کھانے میں انجیلا نے جرمنی کی ایک خاص ڈش بنائی تھی جسے سپٹزل کہتے ہیں. اس میں پاستا سویاں اور انڈے استعمال کئے گئے تھے. کافی لذیذ تھی. اس کے علاوہ ہمارے پاکستانی ہونے کی وجہ سے اس نے بریانی بھی بنا رکھی تھی. اس کے ہاتھ میں کافی ذائقہ تھا. سچی بات ہے میں یہ توقع نہیں ر رہی تھی کہ انجیلا کی بریانی اتنی لذیذ بھی ہو سکتی ہے لیکن میری توقعات غلط ثابت ہوئیں لیکن صرف ایک یہی توقع غلط ثابت نہیں ہوئی تھی. میں نے تو ننگی ہوتے وقت بھی یہ ہی سوچا تھا کہ آج کی رات کافی مشکل ہو گی اور سارا وقت انتہائی اکورڈ انداز میں گزرے گا لیکن مارٹن اور انجیلا کی مہمان نوازی اور دوستانہ روئے نے سب کچھ تبدیل کر کے رکھ دیا تھا اور میری کنفیوزن اب کانفیڈنس میں تبدیل ہو گئی تھی. میری سوچوں کا تانتا مارٹن کی آواز سے ہی ٹوٹا. اسکی مخاطب میں ہی تھی. بچپن سے اب تک میں ایسے اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں پڑھتی آئی تھی جہاں لڑکیاں اور لڑکے اکٹھے پڑھتے تھے اور ایک دوسرے سے باتیں اور دوستی عام تھی. یہ ہی وجہ تھی کہ میں کبھی کسی مرد سے بات کرتے ہوے نہیں گھبراتی تھی بلکہ مرد مجھ سے بات کرتے ہوے گھبراہٹ کا شکار ہو جاتے تھے. میں چونکہ جرنلزم کی طالبہ تھی اس لئے معلومات کی بھی میرے پاس کوئی کمی نہیں تھی. آج پہلا موقع تھا کہ میں خاموشی سے سن رہی تھی اور ایک مرد اپنی معلومات سے مجھے متاثر کئے جا رہا تھا. میں یہ ماننے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی کہ مجھے اس موقع پر شدت سے احساس کمتری ہو رہا تھا. اچھی یا بری، میری یہ خواہش تھی کہ ہمیشہ گفتگو میں میرا پلا بھاری رہے. بہرحال اب کیا کیا جا سکتا تھا. ظاہر ہے کسی موضوع پر معلومات نہ ہوں تو ایسا ہی ہوتا ہے.
مارٹن نے مجھے سمجھانا شروع کیا تو انجیلا نے میری طرف دیکھ کر ایسے مسکراہٹ دی جیسے وہ اس ساری صورتحال کو انجوائے کر رہی ہو. شہریار بھی کھانا کھاتے ہوے مسکرائے جا رہا تھا. اس وقت تو مجھے ان کی مسکراہٹ کی وجہ سمجھ نہ آئی لیکن بعد میں مجھے شہریار نے بتایا کہ مارٹن کی عادت ہے کہ ہمیشہ بلا ضرورت بولتا چلا جاتا ہے اور دوسروں کو بور کرتا ہے. ہو سکتا ہے شہریار اور انجیلا بور ہو رہے ہوں کیوں کہ ان کے لئے یہ باتیں نئی نہیں تھیں لیکن میں مارٹن کی باتوں سے لطف اندوز ہو رہی تھی. مارٹن نے جو باتیں کیں میں انہیں لفظ بہ لفظ تو یہاں بیان نہیں کر سکتی مختصر طور پر ہی بتا سکتی ہوں. اس نے مجھے بتایا کہ انسان اپنی تاریخ کے آغاز میں ننگے ہی رہتے تھے اور ایسے رہنے