پولیٹیکل سائنس کی کلاس
جب وہ کلاس میں داخل ہوئے تو ان کا روایتی گرم جوش استقبال ہوا۔ مسٹر ڈیوڈ نے ان کا استقبال کیا تھا جو کہ اس کلاس کے انسٹرکٹر تھے۔ مسٹر ڈیوڈ کالج میں کافی مشہور تھے۔ ساٹھ کی دہائی میں وہ سٹوڈنٹ لیڈر تھے اور لمبے بالوں اور اپنے تیکھے سیاسی نظریات کی وجہ سے تب بھی کافی مشہور ہوا کرتے تھے۔ کافی سٹوڈنٹس کو شک تھا کہ مسٹر ڈیوڈ اپنی سٹوڈنٹ لائف میں حشیش کا نشہ کیا کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مسٹر ڈیوڈ کافی آزادانہ خیالات کے مالک تھے اور باقی پولیٹیکل سائنس کے پروفیسرز سے ان کی نہیں بنتی تھی۔
ایک مرتبہ سیمسٹر کے آغاز پر انہوں نے طلبا سے کہا اس سیمسٹر میں نہ کتابیں ہوں گی، نہ کوئی ٹیسٹ۔ طلبا کو پہلے تو یقین نہیں آیا لیکن جب واقعی انہوں نے محض طلبا کی حاضری کی بنیاد پر امتحان میں گریڈز دیئے تو سب حیران رہ گئے۔ ہر کلاس میں مسٹر ڈیوڈ بس سٹوڈنٹس کو آبزرو کرتے کہ سٹوڈنٹس کلاس کا مقررہ وقت کیسے گزارتے ہیں۔ اس سب کی منطق یہ تھی کہ مسٹر ڈیوڈ کی تھیوری تھی کہ کسی بھی گروہ میں لیڈرز، فالوورز ، گروپس اور بغاوت قدرتی طور پر خود بخود رونما ہوتی ہیں اور اس طرح سٹوڈنٹس کو آزادی دینے سے وہ اصل سیاست سیکھ سکیں گے۔
سٹوڈنٹس کو اور کیا چاہئے تھا۔ کلاس میں کچھ کرنا ہی نہیں تھا بس حاضری لگاؤ اور اے گریڈ لے لو۔ اس سے بہتر ڈیل تو ممکن ہی نہیں تھی۔ مسٹر ڈیوڈ کو اس سال بہترین پروفیسر کا اعزاز بھی دیا گیا تھا۔ باقی پروفیسر ان سے اسی لئے حسد کرتے تھے کہ مسٹر ڈیوڈ تعلیم میں جدت لاتے تھے جبکہ باقی پروفیسر جدت سے خائف تھے۔
اس سال وہ سائیکو ڈرامہ استعمال کر کے سیاسی ایشوز اور اختلافات کی نشاندھی کرنا چاہتے تھے۔
جب پرنسپل کے ساتھ میٹنگ میں انہیں پروگرام کے بارے آگاہی دی گئی تو انہوں نے فوراً اپنی کلاس کیلئے حامی بھر لی تھی۔ وہ تو اس قسم کی جدیدیت کے دل سے قائل تھے۔
"آئیے" آئیے کی بڑی یے کو مسٹر ڈیوڈ نے اچھا خاصہ کھینچ دیا تھا۔ وہ واقعی مائیکل اور خدیجہ کو خوش آمدید کہتے ہوئے بہت خوش تھے۔ کلاس میں سٹوڈنٹس کی دلچسپی یکدم بڑھ گئی جب دو ننگے طلبا کلاس میں داخل ہوئے۔ کسی کو یہ نہیں پتہ تھا کہ مسٹر ڈیوڈ کے دماغ میں کیا تھا لیکن سب کو یقین تھا کہ وہ مائیکل اور خدیجہ کو جیسے بھی استعمال کریں، ان کا ہر طریقہ دلچسپی سے بھرپور ہی ہو گا۔
مائیکل اور خدیجہ نے آج تک مسٹر ڈیوڈ سے نہیں پڑھا تھا لیکن وہ ان کی شہرت سے بخوبی واقف تھے۔ کون نہیں تھا۔
"یس سر" دونوں نے مسٹر ڈیوڈ کے آئیے کا جواب سر ہلا کر دیا۔ دونوں ہی بہت محتاط تھے۔
