Language:

Search

خدیجہ اور مائیکل 4

  • Share this:

بہرحال، مائیکل کا لن چھوٹا ہی سہی، کم از کم سویا تو ہوا تھا۔ خدیجہ کیلئے یہی کافی تھی۔ مائیکل کا لن دیکھنے سے پہلے اس کا خیال تھا کہ سویا ہوا لن بھی کافی نیچے تک لٹکتا ہو گا لیکن مائیکل کے لن نے اس کے خیالات تبدیل کر دئیے۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ کسی جوان لڑکے کا نہیں بلکہ کسی چھوٹے بچے کا لن ہو۔ یہ سوچ کر پہلے خدیجہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی اور پھر ہلکا سا قہقہ چھوٹ گیا جسے چھپانے کیلئے اس نے اپنا ہاتھ منہ پر رکھ لیا۔
مائیکل اچھی طرح جانتا تھا کہ خدیجہ کیوں ہنس رہی تھی۔
"خدیجہ یہ اچھی بات نہیں ہے۔ یہاں ائیر کنڈیشنر کی وجہ سے اتنی سردی ہے اور اوپر سے میں کافی نروس بھی ہوں۔"
خدیجہ کو دل میں برا محسوس ہوا۔ اسے ایسے مذاق نہیں اڑانا چاہیے تھا۔ مائیکل اور وہ پارٹنر تھے اور انہیں تو ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیے۔ ہو سکتا ہے دن میں کئی مواقع آئیں جہاں اسے مائیکل کی مدد کی ضرورت پڑے۔ دن کا آغاز اس کے چھوٹے لن کا مذاق اڑا کر کرنا خدیجہ کیلئے مشکلات پیدا کر سکتا تھا۔ اپنے اوپر تو اسے مکمل اعتماد تھا اور یہ بھی یقین تھا کہ وہ یوں ننگی کالج میں پھرے گی تو سب لڑکوں کی نگاہوں کا مرکز بنی رہے گی لیکن ساتھ ہی یہ بھی اندیشہ تھا کہ کچھ لڑکے بد تمیزی بھی کر سکتے ہیں۔
"اوہ آئی ایم سوری مائیکل ۔ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔"
خدیجہ نے مائیکل سے معافی مانگی۔ اس نے مزید کہا: "میں تمہاری بات سمجھ گئی ہوں۔ ویسے بھی ائیر کنڈیشنر تو کپڑوں میں ملبوس لوگوں کیلئے ہے، ننگے ہو کر تو زیادہ سردی لگنی ہی ہے۔"
ان دونوں کا ننگے ہونا کمرے میں موجود ایسا ہاتھی تھا جسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں تھا۔ ہاتھی ذہن میں آیا تو خدیجہ کو پھر مائیکل کے لن کا خیال آ گیا۔ دل ہی دل میں اس نے سوچا مائیکل ایسا ہاتھی ہے جس کی سونڈ بہت ہی چھوٹی ہے۔ اپنے اس لطیفے پر وہ مسکرا اٹھی لیکن لطیفہ اپنے آپ تک ہی رکھا۔ ظاہر ہے مائیکل نے تو اس پر غصہ ہی کرنا تھا۔
"ویسے کیسی عجیب بات ہے کہ سردی سے جہاں میرا لن سکڑ گیا ہے وہیں تمہارے نپلز کیسے سخت ہو کر اکڑ گئے ہیں۔" مائیکل نے کہا۔
واقعی خدیجہ کے نپلز تو ایسے اکڑے ہوئے تھے جیسے بال پوائنٹ پین کے ڈھکن ہوتے ہیں۔ مائیکل اکثر سافٹ وئیر پر کام کرتے ہوئے بال پوائنٹ پین کا ڈھکن چبایا کرتا تھا۔ اس نے سوچا کاش خدیجہ کے ڈھکن نما نپلز بھی وہ ایسے ہی چبا سکے۔
خدیجہ کو اپنے نپلز پر یوں مائیکل کا تبصرہ کرنا کچھ اچھا نہیں لگا۔ اسے شرم آگئی۔ وہ تو مائیکل سے ہمدردی کا اظہار لر رہی تھی اور مائیکل الٹا اس پر ہی باتیں بنانے لگا۔
"ہمیں دیر ہو رہی ہے۔ کلاس میں پہنچنا چاہیے۔" خدیجہ نے بات بدل دی۔ یہ دن واقعی کافی کٹھن لگ رہا تھا۔
"ہاں۔ جانا تو ہے" مائیکل نے بے دلی سے کہا۔ اس کا بس چلتا تو سارا دن یہاں ہال میں ہی خدیجہ کے ساتھ گزار دیتا لیکن یہ ممکن نہیں تھا۔
