Language:

Search

ہنی مون ان جرمنی قسط نمبر 5

  • Share this:

شہریار اور میری شادی کو آج تین ہفتے مکمل ہو گئے تھے. ان تین ہفتوں میں ہم نے متعدد مرتبہ سیکس کیا تھا لیکن آج مارٹن اور انجیلا کے ہمراہ سمندر کی سیر کے بعد شہریار کا جوش دیدنی تھا. جوش کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے دروازہ بند کیا اور مجھ پر پل پڑا. ایک لمحے کو تو میں گڑبڑا کر ہی رہ گئی تھی. اسکا رویہ ہی ایسا تھا. میں نے تو آج تک اس کو بہت رحم دل اور خیال رکھنے والا ہی پایا تھا. یہ وحشیانہ پن میرے لئے بلکل نئی چیز تھی اس لئے میری حیرانگی قدرتی تھی. میں اکثر سیکس کے دوران منہ سے ایسی آوازیں نکالا کرتی تھی جیسے پورن فلموں میں چدنے والی اداکارائیں نکالتی ہیں. اس سے مجھے بھی دوران سیکس ایسا لگتا تھا کے میں کوئی فلمی اداکارہ ہوں اور آوازیں سن کر شہریار کا جنوں بھی بڑھتا تھا لیکن آج کی بات نرالی تھی. آج کوئی اداکاری میرے روئیے میں شامل نہ تھی. سو فیصد قدرتی رد عمل تھا. جب شہریار نے مجھے گود میں اٹھا کر بیڈ پر پٹخا تو میری چیخ نکل گئی. شہریار تو جیسے بھیڑیا بنا ہوا تھا. میں سہم کر بیڈ پر اس کی پہنچ سے دور ہوئی لیکن اس نے آگے بڑھ کر میری ٹانگیں کھینچ کر اپنے قریب کر لیا. میرے منہ سے دبی دبی چیخیں نکل رہی تھیں جو کہ ایک دم بلند ہو گیں جب اس نے میرا بلاؤز اتارنے کے بجائے کھینچ کر پھاڑ ہی دیا. مجھے اچھی طرح سے معلوم ہو گیا تھا کہ بات صرف بلاؤز تک ہی محدود نہیں رہے گی بلکہ اور بھی بہت کچھ پھٹنے والا ہے. چوت تو میری پہلے ہی پھاڑ چکا تھا. کیا اب میری گانڈ کی باری ہے؟ یہ سوچ کر ہی میرے رونگٹھے کھڑے ہو گئے. کھڑا تو شہریار کا لنڈ بھی تھا جس کا اندازہ پینٹ کے اندر سے ہی ہو رہا تھا. میرا بلاؤز پھاڑنے کے بعد زیادہ وقت ضائع کے بغیر اس نے میری پینٹ اتار دی اور خود بھی ننگا ہو گیا. لنڈ کی تنتناہٹ دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی. لنڈ کی ٹوپی ایسے سرخ انگارہ ہو رہی تھی جیسے خون سے بھر گئی ہو. اف. ایک لمحہ ضایع کے بغیر اس نے میری ٹانگیں اٹھا کر اپنے کندھوں پر رکھیں اور ایک ہی دھکے میں پورا کا پورا لنڈ میری چوت میں داخل کر دیا اور جھٹکے مارنے لگا. ہر جھٹکے کے ساتھ میری بلند ہوتی چیخوں نے شاید اسکا جنوں کئی گنا بڑھا دیا تھا کیونکہ ہر جھٹکے کی شدت میں اضافہ ہوا چلا جا رہا تھا. شکر تھا کہ یہاں کمرے ساؤنڈ پروف تھے ورنہ تماشا ہی بن جاتا. شہریار نے اس بری طرح مجھے چودا کہ یہ تجربہ میری زندگی کے یادگار ترین تجربوں میں سے ایک بن گیا. آغاز میں میں جس قدر سہمی ہوئی تھی، بعد میں میں نے اتنا ہی انجوائے کیا. 
