Language:

Search

خدیجہ اور مائیکل 24 (Last Episode)

  • Share this:

آخری مرحلہ 
چونکہ وہ کلاس کا وقت ختم ہونے سے پہلے پی باہر نکل آئے تھے اس لئے باہر سوائے سیکیورٹی گارڈ کے اور کوئی نہیں تھا۔ سیکیورٹی گارڈ نے انہیں کچھ نہیں کہا۔ بس ایک رومال جیب سے نکال کر مائیکل کو پکڑا دیا۔ خدیجہ شرم سے زمین میں گڑی جا رہی تھی۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ اس نے اتنی لاپرواہی کا مظاہرہ کیا تھا۔ پوری کلاس کے سامنے اپنے جسم پر قابو کھو بیٹھنا اور پھر ڈسچارج ہونے کیلئے لاپرواہی بہت چھوٹا لفظ تھا۔ 
مائیکل اس کے پیچھے ہی تھا۔ خدیجہ کو اس قدر شرم آئی کہ اپنا سر مائیکل کے کندھے میں چھپا لیا۔ 
"اف یہ میں نے کیا کر دیا مائیکل ۔ کتنا برا لگا ہو گا سب کو۔" خدیجہ نے کہا۔ 
"ارے نہیں ۔ بالکل بھی برا نہیں لگا بلکہ تم بہت ہی خوبصورت لگ رہی تھی۔" 
"ہاں ہاں بہت زیادہ ۔" خدیجہ کے لہجے میں طنز تھا۔ 
"میں سچ کہہ رہا ہوں۔ مسٹر ڈیوڈ خود ہکا بکا تھے تمہارے حسن کے سامنے۔" مائیکل نے خدیجہ کو اپنی بات کا یقین دلانے کی کوشش کی۔ خدیجہ نے مائیکل کی آنکھوں میں دیکھا اور سوچنے لگی اگر مسٹر ڈیوڈ اس کے حسن سے متاثر تھے تو یہ تو بہت بڑی بات تھی۔ 
"مسٹر ڈیوڈ کو متاثر کرنا تو کافی بڑا کام ہے" خدیجہ نے کہا۔ 
"ہاں مشکل نہیں مشکل ترین ہے" مائیکل نے جواب دیا۔ 
خدیجہ کا دل کر رہا تھا یونہی مائیکل کے کندھے سے لگی رہے۔ مائیکل نے بھی اسے اپنے جسم سے لگائے رکھا۔ دونوں کو ہی یوں ہگ کرنا بہت اچھا لگ رہا تھا۔ 
"تھینکس مائیکل" خدیجہ نے کہا۔ 
"تمہیں ایسے ہگ کرنا پسند ہے؟" مائیکل کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ خدیجہ اتنی تبدیل ہو گئی تھی۔ ویسے اس نے سن رکھا تھا کہ ڈسچارج ہونے کے بعد لڑکیاں چپک کر لیٹے رہنا پسند کرتی ہیں۔ 
خدیجہ نے سر اٹھا کر مائیکل کی طرف دیکھا اور اس کا گال چومتے ہوئے کان میں کہا: "ہاں مائیکل مجھے بہت اچھا لگتا ہے ایسے تمہارے ساتھ چپکنا۔" 
خدیجہ نے سرگوشی اس لئے کی تھی کہ سیکیورٹی گارڈ نہ سن لے لیکن سیکیورٹی گارڈ کو تو الٹا ان دونوں سے ہمدردی ہو چلی تھی۔ تب ہی اس نے انہیں چپکنے سے روکنے کی کوشش بھی نہیں کی تھی۔ 
"چلو اب ایڈمن بلاک چلیں اس سے پہلے کہ کلاس کا وقت ختم ہو" خدیجہ نے کہا۔ 
"بھاگ کے چلیں؟" مائیکل نے کہا۔ خدیجہ نے شرارتی مسکراہٹ سے اسے دیکھا اور جھک کر اپنی ہیلز اتارنے لگی۔ مائیکل نے اس بار منہ پھیر لیا تھا۔ 
اس کے بعد دونوں نے دوڑ لگا دی۔ کامنز ایریا میں دوڑتے ہوئے دونوں بے تحاشا ہنس رہے تھے۔ پہلی بار انہیں کھلے میں ننگا ہونا بہت اچھا لگ رہا تھا۔ خدیجہ کو اپنے اچھلتے مموں اور مائیکل کو اپنی للی پر کوئی شرم نہیں آئی۔ وہ خوش تھے کہ انہوں نے بلاآخر پورا دن گزار ہی لیا تھا اور اب صرف اختتام باقی تھا۔ 
