میرا انتظار جمعے کے دن ختم ہوا جب مجھے مریم کا فون آیا۔ میں اس وقت کتابوں میں غرق تھا اور ساتھ ساتھ برگر کھا رہا تھا۔ جنوری کا مہینہ تھا اور کھڑکی پر بارش کی بوندیں ٹکرا رہی تھیں۔ موسم سرد تھا۔
"عثمان۔ مریم بات کر رہی ہوں۔ نیا سال مبارک ہو"
"مریم" میری اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی۔ دل دھک دھک کرنے لگا۔ "مجھے تو امید نہیں رہی تھی کہ آپ کال کریں گی۔"
"سوری عثمان۔ میں فیصل آباد گئی ہوئی تھی۔ فیملی سے ملنے۔ لیکن مجھے کال کر دینی چاہیے تھی۔ سوری" مریم نے کہا۔ میں خاموش رہا۔
"اچھا یہ بتاؤ کل مصروف تو نہیں نا۔ میں ملنا چاہ رہی ہوں۔" مریم کی بات پر میرا دل حلق میں آ گیا۔ دل چاہا کہ انکار کر دوں کہ اتنے دن بن بتائے غائب رہی تھیں۔ انہیں کوئی احساس نہیں تھا میرا لیکن پھر سوچا کہ میں نے کونسا خود کال کی تھی۔ میں بھی تو اپنی انا میں تھا۔
"نہیں۔ کچھ بھی نہیں کر رہا کل"
"اچھا یہ بتاؤ ہائیکنگ کیلئے سامان ہے تمہارے پاس؟"
"میرے پاس بوٹ ہیں واک کرنے کیلئے"
"ہاں ٹھیک ہے نا پھر۔ چلو پھر مارگلہ کی پہاڑیوں پر ہائیکنگ کریں؟ ہائیک کریں گے، پھر لنچ کریں گے، رات کو ڈنر کریں گے۔ کیا خیال ہے؟"
میں سوچ میں پڑ گیا۔ اگر لنچ بھی کرنا تھا اور ڈنر بھی تو پیسے مریم کو ہی دینا پڑیں گے۔ میں تو اتنے مہنگے کھانے افورڈ ہی نہیں کر سکتا لیکن یوں مریم پر سارا بوجھ ڈالنا بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔ وہ امیر تو تھیں اور یہ تو ان کیلئے بہت چھوٹا سا خرچہ تھا لیکن پھر بھی میرا دل نہیں مان رہا تھا۔ لیکن منع کرنے پر کہیں ان سے ملنے سے نہ رہ جاؤں اس لئے اپنی انا کو دبا کر میں نے کہہ دیا: "جی زبردست آئیڈیا ہے"
"ٹھیک ہے میں کل تمہیں صبح نو بجے پک کروں گی" میں نے مریم کو اپنے ہاسٹل کا پتہ بتایا اور بات ختم ہو گئی۔
اگلے دن پونے نو بجے میں بوکھلایا پھر رہا تھا اپنے کمرے میں۔ ہر تیس سیکنڈ بعد کھڑکی سے جھانک رہا تھا۔ شکر ہے آج موسم اچھا تھا۔ دھوپ کھل کر نکلی تھی۔ نو بجنے میں پانچ منٹ تھے جب مجھے کسی گاڑی کے طاقتور انجن کی آواز سنائی دی۔ میں باہر نکلا تو مریم نے اپنی نئی نویلی بی ایم ڈبلیو کار کی ڈگی کھول دی۔ میں نے ہائیکنگ کیلئے جوگر ڈگی میں رکھ دئیے اور مریم کے ساتھ والی سیٹ پر آ کر بیٹھ گیا۔
"گڈ مارننگ" مریم نے چہرہ میری طرف موڑ کر مسکراتے ہوئے کہا۔ ان کی اس مسکراہٹ کیلئے میں کتنا ترسا تھا۔ ان کا چہرہ دیکھتے ہی میں پگھلنے لگا۔ کیا مجھے ان سے محبت ہو گئی ہے؟