یہ سچ ہے کہ شروع میں میری چیخوں کی وجہ درد ہی تھا. بیشک میں کنواری نہیں تھی لیکن چدائی کے لئے چوت کا تر ہونا بھی بہت ضروری ہوتا ہے اور جب شہریار نے میری خشک چوت میں اپنا لوہے کے راڈ کی طرح سخت لنڈ پورا کا پورا ایک ہی جھٹکے میں گھسیڑ دیا تو درد تو ہونا ہی تھا نا. بہرحال، جب اتنی شدت سے چدائی ہو تو زیادہ دیر تک نہیں چلتی. وہی ہوا، پانچ منٹ کے اندر ہی شہریار ڈسچارج ہو گیا اور میرے ساتھ ہی بیڈ پر نڈھال ہو کر لیٹ گیا. کمرے میں مکمل خاموشی طاری تھی اور میں شہریار کے اس غصیلے موڈ کی وجہ سوچے چلے جا رہی تھی. کہیں شہریار کو اس بات پر تو غصہ نہیں آیا تھا کہ مارٹن نے مجھے گرنے سے بچانے کے لئے اپنے بازوں کا سہارا دیا تھا اور شہریار بیشک کتنا ہی کھلے ذہن کا مالک کیوں نا ہو، اپنی برہنہ مشرقی بیوی کو ایک برہنہ غیر مرد کی بانہوں میں دیکھ کر حسد میں مبتلا تو ہو سکتا ہے نا. میرے لئے یہ سوچ ہی بہت تکلیف دہ تھی کیوں کہ میں چاہتی تھی کہ ہمارے رشتے کی بنیاد اعتماد ہو اور شک ہم سے کوسوں دور رہے. 
شہریار سے ڈرتے ڈرتے میں نے اس وحشیانہ پن کی وجہ دریافت کی لیکن وہ مجھے بتانے سے جھجھک رہا تھا. میرے بار بار اصرار پر اس نے بتایا کہ جب مارٹن نے مجھے اپنے بازؤں میں تھاما تھا تو اسے برا لگنا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ اس کا الٹا ہی اثر ہوا تھا یعنی مجھے مارٹن کی بانہوں میں دیکھ کر شہریار نے ہارنی فیل کیا تھا. شہریار کے منہ سے یہ سن کر میں حیران رہ گئی. میں نے تو جو بات سوچی تھی حقیقت اس کے بلکل الٹ ہی نکلی. حیرانی اپنی جگہ، لیکن شہریار کی سوچ نے میری ذہن میں خیالات کی نئی جہتیں جگا دی تھیں. اگر مجھے غیر مرد کی بانہوں میں دیکھ کر شہریار کو اچھا لگتا ہے تو یہ سلسلہ آخر کہاں رکے گا؟ ابھی تو مارٹن کے عمل میں کوئی جنسی عنصر نہیں تھا لیکن اگر کوئی مجھے غلط نیت سے چھوئے تو کیا پھر بھی شہریار کو اچھا لگے لگا اور کیا وہ ایسا منظر دیکھ کر لطف اندوز ہو گا؟ ایسے ان گنت سوالات میرے ذہن میں منڈلانے لگے تھے. شہریار کا وحشیانہ پن تو لگتا تھا کہ ڈسچارج ہوتے ہی ختم ہو گیا تھا. میرے چہرے پر گہری سوچ کے آثار دیکھ کر شائد وہ بھانپ گیا کہ میرے ذہن میں یقیناً اسکی بات سے شکوک و شبھات پیدا ہو گئے ہیں جنہیں دور کرنے کی غرض سے اس نے مجھے بتایا کہ یہ اس کی سیکس فنٹسی ہے لیکن وہ کبھی کوئی ایسا کام نہیں کرے گا جس سے میں ان کمفرٹیبل محسوس کروں اور نہ ہی کسی ایسے کام پر مجھے مجبور کرے گا جسے کرنا مجھے نہ پسند ہو. 
اتنی محبت بھری باتیں سن کر میرا دل بھر آیا اور مجھے خوشی بھی ہوئی کہ میرا شوہر اتنا پیار کرنے والا ہے ورنہ پاکستانی مردوں کا حال تو میں دیکھ ہی چکی تھی. بہرحال، شوہر اتنا اچھا ہو تو پھر بیوی کے دل میں بھی محبت پیدا ہو ہی جاتی ہے خواہ مرضی کی شادی ہو یا نہیں. میری تو ویسے بھی پسند کی ہی شادی تھی. میں شہریار کی محبت کے سامنے پگھلی جا رہی تھی. لاکھ کوشش کی کہ خود پر قابو پا سکوں لیکن آنکھوں سے آنسو نکل ہی آئے اور میں بے اختیار شہریار کے گلے لگ کر رونے لگی. شہریار مجھے تسلیاں دیے جا رہا تھا کیوں کہ اس کا خیال تھا کہ میں اسکے گزشتہ روئے سے دلبرداشتہ ہوں جبکہ میں نے دل میں یہ تہیہ کر لیا تھا کہ میں شہریار کی ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کروں گی خواہ اسے پورا کرنے کے لئے مجھے کسی حد تک بھی کیوں نہ جانا پڑے. 