مین دروازے کے باہر سیکیورٹی گارڈ ان کا انتظار کر رہا تھا۔ سیکیورٹی گارڈ کی شرط سکول کے بورڈ نے پروگرام میں ڈلوائی تھی۔ یہ کالج ویسے بھی چھوٹا سا ہی تھا۔ یہاں صرف انڈر گریجویٹ آرٹ کورسز ہوتے تھے۔ نہ کوئی پروفیشنل لا ڈیپارٹمنٹ تھا اور نہ ہی کوئی اور ایسا سپیشلائزڈ شعبہ۔ چار سالہ آرٹ کورسز ہی اس کالج کی بنیادی خصوصیت تھی۔ امریکہ کی ایک دور دراز ریاست کے کونے میں واقع ہونے کے سبب طلبا کی تعداد بھی معقول تھی۔ کالج کی بلڈنگ کچھ اس طرح سے تھی کہ سب ڈیپارٹمنٹ کی بلڈنگ کے درمیان کھلا حصہ تھا اور سب بلڈنگز ایک دائرہ نما شکل میں تھیں۔ سوشیالوجی ، سائیکالوجی ، سیاسیات اور اینتھروپولوجی کے ڈیپارٹمنٹ سب ایک ہی بلڈنگ میں تھے۔
کالج کی بلڈنگ کی ہیئت پروگرام کے شرکا کیلئے مددگار تھی کیونکہ بلڈنگ ساتھ ساتھ ہونے کی وجہ سے انہیں زیادہ وقت کلاس سے باہر نہ گزارنا پڑتا۔ لیکن اس کے باوجود کالج کے بورڈ نے اس بات کا فیصلہ کیا تھا کہ سیکیورٹی گارڈ کی ان کے ساتھ موجودگی اس وقت ضروری ہے جب وہ ایک کلاس سے دوسری کلاس میں جائیں۔ سیکیورٹی گارڈ کی موجودگی شرارتی طلبا کو بد تمیزی سے باز رکھنے میں معاون ثابت ہو سکتی تھی اور سیکیورٹی گارڈ کی نشاندھی پر ایسے شرارتی طلبا کو بعد میں سزا دینا بھی ممکن ہوتا۔ پہلی بار پروگرام کے نفاذ پر بورڈ کو توقع تھی کہ بد تمیزی کے واقعات رونما ہوں گے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان واقعات میں کمی آئے گی کیونکہ طلبا پروگرام کے شرکا کے ننگے پن کے عادی ہو جائیں گے۔ سیکیورٹی گارڈ کا ایک فائدہ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ وہ ایسی جنسی سرگرمی کو روک سکتا تھا جس کی پروگرام میں اجازت نہیں تھی۔ بورڈ کو بس یہ دیکھنا تھا کہ پہلا تجربہ کیسا گزرتا ہے کیونکہ پروگرام کی اصل روح تو بغیر سیکیورٹی گارڈ کے طلبا کو ننگا کر کے جسموں سے آگاہ کرنا تھی۔
خدیجہ سیکیورٹی گارڈ کی موجودگی پر بورڈ کی شکر گزار تھی لیکن اسے سیکیورٹی گارڈ کا اپنے مموں کو گھورنا شدید چبھ رہا تھا۔ یہ بات بھی اسے سخت بری لگ رہی تھی کہ سیکیورٹی گارڈ بالکل ان دونوں کے پیچھے چل رہا تھا۔ خدیجہ کو یقین تھا کہ سیکیورٹی گارڈ کی نظریں اس کے چوتڑوں پر ہی ہوں گی۔ لیکن اس کا گھورنا بہت چھوٹی قیمت تھی اس حفاظت کی جو اس نے کرنی تھی۔ ویسے بھی سوائے گھورنے کے باقی معاملات میں وہ اب تک ان دونوں سے بہت اچھے طریقے سے پیش آیا تھا۔
"بچوں، میں پوری کوشش کروں گا کہ کوئی آپ سے بد تمیزی نہ کرے اور نہ ہی آپ کے جسم کو چھوئے۔ اگر آپ کے ذہن میں کوئی سوال ہے تو آپ جب چاہیں مجھ سے پوچھ سکتے ہیں۔" سیکیورٹی گارڈ نے پرنسپل آفس سے روانہ ہوتے وقت ان دونوں کو مخاطب کر کے کہا تھا۔
خوش قسمتی سے ان کی پہلی کلاس فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ میں تھی جو صرف دو بلڈنگز کے فاصلے پر تھا اس لئے انہیں زیادہ نہیں چلنا پڑنا تھا۔ جب وہ بلڈنگز کے درمیان میں کھلے علاقے میں داخل ہوئے تو خدیجہ کی ہیلز کی ٹھک ٹھک کی آوازیں بلند ہو گئیں کیونکہ وہاں پکا ٹائلز والا فرش تھا۔ ساتھ ہی تیز تیز قدم اٹھانے سے اس کے ممے بھی ہچکولے کھا رہے تھے۔