سے ہر گز شرمندہ نہیں ہوتے تھے. جیسے جیسے انسان ترقی کرتا گیا اس کے رہن سہن کے طریقوں میں تبدیلیاں رونما ہونی ہونی شروع ہو گئیں. ان ہی تبدیلیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ انسان نے اپنا جسم ڈھانپنا شروع کر دیا اور اپنے جسم دیکھنے پر شرمندگی محسوس کرنے لگا. صدیوں سے جسم ڈھانپنے کی وجہ سے اب انسان ننگے پن کو ایک غیر قدرتی چیز تصور کرنے لگا ہے اور اس جسم ڈھانپنے کا دوسرا اثر یہ بھی ہوا کہ ننگے پن کو سیکس سے منسوب کر دیا گیا جو کہ سراسر غلط ہے. اب اگر انسان ننگے پن کو اپناتے ہیں تو انہیں ایسے مسائل درپیش ہوتے ہیں جو بلکل قدرتی ہیں مثلا مردوں کے لئے سب سے بڑا مسلہ یہ ہے کہ ان کا لنڈ کھڑا ہو جاتا ہے اور وہ اپنے لنڈ کو قابو نہیں کر پاتے. لنڈ کھڑا ہونے کی وجہ سے اگر کوئی یہ کہے کہ ننگا پن ہی ترک کر دینا چاہیے تو میں تو اسکو بے وقوف ہی کہوں گا کیوں کہ کسی بھی کام میں اگر کوئی مسلہ درپیش ہو تو مسلے کو حل کیا جاتا ہے نہ کہ کام کو ہی ترک کر دیا جائے.
میں مارٹن کے لیکچر سے کسی حد تک بور ہونے لگی تھی. کھانا بھی کھا چکی تھی لیکن وہ مسلسل بولے چلے جا رہا تھا. انجیلا میرے جذبات بھانپ گئی اسی لئے اس نے مارٹن کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا: ڈارلنگ، کیوں نہ اب اپنے مہمانوں کو گھر کا ٹور کروایں.
اب تو واقعی میں بھی تنگ آ گئی تھی مارٹن کی باتوں سے. وہ واقعی ہر بات کے جواب میں اتنی غیر ضروری تفصیل بتاتا تھا کہ سننے والا تنگ ہی آ جائے.
پھر ہم نے ان کے ساتھ گھر کا ٹور کیا. انہوں نے ہمیں گھر کے کمرے دکھائے. بیڈروم تو میں پہلے ہی دیکھ چکی تھی. بچوں کے سونے کا کمرہ بھی دیکھا جہاں دونوں ننھے بچے خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے. ننگے سوتے ہوے اتنے پیارے لگ رہے تھے کہ دل کیا ایک ایک بوسہ دونوں کو دوں. ویسے بچے تو ہر حال میں ہی پیارے لگتے ہیں خواہ ننگے ہوں یا نہ ہوں. ہم نے ان کا لان بھی دیکھا جہاں ایک بیڈمنٹن نیٹ لگا ہوا تھا. انجیلا نے کھیلنے کی دعوت دی لیکن میں نے معذرت کر لی. پتہ نہیں کیوں میرا دل اب واپس جانے کا کر رہا تھا. شہریار میری بیزاری سمجھ گیا اور ان سے اجازت لے کر ہم اپنے ہوٹل واپس آ گئے. واپسی سے پہلے مارٹن اور انجیلا نے ہمیں اپنے ساتھ ساحل سمندر پر جانے کی دعوت دے ڈالی جس پر میں نے انکار تو نہیں کیا لیکن حامی بھی نہیں بھری. کپڑے پہن کر ہم واپس ہوٹل آ گئے. کھانا کھایا اور اپنے کمرے میں آ گئے جہاں شہریار مجھے چودنے کی تیاری کئے بیٹھا تھا.