"بھئی سب سے پہلے تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے آپ دونوں پر بہت فخر ہے۔" باری باری مسٹر ڈیوڈ نے ان دونوں سے مصافحہ کیا اور ان کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں دبا کر اپنے دلی جذبات کا اظہار کیا۔
"جو کچھ آپ دونوں کر چکے ہیں ، جو کچھ آپ کر رہے ہیں اور جو کچھ آپ کریں گے۔ مجھے اس سب پر بے انتہا خوشی ہے۔ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ آپ کی تعریف کر سکوں۔ " مسٹر ڈیوڈ کا یہ کہنا کہ ان کے پاس الفاظ نہیں ہیں بہت معنی رکھتا تھا کیونکہ وہ باتوں میں بھی کھل کر اظہار کرتے تھے اور اپنی بادی لینگویج سے بھی اپنے جذبات کا اظہار کرنے میں کافی مہارت رکھتے تھے۔
"اچھا سب سے پہلے تو میں مائیکل آپ سے پوچھنا چاہوں گا کہ کیا آپ کو ریلیف کی ضرورت ہے؟" مسٹر ڈیوڈ نے مائیکل کی طرف رخ کر کے پوچھا۔
مائیکل جھینپ گیا۔ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اس کے ابو اس سے پوچھ رہے ہوں کہ بیٹا مٹھ مارو گے۔
"شکریہ مسٹر ڈیوڈ لیکن میں ٹھیک ہوں" مائیکل نے مسٹر ڈیوڈ کو جواب دیا۔
"آر یو شور؟ میرے خیال میں تو کلاس کے آغاز کا اس سے بہتر طریقہ نہیں ہو سکتا۔ سب کے سامنے ریلیف لینا بہادری کا استعارہ ہے۔" مسٹر ڈیوڈ نے کلاس کی طرف دیکھا۔ طلبا کے چہرے پر بے چینی اور کنفیوژن تھی۔ ایسے ہی لمحات کیلئے تو وہ پروفیسر بنے تھے۔
خدیجہ نے مائیکل کے قریب ہو کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور ہلکی سی آواز میں اس سے کہا: "اگر تم چاہو تو میں تمہاری مدد کروں؟"
مائیکل حیران رہ گیا۔ اس نے خدیجہ کی طرف منہ پھیر کر دیکھا۔ وہ ہر گز خدیجہ کو کلاس کی نظروں میں نہیں لانا چاہتا تھا۔ یہ آج کی آخری کلاس تھی اور وہ یہ پسند نہیں کرتا تھا کہ خدیجہ کو کچھ ایسا کرنا پڑے جس پر اسے شرمندگی ہو۔ اس کے ٹٹوں میں برداشت کر کر کے درد ہو رہا تھا۔ پہلے پروفیسر عافیہ اور پھر لڑکیوں کی صحبت نے شدت سے ڈسچارج ہونے کی خواہش جگا دی تھی لیکن اس کا خیال تھا کہ وہ یہ کلاس بغیر ڈسچارج ہوئے آرام سے گزار لے گا۔ ویسے بھی اس کلاس میں لڑکے کافی زیادہ تعداد میں تھے۔
"نہیں خدیجہ میں ٹھیک ہوں۔" مائیکل نے خدیجہ کو جواب دیا۔
مسٹر ڈیوڈ کو قدرے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں تو توقع تھی کہ اس وقت تک مائیکل ڈسچارج ہونے کیلئے تڑپ رہا ہو گا اور وہ مائیکل کو کلاس کے سامنے ڈسچارج کروا کر سب کو حیران کر دیں گے۔ دراصل ان کا اصل مقصد مائیکل کے ڈسچارج ہونے پر طلبا کے ردعمل کو نوٹ کرنا تھا۔ وہ دیکھنا چاہتے تھے کہ مختلف طلبا کس کس انداز میں اپنا ردعمل دیتے ہیں۔ لیکن اب جبکہ مائیکل نے ڈسچارج ہونے سے معذرت کر لی تھی تو وہ اس بات کو اپنا منصوبہ خراب کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے تھے۔