ہمیں جرمنی میں آئے ہوے تین ہفتے ہونے کو آ رہے تھے اور واپسی میں بس ٨ دن باقی تھے. ہم نے اس دوران زندگی کا خوب لطف اٹھایا. بازاروں، شاپنگ مالز کی سیر کی. پارکس کی سیر کی. تاریخی مقامات دیکھے اور بہترین ریسٹورنٹ سے کھانے کھائے. ان سب چیزوں کے باوجود مجھے سب سے زیادہ مزہ مارٹن انجیلا اور شہریار کے ہمراہ ساحل سمندر کی سیر کرنے پر آیا تھا. بنا کپڑوں کے سمندر کے پانی میں نہانا. دھوپ میں لیٹنا اور کسی کی نظروں کا مرکز نہ ہونا. سب لوگوں کا ایسے برتاؤ کرنا جیسے ننگا پن بلکل قدرتی چیز ہے. ان سب باتوں نے میرے نظریات بدل کر رکھ دیے تھے اور میں یہ محسوس کرنے لگی تھی کہ اب مجھے کپڑوں میں ایک عجیب سی الجھن ہوتی ہے. ایک احساس سا رہتا ہے بے چینی کا جب تک کپڑے اتار کر ننگی نہ ہو جاؤں. سچی بات تو یہ ہے کہ اگرچہ شہریار مجھ سے پہلے سے یہ طرز زندگی اپنا چکا تھا لیکن میں اس طرز زندگی سے ایسی مانوس ہوئی تھی کہ معلوم ہوتا تھا کہ میں ہمیشہ سے ہی ننگی رہتی چلی آ رہی ہوں اور شہریار اس میں نیا نیا داخل ہوا ہے. 
بہرحال، ہم نے یہ آٹھ دن بھی گھومنے پھرنے میں گزار دیے. روانگی سے پہلے آج ہماری آخری رات تھی جرمنی میں. میں نے شہریار سے کہا کیوں نہ ہم جانے سے پہلے ایک بار مارٹن اور انجیلا سے ملتے چلیں. اس نے بھی میری بات کی تائد کی. وہ اطلاع دینا چاہتا تھا لیکن میں نے منع کر دیا اور تجویز دی کہ سرپرائز دیتے ہیں. شہریار فوراً مان گیا. 
ہم دونوں اوبر کروا کر ان کے گھر پہنچے. راستے سے ایک شراب کی بوتل لینا نہیں بھولے تھے. یہ کسی کے گھر جانے کے آداب میں شامل تھا کہ کچھ نہ کچھ لے کر جایا جائے. پاکستان میں جس طرح مٹھائی لے کر جاتے ہیں. یہاں تو مٹھائی کا رواج نہیں. شراب البتہ خوب پسند کی جاتی ہے. رات کے گیارہ بجے کا وقت تھا. گلی میں سناٹا تھا. معلومات کی غرض سے صرف اتنا بتاتی چلوں کہ وہاں رہائشی علاقے کمرشل علاقوں سے علیحدہ ہوتے ہیں اور کمرشل علاقوں میں جہاں زندگی ساری رات رواں دواں رہتی ہے، وہیں رہائشی علاقوں میں رات کے ٩ بجے تک ہی مکمل خاموشی چھا جاتی ہے. 
شہریار بیل بجانے ہی لگا تھا کہ میں نے اسکا ہاتھ تھام لیا. وہ حیرانی سے میری طرف دیکھنے لگا. میں نے اسکے کان میں کہا کہ بیل بجانے سے پہلے کپڑے اتار لیں تو میزبانوں کو ایک اور خوشگوار سرپرائز دے سکتے ہیں. شہریار میری بیباکی پر یقیناً فخر محسوس کر رہا ہو گا. ہم دونوں نے وہیں کھڑے کھڑے کپڑے اتارے جو میں نے اپنے پرس میں رکھ لئے. شہریار نے ایک ہاتھ میں شراب کی بوتل تھام رکھی تھی اس لئے دوسرے ہاتھ سے گھنٹی بجائی. دروازے کے باہر انٹرکام پر کنفرمیشن کے بعد ہی مارٹن نے دروازہ کھولا تھا اور دروازہ کھولنے پر اس کے چہرے کے تاثرات دیدنی تھے. ہمارے آنے کی خوشی اس کے چہرے سے عیاں تھی. خوشی ہی تھی کہ اس نے بجائے مصافحے کے آگے بڑھ کر شہریار کو گلے لگا لیا. اس سے گلے ملنے کے بعد مارٹن نے بس نہیں کی بلکہ مجھ سے بھی بغل گیر ہو گیا. میں اس سے ہاتھ تو ملا چکی تھی پہلے بھی اور ساحل پر اس نے بازوں کا سہارا بھی دیا تھا مجھے لیکن تب بھی میرے اور اس کے جسم میں کسی قدر فاصلہ برقرار تھا اور صرف گنتی کے چند اعضاء ہی ایک دوسرے سے چھو پائے تھے. اب جب مارٹن نے مجھے گلے لگایا تو میرے پورے جسم