راستے میں کچھ زیادہ باتیں نہیں ہوئیں۔ مریم گاڑی کافی تیز چلاتی تھیں۔ میں کبھی کھڑکی سے باہر دیکھتا تو کبھی نظریں چرا کر مریم کو۔ اتنے کانفیڈنس سے انہیں گاڑی چلاتے دیکھنا واقعی مسحور کن تھا۔
پارکنگ میں کار لگا کر ہم باہر نکلے اور پہلی بار میں نے ان کے چہرے کو سورج کی روشنی میں دیکھا۔ انہوں نے سیاہ رنگ کا چست ٹراؤزر اور سرخ رنگ کی واٹر پروف جیکٹ پہن رکھی تھی۔ جیکٹ تو اتنی فٹ تھی کہ لگتا تھا جیسے انہوں نے آرڈر ہر بنوائی ہو اپنے جسم کے عین مطابق۔ حسب معمول ہونٹوں پر وہی گہرے سرخ رنگ کی لپ اسٹک اور چہرے پر میک اپ تھا۔ بال البتہ انہوں نے آج پونی میں باندھ رکھے تھے۔ ان کی جلد اگرچہ تروتازہ لگ رہی تھی لیکن سورج کی روشنی میں میں نے ان کی آنکھوں کے پاس جھریاں دیکھ لی تھیں۔
میں نے ڈگی سے بوٹ نکالے۔ مریم نے کار لاک کر کے چابی جیب میں ڈال لی۔
"کیا مجھے کس بھی نہیں کرو گے اب؟" مریم نے بناوٹی اداسی لہجے میں لاتے ہوئے کہا۔
میں فوراً آگے بڑھا اور ان کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دئیے۔ پارکنگ میں کوئی نہیں تھا اس لئے ہم ہونٹ سے ہونٹ ملائے کھڑے رہے۔ اتنی مسحور کن فیلنگ تھی کہ دل ہی نہیں کرتا تھا الگ ہونے کا۔ صرف ہونٹ ان کے ہونٹ پر رکھے تھے، زبان استعمال نہیں کی تھی۔
لیکن ہمیں علیحدہ ہونا پڑا کیونکہ ایک اور کار کی آواز آئی تھی۔ ہم دونوں ہائیک کیلئے نکل کھڑے ہوئے۔ راستے میں جنگل تھا درخت تھے اور ویرانی تھی۔ ہم دونوں نے خوب باتیں کیں، میوزک کے بارے میں، فلموں کے بارے میں، سیاست کے بارے میں، اپنی فیملیز کے بارے میں اور نہ جانے کس کس موضوع پر۔ باتوں باتوں میں کوئی مزاحیہ بات ہوتی تو مریم کھلکھلا کر ہنس پڑتیں اور مجھے ان کی صحبت میں ہونے پر اپنی قسمت پر فخر ہونے لگا۔
ایک امیر، خوبصورت ، کامیاب عورت مجھ جیسے لڑکے میں کیوں دلچسپی لے رہی ہے؟ جب بھی میرا ضمیر مجھ سے یہ پوچھتا تو میں اسے تھپکی دے کر سلا دیتا اور مریم کی اداؤں میں کھو جاتا۔
ہم نے راستے میں ایک چھوٹے سے ہوٹل میں لنچ لیا۔ یہاں اندھیرا تھا کیونکہ لائٹ گئی ہوئی تھی۔ ہم دونوں نے برگر کھائے اور دو بجے تک ہم واپس کار کے پاس پہنچ چکے تھے۔ ڈھائی بجے تک ہم مریم کے فلیٹ والی بلڈنگ کی پارکنگ میں تھے جہاں کار کھڑی کر کے لفٹ سے دسویں منزل پر پہنچے۔
جوتے اتار کر مخصوص جگہ پر رکھے اور لاؤنج میں آ گئے۔ مریم نے جیکٹ بھی اتار کر وہیں لٹکا دی تھی۔
