پارٹ ١
وہ لذت کے ایک انوکھے سمندر میں غوطہ زن تھی ... اس کے جسم میں اٹھنے والی سرور کی لہروں نے اس کے دماغ سے ہر قسم کا خوف نوچ کر پھینک دیا تھا ... اس وقت وہ صرف ایک عورت تھی جس کے بدن کا رواں رواں کیف اور سرمستی میں ڈوبا ہوا تھا اور جسے دنیا کی کوئی پرواہ نہیں تھی ... اس نے اپنا سر اٹھا کر اپنی رانوں کے درمیان دیکھا جہاں کالے گھنے بالوں سے بھرا ایک سر، خاص تسلسل میں ہلتے ہوئے اسے احساس دلا رہا تھا کہ وہ آج تک اپنے ہی جسم کے حساس ترین حصوں سے ناواقف تھی ... اس نے اپنا سر واپس تکیے پر گرا دیا اور بیڈ شیٹ کو ہاتھوں میں دبوچ کر اپنی پھولتی ہوئی سانسوں کو قابو کرنے کی ناکام کوشش کرنے لگی...اس کی کمر دوہری ہو کر بستر سے کئی انچ اوپر اٹھ چکی تھی ... کوئی اندازہ نہیں تھا کہ کتنا وقت گزر چکا تھا جب اس کو لگا کہ اس کے بدن کو لگنے والے جھٹکے تکیے کو لرزنے پر مجبور کر رہے ہیں ... کچھ دیر تو سمجھ ہی میں نہ آیا کہ کیا ہو رہا ہے ... اس نے محسوس کیا کہ اس کی ناف کے نیچے گھومتی ہوئی زبان ایک لمحے کے لیے ساکت ہوئی ... اور پھر سے اپنے کام میں مصروف گئی ... اس نے تکیے کے کنارے تھرتھراتے ہوئے موبائل کو بمشکل اٹھا کر دیکھا... سکرین پر جگمگاتا نمبر دیکھ کر اس کا دل بری طرح ڈوب کر ابھرا ... اس نے اپنے پاؤں سمیٹنے کی کوشش کی لیکن اس کی دونوں رانیں مضبوط بازوؤں کے حصار میں تھیں اور وہ چاہ کر بھی اسے رکنے پر مجبور نہ کر سکی ... وہ کال اب دوبارہ آ رہی تھی ... اس نے کچھ سوچ کر کال موصول کرتے ہوئے موبائل کان سے لگا لیا اور شدت سے دھڑکتے ہوئے دل اور الجھی ہوئی سانسوں کے ساتھ بولی :
"گڈ ایوننگ ! پہنچ گئے آپ ؟"
*******************
وہ اپنے ٹیبل پر بیٹھا ، کھانے سے زیادہ بار کی طرف متوجہ تھا ... اونچے سٹول پر بیٹھی ہوئی لڑکی اس کی توجہ کا مرکز تھی ... اس کا گھورنا وہ محسوس کر چکی تھی اور اب تک ٢ بار پیچھے مڑ کر بھی دیکھ چکی تھی اور انتہائی مختصر سی سکرٹ سے اپنے عیاں ہوتے کولہے ڈھانپنے کی اپنی سی کوشش بھی کر چکی تھی ... وہ خود ابھی تک اس کی قومیت کا اندازہ نہیں لگا سکا تھا ... لیکن ارادہ مصمم کر چکا تھا کہ اگلے دو ہی گھنٹوں میں ، قومیت تو رہی ایک طرف ، وہ اس کے جسم پوشیدہ ترین تلوں کے مقامات ، تعداد اور وجوہ ِ ظہور تک کا کھوج لگا چکا ہو گا!!!
اس نے جلدی جلدی کھانا ختم کیا اور ادھر ادھر دیکھا ... وبا کی وجہ سے سبھی کچھ سیلف سروس تک محدود ہو چکا تھا ... کوئی ویٹریس بھی نظر نہیں آ رہی تھی ... اس نے ٹرے اٹھا کر کچرے کے ڈبے میں پھینک دی ، سب ہی کچھ تو تلف پذیر استعمال ہو رہا تھا ہوٹل میں ... اس وبا میں انسان تک ڈسپوزیبل ہو گئے تھے تو کراکری کس شمار و قطار میں ؟... قریب ہی لگے ایک ڈسپنسر سے جراثیم کُش دوا کے چند قطرے ہاتھوں پر ٹپکا کر وہ ہاتھ مسلتا ہوا سٹول پر بیٹھی ہوئی لڑکی کی طرف بڑھا ...
" Greek ہے یا اٹالین " ...وہ سوچ رہا تھا ... "مگر جو بھی ہے ، ٹوٹا (ٹکڑا) ہی ہے"
وہ ایک سٹول چھوڑ کر اس کے برابر بیٹھ گیا !!!
"سالے وائرس کی ماں کی آنکھ" ...وہ دل ہی دل میں کوس رہا تھا... "٤ مربع میٹر کے سماجی فاصلے کے لازمی قانون نے سارے رومانس کی ایسی تیسی کر دی ہے "
اگر بہت بھاری جرمانے کے ڈر نہ ہوتا تو وہ اس لڑکی کو گلے لگا کر اس کو بوسہ دینے کے بہانے اس کے جسم کی خوشبو اپنے اندر اتارنے کی کوشش ضرور کرتا ... کسی بھی لڑکی سے جسمانی تعلق بنانے سے قبل ، چاہے وہ تعلق کتنا ہی مختصر یا عارضی کیوں نہ ہو ، وہ اس کی خوشبو ضرور محسوس کرتا تھا ... اور اسی خوشبو کے بل پر آگے بڑھنے یا نہ بڑھنے کا فیصلہ کرتا تھا ... مگر آج یہ ممکن نہیں لگ رہا تھا ... ویسے بھی پچھلے ٣ ہفتے خالی گزرے تھے اور دماغ خوشبوؤں کے ٹنٹے میں پڑنے پر آمادہ نظر نہیں آتا تھا !!!