"ٹھیک ہے پھر۔ بچو جیسا کہ ہم آج کل سائیکو ڈرامہ کے بارے میں پڑھ رہے ہیں تو اب جبکہ ہمارے درمیان دو مخالف جنس کے ننگے طلبا موجود ہیں تو کیوں نا معاشرے میں مختلف جنس کے لوگوں کی سیاست کو ایکسپلور کیا جائے۔"
مائیکل اور خدیجہ کو کوئی اچھی توقع اب رہ ہی نہیں گئی تھی۔ خدیجہ نے ایک چیونگم منہ میں ڈالی۔
"جیسا کہ آپ کو پتہ ہی ہے کہ سائیکو ڈرامہ میں ہم کوئی بھی ایشو یا اختلاف ڈسکس کرتے ہیں اور اس سے متعلق معاشرے کی طے شدہ رائے کو چیلنج کر کے سچائی تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور سیکس سے متعلق جتنی غلط فہمیاں معاشرے میں پھیلی ہوئی ہیں شاید ہی کسی اور موضوع سے متعلق ہوں۔ بعض لوگ تو سیکس کو صرف عورتوں کو کنٹرول کرنے کا ایک طریقہ گردانتے ہیں۔ "
مسٹر ڈیوڈ کی باتوں پر کئی ایک طلبا نے بھنویں اچکائیں۔
"سب سے عام سیکس پوزیشن کون سی ہے؟"
کئی طلبا نے ہاتھ کھڑے کئے۔ مسٹر ڈیوڈ نے سجاد کی طرف اشارہ کیا۔
"سر مشنری پوزیشن سب سے عام ہے" سجاد کا جواب درست تھا لیکن مسٹر ڈیوڈ مزید وضاحت کرنا چاہتے تھے۔
"اس پوزیشن میں عورت ٹانگیں اٹھا کر لیٹی ہوتی ہے اور مرد اپنا ہتھیار اس کے اندر گھسا کر اپنا بیج بوتا ہے جس کی وجہ سے اگلے نو ماہ وہ قابو میں رہتی ہے "
کلاس کی کئی لڑکیاں مسٹر ڈیوڈ کو پسند کرتی تھیں لیکن اس بات پر انہیں اپنی پسند پر نظر ثانی کرنی پڑی لیکن طاہرہ مسٹر ڈیوڈ کے ہتھیار کے بارے میں سوچنے لگی۔
علی رضا نے مسٹر ڈیوڈ کی اجازت سے نشاندھی کی کہ کئی لڑکیاں نیچے کی بجائے اوپر آنا پسند کرتی ہیں اور اس پوزیشن کو کاؤ گرل پوزیشن کہا جاتا ہے۔
"ہاں ٹھیک کہا لیکن میرا چیلنج ہے کہ سروے کروا لو بیشک لیکن زیادہ تر مواقع پر لڑکی نیچے ہی ہوتی ہے۔" مسٹر ڈیوڈ نے کہا۔
لفظ کاؤ گرل پر کئی طلبا مسکرا اٹھے۔ خود علی رضا خدیجہ کو کاؤ گرل ہیٹ پہنے اپنے لن پر سوار فرض کرنے لگا۔ اس کا لن ایک دم انگڑائی لینے لگا۔
"ویسے یہ آئیڈیا برا نہیں۔ ہم کلاس میں ہی سروے کروا لیتے ہیں۔ جو طلبا سیکس کر چکے ہیں اور اکثر کرتے ہیں ان کی رائے سے بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ کون سی پوزیشن زیادہ مقبول ہے۔" مسٹر ڈیوڈ ہمیشہ دلچسپ قسم کے پریکٹیکل کرواتے تھے۔ انہیں پتہ تھا کہ ان کی بات درست کے لیکن ان کے مطابق ایک ٹیچر کو اپنی رائے طلبا پر ٹھونسنی نہیں چاہئے بلکہ طلبا کو سچ دریافت کرنے کا موقع فراہم کرنا چاہیے۔
