Language:

Search

کتیا 2

  • Share this:

اس واقعے کے بعد زینب کی آنکھیں روزانہ اس کالے کتے تلاش میں رہتیں لیکن وہ اسے کہیں نہ ملا۔ ادھر زینب کے جذبات اس حد تک بھڑک چکے تھے کہ اب وہ بچوں کے سامنے بھی ذیادہ وقت کتیا ہی بنی رہتی تھی۔ بچے کھانا کھا رہے ہوتے تو ان کی کرسی کے پاس بیٹھ کر کتیا جیسی حرکتیں کرتی، ان کے پاؤں تک چاٹتی۔ بچے بھی اپنی امی کو اس حالت میں دیکھنے کے عادی ہو چکے تھے۔ کھانا کھاتے ہوئے ہڈیاں زمین پر پھینکتے جاتے جو زینب بڑے مزے سے چاٹ چاٹ کر کھا جاتی تھی۔ 

لیکن زینب کے اندر ایک طوفان برپا تھا جو ٹھنڈا ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ اس طوفان کو کوئی کتا ہی ٹھنڈا کر سکتا تھا جس کی کوئی صورت فی الحال نظر نہیں آ رہی تھی۔ جس جگہ اس کا گھر تھا وہاں ارد گرد کسی کے ہاں بھی کتا نہیں تھا اور زینب کو تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ اگر بطور پالتو جانور کتا خریدنا ہو تو کہاں سے خریدا جائے۔ نہ جانے کب تک زینب کو اس انجانی آگ میں جلنا پڑتا لیکن چند دن بعد پیش آنے والے واقعے نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ 