"کس قدر بوریت سے بھرپور ہے یہ لازمی آئسولیشن، ہے نا ؟" وہ لڑکی کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا انگریزی میں بولا ، جو اسی کی طرف متوجہ تھی ...
"ہاں بالکل !!! میں تو تین ہی دن میں مرنے والی ہو گئی ہوں بوریت سے اور ابھی ١١ یا ١٢ دن باقی ہیں " ...وہ تو جیسے انتظار کر رہی تھی کہ بات شروع ہو کسی طرح !!!
یونانی لہجے میں انگریزی بولتی وہ خاصی دلکش لگ رہی تھی ... وہ بنا بازوؤں کی کراپ ٹاپ سے جھانکتے بدن کا نظارہ لے رہا تھا ! چیز تو وہ خود بھی بڑی مست تھا اور اپنی پرسنالٹی کے سحر سے آگاہ بھی!!!
"اوہ .. پلیز ... مجھے خوفزدہ نہ کیجئے" ... وہ ڈرنے کی اداکاری کرتے ہوئے بولا ... " میں تو آج ہی آیا ہوں اور ابھی سے سوچنے لگا ہوں کہ اس بار کاؤنٹر پر سے کود کر جان دے دوں "
انتہائی گھسے پٹے لطیفے پر بھی وہ کھلکھلا کر ہنسی !... لیکن وہ فیصلہ نہ کر سکا کہ وہ خلوص اور معصومیت سے ہنس رہی ہے یا اس کی شاندار شخصیت پر ریجھ گئی ہے!!!
"ساڑھے تین فٹ کی بلندی سے تو میں بھی بنا پیراشوٹ کے کود جاؤں " ...وہ اس کی طرف دیکھتی ہوئی سنجیدگی سے بولی ... "لیکن اصل مصیبت اتنی انچائی تک چڑھنا ہے!!! "
اس نے بھی جعلی سا قہقہہ لگایا ... لطیفے کے بہانے بات آگے بڑھانے کی خاطر !!!
"سوری ... میں شاید اپنی تہذیب ائیرپورٹ ہی پر بھول آیا ہوں " وہ جیسے کچھ یاد آ نے پر بولا
"میرا نام شمس ہے ... میں آج ہی ٣ ہفتے بعد دبئی سے واپس سڈنی آیا ہوں اور لازمی قرنطینہ کے لیے اس ہوٹل میں مقید کر دیا گیا ہوں "
"میں صوفیہ ہوں ... یونان گئی تھی اور اٹلی بھی ... فیملی سے ملنے ... بارڈر بند ہونے سے پہلے پہلے واپس آنا چاہتی تھی لیکن فلائٹ لیٹ ہو گئی اور میں بھی اس لازمی قرنطینہ میں پھنس گئی "
"چلیں اچھا ہی ہوا " وہ مسکراتا ہوا بولا "یوں ہماری ملاقات تو ہو گئی !!!"
"ہاں لیکن آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ یہ فائیو سٹار ہوٹل میں چھٹیاں گزارنے جیسا نہیں بلکہ ایک فائیو سٹار جیل میں قید ہونے جیسا ہے "
"میں بھی سوچ رہا تھا کہ آپ بار پر کیا کر رہی ہیں جبکہ بار ، سوئمنگ پول اور جم سب کچھ ممنوع ہے "
" کمروں کی صفائی ہو رہی ہے اس لیے مجھے یہاں بیٹھنے کا موقع مل گیا ... آپ کو بھی کل سے کھانا کمرے ہی کھانا پڑے گا "
"میں نے سنا ہے تازہ ہوا کے لیے کھڑکی بھی نہیں کھول سکتے اور نہ ہی بالکنی پر جانے کی اجازت ہے ... میں تو مر جاؤں گا دم گھٹ کر ..." وہ سنجیدگی سے کہ رہا تھا
"بہت زیادہ سختی ہے ... سب کے ٹیسٹ ہو گئے ہیں ... جس جس کا بھی پازیٹو آیا ہے ان کو الگ فلور پر رکھا جا رہا ہے ... میں بھی اپنے ٹیسٹ رزلٹ کا سوچ سوچ کر دہل رہی ہوں !" اس کی پیشانی پر پریشانی کی لکیریں واضح تھیں
"آپ کا کمرہ کون سی منزل پر ہے ؟"
"دوسری !!! اور آپ کا؟"
"میرا بھی ... آئیے اوپر چلتے ہیں "
"کمروں میں جا کر راہداری میں بھی نہیں نکل سکتے " وہ شاید اس کو ڈرا کر اسی کے ساتھ کچھ اور وقت گزارنا چاہتی تھی
"رات ہو چکی ہے ... راہداری میں نکلنا بھی کیوں ہے ؟ اور ویسے بھی کسی کو پتہ نہیں چلنے لگا کہ ہم ایک ہی کمرے میں ہیں " وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا
وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی ... "ٹھیک ہے آپ چلیے اپنے کمرے میں " ... وہ ادھر ادھر دیکھ کر بولی
"میں اپنے کمرے سے ہو کر آتی ہوں "
"آپ کو میرا کمرہ معلوم ہے ؟"
"ہاں ... جب سے آپ مجھے گھور رہے ہیں ، میں بھی آپ پر نظر رکھے ہوئے ہوں "
اور اس بار وہ کھل کر ہنسا!!!
" Waiting for you! " وہ کہ کر آگے بڑھ گیا
جاری ہے