مریم نے کمرے میں ادھر ادھر دیکھا جیسے تسلی کر رہی ہوں کہ یہاں ان کی گفتگو محفوظ رہے گی۔ پھر اپنی بات دوبارہ شروع کر دی: "ہاں میں کامیاب ہوں۔ میرے پاس اس وقت پندرہ ٹریول ایجنسیاں ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی چھوٹے کاروبار میں میری شراکت داری ہے اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ میں خوبصورت ہوں اور مردوں کیلئے بے انتہا پرکشش۔ لیکن اس کے باوجود میں تنہا ہوں۔ بالکل تنہا۔ ایک عرصے سے۔ طلاق سے پہلے بھی میں تنہا تھی۔" یہ کہہ کر انہوں نے چند لمحات کا توقف کیا۔
"عثمان میں نے اپنا سارا فوکس بزنس پر رکھا ہمیشہ۔ کامیابی کیلئے تن من لٹا دیا اور دیکھو میں آج کامیاب ہوں۔ مجھے اپنے باپ کی مایوسی بہت بری لگتی تھی کہ میں ڈاکٹر نہ بن پائی اس لئے میں چاہتی تھی کہ کچھ کر کے دکھاؤں۔ تمہیں تو پتہ ہے کہ ہمارے کلچر میں فیملی کی کتنی اہمیت ہے۔ میں بس یہ چاہتی تھی کہ میرا باپ مجھ پر بھی کبھی فخر کرے۔ پھر وہ فوت ہو گئے۔ انہوں نے کبھی میری محنت کی تعریف نہیں کی۔ میں نے سوچا آخر کیوں میں اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر اتنی محنت کر رہی ہوں۔ کس لئے آخر۔ کس کے لئے آخر۔ لیکن بزنس جب قائم ہو جائے نا تو پھر اسے چلانے کیلئے وقت دینا پڑتا ہے اور جب بزنس سے آمدن شروع ہو جائے تو یہ ایک نشے کی طرح ہے۔ پھر آپ چاہیں بھی تو اس آمدن کے بغیر گزارا نہیں ہوتا اور دل کرتا ہے مزید سے مزید تر کمائیں۔"
مریم شاید آج کھل کر بات کرنے کے موڈ میں تھیں۔ میں مکمل توجہ سے ان کی باتیں سن رہا تھا۔
"پھر ایک دن مجھے خیال آیا کہ بزنس کے علاوہ بھی مجھے زندگی میں اور چیزوں پر توجہ دینی چاہیے۔ مثلاً کوئی پارٹنر۔ میں نے اس بارے میں بہت سوچا کہ مجھے کس قسم کا مرد چاہیے۔ تم یقین نہیں کرو گے لیکن اپنے خیالی محبوب کے بارے میں میں نے لکھا تک کہ اس کی عمر کتنی ہونی چاہیے ، اس کی عادتیں کیسی ہونی چاہئیں ، اسے کیسا دکھنا چاہئے اور کس شعبے سے متعلق ہونا چاہیے۔ مجھے پتہ ہے یہ سب انتہائی بے وقوفانہ لگتا ہے لیکن میں نے بہرحال یہ سب کیا ہے۔"
"تو کیا آپ نے جو کچھ سوچا اور لکھا میں اس پر پورا اترتا ہوں؟" مجھ سے مزید صبر نہ ہوا اور میں پوچھ ہی بیٹھا۔
"ارے نہیں ۔ بالکل بھی نہیں۔ میں تو تیس یا چالیس کے پیٹے میں کوئی مرد تلاش کر رہی تھی۔ مجھ سے چھوٹا لیکن اتنا نہیں۔ اپنی عمر یا اس سے بڑی عمر کے مرد مجھے پسند نہیں۔" وہ مسکرائیں اور سر جھکا کر ٹیبل کو دیکھنے لگیں۔
"میں چاہتی تھی کہ مجھے کوئی پروفیشنل مرد ملے۔ میں نے کچھ ویب سائٹس پر پروفائل بنائی اور اشتہار بھی ڈالے۔ رسپانس بہت اچھا آیا۔ چند مردوں سے میں ملی بھی لیکن ان میں سے کوئی بھی مجھے پسند نہیں آیا۔ وہ سب بہت خود پسند قسم کے مرد تھے جو پہلی ملاقات میں بھی صرف اپنے بارے میں ہی باتیں کئے جاتے تھے۔" مریم نے کہا۔
"کیا کوئی ایک بھی اچھا نہیں لگا؟" میں نے پوچھا۔
"نہیں لگا نا کوئی بھی اچھا۔ پھر میں نے تمہیں دیکھا اس ریسٹورنٹ میں۔ تم مجھے اچھے لگے لیکن تم مجھ سے بہت چھوٹے تھے اس لئے میں نے خود پر قابو رکھا۔ لیکن زیادہ دیر تک نہ رکھ سکی۔ نا جانے مجھے تم میں اتنی کشش کیوں محسوس ہوئی کہ تمہیں ڈنر پر مدعو کر ڈالا۔ تمہاری صحبت مجھے بہت اچھی لگی تھی اور بعد میں جو کچھ ہوا وہ سب بھی بہترین تھا۔" آخری بات پر مریم شرما سی گئیں۔