"چلو سروے بھی کرواتے ہیں لیکن پہلے میں ایک اور عام پوزیشن دکھانا چاہتا ہوں۔ خدیجہ آپ ذرا ادھر آئیں اور اپنے ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل جھکیں زمین پر۔" مسٹر ڈیوڈ نے خدیجہ کو بازو سے پکڑ کر کہا۔
خدیجہ کا دل ایک دم اتنی تیزی سے دھڑکا کہ اسے لگا کہیں سینہ چیر کر باہر ہی نہ آ جائے۔ مسز رابعہ کی کلاس میں اس پینٹنگ کیلئے مائیکل کے ساتھ پوز کرنا ہی اسے عجیب لگ رہا تھا۔ اب مسٹر ڈیوڈ کیلئے سیکس پوزیشن کا عملی مظاہرہ کرنا تو بہت ہی عجیب تھا۔ خدیجہ سوچنے لگی آیا یہ پروگرام میں جائز بھی ہے یا نہیں۔ لیکن وہ دونوں کلاس انسٹرکٹر کی بات پر عمل کے پابند تو تھے۔ خدیجہ جھجھکتی ہوئی پوزیشن میں آ گئی۔
اس پوزیشن میں بھی اس کا حسن عیاں تھا۔ اس کے بڑے بڑے ممے ایسے لٹک رہے تھے جیسے کسی بھینس کے تھن، دودھ نکالنے کیلئے بالکل تیار۔ اوپر سے اس کی کمر اور چوتڑوں کے نشیب و فراز بھی نمایاں تھے۔
"کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ پوزیشن برتر ہے؟" مسٹر ڈیوڈ نے پوچھا۔
کسی نے جواب نہیں دیا۔
"بچو یہ بتاؤ کہ اس پوزیشن کو کیا کہتے ہیں؟" مسٹر ڈیوڈ نے پھر سے پوچھا۔
"میں بتاؤں۔ میں بتاؤں۔" شاہد چلا اٹھا۔ اس کا تجربہ تو سیکس میں نہ ہونے کے برابر تھا لیکن پورن سے جو معلومات اس نے اخذ کر رکھی تھیں ان کی بنیاد پر وہ شیخیاں جھاڑنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتا تھا۔
"ہاں شاہد بتاؤ"
"اسے ڈوگی سٹائل کہتے ہیں مسٹر ڈیوڈ" شاہد کا سر فخر سے تن گیا تھا۔
" صحیح کہا۔ یہ ڈوگی سٹائل ہے کیونکہ لڑکی اپنے آپ کو ایک ڈوگی کی طرح پیش کر رہی ہے۔ یعنی کتیا کی طرح"
مسز ڈیوڈ کا اسے کتیا سے تشبیہ دینا خدیجہ کو پسند نہیں آیا لیکن سوائے مایوسی سے آہیں بھرنے کے علاوہ وہ کیا کر سکتی تھی۔
"کیا لڑکیاں کتیوں کی طرح چودے جانے پر اپنے آپ کو طاقتور محسوس کرتی ہیں؟" مسٹر ڈیوڈ کا سوال نرم سے نرم الفاظ میں بھی کافی تضحیک آمیز تھا۔ وہ ہر حد کراس کرتے جا رہے تھے۔ فیکلٹی کو ایسے الفاظ استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی لیکن سب جانتے تھے کہ مسٹر ڈیوڈ جو چاہیں بول کر ہی رہتے ہیں۔ جو بات کہنا ممنوع ہو وہی بات کہنا مسٹر ڈیوڈ اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ انہوں نے یہ بات بھی اسی لئے کی تھی کہ کلاس کے طلبا کا ردعمل دیکھ سکیں۔
وہ چند قدم اٹھا کر خدیجہ کے قریب آئے اور اسے اپنی پوزیشن ایڈجسٹ کرنے کا کہا جا سے خدیجہ کا جسم کلاس کے مزید سامنے آ گیا۔ مسٹر ڈیوڈ ہنس پڑے اور بولے: "ارے نہیں خدیجہ ۔ میں تمہاری پھدی کلاس کی طرف کرنا چاہ رہا ہوں۔"
خدیجہ نے رخ پھیر لیا لیکن ٹانگیں سختی سے بھینچ کر رکھیں۔
