مریم نے سیاہ ریشمی قمیض اتار کر فرش پر پھینک دی۔
"برا اور پینٹی بھی" میں نے اگلی ہدایت دی۔
مریم نے وہ بھی اتار دئیے۔ اب وہ صرف ہیلز پہنے تھیں، گلے میں مالا اور ٹانگوں میں سیاہ سٹاکنگ۔ دونوں ہاتھوں سے اپنی پھدی چھپائے ان کی نظریں فرش پر تھیں جیسے انہیں میرے سامنے ننگی ہو کر بہت شرم آ رہی ہو۔ میں نے ان کا بازو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور دوسرے ہاتھ سے ان کے لمبے سیاہ بال پکڑ کر ان کے ہونٹوں کو چومنے لگا۔ اس بار میرے چومنے میں شدت تھی۔ میں نے زبردستی اپنی زبان ان کے منہ میں داخل کر دی تھی۔ جس ہاتھ میں بازو پکڑا تھا وہ ہاتھ اب میں نے ان کے ایک ممے پر رکھ دیا اور زور سے دبانے لگا۔ ساتھ ساتھ میرے چومنے میں مزید شدت آتی جا رہی تھی۔ میں نے ان کا نپل ایک انگلی اور انگوٹھے کے بیچ دبا کر اتنی زور سے مسل ڈالا کہ مریم کے منہ سے دبی دبی چیخیں نکلنے لگیں۔ ان کا منہ اب بھی میرے منہ سے جڑا تھا۔
نپل پر زور آزمائی کرنے کے بعد میں ہاتھ ان کی ٹانگوں کے درمیان لے گیا اور دو انگلیاں پھدی میں گھسا دیں۔ اندر کی چکناہٹ اور گیلا پن اس بات کی نشانی تھا کہ وہ میرے انداز سے کافی گرم ہو گئی تھیں۔
"چلو بیڈ پر چڑھو" میں نے منہ مریم کے منہ سے ہٹایا اور انہیں بے دردی سے بیڈ پر دھکیل دیا۔ وہ بیڈ کے درمیان میں جا کر لیٹ گئیں۔
"ہاتھ پھدی پر" میرے اگلے حکم پر مریم نے ہاتھ ٹانگوں کے درمیان لے جا کر ٹانگیں کھول لیں اور پھدی مسلنے لگیں جبکہ میں ایک ایک کر کے اپنے کپڑے اتار رہا تھا۔ میں نے جان بوجھ کر اپنی رفتار آہستہ رکھی تھی تاکہ زیادہ سے زیادہ دیر تک انہیں اپنے جسم سے کھیلتا دیکھ سکوں۔ کپڑے اتار کر میں بھی بیڈ پر چڑھ گیا اور ان کے جسم کو چومنے لگا، چاٹنے لگا جبکہ ہاتھوں سے جگہ جگہ دبائے بھی جا رہا تھا۔ نپلز پر منہ رکھ کر پہلے چاٹا، پھر دانتوں میں لے کر چبانے لگا۔ مریم مچلنے لگیں۔ ان کی آہیں اور سسکیاں بلند ہونے لگیں۔ ہاتھ ان کے جسم پر پھیرتے پھیرتے میں اپنا منہ نیچے لے جاتا گیا۔ پہلے ان کے پیٹ کو جی بھر کر چوما اور پھر ان کی جانگوں پر زبان پھیری۔ پھر میں نے ان کی دونوں ٹانگیں اٹھا کر موڑ دیں جس سے ان کی پھدی اور گانڈ میرے سامنے آ گئے۔ میں نے ایک لمحے میں اپنا منہ ان کی بالوں والی پھدی میں دفن کر دیا اور خوشبو اپنے اندر سمانے لگا۔ زبان سے ہی ان کی پھدی کے ہونٹ کھولے اور زبان اندر گھسا کر ان کا ذائقہ چکھا اور پھر چکھتا ہی چلا گیا۔ ان کی پھدی کے اندر کا گیلا پن میری زبان کو اس قدر بھایا کہ میں دیوانہ وار چاٹنے لگا۔ مریم نے اپنی ٹانگیں اپنے ہاتھوں سے پکڑ لی تھیں اور میں نے چاٹنے کے ساتھ ساتھ دو انگلیاں بھی ان کی پھدی میں گھسا دیں۔ اب انگلیوں سے ان کی چدائی بھی کر رہا تھا اور چاٹ بھی رہا تھا۔ مریم کے منہ سے بے اختیار لذت بھری سسکاریاں نکل رہی تھیں اور سسکاریاں بلند سے بلند تر ہوتی جا رپی تھیں۔ میں سمجھ گیا کہ وہ ڈسچارج ہونے والی ہیں۔ ڈسچارج ہونے سے ایک سیکنڈ پہلے میں نے اپنی انگلیاں ان کی پھدی سے نکال لیں اور ان میں سے ایک انگلی ان کی گانڈ میں گھسا دی۔ مریم کو ایک جھٹکا لگا، انہوں نے ٹانگیں چھوڑ دیں اور دونوں ہاتھوں سے بیڈ شیٹ تھام کر کمر اوپر اٹھا لی اور سر ادھر ادھر پٹخنے لگیں۔ کچھ دیر میں وہ ٹھنڈی ہو گئیں اور میں نے فوراً ان کی پھدی میں اپنا لن گھسا دیا۔ ابھی تو ڈسچارج ہونے کے بعد ان کی سانسیں بھی درست نہیں ہوئی تھیں۔ میرے یوں لن گھسانے پر ان کے حلق سے چیخ نکل گئی۔ ان کی پھدی اس وقت بہت حساس تھی لیکن میں نے پرواہ نہ کی اور انہیں تیزی سے چودنے لگا۔ میرا لن اندر باہر ہونے سے چھپ چھپ کی آوازیں کمرے میں گونج رہی تھیں۔ میں نے پہلے کی طرح ان کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں دبا لئے اور آنکھیں ان کی آنکھوں میں گاڑ دیں۔ اندھیرے میں ان کے گلے کی مالا کے پتھر خوب چمک رہے تھے۔