میں لاشعوری طور پر کچھ فخر محسوس کرنے لگا۔ کیا یہ حسین خاتون مجھ سے محبت کا اظہار کرنے لگی ہیں؟
"پہلی رات کے بعد میں نے بہت سوچا۔ اسی لئے تمہیں کال بھی نہیں کی۔ اپنے آپ کو بہت برا بھلا کہا کہ اپنے سے اٹھائیس سال چھوٹے لڑکے کیلئے کیوں پاگل ہو رہی ہوں۔ لیکن پھر مجھے حبیبہ کا خیال آیا۔"
"حبیبہ کون؟"
"حبیبہ میری ایجنسی میں ہی کام کرتی ہے اب۔ پہلے وہ کوئی اور جاب کرتی تھی۔ ایک فلائٹ میں اسے کوئی لڑکا ملا جس پر وہ مر مٹی اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر لڑکے سے شادی کر لی۔ ان دونوں کی عمروں کے درمیان بھی بیس سال سے زیادہ کا گیپ ہے۔ یہ آج سے چار برس پہلے کا واقعہ ہے۔"
"کیا وہ دونوں اب خوش ہیں؟" میں نے پوچھا۔
"خوش؟ وہ تو لیلیٰ مجنوں ہیں بالکل۔ ایک دوسرے سے پاگل پن کی حد تک عشق کرتے ہیں۔"
ہم دونوں ہنس پڑے۔
"یہ نہ سمجھنا عثمان کہ میں تمہیں شادی کیلئے کہہ رہی ہوں۔ میں تو صرف ایک مثال دے رہی ہوں کہ ایک شادی عمروں میں اتنا وقفہ ہونے کا باوجود کامیاب رہی۔"
"لیکن ہم شادی کے بغیر تو تعلق رکھ سکتے ہیں نا؟" میں نے پوچھا۔
"ہاں شاید " مریم نے آہستہ سے جواب دیا۔
کھانا آ گیا تھا۔ جب تک بیرہ کھانا لگاتا رہا ہم خاموش رہے۔ بعد میں کھانا کھاتے ہوئے بات کرنا بھی مشکل لگ رہا تھا لیکن مریم کی آخری بات وضاحت طلب تھی۔ کھانا ختم ہونے کے بعد مریم نے پلیٹ سائیڈ پر کھسکائی اور بات وہیں سے شروع کی جہاں ختم کی تھی۔
"شاید میں نے اپنی باتوں سے تمہیں اور کنفیوژ کر دیا ہے۔ مجھے تمہاری صحبت بہت پسند ہے۔ تم جوان ہو پرکشش ہو اور مجھ میں دلچسپی بھی رکھتے ہو۔ اور سب سے بڑھ کر تم بستر میں بھی مجھے بہت اچھے سے ٹریٹ کرتے ہو." مریم اپنی بات پر مسکرائے بغیر نہ رہ سکیں۔
"لیکن بہرحال ہماری عمروں میں جو فرق ہے وہ تو ہے نا۔ مستقبل کا فیصلہ میں تم پر چھوڑتی ہوں۔"
میں مریم کی باتوں پر حیران بھی تھا اور خوش بھی۔ مجھے یاد تھا کہ پہلی ملاقات پر کیسے فاخرہ نے مریم کے بارے میں باتیں بنائی تھیں۔ انہیں خرانٹ اور بڈھی کھوسٹ اور نہ جانے کیا کیا کہا تھا۔ اب جب کہ میں ان سے اتنا قریب ہو گیا تھا تو مجھ پر یہ عیاں ہوا تھا کہ مریم تو اندر سے بھی اتنی ہی خوبصورت ہیں جتنی باہر سے ہیں۔ اور یہ بات کہ اب مستقبل میں ان کے ساتھ تعلقات رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ میرا تھا، اس بات نے تو میرا سینہ فخر سے پھلا دیا تھا۔
لیکن پھر میں نے اب تک ہاں کیوں نہیں کی؟ کیا میں ہچکچا رہا تھا؟ دماغ کے کسی خانے سے یہ آواز مسلسل آ رہی تھی کہ جو بھی فیصلہ کروں سوچ سمجھ کر کروں۔
مریم مسلسل میری ہی طرف دیکھ رہی تھیں۔ جب انہوں نے مجھے گومگو کی کیفیت میں دیکھا تو سر جھکا کر میز کو دیکھنے لگیں۔
"تمہیں شاید کچھ وقت چاہیے سوچنے کیلئے۔ چلیں پھر؟" مریم نے بیرہ کو بلایا اور بل منگوایا۔
"میرے ساتھ چلو گے یا واپس جاؤ گے؟" مریم نے پوچھا۔
میں نے فوراً ہاتھ بڑھا کر ان کا ہاتھ تھام لیا۔
"کیوں نہیں مریم۔ یہ نہ سوچیں کہ مجھے آپ کی صحبت پسند نہیں ہے۔ آپ کے ساتھ گزرا وقت میری زندگی کا بہترین وقت ہے۔ بس مجھے کچھ باتوں پر سوچنے کیلئے وقت درکار ہے۔"
