Language:

Search

کتیا 3 (Last Episode)

  • Share this:

اس رات زینب کا پروگرام کچھ اور ہی تھا۔ پہلے اس نے کتے سے اپنے بیڈروم میں چدوایا لیکن ایک ہی بار چدائی کے بعد اس نے کتے کو مزید نہ چودنے دیا۔ دراصل زینب کو وہ کالا کتا یاد آ رہا تھا جو اس نے اس دن راستے میں دیکھا تھا۔ زینب ہوس میں اس قدر آگے نکل گئی تھی کہ آدھی رات کو کتے کے ہمراہ اس کالے کتے کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئی۔ زینب نے کتے کے گلے میں کوئی پٹہ نہیں ڈالا تھا بلکہ پہلے سے پڑا ہوا پٹہ بھی اتار پھینکا تھا۔ ویسے بھی گزشتہ اور اس رات کے واقعات کے بعد کتے کی وفاداری میں اضافہ ہی ممکن تھا۔ زینب کے کتے کو آزاد چھوڑنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہو سکتا ہے کہ یہ کتا اس جگہ کا رخ کر لے جہاں زینب اپنے آئیڈیل کتے کی تلاش میں کامیاب ہو سکے۔  

پہلے پہل کتا زینب کے پیچھے چلتا رہا لیکن زینب کی جانب سے لفٹ نہ کروائے جانے پر زینب سے ذرا آگے ہو کر چلنے لگا۔ چلتے چلتے کبھی وہ بھاگنے لگتا اور ساتھ ہی بھونکتا بھی جاتا تھا۔ جواب میں زینب کو دور سے کچھ اور کتوں مے بھونکنے کی صدائیں بھی سنائی دے رہی تھیں۔ بلآخر اس کے سفر کا اختتام ایک کوڑے کے ڈھیر پر ہوا جہاں وہ کوڑے کو سونگھنے لگا۔ شاید وہ بھوکا تھا۔ زینب مایوس ہو چلی تھی اور سوچ رہی تھی کہ گھر کو لوٹ جائے کہ اچانک اسے اپنی بائیں جانب آہٹ محسوس ہوئی۔  

اس نے فور اً پلٹ کر دیکھا اور دیکھتی ہی رہ گئی۔ سامنے وہی کالا کتا کھڑا تھا۔ کتے نے بھی شاید زینب کو پہچان لیا تھا کیونکہ وہ بھی دوڑ لگا کر زینب کی بانہوں میں لپٹ گیا تھا۔ زبان سے زینب کا چہرہ چاٹے چلے جا رہا تھا۔ بڑی مشکل سے زینب نے اسے اپنے سے جدا کیا۔ اس کا ارادہ تھا کہ دونوں کتوں کو اپنے ساتھ گھر لے جائے لیکن اس کی پیشاب کی حاجت بہت بڑھ گئی تھی اور پیشاب روکنے سے درد بھی ہو رہا تھا۔ زینب نے کوڑے کے بڑے سے ڈرم کے پیچھے مناسب جگہ دیکھی جہاں وہ کسی کی بھی نظر سے پوشیدہ رہ کر پیشاب کر سکتی تھی۔ ویسے تو رات کے اس پہر کسی کی بھی آمد و رفت متوقع نہیں تھی لیکن زینب نے احتیاط ہی مناسب سمجھی۔ اس نے قمیض اٹھا کر شلوار نیچے کی اور پیشاب کیلئے بیٹھنے ہی لگی تھی کہ چھوٹے کتے نے سمجھا کہ شاید زینب چدائی کیلئے پوزیشن میں آ رہی ہے، اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، فور اً زینب کے اوپر چھلانگ لگا دی۔ زینب توازن برقرار نہ رکھ پائی اور نتیجت اً اسے اپنا سر زمین ہر لگنے سے بچانے کیلئے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر ٹیکنے پڑے۔ سر تو بچ گیا لیکن اس طرح سے اس کے ننگے چوتڑ کتے کی پہنچ میں آگئے جس نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر اپنا لنڈ زینب کی چوت میں گھسا دیا اور دھکے پر دھکے مارنے لگا۔ کالے کتے نے جب یہ سب دیکھا تو وہ بھی آگے بڑھا اور اونچی آواز میں بھونکنے لگا۔ چھوٹے کتے پر اس کے بھونکنے کا کوئی اثر نہ ہوا تو کالے کتے نے اسے زبردستی زینب کے پیچھے سے دھکیل کر علیحدہ کر دیا۔ کتے کے لنڈ کی گانٹھ ایک جھٹکے سے زینب کے چوت سے باہر نکلی تو زینب کی چیخ نکل گئی۔ ابھی پہلی چیخ پوری نہ ہوئی تھی کہ کالا کتا اس پر چڑھ گیا۔ اس کا لنڈ چھوٹے کتے سے لمبائی میں بھی بڑا تھا اور اس کی گانٹھ بھی کافی بڑی تھی۔ چھوٹا کتا مسلسل بھونکے چلے جا رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو کہ زینب پر پہلا حق اس کا ہے لیکن کالے کتے کے سامنے اس کی کہاں چلنی تھی۔ زینب کو ڈر تھا کہ کتوں کے بھونکنے کی وجہ سے کہیں قریب کے رہائشی افراد باہر نہ آ جائیں لیکن رہائشی تو کوئی نہ آیا البتہ چھوٹے کتے کی بھونکنے کی آوازیں سن کر کئی اور آوارہ کتے وہاں آ نکلے۔ ان سب کے بھونکنے کی آوازیں اس قدر بلند تھیں کہ زینب کی چیخیں بھی دب کر رہ گئی تھیں۔ کالے کتے نے پونہ گھنٹہ زینب کی چدائی کی۔ جیسے ہی وہ ہٹا، ایک اور کتے نے اس کی جگہ لے لی۔ یہ کتا شاید کسی گندے نالے سے نکل کر آ رہا تھا کیونکہ اس کا بدن مکمل گیلا اور انتہائی بدبودار تھا۔ زینب بے چاری ایک کے بعد دوسرے کتے سے چدتی رہی حت یٰ کہ باری باری سب کتوں نے اس کی چوت کا کباڑہ کر کے رکھ دیا۔ زینب کو تو یہ بھی یاد نہیں کہ کتنے کتوں نے اس کی چدائی کی تھی۔ وہ خود بھی دوران چدائی متعدد مرتبہ ڈسچارج ہوئی تھی۔ زینب کو کچھ یاد نہیں کہ کیسے اس نے ہمت کی اور کیسے وہ گھر پہنچی۔ اسے بس اتنا یاد تھا کہ فجر کی اذان ہو رہی تھی اور اس کے گھر کا دروازہ بند ہونے کے باوجود کتے دیر تک وہاں کھڑے بھونکتے رہے تھے۔ زینب اپنے کمرے کا دروازہ لاک کرنے کے بعد زمین پر ہی گر گئی تھی۔

 
Quratulain Tahira

Quratulain Tahira