گیم کا نام تھا سپن دی باٹل. بؤتل کو درمیان میں میز پر رکھ کر گھمایا جاتا تھا اور کھیلنے والے میز کے گرد بیٹھ جاتے تھے. میں نے فلموں میں جب جب یہ گیم دیکھی تھی ان میں مختلف اصول تھے. ایک اصول یہ تھا کہ جو بؤتل کو گھماۓ گا وہ اس شخص کو بوسہ دے گا جس کی طرف بؤتل کا رخ ہو گا رکنے پر. ایک دوسرا ورژن بھی اس گیم کا تھا جس میں گھمانے والے سے قطع نظر بؤتل کے رکنے پر دیکھا جائے گا کہ بؤتل کا منہ اور پچھلا حصہ کن دو افراد کی جانب ہیں. ان دونوں افراد کو بوسہ کرنا ہو گا سب کے سامنے. دراصل اس گیم کے کوئی لکھے پڑھے اصول تھے ہی نہیں جس کا جو دل کرتا تھا، گیم کو اپنی پسند کے مطابق موڑ لیا جاتا تھا. جب انجیلا نے تجویز پیش کی تو میرے ذہن میں یہ تھا یا تو بؤتل کا منہ جس کی طرف ہو گا اسے اپنی زندگی کا کوئی نہ کوئی واقعے سنانا ہو گا جس پر اسے شرمندگی ہو یا پھر باقی لوگ اسے کوئی ایسا کام کہیں گے جو خطرناک ہو سکتا ہے مثلاً بنا کپڑوں کے باہر کا چکر لگانا یا دکان سے کچھ لے کر آنا. میرے ذہن میں کنفیوژن تھی مگر جب مارٹن نے گیم کا آغاز کیا اور بوتل کا رخ انجیلا کی جانب آیا تو میری کنفیوژن دور ہو گئی کیوں کہ ان دونوں نے فورن ایک دوسرے کو بوسہ دیا ہونٹوں پر. اب مجھے سمجھ آنے لگی تھی کہ اس کھیل کے اصول کیا ہیں لیکن میں نے پھر بھی اپنے آپ کو مطمئن کرنے کے لئے ان سے پوچھ لیا کہ اگر میری جانب بوتل کا رخ آیا اور میں بوسہ نہ دینا چاہوں سب کے سامنے تو کیا ہو گا؟ جواب ملا کہ پھر صورتحال سنگین ہوتی چلی جائے گی. یہ تو بنیادی اصول ہے اس کھیل کا کہ دس سیکنڈز کے اندر اندر بوسہ لینا ہوتا ہے. اگر دس سیکنڈز میں بوسہ نہ لے سکیں تو دونوں کو اگلے دس سیکنڈز کے اندر فرنچ کس کرنی پڑے گی. وہ بھی نہ کی تو پھر کھیل میں شریک باقی لوگ فیصلہ کریں گے کہ ان دونوں کو کیا کام کرنے پر مجبور کرنا ہے اب.