سیکیورٹی گارڈ خود بھی ہنس رہا تھا۔ دوڑ لگاتے بچوں کا ساتھ دینا اس کیلئے آسان نہیں تھا لیکن وہ کوشش کر رہا تھا۔ 
ایڈمن بلاک پہنچ کر وہ باہر ہی رک گئے اور گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر سانس درست کرنے لگے۔ اتنی تیز دوڑ لگانے کے سبب دونوں کی سانسیں خوب پھول گئی تھیں لیکن ہنسی تھی کہ رکنے میں نہیں آ رہی تھی۔ راستے میں انہیں چند ایک طلبا نے دیکھا تھا لیکن بہرحال مجمع نہیں تھا اور اگر وہ کلاس کا وقت ختم ہونے کے بعد وہاں سے روانہ ہوتے تو لازماً کوئی نہ کوئی پوز کی فرمائش آ جاتی کیونکہ سب کو پتہ تھا کہ یہ آخری موقع ہے۔ بہرحال اہم بات یہ تھی کہ وہ دونوں کامیابی سے بغیر ذیادہ طلبا کی نظروں میں آئے ایڈمن بلاک پہنچ گئے تھے۔ 
"سانس لے لو بچو۔ پھر اندر چلے جانا۔ میں یہ کیمرہ واپس جمع کروانے جا رہا ہوں تاکہ تصاویر نکلیں۔ پھر دیکھتے ہیں ان میں سے کون سے دو طلبا اگلے ہفتے پروگرام کیلئے منتخب ہوتے ہیں۔" سیکیورٹی گارڈ نے نا دونوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔ 
خدیجہ اور مائیکل دونوں ہی سیکیورٹی گارڈ کے شکر گزار تھے۔ آخر کو کئی مواقع پر سیکیورٹی گارڈ نے انہیں ہزیمت سے بچایا تھا۔ مائیکل نے انہیں الوداع کہا جبکہ خدیجہ تو باقاعدہ ان کے گلے لگ گئی۔ سیکیورٹی گارڈ کو عجیب تو لگا لیکن شاید اب خدیجہ کو پرواہ ہی نہیں تھی کہ وہ ننگی ہے۔ اس کے رویے سے اب کسی بے چینی کا اظہار نہیں ہو رہا تھا۔ 
"تم دونوں بہت اچھے بچے ہو۔ اب خدا حافظ" سیکیورٹی گارڈ وہاں سے روانہ ہو گیا۔ 
وہ دونوں سیکیورٹی گارڈ کی روانگی کے بعد بلڈنگ میں داخل ہو گئے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ آخرکار یہ دن بھی ختم ہو ہی گیا۔ اب بس پرنسپل آفس سے اپنے کپڑے لے کر گھر کو نکلنا تھا۔ پرنسپل آفس کے باہر مسز ایڈورڈز نے ان دونوں کا استقبال کیا۔ وہ بھی کافی خوش نظر آ رہی تھیں۔ 
"کیسا رہا دن۔ مزہ آیا ہو گا نا۔ اف ادھر آؤ۔ مجھے تم دونوں پر بہت فخر ہے۔" مسز ایڈورڈز نے دونوں کو باری باری گلے لگایا۔ ان کے رویے میں مامتا جیسی محبت تھی۔ 
"میں پرنسپل کو بتاتی ہوں کہ تم دونوں آ گئے ہو۔" وہ اندر جانے کیلئے مڑیں لیکن خدیجہ نے انہیں آواز دے کر روک لیا۔ مسز ایڈورڈز نے پوچھا تو خدیجہ نے کہا: "دراصل پرنسپل سے ملنے سے پہلے میں اور مائیکل ایک دوسرے سے چند باتیں کرنا چاہتے ہیں۔ " 
مسز ایڈورڈز کو توقع تو تھی کہ دن بھر ایک دوسرے کے ساتھ ننگے رہنے سے کچھ ایشوز پیدا ہوں گے لیکن پھر بھی وہ کچھ پریشان ہو گئیں۔ انہوں نے خدیجہ اور مائیکل کو پرنسپل کے سٹڈی روم میں بٹھایا اور تسلی دی کہ یہاں وہ جو باتیں کرنا چاہیں کر سکتے ہیں اور کوئی انہیں ڈسٹرب نہیں کرے گا۔ 