میں سنسناہٹ دوڑ گئی. اگرچہ یہ صرف چار پانچ سیکنڈز کی بات ہی تھی لیکن ان چار پانچ سیکنڈز میں میرا جسم مارٹن کے جسم سے مکمل چھو گیا تھا. میں نے تو آج تک کسی مرد سے کپڑے پہن کر گلے نہیں ملی تھی، اب جب ننگی ہو کر گلے ملی تو جسم میں آگ لگ گئی. میرا منہ اس کے کندھے پر ٹچ ہوا تھا. پستان اس کے سینے سے اور لنڈ میرے پیٹ پر ناف کی جگہ سے ٹچ ہوا تھا اسکا قد مجھ سے لمبا تھا اس لئے. میں نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو کنٹرول کیا تھا. گلے ملنے پر مارٹن نے میری کمر پر ہاتھ رکھے تھے اور میں نے اسکی کمر پر. ابھی مارٹن مجھ سے گلے مل کر پیچھے ہٹا ہی تھا کہ انجیلا بھی آ گئی اور ہمیں خوش آمدید کہنے کے بعد ہم دونوں سے باری باری گلے ملی. سچ کہوں تو پہلی بار دونوں جنس کے لوگوں سے برہنہ حالت میں گلے ملنا بھی ایک منفرد تجربہ تھا. مارٹن اور انجیلا کے تاثرات تو ایسے تھے کہ جیسے یہ روٹین کی بات ہے لیکن میرے جنسی جذبات مکمل بیدار ہو گئے تھے. انہوں نے شراب کی بوتل پر شکریہ ادا کیا اور ہم لوگ ڈرائنگ روم میں جا کر بیٹھے. بچے سو چکے تھے۔ 
کچھ دیر ہم نے گپیں لگائیں. انجیلا شراب کی بوتل اور گلاس اٹھا لائی تھی. شائد اس لمحے ہم سب ہی جذبات میں اتنا آگے نکل گئے تھے کہ سب کچھ بھول گئے تھے. نہ تو انجیلا کو اس بات کا ہوش تھا کہ ہم شراب نہیں پیتے اور نہ ہی ہم نے منع کیا جب اس نے ہمارے سامنے گلاس لا کر رکھے. وہ دونوں تو شراب پینے کے عادی تھے اور شہریار بھی میرے سامنے اعتراف کر چکا تھا کہ وہ بھی کبھی کبھار ایک آدھ گلاس شراب پی ہی لیتا ہے مہینے بھر میں لیکن میں نے آج تک شراب نہیں پی تھی. یہ بات نہیں کہ میں کوئی بہت شریف لڑکی تھی. جس قسم کی پارٹیوں میں میں جاتی رہی تھی ان میں شراب کا آزادانہ استعمال ہوتا تھا لیکن ماڈرن ہونے کے باوجود میں نے شراب سے اس لئے احتراز برتا تھا کہ شراب کے نشے میں کہیں کوئی ایسی حرکت نہ کر بیٹھوں جس سے میرے والدین کی عزت پر کوئی حرف آئے۔ پہلی بار شراب کی چسکی لی. زائقہ عجیب لگا لیکن میں آہستہ آہستہ چسکیاں لیتی رہی. باتوں باتوں میں پتہ بھی نہ چلا اور میں پورا گلاس پی گئی. عجیب سا احساس تھا.میں نے چرس کا نشہ کر رکھا تھا پہلے کئی بار لیکن یہ اس سے مختلف تھا. تھوڑی ہی دیر میں مجھے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے میں آسمان پر اڑ رہی ہوں. اب میں باتوں میں حصہ تو لے رہی تھی لیکن باقی لوگوں کی باتوں پر فوکس نہیں کر پا رہی تھی زیادہ دیر تک. ایسا لگتا تھا جیسے شارٹ ٹرم میموری پر شراب کا اثر زیادہ ہوا تھا. مجھے شراب کے اثرات محسوس تو ہو رہے تھے لیکن میں نے بظاھر کسی کو یہ پتہ نہیں لگنے دیا تھا کہ میں کچھ کچھ بہکنے لگی ہوں. تھوڑی دیر باتیں کرنے کے بعد انجیلا نے ایک گیم کی تجویز دی جس میں شراب کی خالی بوتل میز پر لٹا کر گھمانی ہوتی تھی اور گھومتے ہوے بوتل جب رکتی تھی تو جس کی طرف اسکا رخ ہوتا تھا اسے گھمانے والے کی مرضی کا کوئی نہ کوئی کام کرنا پڑتا تھا. مزے کی بات یہ تھی کہ کوئی حد نہیں تھی اس میں یعنی کوئی بھی کام کہا جا سکتا تھا. میں نے اس گیم کو فلموں میں تو دیکھا تھا لیکن حقیقی زندگی میں پہلی بار کھیلنے لگی تھی. 
 

Quratulain Tahira

Quratulain Tahira