بلکل بھی محسوس نہ ہوئی. اگر ہوس ہوتی تو کچھ اس کا اثر اس کے لنڈ پر بھی تو پڑتا نا. لنڈ تو اسکا ویسے ہی لٹکا رہا تھا. پہلی بار کسی اجنبی مرد کی نظریں میرے مکمل ننگے بدن پر پڑی تھیں اور میں یہی توقع کر رہی تھی کہ مارٹن بھی انسان ہی ہے اور انسان ہونے کے ناطے میرے سیکسی بدن کو دیکھ کر اس میں جنسی جذبات مشتعل تو ہوں گے ہی. سچی بات ہے کہ مجھے اپنے جسم کے پرفیکٹ ہونے پر اتنا یقین تھا کہ مارٹن کا لٹکا لنڈ اور اس کی ہوس سے خالی نظریں دیکھ کر مجھے کسی قدر مایوسی بھی ہوئی تھی. مارٹن کی نظریں بس ایسی تھیں کہ جیسے وہ میرے جسم کی خوبصورتی پر حیران تو ہے لیکن اس حیرانی کا تعلق میرے جنسی اعضاء سے نہیں بلکے اوور آل جسم سے ہے. میں شہریار کے پہلو میں صوفے پر بیٹھ گئی. صوفے پر اکٹھے بیٹھنے سے ہمارے بازو اور ٹانگیں بھی ایک دوسرے سے مس ہو رہی تھیں. مارٹن نے میرے صوفے پر بیٹھتے ہی انجیلا والے کلمات دہراۓ یعنی تعریف کی. مجھے اس کے منہ سے اپنے جسم کی تعریف سن کر خوشی ہوئی. کمرے سے نکلتے وقت میں کسی حد تک کنفیوز تھی لیکن جب مارٹن کا رویہ دیکھا تو کنفیوزن کافی کم ہو گئی تھی. 
یہ حقیقت تھی کہ اگر مارٹن اور انجیلا کا رویہ اتنا دوستانہ نہ ہوتا تو شائد میں کبھی بھی ننگی ہونے پر راضی نہ ہوتی کجا یہ کہ خود ننگی ہونے کی پیشکش کی. یہ ان کی مہمان نوازی ہی تو تھی جس کی وجہ سے کچھ ہی دیر میں میں یہ بھول ہی گئی کہ یہاں سب ننگے بیٹھے ہیں. دراصل ان کے بات کرنے کا طریقہ ہی ایسا تھا کہ مخاطب کو مسحور کر کے رکھ دیتے تھے. حتی کہ حساس موضوعات پر بات چیت بھی ایسے انداز میں کی جاتی تھی کہ باتوں میں جنسی عنصر ناپید تھا. میں چونکہ بہت متجسس تھی اور یہاں کھل کے سب باتیں ہو رہی تھیں تو مجھ سے بھی رہا نہ گیا اور میں نے اپنے ذہن میں آنے والے سوالات ان کے سامنے رکھ دیے. اگرچہ شہریار سے میں پہلے ہی ان سوالات کے جوابات لے چکی تھی اور کسی حد تک ان سے مطمئن بھی تھی لیکن پھر بھی میں خود کو روک نہ سکی. 
سب سے بڑا سوال تو یہ تھا کہ ننگے پن کو سیکس سے علیحدہ کیسے کیا جائے کیوں کہ ہمارے جنسی اعضاء کے مقصد میں سیکس بھی شامل ہے اور یہ قدرتی بات ہے کہ مخالف جنس کے ننگے بدن کو دیکھ کر انسان کے جنسی جذبات بیدار ہوتے ہیں لہٰذہ ان جذبات کو کیسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے. 