مسٹر ڈیوڈ پنجوں کے بل بیٹھ گئے اور خدیجہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر دبایا۔
"خدیجہ نیچے ہو جاؤ۔ کہنیاں نیچے ٹیک دو۔ اور سر بھی نیچے اپنے بازو پر رکھ دو۔ خدیجہ نے ان کی بات پر عمل کیا۔
"ذرا دیکھئے کہ جیسے جیسے خدیجہ اپنا سر نیچے کرتی ہے، اس کے چوتڑ اوپر ہوتے ہیں" مسٹر ڈیوڈ نے خدیجہ کے چوتڑ پر ہاتھ رکھ دیا۔
"اس پوزیشن میں خدیجہ اپنے آپ کو اپنے سیکس کیلئے مالک یعنی اپنے آدمی کو پیش کر رہی ہے۔" یہ کہہ کر مسٹر ڈیوڈ اٹھ کر تھوڑا پیچھے آئے اور طلبا کی جانب سے خدیجہ کے چوتڑ دیکھنے لگے۔
"یس یس یس دیکھئے کیسے خدیجہ کی پھدی کے دونوں ہونٹ کھل سے گئے ہیں۔ یہ دعوت نہیں تو کیا ہے۔"
خدیجہ نے شرم سے آنکھیں بند کریں۔ ٹانگیں بھینچنے کا الٹا ہی اثر ہوا تھا۔
"اور خدیجہ تمہاری پھدی دنیا کی حسین ترین پھدیوں میں سے ایک ہے۔ اتنے پیارے رسیلے ہونٹ میں نے آج تک کسی پھدی میں نہیں دیکھے۔ خدیجہ شرم سے لال ہو رہی تھی۔ اسے پتہ تھا کہ کلاس کے سب لڑکوں کی نظریں اس کی پیاری پھدی پر ہی ہوں گی۔
خدیجہ نے اگرچہ مسٹر ڈیوڈ کا شکریہ ادا کیا تھا لیکن اسے اب بھی یہ تعریف سے زیادہ ذلالت محسوس ہو رہی تھی۔ یہ تو پرنسپل کی باتوں سے بھی کئی گنا زیادہ سبکی تھی۔
"اور بچو دیکھو اس پوزیشن میں کیسے خدیجہ کی گانڈ اوپر اٹھ گئی ہے۔ ٹھہرو ذرا۔ خدیجہ ذرا اور اوپر کرو اپنے چوتڑ۔ ابھی اور گنجائش ہے۔" مسٹر ڈیوڈ نے بات کے درمیان میں خدیجہ سے مخاطب ہو کر کہا۔
مرتی کیا نہ کرتی۔ خدیجہ نے گھٹنے اپنے مموں کے قریب کئے جس سے چوتڑ اور اوپر اٹھ گئے اور پھدی مزید واضح ہو گئی۔
"ہاں اب ٹھیک ہے۔ جیسا کہ میں بتا رہا تھا کہ جب لڑکی اپنے آپ کو ایسے پیش کرتی ہے تو اس کا مطلب ہے وہ کہہ رہی ہے میرے دونوں سوراخ پیش خدمت ہیں جو مرضی لے لو۔"
مسٹر ڈیوڈ کی بات پر لڑکیوں کی حیرت بھری آوازیں اور لڑکوں کی ہلکی ہلکی ہنسی گونجی۔ مسٹر ڈیوڈ نے بات جاری رکھی: "چاہو تو پھدی لے لو اور چاہو تو گانڈ اور خدیجہ کے تو دونوں ہی سوراخ بہت ہی پرکشش اور خوبصورت ہیں۔"
خدیجہ نے چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا لیکن پوزیشن قائم رکھی۔
"اس پوزیشن میں لڑکا اپنے ہاتھوں سے چاہے تو لڑکی کے چوتڑ پکڑ لے یا چاہے تو ممے بھی پکڑ سکتا ہے۔ اور مزید یہ کہ وہ لڑکی کی گانڈ نہ بھی لے تو بھی انگلی سے اسے چھیڑ سکتا ہے"
مسٹر ڈیوڈ کی بات پر خدیجہ کی گانڈ کا سوراخ بے اختیار سکڑ گیا جو سب نے دیکھا۔
"اور اس پوزیشن میں لڑکی اپنے ہاتھوں سے کچھ زیادہ نہیں کر سکتی ہے۔ " مسٹر ڈیوڈ نے بات مکمل کی۔