واپسی پر خاموشی رہی۔ میں سوچ میں مگن تھا۔ فلیٹ میں پہنچ کر مریم نے دو گلاسوں میں ریڈ وائن انڈیلی اور ہم کھڑکی کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ کر شہر کی رونقیں دیکھنے لگے۔ مریم میرے ساتھ چپک کر بیٹھی تھیں۔ انہوں نے سر اٹھا کر میری آنکھوں میں دیکھا۔ مجھے ان پر اتنا پیار آیا کہ فوراً ان کے ہونٹ چوم لئے۔
"مریم کیا میں آپ سے کھل کر سب کچھ کہہ سکتا ہوں؟" میں نے پوچھا۔
"ہاں نا۔ میں تو چاہتی ہی یہ ہوں کہ تم ہمیشہ مجھ سے کچھ نہ چھپاؤ۔ سب کچھ کہہ دو" انہوں نے جواب دیا۔
"آپ جیسی شخصیت کا مجھ میں دلچسپی لینا میرے لئے باعث فخر ہے۔ لیکن میں صرف اس بات پر پریشان ہوں کہ کہیں میں اپنی تعلیم سے غافل نہ ہو جاؤں۔ میں نے فیس ادا کرنے کیلئے بھی قرضہ لیا تھا اور اگر ڈگری مکمل نہ کر سکا تو سب کچھ ضائع ہو جائے گا۔ والدین کو بھی بہت مایوسی ہو گی۔ کالج کی تو ساری فیس انہوں نے ہی ادا کی تھی۔" میں نے چند لمحات کا توقف کیا اور بات جاری رکھی: "میں کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ یونیورسٹی اور پڑھائی اور پھر نوکری، ان سب کے بعد میرے پاس ٹائم بہت کم بچتا ہےا ور اگر میں آپ کو ٹائم نہ دے پاؤں تو یہ آپ کے ساتھ زیادتی ہو گی۔"
مریم نے اپنے ہاتھ چہرے پر رکھ لئے اور آہستہ آہستہ انہیں گالوں پر نیچے کی پرف کھسکانے لگیں۔ ان کی یہ ادا میں پہلے بھی نوٹس کر چکا تھا۔ جب وہ سوچتی تھیں تو ایسے کرتی تھیں۔
"ہاں یہ بات تو ہے۔ میں کیسے تمہارے بغیر وقت گزاروں گی۔ ہفتے میں کم از کم تین چار راتیں تو اکٹھے گزاریں نا۔ ویک اینڈ بھی مجھے تمہارے ساتھ ہی گزارنا پسند ہو گا۔"
"یہی تو مشکل ہے۔ میں رات کو ہی تو پڑھتا ہوں۔"
"اور تم رات کو اس لئے پڑھتے ہو کہ دوپہر سے شام تک ریسٹورنٹ میں کام کرتے ہو تاکہ خرچے پورے کر سکو؟"
"جی"
کچھ دیر مریم سوچتی رہیں۔ پھر میری گردن پر ہاتھ پھیرنے لگیں۔
"عثمان میری بات کا غلط مطلب نہ لینا لیکن اگر میں تمہیں اتنے پیسے دے دوں جتنے تمہیں ریسٹورنٹ سے ملتے ہیں تو تمہیں رات کو نہیں پڑھنا پڑھے گا۔ تم چاہو تو میرے لئے کام بھی کر سکتے ہو۔"
ان کی بات کافی معقول تھی۔ اگر میں ان کیلئے کام کرتا تو ان کا پیسے دینے کا بھی کوئی احسان نہ رہتا۔ میں نے ذیادہ سوچنے کی بجائے ہاں کرنا ہی مناسب سمجھا۔
"آپ کی بات بہت مناسب ہے اور مجھے قبول ہے۔"
مریم مسکرائیں اور ہم ایک دوسرے کے ہونٹ چومنے لگے۔ میں نے ان کی لپ اسٹک کا ذائقہ چکھا اور ان کے جسم کی خوشبو اور لمس سے میں ایک دم ہارنی ہو گیا۔
"بیڈ پر چلیں" میں نے کہا اور کھڑا ہو گیا۔ مریم کا ہاتھ پکڑ کر انہیں بیڈروم میں لے آیا۔ کھڑکی کے پاس کھڑے ہو کر باہر دیکھتے ہوئے مریم نے اپنا سر میرے کندھے پر ٹکا دیا۔
"عثمان میں چاہتی ہوں کہ ہم جانوروں کی طرح پیار کریں۔ بالکل وحشی۔ بغیر کسی حد کے۔ جیسے پہلے تم نے میرے ہاتھ پکڑے تھے نا۔ اس سے بھی بڑھ کر۔"
میرے جسم میں ان کی بات سن کر کرنٹ دوڑ گیا۔ کیا یہ مریم کا اپنی پسندیدہ فیٹش بتانے کا انداز تھا؟
میں ایک دم سن سے پیچھے ہٹ گیا اور انہیں حکم دینے والے لہجے میں کہا: "کپڑے اتارو اپنے ۔"