ہوا یوں کہ زینب کے بچے سکول سے پیدل گھر واپس آ رہے تھے اور راستے میں انہیں ایک کتے کا بچہ ملا۔ یہ اتنا چھوٹا بچہ بھی نہیں تھا لیکن اتنا بڑا بھی نہیں تھا کہ بچے ڈر جاتے۔ دوسری بات یہ کہ اس کے گلے میں پٹہ ڈلا ہوا تھا۔ بچوں نے اس کتے کو پٹے سے پکڑ کر کھینچا اور اسے اپنے ساتھ گھر لے آئے۔ زینب جو کہ عم لاً ایک کتیا ہی بن کر رہ گئی تھی، نے جب بچوں کے ہمراہ ایک عدد درمیانے سائز کا کتا دیکھا تو دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کئے بغیر نہ رہ سکی۔ زینب کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ حتیٰ الامکان کتیا ہی بنی رہے۔ جو بھی کام اس پوزیشن میں ممکن تھے، وہ انہیں اسی پوزیشن میں سرانجام دیتی تھی۔ بچے کچھ دیر تو کتے کے ساتھ کھیلتے رہے لیکن پھر ان کی اکیڈمی اور دیگر مصروفیات آڑے آنے لگیں اور کتے میں ان کی دلچسپی کم سے کم تر ہوتی گئی۔ زینب کیلئے اس سے اچھی اور کیا بات کو سکتی تھی۔ جس دن بچے کتا گھر لے کر آئے تھے، بچوں نے ضد کر کے کتے کو اپنے کمرے میں سلایا تھا۔ نہ صرف اس دن بلکہ اس کے بعد بھی کتا ان ہی کے کمرے میں سوتا رہا لیکن جب بچے اس کی پرواہ نہ کرتے اور وہ ایسے ہی بندھا رہتا تو زینب کتے کو اپنے کمرے میں لے آئی۔ سب کام کاج سے فارغ کو کر زینب کمرے میں آئی تو کتا بھی اس کے پیچھے پیچھے دم ہلاتا آ گیا۔ دروازہ بند کر کے زینب نے خود کو کپڑوں سے بے نیاز کیا اور فور اً گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی۔ کتا زینب کے قریب آ کر اس کے ہاتھ پاؤں چاٹنے لگا۔ اس کی زبان مس ہونے کی دیر تھی، زینب کو ایسا لگا جیسے اس کے تپتے بدن پر ٹھنڈے پانی کا چھینٹا پڑ گیا ہو۔ کتا زینب کے بدن کو چاٹے چلا جا رہا تھا اور زینب کتیا کی سی آوازیں نکال رہی تھی۔ کتا بھی حلق سے ایسی آوازیں نکال رہا تھا جیسے اسے بھی زینب کے بدن کو چاٹنے میں بہت لطف آ رہا ہو۔ زینب کے چہرے پر جب کتے نے اپنی زبان پھیری تو زینب نے بھی اپنی زبان باہر نکال دی۔ زینب کی زبان کتے کی زبان سے چھو گئی۔ زینب تو جیسے عالم مدہوشی میں پہنچ گئی تھی۔ اسے کچھ ہوش نہیں تھا کہ وہ کیا کر رہی ہے۔ وہ دروازے کے ہاس ہی بیٹھ گئی تھی جس کی وجہ سے کتا اس کے ہاتھ اور منہ تو چاٹ رہا تھا لیکن چوتڑ اس کی پہنچ سے دور تھے۔ زینب گھٹنوں کے بل چلتی ہوئی آگے بڑھی اور کتا فور اً زینب کے پیچھے آ گیا۔ پہلے اس نے زبان سے زینب کے چوتڑ چاٹے اور پھر چوتڑوں کے درمیان زینب کی چوت اور اردگرد کا حصہ چاٹنے لگا۔ زینب تو جیسے ہواؤں میں اڑ رہی تھی۔ اس کے حلق سے بھی ایسی آوازیں نکل رہی تھیں جس سے یہی اندازہ ہوتا تھا کہ وہ لطف کی بلندیوں پر پہنچ گئی ہے۔ لطف تو کتے کو بھی خوب آ رہا تھا جس کا اندازہ اس کے تنے ہوئے لنڈ سے بخوبی ہو رہا تھا۔ کچھ دیر زینب کی چوت چاٹنے اور سونگھنے کے بعد کتے نے ایک دم سے اگلی دو ٹانگیں اٹھا کر چھلانگ لگائی اور زینب کے اوپر سوار ہو گیا۔ کتا اپنے کام کا ماہر معلوم ہوتا تھا کیونکہ پہلی ہی کوشش میں اس کا لنڈ سیدھا زینب کی چوت میں گیا تھا۔ زینب کے منہ سے بے اختیار آہ نکل گئی۔ اس کی زندگی کا یہ پہلا موقع تھا کہ وہ شوہر کے علاوہ کسی اور سے سیکس کر رہی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ یہ کوئی اور انسان کی بجائے ایک کتا واقع ہوا تھا۔ کتا مسلسل زینب کی چوت میں جھٹکے مار رہا تھا۔ زینب نے اگرچہ کتوں کو سیکس کرتے ہوئے پہلے بھی ایک آدھ مرتبہ دیکھا تھا اور اسے تب بھی محسوس ہوا تھا کہ کتوں کی چودنے کی رفتار انسانوں سے زیادہ تیز ہوتی ہے لیکن اس رفتار کا درست اندازہ اسے آج ہوا تھا جب ایک کتا مشین کی مانند اس کی چوت میں لنڈ اندر باہر کر رہا تھا۔ یہ بھی نہیں کہ صرف اندر باہر ہی کر رہا ہو بلکہ لنڈ بھی پورا کا پورا چوت کی گہرائی میں جا کر واپس باہر آ رہا تھا۔ زینب کو اس کا لنڈ بچہ دانی سے ٹکراتا ہوا محسوس ہو رہا تھا اور یہ بھی محسوس ہو رہا تھا کہ کتے کا لنڈ اس کے مرحوم شوہر کے لنڈ سے بھی لمبائی میں لمبا ہے اور موٹائی میں بھی۔ موٹائی کے بارے میں زینب حیران تھی کیونکہ جب کتے نے پہلے جھٹکے میں اپنا لنڈ اس کی چوت میں داخل کیا تھا تو زینب کو یہ اتنا موٹا محسوس نہیں ہوا تھا لیکن اندر جاتے ہی لنڈ میں گٹھان سی بندھ گئی تھی۔ زینب کو ایسا محسوس ہوا تھا جیسے کتے کے لنڈ کا اگلا سرا چوت میں داخل ہونے پر سوج گیا ہے۔ شروع میں اسے تکلیف بھی ہوئی لیکن وہ کتے کا لنڈ اس کی چوت میں ایسے پھنس گیا تھا کہ اگر وہ ذرا بھی حرکت کرتی تو تکلیف بڑھنے کا اندیشہ تھا۔ بعد ازاں جب کتے نے پمپنگ شروع کی تو زینب کی تکلیف کم ہوتی گئی اور اس کی جگہ لطف نے لے لی۔ ہر جھٹکے پر اسے پہلے سے زیادہ سرور آ رہا تھا۔ بلاآخر تقریب اً آدھ گھنٹے کی بے رحم چدائی کے بعد کتا زینب کی چوت میں ہی ڈسچارج ہو گیا۔ ڈسچارج ہوتے ہوتے بھی دو چار جھٹکے لگائے اور لنڈ باہر نکال کر زینب کے پاس بیٹھ کر بے تحاشا ہانپنے لگا۔ شاید زینب کی چوت نے اس کی ساری طاقت استعمال کر لی تھی۔ زینب کی چوت سے کتے منی کے قطرات گر رہے تھے۔ ایسے ننگی ہو کر ننگے فرش پر اتنی دیر تک گھٹنوں کے بل کھڑے رہنے سے زینب کے گھٹنوں میں درد ہونے لگا تھا لیکن باوجود تکلیف کے زینب نے پوزیشن نہیں بدلی بلکہ جیسے کتا بیٹھتا ہے، وہ بھی اسی پوزیشن میں اس جگہ بیٹھ گئی۔ ساتھ ہی ساتھ کتے کی گردن میں اپنے ہاتھ پھیرنے لگی۔ کتا زینب کے لمس سے جلدی ریکور کرنے لگا تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا تھا کہ اس کا ہانپنا ک۔ ہو گیا تھا اور وہ پھر سے زینب کے ہاتھوں کو بے تحاشا چاٹ رہا تھا۔ کچھ ہی دیر میں کتے نے زینب کو دوسری مرتبہ چودا لیکن یہ سلسلہ دوسری مرتبہ پر رکا نہیں بلکہ اس رات کتے نے زینب کو مسلسل پانچ مرتبہ چودا اور ہر بار پہلے سے زیادہ شدت سے چودا۔ اگلی صبح چھٹی کا دن تھا اور زینب اسی پوزیشن میں رات کو فرش پر ہی سو گئی تھی۔ کتا بھی اس کے پہلو میں لیٹا تھا۔ 

اگلے دن کتا مسلسل زینب کے پیچھے پڑا رہا اور کپڑوں کے اوپر سے بار بار اس کی چوت سونگھتا اور ہاتھ پاؤں چاٹتا رہا۔ بچے بھی حیران تھے کہ کیسے اتنی جلدی یہ کتا ان کی امی سے مانوس ہو گیا تھا لیکن بچے بہرحال خوش تھے۔ ان بیچاروں کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کتا ان کے ابو کی جگہ لے چکا ہے۔ 
 

Quratulain Tahira

Quratulain Tahira