"جب تم دونوں بات چیت کر چکو تو مجھے بتا دینا۔ میں انتظار کر رہی ہوں" یہ کہہ کر مسز ایڈورڈز دروازہ بند کر کے چلی گئیں۔ 
مائیکل سوچ رہا تھا نہ جانے خدیجہ کیا بات کرنا چاہتی ہے۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں خدیجہ کو اس کی کوئی بات بری نہ لگی ہو۔ یا شاید وہ مائیکل سے یہ کہنا چاہتی ہو کہ کلاس میں ڈسچارج ہونے والی بات اپنے آپ تک ہی رکھے۔ یہ بات تو مناسب تھی۔ 
خدیجہ نے پرس سے چیونگم نکالی اور منہ میں ڈالتے ڈالتے رک گئی۔ چیونگم واپس پرس میں رکھی اور مائیکل کے سامنے گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گئی۔ 
"ارے یہ کیا کر رہی ہو" مائیکل نے پوچھا۔ 
"جو میں نو شروع کیا تھا وہ ختم بھی تو کرنا ہے نا" خدیجہ نے جواب دیا اور مائیکل کا سویا ہوا لن منہ میں لے کر چوسنے لگی۔ مائیکل کچھ بھی نہ کہہ سکا۔ 
خدیجہ کو اس کا سویا ہوا لن اپنے منہ میں عجیب سا لگا لیکن اسے برا نہیں لگا۔ ایک ہاتھ سے اس نے مائیکل کے ٹٹے ہتھیلی میں رکھ لئے۔ 
"آرام سے" مائیکل نے کہا۔ اس کے ٹٹے کافی حساس ہو گئے تھے۔ 
خدیجہ نے پورا منہ کھول کر کوشش کی اس کے ٹٹے بھی اپنے منہ میں لے لے۔ اسے لگا شاید مائیکل کو یہ اچھا لگے۔ اور یہ اتنا مشکل بھی نہیں تھا۔ مائیکل کے ٹٹے اور لن ایک ساتھ منہ میں لینے سے خدیجہ کا منہ بھر گیا۔ اس نے مائیکل کے چہرے کی طرف دیکھا۔ اس پوز میں وہ بہت تابعدار لگ رہی تھی۔ البتہ وہ مائیکل کے ٹٹے زیادہ دیر تک منہ میں نہ رکھ سکی کیونکہ ان پر بال تھے اور خدیجہ کو بالوں والے ٹٹے منہ کے اندر اچھے نہیں لگ رہے تھے۔ 
پہلے خدیجہ نے جب مائیکل کا لن منہ میں لیا تھا تو اپنی زبان استعمال کر کے اسے کھڑا کیا تھا۔ اب اس نے اپنے ہونٹ استعمال کئے جیسے کسی سٹرا کو چوستے ہیں۔ مائیکل کا لن کھڑا تو ہو ہی جانا تھا خدیجہ جو بھی کرتی کیونکہ کھڑا ہونے کیلئے تو محض خدیجہ کا جسم دکھنا ہی کافی تھا۔ مائیکل کیلئے تو خدیجہ کو اوپر سے دیکھنا بہت ہی دلکش نظارہ تھا جبکہ اس کا لن خدیجہ کے منہ میں تھا اور وہ دیکھ بھی اوپر ہی رہی تھی۔ خدیجہ کے منہ میں ہی اس کا لن تیزی سے اکڑنا شروع ہو گیا۔ 
خدیجہ کو یہ محسوس کر کے بہت اچھا لگا۔ وہ اپنی زبان پھیرنے لگی اس پر تاکہ فل کھڑا ہو جائے۔ جب اس کا لن مکمل تن گیا تو خدیجہ نے آہستہ منہ سے نکالنا شروع کیا۔ نظریں مائیکل کی آنکھوں پر جما کر جب وہ اپنا منہ مائیکل کے لن پر پھیر رہی تھی تو دونوں ہی لذت کی بلندیوں پر تھے۔ جب صرف ٹوپا منہ میں رہ گیا تو خدیجہ نے اس پر زبان پھیری اور خوب چکنا کر دیا۔ پھر اس نے لن منہ سے نکال دیا اور فخریہ انداز میں اسے دیکھنے لگی جیسے اس کی محنت کا پھل وصول ہو گیا ہو۔ مائیکل بھی خوش تھا کہ خدیجہ کو اس کا لن پسند آیا یے۔ دن بھر کی ذلالت کے بعد اب اسے خدیجہ کی صحبت میں تنہائی میسر آئی تھی اور اسے بہت بھلا محسوس ہو رہا تھا۔ خدیجہ نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی مائیکل کو لذت دینے میں۔ جان بوجھ کر اپنے ممے ہلائے تاکہ مائیکل دیکھ سکے اور پھر اپنی انگلی سے مائیکل کے لن کے ٹوپے کو چھیڑنے لگی۔ آرام آرام سے اس پر انگلی پھیرتی اور ساتھ ہی مائیکل کو بتاتی کہ دیکھو کیسے سخت ہو رہا ہے لن اور کیسے رنگت تبدیل ہو رہی ہے۔ پھر اس نے مائیکل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور اسے کہا کہ اس کا لن بہت ہی خوبصورت ہے۔ مائیکل اپنے لن کی تعریف پر پھولا نہیں سما رہا تھا کہ خدیجہ بول اٹھی: "مجھے یقین نہیں آتا کہ لڑکیاں اتنے بڑے بڑے لن اپنی پھدی میں لے لیتی ہیں۔ توبہ۔ مائیکل کہیں تم میرے اندر تو نہیں ڈال دو گے؟" خدیجہ کے لہجے میں شرارت تھی۔ 
مائیکل کو پتہ تھا کہ خدیجہ اسے چھیڑ رہی ہے۔ اس کیلئے تو یہی کافی تھا کہ خدیجہ کو اس کا لن پسند آ گیا تھا۔ 
"تمہارا لن بہت پیارا ہے۔ اتنا سخت جس سے تمہاری مردانگی کا اظہار ہو رہا ہے۔" خدیجہ نے مزید کہا۔ 
"لیکن تمہارے مموں سے پیارا نہیں ہے" مائیکل نے جواباً کہا۔ 
خدیجہ نے فوراً پیچھے ہو کر ہاتھوں سے ممے اٹھا کر مائیکل کو پیش کئے اور بولی: "کیا واقعی مائیکل ۔ میرے ممے بہت پیارے ہیں؟ یہ تو مجھے پتہ ہے کہ لڑکوں کو پسند ہوتے ہیں ممے اور لڑکے میرے مموں کو گھورتے بھی ہیں لیکن۔۔۔۔" وہ اپنی بات مکمل نہ کر سکی۔ 
"لیکن کیا خدیجہ ؟" مائیکل نے بے چینی سے پوچھا۔ 
خدیجہ نے ایک لمحے کو سوچا کہ اس سے یہ بات کہے یا نہیں لیکن پھر اس نے کہہ ہی دی۔ "مائیکل مجھے لگتا ہے کہ برا کے بغیر میرے ممے اچھے نہیں لگتے۔" 
مائیکل حیران تھا کہ خدیجہ جیسی خوبصورت سیکسی لڑکی ایسا کیسے سوچ سکتی ہے۔ 
"خدیجہ تمہیں پتہ بھی ہے کہ یہ کتنے پیارے ہیں۔ ہاں لڑکے انہیں گھور رہے تھے لیکن شاید تم نے لڑکیوں کو نہیں دیکھا۔ میں نے لڑکیوں کی آنکھوں میں تمہارے مموں کیلئے حسد دیکھا ہے۔ وہ سب جلتی ہیں تمہارے مموں سے۔" 
"کیا واقعی ؟" خدیجہ نے معصوم سے انداز میں مائیکل کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔ 
"ہاں نا۔ صالحہ تک تمہارے مموں سے جیلس تھی۔" مائیکل نے کہا۔ صالحہ کالج میں اپنے مموں کی وجہ سے مشہور تھی۔ 
خدیجہ کو اپنے مموں کی تعریف سن کر خوشی ہوئی۔ صالحہ کی جیلسی اس کی خوشی کو دوبالا کئے دے رہی تھی۔ 
"مائیکل ۔ کیا تم میرے مموں پر ڈسچارج ہونا چاہو گے؟" خدیجہ نے مائیکل سے پوچھا۔ 
مائیکل اگرچہ مسکرایا لیکن اس نے خدیجہ سے کہا کہ کہیں اس کیلئے یہ باعث ہزیمت نہ ہو۔ 
