لیکن انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ یا کم از کم اس وقت تو نہیں کیا۔ انہوں نے میرا لن منہ سے نکالا اور اپنے بازو سے منہ پونچھ کر میرے لن پر سوار ہو گئیں۔ ایک ہی باری میں پورا اندر لینے کا ان کا انداز نرالا تھا۔
"مزہ آیا" مریم نے مجھ سے پوچھا۔
"بہت" مزہ تو اتنا تھا کہ میری آواز نہیں نکل رہی تھی۔
مریم نے اوپر نیچے کی بجائے آگے پیچھے ہونا شروع کر دیا۔ بعد میں انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ اس پوزیشن میں وہ جلدی ڈسچارج ہو جاتی تھیں۔
میری نظروں کے سامنے وہ میرے کندھوں پر ہاتھ رکھے ایسے میرے لن پر سواری کر رہی تھیں جیسے کسی گھوڑے پر بیٹھی ہوں۔ ان کے بال ہوا میں لہرا رہے تھے اور ممے بھی اوپر نیچے دائیں بائیں جیلی کی طرح ہل رہے تھے۔ میرا دل چاہا کاش اس موقع کی کوئی تصویر کھینچ سکتا۔
مریم کی رفتار بڑھ گئی کیونکہ وہ ڈسچارج ہو رہی تھیں۔ آنکھیں بند، منہ کھلا، آہیں اور سسکیاں بے انتہا۔ انہوں نے اپنے ہاتھ میرے کندھوں پر اتنی زور سے گاڑے کہ قریب تھا کہ میں درد سے چلا اٹھتا۔ ان کا انداز وحشیانہ تھا جب وہ ڈسچارج ہو رہی تھیں۔ ڈسچارج ہونے کے بعد وہ میرے اوپر ہی ڈھیر ہو گئیں اور مجھے اپنے سینے پر ان کے دل کی تیز دھڑکن محسوس ہونے لگی۔
کچھ دیر میں وہ میرے اوپر سے ہٹ گئیں اور میں اٹھ کر ان کی ٹانگوں کے درمیان آ گیا۔ ایک ہی جھٹکے میں اپنا لن پورا کا پورا ان کی پھدی میں ڈال دیا۔ انہوں نے میری طرف دیکھا۔ کالے سیاہ بالوں کے درمیان ان کا چہرہ بہر خوبصورت لگ رہا تھا۔
"زور سے چودو عثمان ۔ مجھے زور سے چودو۔"
مریم کی زبان پر سے میں نے ایسے الفاظ پہلی بار سنے تھے۔ میں نے ان کی بات پر عمل کیا اور انہیں تیز تیز جھٹکوں میں چودنے لگا۔ وہ سسکیاں لیتیں تو میرا جوش اور بڑھتا۔ سیکس کا اتنا مزہ تو مجھے زندگی میں کبھی نہیں آیا تھا۔ نہ ہی میں نے سوچا تھا کہ سیکس اتنا مزےدار بھی ہو سکتا ہے۔ جذبات ، احساسات اور سب سے بڑھ کر مریم جیسی خاتون کی میرے نیچے موجودگی، مجھ سے چدنے کی خواہش، یہ سب مل کر میرے اندر لگی آگ اور بھڑکا رہے تھے۔
مریم کی پھدی کافی ٹائٹ تھی۔ گرم بھی کافی تھی اور گیلی بھی اور چکنی بھی۔ اتنا شدید سیکس کرنے سے ہم دونوں کو ہی ہلکا ہلکا پسینہ آنے لگا تھا۔ مجھے ہوا میں ان کی پھدی اور پسینے کی ملی جلی خوشبو آ رہی تھی۔ میرا لن ان کی پھدی کی گرمائش سے مزید سخت ہو گیا۔
"میں ہونے لگا ہوں" میں چلا اٹھا۔
مریم نے بانہیں کھول دیں۔ میں نے پہلے کی طرح ان کی دونوں کلائیوں کو جکڑ لیا اور ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اپنے جھٹکوں کی رفتار مزید تیز کر دی۔ ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے میں نے پوری قوت سے اپنا لن ان کی پھدی میں بار بار گھسایا۔ وہ میرے نیچے کسمسانے لگیں۔ ان کی کلائیوں پر میرے ہاتھوں کی گرفت بہت سخت تھی اور جھٹکے بھی بہت شدید۔ وہ کسمسا کر کمر اکڑا کر میرے نیچے ایسے مچل رہی تھیں جیسے کوئی مچھلی پانی سے باہر آ کر تڑپتی ہے۔ میں نے اپنی رفتار ممکن ہر تک بڑھا دی۔ مریم ڈسچارج ہونے کے قریب تھیں۔ دوسری بار ڈسچارج ہونے پر ان کا جوش دیدنی تھا۔ آہوں کی جگہ اب چیخوں نے لے لی تھی اور وہ اپنا سر دائیں بائیں پٹخ رہی تھیں۔ انہیں اس قدر گرم دیکھ کر میں بھی ڈسچارج ہو گیا اور اپنی منی ان کی پھدی میں نکالنے لگا۔ ہم دونوں ہی لذت کی انتہاؤں پر تھے۔ ڈسچارج ہوتے وقت انسان جو کچھ محسوس کرتا ہے وہ ایک منفرد احساس ہے۔ دنیا کے کسی اور احساس میں اس قدر شدت نہیں ہوتی۔ اور اگر مرد اور عورت دونوں اکٹھے ڈسچارج ہوں، وحشیانہ سیکس کے بعد ڈسچارج ہوں تو اس احساس کی شدت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ میرے بھی کچھ ایسے ہی احساسات تھے جب میں ہر جھٹکے میں مریم کی پھدی میں منی نکال رہا تھا۔
اتنے زبردست ڈسچارج کے بعد ہم دونوں ہی نڈھال ہو گئے۔ میں بیڈ پر چت لیٹ گیا اور مریم میرے پاس آ کر میرے سینے سے لگ گئیں۔ میں ایک ہاتھ ان کی گردن کے نیچے سے گزار کر ان کے بالوں سے کھیلنے لگا۔ میں نے ان کے گال پر بوسہ دیا اور ہم جنوری کی اس دوپہر میں ایک دوسرے کے ساتھ لپٹ کر لیٹے رہے۔ یہ لمحات اتنے خوبصورت تھے کہ وقت گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا اور شام ہو گئی۔ شہر کی روشنیاں کھڑکی سے اندر آنے لگی تھیں جب ہم بیڈ سے اٹھے۔ شاور لے کر کپڑے پہن کر تیار ہوئے۔ مریم نے ٹیکسی بلانے کیلئے فون کر دیا تھا۔
آج انہوں نے سیاہ ریشمی لباس پہنا، ٹانگوں میں سٹاکنگ، گلے میں قیمتی چمکتے پتھروں کی مالا اور ناخنوں پر گہرے سبز رنگ کی نیل پالش۔ انہیں دیکھ کر میرے دل میں یہ احساس غالب آتا کہ یقیناً ان سے خوبصورت خاتون شاید میں اپنی زندگی میں نہ دیکھ سکوں۔ ہم لفٹ سے نیچے آئے اور مریم کے ایک اور پسندیدہ ریسٹورنٹ کی طرف روانہ ہو گئے۔ اس دوران ہمارے درمیان بہت کم بات چیت ہوئی۔
ریسٹورنٹ چھوٹا تھا لیکن مریم کا دیکھا بھالا تھا۔ سٹاف نے مریم کی خوب آؤ بھگت کی اور ہمیں ایک پرائیویٹ روم دیا جہاں صرف ایک ٹیبل تھی۔
"تمہارے لئے بھی میں ہی آرڈر کر دوں اگر برا نا مانو تو؟" مریم نے مجھ سے پوچھا اور میرے جواب دینے سے پہلے خود ہی دوبارہ بول اٹھیں: "فکر نہ کرو، مزیدار چیز آرڈر کروں گی"
مریم نے ڈرنکس اور کھانے کا آرڈر دیا اور ہم ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
"تم ٹھیک تو ہو عثمان ؟ کافی دیر سے تم کوئی بات ہی نہیں کر رہے۔ خیریت ہی ہے نا؟" مریم نے پوچھا۔
"پتہ نہیں۔" میں نے جواب دیا: "مزہ تو بہت آیا آج پورا دن لیکن میں ایک بات ہر کنفیوژ ہوں"
"کس بات پر؟"
"اس بات پر کہ آپ کامیاب، خوبصورت ، میچور خاتون ہیں جبکہ میں غریب سا سٹوڈنٹ جو ریسٹورنٹ میں پارٹ ٹائم کام کرتا ہے۔ آپ کیوں مجھ پر اتنی مہربان ہیں کہ مجھے ڈنر کروا رہی ہیں اور ہم اور بھی بہت کچھ کر چکے ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ مجھے یہ سب بہت اچھا لگ رہا ہے لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ایک دن یہ سب ختم ہو جائے گا اور۔۔۔۔"
میں اپنی بات مکمل نہ کر سکا۔ مریم نے ہاتھ بڑھا کر میرا ہاتھ تھام لیا اور ہلکا سا دبا کر بولیں: "میں سمجھ سکتی ہوں کہ تم کیوں کنفیوژ ہو۔ بہتر یہی ہے کہ ہم کھل کر باتیں کر لیں۔ میں بھی تم سے کچھ باتیں کرنا چاہتی ہوں۔"