شہریار نے مجھے کمرے میں داخل ہوتے ہی پکڑ لیا تھا اور وحشیوں کی طرح چمیاں کرنے لگا تھا. اب جا کر اس کا جھاکا کھلا تھا. اپنی پسند کی شادی ہو یا والدین کی پسند کی شادی ہو، شادی سے پہلے لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں، اگر شادی کی پہلی رات دونوں کا سیکس کا پہلا تجربہ ہے تو یہ بات یقینی ہے کہ شرم حیا ضرور آڑے آتی ہے. اگر لڑکا اور لڑکی دونوں پہلے ہی ایک دوسرے کے ساتھ سیکس کر چکے ہیں تو پھر تو یقیناً سہاگ رات میں بھی کھل کر سیکس کریں گے لیکن میرا اور شہریار کا معاملہ یہ نہیں تھا. میں حد سے زیادہ بولڈ ہونے کے باوجود شادی کی رات تک کنواری تھی اور شہریار نے بھی اپنی ورجنٹی یعنی کنوار پنے کو میرے لئے سنبھال کر رکھا تھا. ویسے مجھے شہریار پر اب فخر محسوس ہو رہا تھا کیوں کہ اب یہ جو معلوم ہو گیا تھا کہ وہ ننگا طرز زندگی اپنا چکا ہے. ظاہر ہے، لوگوں کی موجودگی میں ننگا ہونے پر کسی بھی لڑکی کو دیکھ کر دل تو للچا ہی سکتا ہے. اور ویسے بھی انگریزوں کا کیا اعتبار. یہ لوگ تو شادی سے پہلے بھی سیکس کے قائل ہیں. ایسے میں شہریار کا سیکس سے بچے رہنا واقعی ہمت کا کام تھا. اگرچہ میری اپنی زندگی میں کئی مواقع ایسے آے تھے جب میں تقریباً بہک ہی گئی تھی لیکن پتہ نہیں کیسے سیکس سے خود کو محفوظ رکھ پائی.
یہ بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ سہاگ رات پر شہریار اور میں جتنے شرمیلے تھے اور جھجھک جھجھکک کر سیکس کر رہے تھے، اب ہم دونوں اس کے بلکل متضاد تھے اور اپنی پیاس کو بجھانے کے لئے ہر حد تک جانے کو تیار تھے. دراصل سہاگ رات ہر لڑکی کے لئے یادگار ہوتی ہے. لڑکوں کے لئے بھی ہوتی ہو گی لیکن لڑکی ہونے کے ناطے یہ میں یہ وثوق سے کہ سکتی ہوں کہ کنواری لڑکیوں کے لئے یہ رات ساری زندگی بھولنا نہ ممکن ہوتا ہے. میری سہاگ رات کچھ اسلئے ہی زیادہ رومانٹک تھی کہ شہریار اور میں نے ساری رات باتیں کیں اور مارے شرم کے شہریار کچھ کر ہی نہیں پا رہا تھا. میں تو دل ہی دل میں یہ سوچ چکی تھی کہ کچھ نہیں ہونے والا لیکن نہ جانے شہریار میں اتنی ہمّت کہاں سے آ گئی کہ اس نے میرا بوسہ لے لیا ہونٹوں پر. میں نے شرم سے آنکھیں بند کر لی تھیں. اس کے بعد ہم نے سیکس کیا جو اپنی جگہ خود ایک مزاحیہ قصّہ ہے. مختصر یہ کہ شہریار نے میری شلوار اتاری لیکن پوری نہیں. گھٹنوں تک اتاری اور جب اپنا لنڈ ڈالنے لگا تو لنڈ کھڑا ہی نہ ہو. بیچارہ اتنا پریشان ہوا تھا. کمرے میں ہلکی روشنی والا بلب جل رہا تھا جس سے مجھے اس کے چہرے کے تاثرات صاف نظر آ رہے تھے. بڑی مشکل سے اس نے لنڈ کھڑا کیا اور اندر ڈالا. مجھے اتنی تکلیف ہوئی کہ برداشت کرنے کے باوجود منہ سے آہ نکل گئی. آہ نکلنی تھی کہ وہ بیچارہ بھی ڈسچارج ہو گیا. اور ہم دونوں پھر سے لیٹ گئے. یہ رات کے آخری پہر ہوا تھا. نا تو میں سہاگ رات میں اس کا لنڈ دیکھ پائی نہ ہی وہ میرے ممے یا چوت دیکھ پایا. میں شادی سے پہلے یہ ہی سوچتی تھی کہ سہاگ رات پر نہ جانے کیسا سیکس ہو گا. پورن فلموں میں جو کچھ دیکھا تھا، میرا خیال تھا کہ وہی سب کچھ ہو گا کیوں کہ شہریار یورپ کا تعلیم یافتہ لڑکا اور میں بھی اچھی خاصی ماڈرن لڑکی، بھلا ہم دونوں میں کیا چیز آڑے آ سکتی ہے.