میرے سوال پر انجیلا اور مارٹن دونوں ہی مسکرا اٹھے. دراصل میری توجہ سامنے بیٹھے میزبانوں کی طرف تھی اور مجھے اس بات کا احساس ہی نہ ہوا تھا کہ شہریار کا بدن میرے بدن سے مس ہو رہا ہے اور اس وجہ سے شائد اس کے جذبات بھڑک اٹھے تھے. اسکا تنا ہوا لنڈ اس بات کا سب سے بڑا گواہ تھا. شہریار تب ہی اپنے ہاتھ لنڈ کے سامنے رکھ کر بیٹھا ہوا تھا تاکہ لنڈ کی سختی کو چھپا سکے. مارٹن اور انجیلا چونکہ بلکل سامنے بیٹھے تھے اسلئے چھپانے کے باوجود شہریار کا لنڈ ان کی نظروں سے مکمل پوشیدہ نہیں تھا. مارٹن نے مزاقاً کہا کہ شائد میں نے یہ سوال پوچھا ہی اس لئے ہے کہ میرے اپنے شوہر کے لئے ہی خود پر قابو پانا مشکل ہو رہا ہے. شہریار بیچارہ اس مذاق پر ہنسا تو تھا لیکن دل ہی دل میں شرمندہ بھی تھا. میں اس کے جذبات اچھی طرح سے بھانپ سکتی تھی. بیشک شادی کو کچھ ہی دن ہوئے تھے لیکن واقفیت اس سے پہلے کی تھی. میں یہ بھی سوچ رہی تھی کہ شہریار نے تو مجھے بتایا تھا کہ وہ لمبے عرصے سے ننگے پن کو اپنائے ہوئے ہے لیکن اگر یہ سچ ہوتا تو کیا وہ اتنی سی دیر میں اپنے لنڈ پر قابو کھو بیٹھتا؟ یا پھر شائد میری موجودگی سے نروس ہو رہا ہے. دوسری وجہ زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی تھی. اس لئے کہ مجھے ننگی دیکھ کر شہریار کا لنڈ بہت جلدی تن جاتا تھا. یہ بات میں علیحدگی میں کئی مرتبہ محسوس کر چکی تھی. 
بہرحال، مارٹن نے میرے سوال کا جواب دینے سے پہلے مجھے سمجھایا کہ میں نے سوال میں ایک غلطی کر دی ہے. غلطی یہ تھی کہ میں نے کہا تھا کہ مخالف جنس کے ننگے بدن کو دیکھنے سے جنسی جذبات مشتعل ہوتے ہیں جبکہ حقیقت یہ نہیں تھی. حقیقت تو یہ تھی کہ کئی افراد مخالف جنس کی بجائے اپنی ہی جنس کو دیکھ کر زیادہ جوش محسوس کرتے ہیں. مجھے یہ بات معلوم تو تھی لیکن میں نے ہمیشہ یہی سمجھا تھا کہ یہ کام نیچرل نہیں ہے بلکہ خود ساختہ ہے. اب جب مارٹن نے وضاحت کی تو مجھے معلوم ہوا کہ کئی افراد قدرتی طور پر ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں مخالف جنس میں کوئی کشش محسوس ہی نہیں ہوتی خواہ مخالف جنس ننگی ہی کیوں نہ ہو. اس نے مجھے اپنے دوستوں کی مثالیں دیں جو کہ ہم جنس پرست تھے اور کئی مرتبہ شراب خانوں میں خوبصورت خواتین نے انہیں لائن مارنے کی کوشش کی لیکن ان پر اسکا اثر بالکل نہیں ہوتا تھا. اس کے برعکس کسی خوبصورت مرد کو دیکھ کر ان کے لنڈ بےچین ہو جاتے تھے. اسی طرح خواتین کے ساتھ بھی ہوتا ہے. 