کچھ شراب کا نشہ تھا اور کچھ میں پہلے ان دونوں سے گلے ملنے کی وجہ سے ہارنی تھی. جب مارٹن اور انجیلا نے ہمارے سامنے ایک دوسرے کو بوسہ دیا تو میرے جنسی جذبات مزید مشتعل ہو گئے. نپلز بھی کھڑے تھے. شراب کے نشے کا یہ اثر بھی تھا کہ میں معمول سے زیادہ بولے چلے جا رہی تھی. کھیل میں خوب حصّہ لے رہی تھی. اگلی باری انجیلا کی تھی. اس نے بوتل گھمائی تو رخ شہریار کی طرف آیا. میں سمجھی تھی کہ شہریار جھجھکے گا لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب شہریار اور انجیلا دونوں ہی فٹا فٹ ایک دوسرے کو بوسہ دینے کے لئے لپکے. انجیلا میرے بائیں جانب بیٹھی تھی اور شہریار میرے دائیں جانب. جب انہوں نے ایک دوسرے کو میز کے اوپر سے لپک کر ہونٹوں پر بوسہ دیا تو وہ میرے بلکل سامنے تھے اور میرے چہرے سے بہت قریب. میری نظروں کے اتنے قریب میرے شوہر کے ہونٹ انجیلا کے گلابی ہونٹوں سے ٹکراے. دونوں نے ہی پچ کی آواز نکالی جیسے چومتے وقت نکالتے ہیں. اب شہریار کی باری تھی گھمانے کی. اس نے بوتل گھمائی اور شو مئی قسمت کہ بوتل کا رخ پھر سے انجیلا کی طرف آ گیا. اف. پھر سے وہی سین چلا. مجھے غصہ بھی آ رہا تھا کہ میری طرف کیوں نہیں آ رہا بوتل کا منہ. غصے میں میں نے گلاس اٹھا کر منہ سے لگا لیا اور گلاس کے پیندے میں جو تھوڑی سی شراب بچی تھی وہ بھی اپنے حلق میں انڈیل لی. انجیلا کی باری تھی. اس نے گھمائی تو رخ پھر شہریار کی جانب. تیسری بار مسلسل انہوں نے بوسہ لیا. سچی بات ہے کہ مجھے اب برا محسوس ہونے لگا تھا. اتنی آزاد خیال ہونے کے باوجود مجھے اب حسد محسوس ہو رہا تھا. میرے شوہر کو مسلسل ہونٹوں پر بوسہ دے جا رہی تھی اور وہ بھی میرے سامنے. جب چوتھی بار بھی بوتل کا رخ انجیلا کی جانب آیا اور شہریار اور انجیلا نے میرے سامنے چوتھی بار ایک دوسرے کا ہونٹوں پر بوسہ لیا تو میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا.
نہ جانے یہ نشے کا اثر تھا یا حسد کے جذبات کا کیا دھرا، جب مسلسل شہریار اور انجیلا میرے چہرے کے بلکل سامنے چوتھی بار بوسہ لینے کے لئے آگے بڑھے تو مجھ سے برداشت نہ ہوا. میں نے اپنے ہاتھ آگے بڑھا کر ان دونوں کو قریب نہ آنے دیا. ابھی وہ لوگ میرے اس عمل کو پرکھ ہی رہے تھے کہ میری اگلی حرکت نے سب کے ہوش اڑا کر رکھ دیے. حرکت ہی ایسی تھی. میں نے میز کے اوپر سے ہی آگے بڑھ کر مارٹن کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام کر اس کے لبوں پر اپنے لب رکھ دیے اور اتنی شدت سے چوسنے لگی کہ فرنچ لوگ خود بھی ایسی فرنچ کس نہ کرتے ہوں گے. اگرچہ میں تو پہلے ہی نشے میں مدہوش تھی لیکن پھر بھی شہریار اور انجیلا کے چہرے کے تاثرات بھانپ سکتی تھی جن پر یقیناً انتہائی حیرانگی ہی ہو گی. حیرانگی تو مارٹن کو بھی ہی ہو گی لیکن میں نے اسے حیران ہونے کا موقع