سچ تو یہ ہے کہ آج پہلا موقع تھا مارٹن اور انجیلا کے گھر سے واپسی پر جب شہریار نے اپنے جذبات کا اظہار اتنے وحشیانہ انداز میں کیا تھا. اس نے پلک جھپکتے میں مجھے کپڑوں سے آزاد کر دیا اور گود میں اٹھا کر بیڈ پر پٹخ دیا. میں خود تو پہلے ہی گیلی ہو چکی تھی. میرا خیال تھا کہ اب چدائی شروع ہو گی لیکن آج کا دن تو تھا ہی سرپرائز سے بھرپور. شہریار نے اپنا منہ میری چوت پر رکھ دیا اور چاٹنے لگا. اف. میں بتا نہیں سکتی کہ میں لذت کی کن بلندیوں پر تھی. شہریار کی زبان میری چوت کے اندر باہر ہو رہی تھی اور میں پاگل ہو رہی تھی. اتنا مزہ تو لنڈ سے بھی نہیں آیا تھا. میں زیادہ دیر برداشت نہ کر سکی اور شہریار کا سر پکڑ کر اپنی چوت میں دبانے لگی. شہریار بھی مکمل وحشی بنا ہوا تھا اور چوت کو ایسے چاٹ رہا تھا جسے اس میں سے شہد نکل رہا ہو. بمشکل مجھے دو منٹ لگے ہوں گے کہ میں ڈسچارج ہو گئی. لیکن شہریار تو ابھی شروع ہوا تھا. اس نے میرے ڈسچارج ہونے پر بھی بس نہیں کی بلکہ کھڑے ہو کر اپنا لنڈ میری چوت میں گھسا دیا. ایک مرتبہ تو میری چیخ ہی نکل گئی. اس کا انداز ہی ایسا تھا. جیسے پورن فلموں میں چدائی ہوتی ہے بلکل ویسا ہی. اتنی زور زور سے جھٹکے مار رہا تھا کہ ڈسچارج ہونے کے باوجود میں پھر سے لطف اندوز ہونے لگی تھی. میرے منہ سے بھی مسلسل آہ آہ کی آوازیں نکل رہی تھیں. بلآخر کچھ دیر میں ہم دونوں ایک ساتھ ڈسچارج ہوے اور شہریار میرے اوپر ہی لیٹ گیا. اس رات ہم نے تین مرتبہ سیکس کیا اور اس کے علاوہ ہم دونوں نے ایک دوسرے کو منہ سے ڈسچارج بھی کروایا. پہلی بار میں نے شہریار کی منی کا ذائقہ چکھا اور مجھے اچھا بھی لگا. شاید ہم دونوں اگر تھکے نا ہوتے تو مزید سیکس بھی کرتے لیکن تھکاوٹ شہوت پر غالب آ گئی اور ایک دوسرے سے لپٹ کر نیند کی وادی میں جا پہنچے.