خدیجہ مائیکل کی بات کا جواب دینے کی بجائے بس اس کی طرف میٹھی میٹھی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے دیکھتی رہی۔ پھر اس نے اپنا منہ آگے کر کے مائیکل کے ٹوپے سے نکلنے والے دو قطروں کو چکھا۔ پہلی بار مائیکل کی منی اس کے منہ میں گئی تھی۔ خدیجہ بے اختیار مائیکل کے لن پر زبان پھیرنے لگی۔ مائیکل کیلئے خود کو سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ خدیجہ نے ایک ہاتھ سے لن پکڑ کر مسلنا بھی شروع کر دیا تھا اور چاٹنا بھی جاری رکھا تھا۔ 
"خدیجہ رکو۔ میں ڈسچارج نہ ہو جاؤں کہیں" مائیکل نے اکھڑے اکھڑے لہجے میں کہا لیکن خدیجہ نہیں رکی۔ 
"ہو جاؤ مائیکل ۔ یہی تو میں چاہتی ہوں" خدیجہ نے اپنی رفتار اور بڑھا دی۔ مائیکل یہی سننا چاہتا تھا۔ کافی دیر سے وہ ڈسچارج ہونے کے قریب آ کر بھی ڈسچارج نہیں ہو پا رہا تھا۔ پہلے پروفیسر عافیہ نے اس کے ساتھ یہ کیا تھا پھر شاور میں بھی وہ نہیں ہو پایا اور پھر مسٹر ڈیوڈ کی کلاس میں بھی خدیجہ کے ہاتھوں وہ ڈسچارج ہوتے ہوتے رہ گیا تھا۔ اب تو اس کا ڈسچارج ہونا بنتا ہی تھا۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں اور خدیجہ کے ہاتھوں، زبان اور ہونٹوں کی لذت میں خود کو کھونے لگا۔ 
خدیجہ پورے جوش و جذبے سے مائیکل کے لن پر ہاتھ اوپر نیچے پھیر رہی تھی اور ساتھ ہی منہ سے چوس بھی رہی تھی اور چاٹ بھی رہی تھی۔ 
"خدیجہ۔۔۔۔۔ خدیجہ ۔۔۔۔" مائیکل نے کہا لیکن بات مکمل نہ کر سکا۔ اس کا دل تو کر رہا تھا کہ خدیجہ کا سر پکڑ لے اور خود سے لن اس کے منہ میں اندر باہر کرے لیکن اسے ڈر تھا کہ کہیں خدیجہ برا نہ مان جائے۔ 
اس نے دونوں کی مٹھیاں دبا لیں جیسے اپنے آپ کو بمشکل روک رہا ہو۔ باوجود کوشش کے روک نہ پایا اور منی لن سے نکل کر سیدھی خدیجہ کی زبان سے ٹکرائی۔ خدیجہ کو توقع تو تھی کہ ایسا ہو گا لیکن وہ حیران تھی کہ کتنی طاقت سے مائیکل کے لن سے منی نکلی تھی۔ حیران تو وہ اس بات پر بھی تھی کہ اسے ذرا بھی برا نہیں لگا۔ منی کا نمکین ذائقہ بھی اسے برا نہیں لگا بلکہ جیسے جیسے مائیکل کے لن سے منی کے لوتھڑے نکلتے گئے، خدیجہ انہیں اپنے منہ میں جمع کرتی گئی۔ خدیجہ کو مائیکل کی منی اچھی لگ رہی تھی اور مائیکل اس کا منہ اپنی منہ سے بھرے چلا جا رہا تھا۔ پہلے خدیجہ نے اسے اپنے مموں پر ہی ڈسچارج کروانے کا سوچا تھا لیکن جب چاٹتے ہوئے پہلا قطرہ زبان پر لگا تو اس نے فیصلہ کیا کہ ساری منی منہ میں ہی لے گی۔ ویسے بھی منہ میں لینا ذیادہ پرسنل تھا، ذیادہ اپنائیت بھرا تھا۔ مائیکل کو بھی خدیجہ کے منہ میں منی نکالنے کا بہت مزہ آ رہا تھا اسی لئے ایک کے بعد ایک جھٹکے سے منی نکلتی ہی چلی جا رہی تھی۔ 