ہی نہیں دیا. میں اتنے شدید قسم کے جذبات میں تھی کہ مجھے اپنے جسم کا بھی کچھ ہوش نہ تھا. میز کے اوپر سے ہوتی ہوئی مارٹن کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھے آنکھیں بند کیے میں اس کے اوپر ہی لیٹ گئی تھی. بیشک آغاز میں میری اس حرکت کا موجب حسد کے جذبات ہی تھے لیکن فرنچ کس نے میرے نشے کو دو آتشہ کر دیا تھا. شہریار کے ساتھ بھی کئی بار فرنچ کس کی تھی لیکن مارٹن کی زبان پر اپنی زبان ٹچ کر کے جو لذت حاصل ہوئی تھی وہ یونیک تھی. مجھے نہیں پتا تھا کہ شہریار اور انجیلا کیا کر رہے تھے. مجھے اس لمحے کسی بھی چیز کا ہوش نہ تھا. مارٹن نے پہلے پہل میرا چہرہ تھام کر مجھے اپنے سے دور کرنے کی کوشش ضرور کی تھی لیکن یا تو وہ میری حیوانگی سے دب گیا تھا یا پھر اسے خود بھی میری زبان اور ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے چھونے اور چوسنے میں مزہ آنے لگا تھا. دوسری بات زیادہ قرین قیاس تھی کیوں کہ وہ خود بھی فرنچ کس میں میرا بھرپور ساتھ دینے لگا تھا. شراب کے نشے نے میرے جنسی جذبات پہلے ہی کسی حد تک بھڑکا رکھے تھے اور میری یہ حرکت تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی. فرنچ کس کرتے کرتے میں ہاتھ مارٹن کے جسم پر بھی پھیر رہی تھی. چونکہ مارٹن نیچے قالین پر چت لیتا تھا اور میں اس کے پیٹ کے اوپر چڑھ کر بیٹھی تھی اس لئے اس کی کمر پر تو ہاتھ نہیں پھیر پائی لیکن سینے پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے ایک ہاتھ نیچے لے جا کر اس کے لنڈ کو ضرور پکڑ لیا تھا. اف. اس کا لنڈ مکمل تنا ہوا تھا. میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، لنڈ کو اپنی چوت کے دہانے پر ایڈجسٹ کر کے دباؤ ڈالنے لگی. مجھے نہیں معلوم کہ فرنچ کس کا دورانیہ کتنا تھا. بس مجھے یہ معلوم ہے کے جب مارٹن کا لنڈ میری چوت میں گیا تھا تب ہی میں نے اس کے منہ سے اپنا منہ علیحدہ کیا تھا. مارٹن کے سنہری بالوں سے بھرے سینے پر اپنے دونوں ہاتھ رکھے میں مسلسل اوپر نیچے ہو رہی تھی اور اس کا لنڈ میری چوت میں اندر باہر اندر باہر ہو رہا تھا. میری آنکھیں فرط لذت سے بند تھیں. ایسا لگتا تھا کہ ہواؤں میں اڑ رہی ہوں. مارٹن کے ہاتھ مجھے اپنے سینے پر محسوس ہو رہے تھے. ہم دونوں کے منہ سے ایسی آوازیں نکل رہی تھیں جیسے زندگی میں پہلی بار سیکس کا لطف اٹھا رہے ہوں حالانکہ دونوں ہی خاصے تجربہ کار تھے. مارٹن تو یقیناً تھا کیوں کہ وہ بڑی مہارت سے میری آوازوں اور جسم کی حرکت سے بھانپ گیا تھا کہ میں اب ڈسچارج ہونے والی ہوں. نہ جانے اس کے پاس کونسا طریقہ تھا لیکن میں ڈسچارج ہوئی تو ساتھ ہی وہ بھی ڈسچارج ہو گیا. ڈسچارج ہوتے ہی ایسا محسوس ہوا جیسے ٹانگوں سے جان نکل گئی ہو. چوت میں مارٹن کی منی لئے میں مارٹن کے پہلو میں ہی نڈھال ہو گئی.