"مسٹر ڈیوڈ ، اس پوزیشن میں لڑکی اپنی پھدی اور لڑکے کے لن کو بھی چھو سکتی ہے۔" سارہ نے فوراً کہا۔
"ہاں تمہاری بات کسی حد تک درست کے لیکن پھر بھی لڑکی ہے تو لڑکے کے کنٹرول میں ہی نا۔" سارہ کی بات پر لڑکوں نے مڑ کر اس کی طرف ضرور دیکھا تھا اور یقیناً اسے ایسا کرتے خیالوں میں دیکھا بھی ہو گا۔
"یس سر" سارہ نے جواب دیا۔ وہ اس بات پر مزید بحث نہیں کرنا چاہتی تھی۔
"آپ میں سے کتنے لڑکے خدیجہ کی طرح اپنی گانڈ پیش کرنا پسند کریں گے؟" مسٹر ڈیوڈ نے لڑکوں سے مخاطب ہو کر پوچھا جس پر لڑکے ہنس پڑے۔
مسٹر ڈیوڈ کی بات میں شاید کوئی مفہوم پنہاں تھا لیکن زیادہ تر لڑکے کالج کی مشہور سٹوڈنٹ لیڈر کو یوں اپنی گانڈ پیش کرتے دیکھنے میں مصروف تھے۔
"میرے خیال میں تو یہ سب سے زیادہ کنٹرولڈ پوزیشن ہے۔ اس پوزیشن میں لڑکی اپنی پھدی پیش کر رہی ہے جسے لڑکا کیسے چاہے استعمال کرے۔ یاد کریں بچپن میں کیا اس پوزیشن میں ہی آپ کے والدین آپ کی پٹائ نہیں کرتے تھے۔ " مسٹر ڈیوڈ نے اپنی بات کی وضاحت کیلئے قریب آ کر خدیجہ کے چوتڑ پر ہلکی سی چپت بھی رسید کر دی۔
"خدیجہ کیا تمہیں بے عزتی محسوس ہو رہی ہے۔ خاص طور پر جب میں نے تمہارے چوتڑ پر چپت لگائی تب۔" مسٹر ڈیوڈ نے خدیجہ سے پوچھا۔
"جی سر۔ بہت زیادہ " خدیجہ نے چہرہ ہاتھوں میں چھپائے ہی جواب دیا۔
"بھئی تم واقعی بہت خوبصورت ہو۔ اور بہت کو آپروٹیو بھی۔" مسٹر ڈیوڈ نے اس کے چوتڑوں پر مزید کچھ ہلکے ہلکے تھپڑ مارے اور چوتڑوں کے درمیان انگلی ڈال کر اس کی پھدی کے ساتھ رگڑی۔
"خدیجہ اب اٹھ کر سائیڈ پوز میں ایسے بیٹھیں کہ وزن چوتڑوں پر رہے " مسٹر ڈیوڈ نے آخرکار خدیجہ کو اس پوزیشن کی اذیت سے نجات دلا ہی دی۔ وہ خوشی خوشی اٹھ کر بیٹھ گئی۔
"اور مائیکل آپ خدیجہ کے سامنے آ کر کھڑے ہوں اور اپنا لن اس کے منہ کے سامنے کریں"
کلاس کی کئی لڑکیوں نے اپنے چہرے شرم سے چھپا لئے۔ خدیجہ سے ہمدردی بھی تھی اور مسٹر ڈیوڈ کی بات پر شرم بھی آ رہی تھی۔ لڑکے البتہ دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔
خدیجہ کا دل تو کر رہا تھا کہ وہ بھی چہرہ ہاتھوں میں چھپا لے۔ مائیکل کو اوپر سے خدیجہ کی آنکھوں میں پریشانی نظر آ رہی تھی۔ اس کا لن خدیجہ کے چہرے کے بالکل سامنے تھا۔ مائیکل کو تو خوش ہونا چاہیے تھا کہ اس کا لن اتنی خوبصورت لڑکی کے منہ کے اتنا قریب ہے لیکن اسے خدیجہ کو پریشان دیکھ کر کوئی خوشی نہیں ہوئی۔ اس کی خواہش یہ تھی کہ اگر وہ اپنا لن کسی لڑکی کو پیش کرے تو لڑکی بھی خوش ہونی چاہیے۔
مسٹر ڈیوڈ کو البتہ ان کے جذبات کی پرواہ نہیں تھی۔ وہ تو اپنی دھن میں مگن تھے۔