"ریسٹورنٹ میں تو سات بجے کی بکنگ کروائی ہے میں نے۔ ابھی تو کافی ٹائم ہے۔ کیوں نہ تب تک نہا لیں۔" مریم نے پہلے گھڑی کی طرف دیکھ کر بات کی اور آخری فقرہ مجھے دیکھ کر مسکراتے ہوئے ادا کیا۔
میرے لئے اس سے اچھی اور کیا بات ہو سکتی تھی۔ میں فوراً مان گیا۔
ان کا باتھ ٹب کافی بڑا تھا اور پانی بھرنے میں کافی وقت لگا۔ جب پانی بھر رہا تھا تو مریم نے کچن میں الماری سے ایک بوتل نکالی اور دو گلاسوں میں انڈیل کر باقی بوتل برف کی چھوٹی سی ٹوکری میں رکھ کر باتھ روم میں ہی لے آئیں۔ پھر ہم دونوں نے اپنے اپنے کپڑے اتارے۔ ایسے نہیں جیسے ہمیں کوئی جلدی ہو۔ نہ ایسے جیسے ہم بہت بے صبرے ہوں بلکہ ہمارا انداز تو ایسا تھا جیسے ہم دونوں کوئی شادی شدہ جوڑا ہوں جن کے درمیان کوئی پردہ کوئی جھجک باقی نہ رہی ہو۔
پہلی بار مریم کو اپنے سامنے ننگی کھڑے تسلی سے دیکھا۔ ان کے جسم کی خوبصورتی کو الفاظ میں بیان کرنا میرے لئے ممکن نہیں۔ ان کی جلد کی رنگت، ان کے سڈول ممے، ان کی لمبی لمبی خوبصورت ٹانگوں کی بناوٹ، ان کے چوتڑوں کے ابھار دیکھ کر لگتا ہی نہیں تھا کہ ان کی عمر اکیاون برس ہے۔
"آپ بہت خوبصورت ہیں" میں تو جیسے ان کے حسن میں ہی کھو کر رہ گیا تھا۔
"تھینک یو" مریم نے مسکراتے ہوئے کہا۔
ہم دونوں باتھ ٹب کے گرم گرم پانی میں اتر گئے اور ایک دوسرے کے مقابل ٹب میں لیٹ گئے۔ گلاس ہاتھ میں تھامے شراب کی چسکیاں بھی جاری تھیں۔ مجھے مریم کی ٹانگ اپنی ٹانگ سے چھوتی محسوس ہوئی۔ جسم میں کرنٹ سا دوڑ گیا۔ مریم نے مسکرا کر شراب کا گلاس ہوا میں بلند کیا۔
میں نے بھی جوابا اپنا گلاس بلند کر کے ان کے گلاس سے ٹچ کیا اور ہم دونوں نے ایک ساتھ چسکی لی۔ اب مجھ میں اعتماد آنے لگا تھا۔ میں نے اپنی ایک ٹانگ ان کی پنڈلیوں پر پھیرنا شروع کر دی اور بتدریج اوپر کرتا گیا۔ جب میرا پاؤں ان کی جانگ سے ٹکرایا تو انہوں نے اپنی ٹانگیں کھول دیں۔ میں نے اپنا پاؤں ان کی ٹانگوں کے درمیان لے جا کر ان کی پھدی کے بالوں سے مس کر دیا۔ ہلکا سا دبایا تو مریم کے منہ سے ہممممم کی سی آواز نکلی۔ شاید انہوں نے کچھ کہا بھی تھا لیکن میں سمجھ نہیں پایا۔ مریم نے آنکھیں بند کر لیں اور مزے لینے لگیں۔
شراب پیتے ہوئے میں ان کی پھدی کو اپنے پاؤں کے انگوٹھے سے سہلاتا رہا۔ پانی میں بیٹھنے کی وجہ سے میرا لن حساس ہو گیا تھا لیکن فل کھڑا ہوا تھا۔