مارٹن کے ساتھ جم کر چدائی کا نتیجہ تھا کہ سانس درست ہونے میں دو سے تین منٹ لگ گئے. ہوش سنبھلنے پر احساس ہوا کہ یہ میں نے کیا کر دیا. مارٹن اٹھ کر واشروم جا چکا تھا. ڈرائنگ روم میں صرف میں اکیلی ہی لیٹی رہ گئی. میرے سارے جذبات بشمول حسد کے ہوا ہو چکے تھے اور اب رہ رہ کر یہی خیال آ رہا تھا کہ مجھ سے بہت سنگین غلطی ہو گئی ہے. میں حسد اور جنسی جذبات کی رو میں اس قدر شدت سے بہہ گئی تھی کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی جیسے ختم ہو کر رہ گئی ہو. سونے پر سہاگہ یہ کہ شراب کے دو گلاس بھی چڑھا چکی تھی. میرا احساس ندامت اپنی جگہ لیکن شہریار اور انجیلا کی غیر موجودگی بھی مجھے کھٹک رہی تھی. کیا شہریار نے میرے اس عمل کا بدلہ انجیلا کو چود کر لیا ہے؟ یہ سوال بھی میرے ذہن میں گونجنے لگا. بے اختیار میری آنکھوں میں آنسو آ گئے کیوں کہ شہریار کسی اور سے سیکس کرے، یہ برداشت کرنا میرے لئے نا ممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور تھا. مجھ سے تو اس کی انجیلا کو کس تک پسند نہیں آئی تھی اور بھڑک کر مارٹن سے سیکس کر بیٹھی تھی. کہیں میں نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی تو نہیں مار لی. شہریار اور انجیلا کی کس کا بدلہ مارٹن سے سیکس کر کے لینا سراسر نا انصافی ہی ہے اور اگر میرے اس عمل کا جواب شہریار نے انجیلا کو چود کر دیا تو میں اپنے آپ کو کبھی معاف نہیں کر پاؤں گی. اس قسم کی سوچوں نے میرا احساس ندامت کئی گنا بڑھا دیا تھا اور میں بے اختیار رونے لگی. آنسو تو پہلے سے ہی جاری تھے آنکھوں سے اب آواز بھی نکلنے لگی ہچکیوں کی صورت میں. مارٹن واشروم سے نکلا تو مجھے دیکھ کر ٹھٹھک گیا. میرے رونے کو نظر انداز نا کر پایا اور بے اختیار میرے پاس آ کر میری دلجوئی کرنے لگا بغیر وجہ جانے. میرے ہاتھ کو پکڑ کر سہلایا. میں ابھی تک لیٹی ہوئی تھی. مارٹن نے اپنے بازو کا سہارا دے کر مجھے اٹھنے میں مدد دی. پتا نہیں یہ صرف میرے ساتھ مسلہ ہے یا پھر اور لوگوں کے ساتھ بھی کہ اگر روتے ہوے کوئی دلجوئی کرے تو اور زور سے رونا آتا ہے. مارٹن کی دلجوئی کا مجھ پر یہی اثر ہوا. میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی. مارٹن نے مجھے اپنے سینے سے لگا لیا. میں بھی خوب زور سے لپٹ گئی. وہ میرے بالوں پر اور کمر پر ہاتھ پھیرتا جاتا تھا اور ساتھ ساتھ مجھ سے پوچھتا بھی جاتا تھا کہ آخر ہوا کیا ہے؟
میں اسے بتانے ہی لگی تھی روتے ہوے کہ شہریار اور انجیلا کمرے میں داخل ہوئے. میری حیرت کی انتہا نا رہی جب ان دونوں نے ہی گزشتہ واقعات کی جانب کسی قسم کا کوئی اشارہ تک نا کیا بلکہ الٹا میرے رونے پر پریشان ہو کر مجھ سے پوچھنے لگے کہ کیا ہوا، کیوں رو رہی ہو؟ مجھے اندازہ تو ہو گیا تھا کہ شہریار اور انجیلا کے درمیان جنسی تعلق قائم نہیں ہوا. میں شہریار اور انجیلا کی چال اور ان کے آپس کے تعلق اور بول چال کے انداز سے یہ بھانپ گئی تھی کہ انہوں نے سیکس نہیں کیا. اس سے میرے دل کی کسی قدر تسلی بھی ہوئی لیکن احساس ندامت نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں شہریار سے اپنے کئے کی معافی مانگوں. میں نے مارٹن کو چھوڑ کر شہریار کا ہاتھ تھام لیا اور نظریں جھکا کر اسے کہا آئ ایم سوری لیکن شہریار کا ری ایکشن کچھ اور ہی تھا.اس نے میرے ہاتھ تھام کر چوم لئے اس بات کی پرواہ کیۓ بغیر کے میں نے مارٹن سے چدنے کے بعد ابھی تک غسل خانے کا رخ نہیں کیا تھا اور دوران چدائی ہاتھوں سے مارٹن کے لنڈ کو چھوا تھا جس سے ہاتھوں پر لیس دار مادہ لگ گیا تھا. خیر، شہریار نے بغیر کسی جھجھک کے مارٹن اور انجیلا کی موجودگی میں ہی مجھے ہونٹوں پر کس کی اور مجھے سمجھانے لگا کہ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا جس پر شرمندگی ہو. ابھی شہریار کی بات جاری تھی کہ بیل بج اٹھی. انجیلا نے دروازے پر جا کر پیزا وصول کیا جسکا آرڈر شائد اس نے تب دیا تھا جب میں مارٹن کے ساتھ مصروف تھی. ہم نے وہیں میز کے ارد گرد بیٹھ کر پیزا کھایا اور کھانے کے دوران مجھے انجیلا، مارٹن، شہریار کے خیالات سے مزید واقفیت حاصل ہوئی. انجیلا کے چہرے پر تو ایک لمحے کے لئے بھی ایسا تاثر نہیں آیا تھا کہ مارٹن نے مجھے چود کر اس کے ساتھ بے وفائی کی ہے. بلکل یہی حال شہریار کا بھی تھا. میں نے انجیلا سے پوچھا کہ کیا تمھیں اس بات پر کوئی حسد محسوس نہیں ہوتا کہ تمہارا شوہر تمہارے علاوہ کسی اور لڑکی کو چودے اور وہ بھی تمہارے سامنے. کہنے لگی کہ یہ کوئی ایسی بات نہیں جس پر برا منایا جائے. سیکس ایک ایسا جذبہ ہے جو ہر بالغ انسان میں ہوتا ہے اور یہ بلکل قدرتی ہے کہ انسان اپنے لائف پارٹنر کے علاوہ کسی اور کو دیکھ کر جنسی طور پر مشتعل ہو جائے. ایسے میں اگر وہ انسان اپنے جذبات چھپاۓ تو نا صرف اس کی اپنی سیکس لائف ڈسٹرب ہو گی بلکہ میں بیوی کا آپس کا تعلق بھی خراب ہونے کا اندیشہ ہے کیوں کہ پھر ان کے درمیان سیکس میں وہ گرم جوشی نا رہے گی جو پہلے تھی. انجیلا کی باتیں مجھے معقول لگیں لیکن تشنگی ابھی باقی تھی اس لئے مزید سوالات بھی کرنے پڑے. میں نے پوچھا کہ اگر ایسی بات ہے تو پھر شادی کا کیا فائدہ. شادی کے بغیر ہی یہ کام کرتے رہو. انجیلا نے بتایا کہ وہ خود بھی شادی کو اتنا اہم نہیں سمجھتی بلکہ شادی صرف ایک معاشرتی ضرورت کو نبھانے کے لئے کی ہے. انجیلا کی اس بات پر میں حیران ہی ہو گئی کہ اس کے بچوں میں سے بھی ایک بچہ مارٹن کا نہیں تھا بلکہ وہ انجیلا کے کسی اور سے سیکس کا نتیجہ تھا.
اف. میں نے سوچا کہ اگر مارٹن سے سیکس کے نتیجے میں میں حاملہ ہو گئی تو کیا ہو گا. دل میں سوچا کہ کاش ایسا نا ہی ہو.
اسی طرح ننگے بیٹھے گپیں مارتے وقت کا پتہ بھی نا چلا اور صبح ہو گئی. ہم نے اجازت چاہی اور اپنے ہوٹل لوٹ آے. جہاں سامان پیک تھے پہلے سے ہی. ہوٹل میں کچھ دیر سونے کے بعد ہم ایئر پورٹ کی جانب روانہ ہو گئے جہاں سے وطن واپسی کا سفر شروع کرنا تھا۔