"چوسنا ایک ایسا عمل ہے جس کی توقع لڑکی سے رکھی جاتی ہے لیکن پھر بھی معاشرے میں یہی سمجھا جاتا ہے جیسے زبردستی لڑکی کو چوسنے پر مجبور کیا جا رہا ہے حالانکہ یہ تو محبت کی علامت ہونا چاہیے۔ ایسا کیوں ہے؟" مسٹر ڈیوڈ نے نیا موضوع بحث شروع کر دیا۔
"سر ایسا اس لئے ہے کہ یہ ایک انتہائی گھٹیا عمل ہے" رشیدہ نے بغیر ہاتھ اٹھائے جھٹ سے جواب دے دیا اور جواب بھی ایسا کہ جس کی توقع مسٹر ڈیوڈ کو تھی ہی نہیں۔
"کیا مطلب ؟" مسٹر ڈیوڈ نے رشیدہ سے وضاحت چاہی۔
"سر یہ تو سادہ سی بات ہے۔ ایسی گندی چیز کو کون منہ میں لینا پسند کرے گی۔ خود سوچیں ذرا اس سے وہ پیشاب کرتا کے۔ آخ تھو۔ اور پیشاب کر کے خود بھی ہاتھ دھوتا ہے پہلے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ لڑکی اسے منہ میں لے کر چوسے؟ مجھے یقین ہے اس سے بدبو بھی آتی ہو گی اور اس ک ذائقہ بھی بہت گندہ ہو گا " سب لڑکیوں نے رشیدہ کے جواب کی تائید کی۔ جو لڑکیاں چوستی تھیں وہ بھی رشیدہ کے جواب کی سچائی سے بہرحال متاثر تھیں۔
"لیکن رشیدہ جب لڑکا لڑکی کو چاٹتا ہے تب کے بارے میں کیا خیال ہے؟" مسز ڈیوڈ نے بات پلٹانے کی کوشش کی۔
"ہاں تو میں نے کب کہا ہے کہ چاٹو۔ مسٹر ڈیوڈ یہ پیار محبت نہیں یہ بس پورن میں ہی جچتا ہے۔ " رشیدہ کی اس بات پر البتہ لڑکیاں متفق نہیں تھیں۔ رشیدہ کچھ زیادہ ہی دقیانوسی خیالات کی حامل معلوم ہوتی تھی۔
رمشا نے کچھ بولنے کیلئے ہاتھ کھڑا کیا۔ مسز ڈیوڈ کی اجازت پر اس نے کہا: "مسٹر ڈیوڈ بہت سے لڑکے اپنا چسوانا پسند کرتے ہیں لیکن جب ان کی باری آتی ہے تو چاٹتے نہیں ہیں۔ "
"یس یس"
"جی بالکل "
بہت سی لڑکیوں نے رمشا کی بات کی تائید کی۔ لڑکوں میں سے بھی کئی لڑکے مسکرائے تھے۔ شاید رمشا کی بات سچ ہی تھی۔
"آپ کی بات درست ہے رمشا" مسٹر ڈیوڈ تو بس طلبا کو یوں بحث میں حصہ لیتے دیکھ کر خوش تھے۔ وہ یہی چاہتے تھے کہ بچے بڑھ چڑھ کر کلاس کی سرگرمیوں میں حصہ لیں۔
"لیکن پھر وہی بات کروں گا کہ کیا دونوں جنس برابر ہیں؟ میری نظر میں تو مرد کو برتری حاصل ہے"
"وہ کیسے سر؟" رمشا نے وضاحت چاہی۔
"وہ ایسے کہ مرد اپنا لن جب کھڑا کرے تو وہ اتنا سخت ہو جاتا ہے کہ لڑکی کیلئے پورا منہ میں لینا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ کیا یہ برتری کی نشانی نہیں ؟" مسٹر ڈیوڈ نے کہا۔
"ہو گی لیکن اس کیس میں ایسا کچھ نہیں ہونے والا" رمشا کا اشارہ خدیجہ اور مائیکل کی طرف تھا۔ اس کی بات پر ایک قہقہہ پڑا۔