کاش میں نے آج ہیلز نہ پہنی ہوتیں۔ خدیجہ نے دل میں سوچا۔ اگر اسے پتہ ہوتا کہ آج اس نے یوں ننگی ہونا ہے تو وہ کوئی ایسی چیز پہنتی جس سے چلنے میں آسانی رہتی۔ شاید چپل ہی پہن لیتی۔ چپل میں رفتار کم از کم ہیلز سے تو زیادہ ہی ہوتی اور اوپر سے ننگے جسم پر ہیلز سے بہتر بھی لگتیں۔
"اوہ" خدیجہ کے منہ سے نکل گیا۔
مائیکل نے سر ہلا کر اس کی تائید کی۔ وہ سمجھ سکتا تھا کہ خدیجہ کس مشکل میں ہے۔ جیسے جیسے وہ آگے بڑھ رہے تھے، ویسے ویسے طلبا کی نظریں ان پر پڑ رہی تھیں۔ اگرچہ کامنز میں اس وقت زیادہ طلبا نہیں تھے لیکن خدیجہ اور مائیکل کو تو یہ بھی بہت زیادہ لگ رہے تھے۔ کامنز بلڈنگز کے درمیان میں کھلے حصے کا نام تھا۔ خدیجہ نے ایک اور چیونگم منہ میں ڈال لی۔ ایک تو وہ تھی ہی ننگی اوپر سے ہیلز اور بازو سے لٹکا پرس ایسی منظر کشی کر رہا تھا کہ سب لڑکوں کی نظریں خدیجہ پر جمی تھیں۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ اس کے اچھلتے مموں پر جمی تھیں تو زیادہ مناسب ہو گا۔ خدیجہ ایسی نظروں کی عادی تو تھی لیکن کپڑوں میں، ایسے ننگی سب لڑکوں کی نگاہوں کا مرکز بننا مختلف تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اس کا جسم اور فگر بہت پر کشش ہے اور وہ کپڑے بھی ایسے پی پہنا کرتی تھی جس سے جسم کے خدو خال اچھے لگیں لیکن اب بنا کپڑوں کے سارا جسم سب کے سامنے عیاں ہونا ایک منفرد تجربہ تھا۔ اس نے سوچا کاش اس کی چھاتیاں ہی کم از کم اتنا نہ ہلتی کہ ہر قدم پر ایسا لگے جیسے وہ اچھل اچھل کر چل رہی ہے۔ ہمیشہ خدیجہ نے ایسی برا پہنی تھی جس نے اس کے دونوں ممے اچھی طرح قابو کئے تھے۔ ایک بھی دن ایسا نہیں تھا جب اس نے برا نہ پہنی ہوں۔ شاید آج پہلا دن تھا برا کے بغیر اور آج پہلی بار اس کا دل چاہا کاش اس کے ممے اتنے بڑے نہ ہوتے۔
"کیا ہم کچھ آہستہ نہیں چل سکتے؟ " خدیجہ نے آہستہ سے مائیکل سے کہا۔
مائیکل تو رفتار تیز کرنے کا سوچ رہا تھا تاکہ جلد از جلد سب کی نظروں سے اوجھل ہو سکیں لیکن وہ سمجھ سکتا تھا کہ ہیلز پہن کر خدیجہ کیلئے تیز چلنا بہت مشکل تھا۔
"اسے بھی آج ہی ہیلز پہننی تھیں۔" مائیکل نے سوچا اور بیزاری سے خدیجہ کی طرف ایک نظر ڈالی۔ پھر یہ سوچ کر اس کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا کہ اس بے چاری کو کیا پتہ تھا کہ اسے ننگی ہونا پڑے گا۔ خود وہ بھی تو کالج کے کالے چمکدار جوتے پالش کر کے پہن کر آیا تھا۔ اگر اسے پتہ ہوتا تو وہ جوگر پہن آتا کیوں کہ ننگے بدن پر جوگر کم از کم کالے جوتوں اور جرابوں سے بہتر ہی لگتے۔ کالی جرابوں اور کالے جوتوں میں اس کا ننگا بدن یقیناً جوکر ہی لگ رہا ہو گا۔