میرے لئے یہ معلومات نئی تھیں اس لئے میں کافی دلچسپی سے سن رہی تھی. شہریار بھی خوش تھا کہ توجہ میری طرف تھی سب کی کیوں کہ ننگا طرز زندگی اپنانے والوں میں لنڈ کا تناؤ اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا. مارٹن نے اپنی بات جاری رکھتے ہوے یہ بھی بتایا کہ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو دونوں جنسوں سے کشش محسوس کرتے ہیں، انہیں بائی سیکچول کہا جاتا ہے. مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے بات کاٹ کر پوچھ لیا: میں آپ کی باتیں سمجھ گئی ہوں لیکن اس بات کی اب تک سمجھ نہیں آ رہی کہ آپ لوگوں کو اپنے جسم پر اتنا کنٹرول کیسے ہے؟ کیا آپ کے جذبات خواتین کو ننگی دیکھ کر جوش میں نہیں آتے؟ اگر آتے ہیں تو لنڈ کیوں کھڑا نہیں ہوتا؟ اور اگر نہیں آتے تو کیوں نہیں آتے؟ کیا آپ بس اپنی بیوی کی جانب ہی کشش محسوس کرتے ہیں؟ ایسا کیوں ہے؟ 
میں نے تو سوالات کی بوچھاڑ ہی کر دی تھی لیکن ان دونوں کہ چہروں پر اب بھی سوائے مسکراہٹ کے اور کچھ نہ تھا. ایسی مسکراہٹ جو کسی طالب علم کے بے وقوفانہ سوالات پر استاد کے چہرے پر آ جاتی ہے. شہرہے بیچارے کے ساتھ اچھی نہیں ہوئی. اس سے پہلے کی گفتگو کے دوران اسکا لنڈ سو گیا تھا لیکن جب میں نے اتنے بولڈ سوالات پوچھے تو شائد وہ اپنی بیوی کے منہ سے ایسی گفتگو سن کر پھر سے گرم ہو گیا. لیکن کسی کی بھی توجہ اس پر یا اس کے لنڈ پر نہیں تھی. انجیلا نے بتایا کہ کھانا تیار ہے باقی باتیں کھانے کی میز پر کر لیتے ہیں. بچوں کو اس نے پہلے ہی کھانا کھلا کر اور دودھ پلا کر سلا دیا تھا. ہم سب کھانے کی میز پر جا بیٹھے. 
پتہ نہیں یہ مارٹن کی عادت تھی کہ ہر سوال کے جواب میں تقریر جھاڑ دیتا تھا یا پھر میری وجہ سے ایسا کر رہا تھا لیکن میں نے چپ چاپ اسکی باتیں سننے کو ہی ترجیح دی کیوں کہ میرے لئے ان میں سے نوے فیصد باتیں نئی تھیں. خاص طور پر ہم جنس پرست لوگوں کے بارے میں جو معلومات مارٹن کی زبانی معلوم ہوئیں انکی وجہ سے مجھے اپنی گزشتہ زندگی کے کئی واقعات یاد آ گئے. ہو سکتا ہے یہ میرا شبہ ہی ہو لیکن میں نے یونیورسٹی میں یہ بات محسوس کی تھی کہ کئی لڑکیاں اپنی سہیلیوں سے حد سے زیادہ بے تکلف ہیں. سہیلیاں تو میری بھی تھیں اور ہمارے درمیان بھی ہر قسم کے مذاق کا سلسلہ چلتا رہتا تھا لیکن ایک دوسرے کو چھونا بس اس حد تک ہی تھا کہ سلام کے لئے ہاتھ ملانا یا پھر کبھی کبھار گلے ملنا. اب میرے ذہن میں یہ سارے واقعات گھومنے لگے کہ کچھ لڑکیاں واقعی ایسی تھیں جو ایک دوسرے میں اتنی گم تھیں کہ واشروم بھی ایک ساتھ جاتی تھیں. ایک لڑکی نادیہ خاص طور پر مجھے یاد تھی جس کی سہیلی کی شادی ہو گئی تھی تو نادیہ نے رو رو کر اپنا برا حال کر لیا تھا. تب تو میں یہی سمجھی تھی کہ پکی دوستی کی وجہ سے اپنی سہیلی کی جدائی برداشت نہیں کر پا رہی لیکن اب میں اچھی طرح سے سمجھ گئی تھی کہ وہ معاملہ کیا تھا. یقیناً آپ لوگ بھی سمجھ گئے ہوں گے. 
 

Quratulain Tahira

Quratulain Tahira