خدیجہ نے رمشا کی بات پر منہ اٹھا کر مائیکل کی طرف دیکھا جس کی آنکھوں میں بس شرمندگی تھی۔ کیسی عجیب بات تھی کہ کلاس میں مسٹر ڈیوڈ نے بات شروع کی تھی عورت کے مرد سے کمتر ہونے سے اور اب مائیکل ان کے مذاق کا نشانہ بن گیا تھا جیسے وہ کمتر ہو۔ خدیجہ کو مائیکل پر بے پناہ پیار آ گیا۔ وہ پہلے بھی اس کی مدد نہیں کر پائی تھی جب وہ کلاس کی جانب پیدل چل کر آ رہے تھے۔ اب مائیکل کو مشکل میں دیکھ کر خدیجہ سے رہا نہ گیا۔ وہ تھوڑی سی اٹھ کر بیٹھی اور منہ آگے کر کے مائیکل کا پورا کا پورا لن اپنے منہ میں لے لیا۔
کوئی بھی خدیجہ سے اس کی توقع نہیں کر رہا تھا اور اس کی حرکت پر کئی طلبا کے منہ سے بے اختیار چیخ نکل گئی تھی۔ شاید رمشا یا طاہرہ ہوتی تو انہیں اتنی حیرت نہ ہوتی لیکن خدیجہ کے بارے تو ایسا سوچنا بھی تقریباً ناممکن تھا۔
مائیکل سب سے زیادہ حیران تھا۔ آج صبح تک اس کی یہ حالت تھی کہ کسی لڑکی نے اس کا لن دیکھا تک نہیں تھا اور اب اس کا لن خدیجہ کے منہ میں تھا اور وہ بھی اس نے خود ہی لیا تھا بغیر کسی مجبوری کے۔ شاید خدیجہ نے رمشا کے تضحیک آمیز تبصرے کی نفی کیلئے ایسا کیا تھا لیکن مائیکل بہرحال اس کا شکر گزار تھا۔ خدیجہ کے منہ میں اس کا لن ۔ آہ۔ وہ بھول گیا کہ وہ کلاس میں کھڑے ہیں۔ اس کا لن خدیجہ کے منہ میں بڑا ہونے لگا۔
حتیٰ کہ مسٹر ڈیوڈ خود بھی شدید حیران تھے۔ خدیجہ سے ایسے عمل کی توقع انہیں خواب میں بھی نہیں تھی۔ خدیجہ نے تو مسٹر ڈیوڈ کے خیالات کی کئی مواقع پر نفی کی تھی۔ آج کیا ہو گیا ہے اسے۔ مسٹر ڈیوڈ نے سوچا یقیناً خدیجہ جو کچھ ہے وہ نظر نہیں آتی۔
تاہم، مسٹر ڈیوڈ کو یہ معلوم تھا کہ بات ڈرامے سے آگے بڑھ گئی ہے اور یہ پروگرام کی خلاف ورزی ہے۔ سیکس پوزیشن بنوانا اور بات ہے اور سیکس کرنا اور بات اور جو اب خدیجہ کر رہی تھی یہ سیکس کے زمرے میں آتا تھا۔
"خدیجہ تمہیں ایسا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے" مسٹر ڈیوڈ نے کہا۔
خدیجہ نے کچھ کہنے کیلئے منہ کھولا لیکن وہ مائیکل کا لن منہ سے نہیں نکالنا چاہتی تھی اس لئے توتلے سے انداز میں مسٹر ڈیوڈ سے کہا: "توئی بات نہیں مستل دیود۔ " خدیجہ نے مائیکل کی آنکھوں میں دیکھ کر آنکھ بھی ماری اور شرارتی مسکراہٹ چہرے پر سجائے مائیکل کے ٹوپے پر اپنی زبان پھیرنے لگی۔
"جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ لڑکا اس پوزیشن میں برتر ہے۔ لڑکی نیچے بیٹھی ہے جیسے انتظار میں ہو کہ لڑکا اسے کیا کہتا ہے" مسٹر ڈیوڈ نے صورتحال سے فائدہ اٹھانا چاہا لیکن خدیجہ تو اب کسی کا انتظار کرنے کو تیار ہی نہیں تھی۔ وہ مسلسل مائیکل کے ٹوپے پر زبان پھیر رہی تھی۔ مائیکل کو یقین نہیں آیا کہ ایک لڑکی اس کا لن منہ میں لے کر چوس رہی ہے۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں اور مزے لینے لگا۔