منی کی زیادہ مقدار کی وجہ تو صاف ظاہر تھی۔ اتنی دیر سے وہ منی روکے ہوئے تھا تو پریشر بن گیا تھا۔ خدیجہ کو خود پر البتہ فخر محسوس ہو رہا تھا کہ اس نے کتنے آرام سے مائیکل کی منی اپنے منہ میں نہ صرف وصول کی بلکہ نگلنے میں بھی اسے کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ خیر تھوڑی بہت دشواری تو ہوئی تھی۔ دراصل مائیکل کی منی تھی ہی بہت گاڑھی کہ نگلتے ہوئے حلق میں عجیب سا احساس ہوا تھا لیکن خدیجہ نے ہمیشہ کی طرح اس بات پر فوکس کیا کہ جو اسائنمنٹ پکڑو، اسے مکمل کر کے ہی چھوڑنا ہے۔ 
جب مائیکل مکمل ڈسچارج ہو چکا تو خدیجہ نے زبان سے اس کا ٹوپا چاٹ کر صاف کر دیا۔ اس نے خیال رکھا تھا کہ ایک قطرہ بھی قالین پر نہ گرنے پائے کیونکہ یہ بہرحال پرنسپل آفس کا ہی حصہ تھا اور ویسے بھی خدیجہ اس کی ساری منی اپنے اندر اتارنا چاہتی تھی۔ منی کی آخری مقدار حلق سے اتارتے ہوئے خدیجہ نے گلے پر ہاتھ رکھا جیسے ابکائ روک رہی ہو۔ اسے ایسا لگا جیسے وہ گلو یعنی گوند نگل رہی ہے اور وہ بھی پانی کے بغیر۔ 
مائیکل نے البتہ جینٹل مین کی طرح خدیجہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر اس کا حوصلہ بڑھایا تھا۔ جب خدیجہ نے سارا نگل لیا تو وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی اور مائیکل کے گلے لگ گئی۔ مائیکل نے اس کے ہونٹ چوم کر اس کا شکریہ ادا کیا لیکن صرف چوم کر ہی نہیں بلکہ زبان سے بھی اسے شکریہ کہا۔ جو کچھ خدیجہ نے اس کیلئے کیا تھا وہ کبھی نہیں بھول سکتا تھا۔ 
"اوہو چھوڑو بھی۔ اگر مجھے پتہ ہوتا کہ تم اتنی منی نکالو گے تو شاید میں منہ میں لیتی ہی نہ" خدیجہ نے کہا لیکن دل ہی دل میں اسے فخر بھی تھا کہ اتنی ساری منی پی لی تھی۔ مائیکل کو بھی پتہ تھا کہ خدیجہ مذاق میں یہ بات کہہ رہی ہے اور درحقیقت وہ بھی مائیکل کی منی حلق میں اتار کر بہت خوش تھی۔ خدیجہ نے مائیکل کا ہاتھ تھاما اور مسکرا کر کہا: "چلو اب چلیں"۔ 
مائیکل اور خدیجہ ایک نئے جذبے کے ساتھ پرنسپل آفس کی طرف بڑھے۔ ان دونوں کے خیال میں پروگرام کامیابی سے نافذ ہو چکا تھا۔ صبح جب پہلی بار وہ ننگے ہو کر پرنسپل آفس سے نکلے تھے تو انہیں یقین نہیں تھا کہ وہ پورا دن گزار پائیں گے اور یہ سچ تھا کہ دن بھر میں کئی مرتبہ ناخوشگوار واقعات پیش آئے تھے لیکن وہ دونوں ایک ساتھ کامیابی سے تمام مراحل سے گزر جانے پر بہت خوش تھے۔ اتنے خوش کہ اگر مسز رابعہ کی ڈرائنگ مکمل کروانے کیلئے انہیں پھر اس کلاس میں جانا پڑتا تو وہ اس کیلئے بھی تیار تھے۔ جب وہ پرنسپل آفس میں داخل ہوئے تو ان دونوں کے چہروں پر گہری مسکراہٹ تھی۔ خدیجہ کے ہونٹوں پر البتہ مسکراہٹ سے بڑھ کر کچھ اور بھی تھا۔ 
ختم شد۔

 

 
Quratulain Tahira

Quratulain Tahira