تقریباً بیس منٹ بعد، گرم پانی کے اثر سے ہم دونوں پر ہی مدہوشی سی طاری ہونے لگی۔ شاید اس میں شراب کا بھی کچھ نہ کچھ اثر تھا۔ مریم اٹھ کر کھڑی ہو گئیں۔ ان کا خوبصورت بدن گیلا ہو کر اور بھی خوبصورت ہو گیا تھا۔ پھدی کے بال گیلے ہو کر جلد سے چپک گئے تھے۔
"اگر میں اور رکی تو میں نے ٹب میں ہی سو جانا ہے" مریم نے کہا: "اور میرا فی الحال سونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔"
وہ ٹب سے باہر نکل گئیں اور سٹینڈ سے سفید رنگ کا بڑا سا تولیہ اٹھا کر اپنا بدن خشک کرنے لگیں۔ میں بھی باہر آ گیا اور دوسرا تولیہ اٹھا کر ان کی پیروی کرنے لگا۔
جب بدن خشک ہو گئے تو ہم بیڈروم میں آگئے۔ مریم نے فوراً مجھے پکڑ لیا اور ہم دونوں ایک دوسرے سے چپک کر ایک دوسرے کو چومنے لگے۔ مریم کے ہاتھ میری گردن کے گرد لپٹے تھے جبکہ میرے ہاتھ ان کی کمر کے گرد۔ مریم نے اپنی زبان میرے منہ میں داخل کر دی جسے میں چوسنے لگا۔ ان کے تازہ تازہ نہائے ہوئے بدن کی خوشبو میرے نتھنوں میں گھسی چلی جا رہی تھی۔ میرا جوش بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ میں نے ان کے چوتڑوں پر ہاتھ رکھ کر اپنی طرف کھینچا۔ میرا لن ان کے پیٹ سے جا لگا۔ مجھ سے مزید برداشت نہیں ہو رہا تھا۔
"بیڈ پر چلیں" میں نے کہا۔
مریم نے ایک لمحہ میری آنکھوں میں دیکھا اور پھر بیڈ پر چڑھ کر ٹانگیں کھول کر لیٹ گئیں۔ پھر انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے گھٹنے پکڑ کر اپنے چہرے کے دونوں سائیڈوں تک کھینچ لئے جیسے مجھے دعوت دے رہی ہوں۔
میں ان کی ٹانگوں کے درمیان جھک گیا اور اپنا چہرہ ان کی پھدی کے قریب لے گیا۔ ان کی پھدی کے ہونٹ موٹے اور رسیلے تھے لیکن ارد گرد بال بھی بہت تھے۔ اس پوزیشن میں مجھے نہ صرف ان کی پھدی نظر آ رہی تھی بلکہ گانڈ کے سوراخ کا بھی بہت زبردست نظارہ میسر آ رہا تھا۔ آج تک جتنی لڑکیوں سے تعلق رہا تھا کسی کے بھی اتنے بال نہیں تھے۔ یہ میرے لئے نیا لیکن خوشگوار تجربہ تھا۔ میں نے دونوں ہاتھوں کے انگوٹھوں سے ان کی پھدی کے ہونٹ کھولے اور اندر نظر آتی گلابی سرنگ میں اپنی زبان جہاں تک گھس سکتی تھی، گھسا دی۔
میں نے ان کی پھدی کو چاٹنا شروع کر دیا اور مریم کے منہ سے آہیں نکلنے لگیں۔ میں زبان اندر باہر کرتا اور پھر پھدی سے لے کر ان کی گانڈ کے سوراخ تک زبان پھیرتا۔ ان کی پھدی میں زبان داخل کر کے کلٹ پر زبان پھیرتا تو مریم کی آہیں سننے والی ہوتیں۔ وہ مچل مچل جاتیں۔ میری زبان پر ان کی پھدی کا ذائقہ نقش ہو گیا۔ میری ٹھوڑی پر بھی ان کی پھدی سے نکلنے والی نمی لگ گئی۔ ان کی پھدی کا ذائقہ کافی نمکین تھا لیکن مجھے وہ ذائقہ بہت بھایا۔ صرف ذائقہ ہی نہیں ان کی خوشبو بھی مسحور کن تھی۔ میں تو جیسے وحشی ہی ہو گیا۔ جیسے کتے زبان نکال کر چاٹتے ہیں میں بھی ویسے پی زبان نکال کر ان کی پھدی کو بے تحاشا چاٹنے لگا۔ زندگی میں کبھی میں اتنا ہارنی نہیں ہوا تھا۔ آج تک کسی خاتون کے جسم کے اتنا قریب ہونے کا موقع نہیں ملا تھا۔
"اچھا لگ رہا ہے تمہیں؟" مریم نے پوچھا۔ ان کی سانسیں بہت تیز تھیں۔
"اچھا نہیں بہت بہت بہت اچھا" میں نے جواب دیا۔
"ادھر آؤ میرے پاس" مریم نے کہا اور اپنے گھٹنے ہاتھوں کی گرفت سے آزاد کر دئیے۔ میں اوپر ہو کر ان کے ساتھ جا لیٹا اور ہم فوراً ایک دوسرے کو چومنے لگے۔ مریم میری زبان اور ہونٹ چوستی جا رہی تھیں جبکہ میں ان کا ساتھ دینے کے ساتھ ساتھ ان کے مموں کو بھی ہاتھ میں لے کر مسل رہا تھا اور ساتھ ہی نپل پر ہلکا ہلکا نوچ بھی رہا تھا۔ مریم کے منہ سے لذت بھری سسکیاں نکل رہی تھیں۔
"اب میری باری ہے" مریم نے اچانک پیچھے ہٹتے ہوئے کہا۔ دھکا دے کر مجھے بیڈ پر چت گرا دیا اور خود میری ٹانگوں کے درمیان آ گئیں۔ ایک ہاتھ سے میرا لن جڑ سے پکڑا اور اپنے سرخ لپ اسٹک والے ہونٹ کھول کر ٹوپا منہ میں لے کر چوسنے لگیں۔ میں بس انہیں دیکھتا ہی رہا جب وہ میرا لن منہ میں لے رہی تھیں اور اپنے نیل پالش لگے ہاتھوں سے میرے لن کو مسل بھی رہی تھیں۔ ان کے منہ کی گرمی میرے لن کو تڑپائے جا رہی تھی۔ کبھی وہ ٹوپے پر زبان پھیرتیں تو کبھی لن کو اوپر سے نیچے تک چاٹنے لگتیں۔ ایک ہاتھ سے لن کو مسلسل مسل رہی تھیں تو دوسرا ہاتھ ان کا میرے ٹٹوں پر تھا جنہیں وہ ہاتھ میں لے کر دھیرے دھیرے مساج کر رہی تھیں۔
نہ جانے ان کے انداز میں ایسا کیا تھا کہ میرے سارے جذبات بھڑک اٹھے تھے۔ شاید یہ ان کا تجربہ ہی تھا جس نے مجھ پر یہ اثر کیا تھا۔ جب وہ میرے لن کو چوستیں اور ان کا تھوک میرے لن پر سے بہتا ہوا نظر آتا تو میں لذت سے کانپ جاتا۔ اتنا سرور تھا کہ دل چاہتا تھا وہ ہمیشہ ایسے چوستی رہیں اور میں ہمیشہ یہیں لیٹے چسواتا رہوں۔
مریم کا جو ہاتھ میرے ٹٹوں پر تھا وہ ٹٹوں پر ہی نہیں رکا بلکہ ٹٹوں کی نیچے بھی ہاتھ پھیرنے لگیں۔ میں سوچنے لگا کہ آخر یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا کیونکہ اب میں ان کا ہاتھ اپنی گانڈ کے پاس محسوس کر رہا تھا۔ اگر وہ میری گانڈ کو چھیڑتیں تو میں یقیناً اسی وقت ڈسچارج ہو جاتا۔