اس نے خدیجہ کی طرف منہ کیا تاکہ اس سے جواب دے سکے کہ انہیں تو اور تیز چلنا چاہیے لیکن جب اس نے خدیجہ کو دیکھا تو اسے اندازہ ہوا کہ وہ پہلے ہی بہت تیز چل رہے ہیں۔ کپڑوں کے بغیر یوں ہیلز پہن کر تیز تیز چلنے سے خدیجہ کے ممے یوں اچھل رہے تھے جیسے وہ کسی گدے پر مسلسل اچھل رہی ہو۔ مائیکل کو فوراً اس کی مشکل کا احساس ہو گیا اور اس نے کہا: "اوہ ہاں کیوں نہیں خدیجہ۔ رئیلی سوری۔"
مائیکل نے رفتار آہستہ کر لی۔ اسے ہر قدم کے ساتھ اپنے لن کا اچھلنا بھی محسوس ہو رہا تھا۔ لن اچھل کر ٹٹوں سے لگتا اور ٹٹے جانگوں سے۔ بار بار یہ عمل مائیکل کو احساس دلا رہا تھا کہ وہ ننگا ہے اور سب کے سامنے ننگا ہے۔ پہلے اسے اپنے لن کے کھڑا ہونے کا ڈر تھا اب وہ سوچ رہا تھا کاش تھوڑا سا تو لمبا ہو جائے کم از کم آدھا ہی کھڑا کو جائے تاکہ نارمل سائز کا تو لگے۔ فی الحال تو مونگ پھلی جیسا چھوٹا لن کھال کے اندر چھپ کر بیٹھا ہوا تھا۔
"جانو ہمیں بھی کچھ مزے دو گی کیا؟"
وہ شاید ایسے ہی چلتے رہتے اگر ایک اونچی سی آواز ان کے قدم نہ روک لیتی۔ یہ جیک کی آواز تھی۔ جیک ایک سیاہ فام لمبا تڑنگا لڑکا تھا۔ مائیکل اور خدیجہ کے قدم جہاں تھے وہیں رک گئے لیکن سیکیورٹی گارڈ نہ رکا۔ وہ جیک کی طرف بڑھا اور جیب سے کیمرہ نکال کر جیک کی تصویر اتار لی۔
"تم سے جلد ہی رابطہ کیا جائے گا" سیکیورٹی گارڈ نے جیک سے کہا۔
جو کچھ جیک نے کہا تھا وہ پروگرام کے اصولوں کے خلاف تھا کیونکہ پروگرام کے شرکا کو کسی بھی طرح سے ایسے الفاظ سے پکارنا جس سے ان کی دل آزاری ہو، یا ان سے بد تمیزی کرنا، یا ان کے جسم چھونا منع تھا۔ پروگرام کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ ایسے طلبا کو سامنے لایا جائے جو اس قسم کی حرکات کرتے ہیں تاکہ انہیں جنسی تعلیم کے کورس میں داخل کروا کر ان کی اصلاح کروائی جا سکے اور انہیں پروگرام میں شریک کیا جائے لیکن یہ بعد کی بات تھی فی الحال تو ایسے طلبا کی پرنسپل سے سخت میٹنگ ہونی تھی۔
جیک کو اپنی غلطی کا فوراً ہی احساس ہو گیا۔ وہ ہر گز پروگرام میں شرکت نہیں کرنا چاہتا تھا۔
"سوری خدیجہ ، رئیل ویری سوری۔" وہ تو فوراً ہی معافی پر اتر آیا۔
"کوئی بات نہیں جیک۔" خدیجہ کو برا تو بہت لگا تھا لیکن اس نے اپنا رویہ مثبت ہی رکھا۔
"چلو مائیکل۔ " خدیجہ نے ہاتھ پیچھے کیا تاکہ مائیکل کا ہاتھ تھام کر آگے بڑھیں لیکن اس کی بد قسمتی کہ اس نے بجائے ہاتھ کہ اس کا لن تھام لیا۔
"آہ" ایک سیکنڈ سے بھی کم عرصے میں اس نے مائیکل کا لن چھوڑ دیا بلکہ اس کا ری ایکشن تو ایسا تھا جیسے اس کا ہاتھ مائیکل کے لن پر نہیں بلکہ گرم لوہے پر پڑ گیا ہو۔
"سوری " خدیجہ نے مائیکل کی طرف دیکھ کر کہا۔ اس کے چہرے پر البتہ مسکراہٹ تھی۔ مائیکل کا لن اگرچہ ایک سیکنڈ یا اس بھی کم اس کے ہاتھ میں رہا تھا لیکن اس مختصر ترین عرصے میں بھی خدیجہ کو مائیکل کے لن کا چھوٹا سائز محسوس ہو گیا تھا اور اس کی مسکراہٹ بھی لن کے چھوٹے سائز کی وجہ سے تھی۔
"کوئی بات نہیں ۔ ہو جاتا ہے۔" مائیکل نے خدیجہ کو جواب دیا اور اس کا ہاتھ تھام کر فائن آرٹس بلڈنگ میں داخل ہو گیا۔
 

Quratulain Tahira

Quratulain Tahira