اس وقت مجھے ایسا لگا جیسے میں کسی پورن فلم کا حصہ ہوں۔ اگرچہ وہ میرے سامنے تھیں میں انہیں دیکھ سکتا تھا ، انہیں سونگھ سکتا تھا انہیں چھو سکتا تھا لیکن پھر بھی میرے لئے یہ سب ناقابل یقین تھا۔ میرے جذبات برانگیختہ ہو گئے اور مجھے لگا شاید میں ڈسچارج ہو جاؤں گا۔ میں ابھی ڈسچارج نہیں ہونا چاہتا تھا اس لئے میں نے لن باہر نکال لیا۔
ٹانگیں مریم کے جسم کے دونوں طرف رکھے میں اوپر کی طرف بڑھا اور لن مریم کے منہ کے قریب لے گیا۔ میں ان کے کندھوں پر جیسے بیٹھ سا گیا تھا۔ مریم نے تابعداری سے سر اوپر کیا اور میرے لن کو منہ میں لے کر چوسنے لگیں جس پر ان ہی کی پھدی کی نمی لگی ہوئی تھی۔ وہ بہت جذبے سے چوس رہی تھیں اور نظریں میری طرف گاڑ رکھی تھیں۔
میرے لئے ان کے ہونٹ تو باعث لذت تھے ہی لیکن یہ امر ذیادہ باعث لذت تھا کہ ایک ایسی خاتون میرے نیچے لیٹی میرا لن چوس رہی ہے جس کے بارے میں میں نے کبھی سوچا تھا کہ میرا ان سے تعلق ناممکنات میں سے ہے۔ سیکس کے دوران کنٹرول کرنے کی میری فینٹسی تو نہیں تھی لیکن مریم کو اپنا تابع بنانے میں مزہ ہی بہت آ رہا تھا۔
میں چاہتا تو لن چسوا کر ان کے منہ میں ہی ڈسچارج ہو جاتا لیکن اب مجھ پر شیطان سوار ہو گیا تھا اور میں دیکھنا چاہتا تھا کہ آخر مریم میرے ساتھ کس حد تک جانے کو تیار ہوتی ہیں۔
میں مریم کے اوپر سے ہٹ گیا اور انہیں اوندھا کر کے پھر سے ان کے اوپر سوار ہو گیا۔ میرا لن ان کے چوتڑوں کی دراڑ میں پھسل رہا تھا جبکہ میں ان کی گردن اور کندھوں کو چومنے میں مصروف تھا۔
"اگر تمہارا ارادہ گانڈ مارنے کا ہے تو پہلے واشروم سے ویسلین لے آؤ۔" مریم نے کہا۔ میرا منہ ان کی بات پر کھلا کا کھلا رہ گیا۔ میں پہلے دو مرتبہ مختلف لڑکیوں کی گانڈ مار چکا تھا لیکن ہر بار مجھے بہت مشکل سے لڑکیوں کو منانا پڑتا تھا۔ اب جبکہ مریم خود سے ہی آفر کر رہی تھیں تو میرا خوش ہونا بنتا تھا۔
میں نے ذیادہ سے ذیادہ سات سیکنڈز لگائے ہوں گے ویسلین لانے میں۔ مریم نے ٹانگیں پھیلا رکھی تھیں اور میں نے فوراً انگلیوں میں ویسلین کریم لگا کر ان کی گانڈ کے سوراخ پر مل دی۔ پھر ایک انگلی ویسلین سے چکنی کر کے اندر گھسا دی تاکہ اندر سے بھی سوراخ چکنا ہو جائے۔ پھر میں نے ایک کے بجائے دو انگلیاں چکنی کر کے ایک ساتھ اندر گھسائیں اور انہیں پورا اندر کرنے لگا۔ مریم چلا اٹھیں اور میں ایک دم رک گیا۔
"درد ہو رہا ہے؟" میرا مقصد انہیں تکلیف پہنچانا ہر گز نہیں تھا اس لئے میں نروس ہو گیا تھا۔
"نہیں ڈارلنگ۔ کچھ نہیں ہوا۔ " مریم کی اواز میں اطمینان تھا۔ انہوں نے پہلی بار مجھے ڈارلنگ کہہ کر مخاطب کیا تھا۔
میں نے کافی ساری ویسلین کریم اپنے لن پر مل لی اور لن ان کی گانڈ کے دہانے پر رکھ کر ڈرتے ڈرتے اندر گھسانے لگا۔ ڈر صرف اس بات کا تھا کہ انہیں درد نہ ہو۔ اسی لئے میں نے اپنی رفتار انتہائی سست رکھی تھی۔
"تھوڑا زور سے گھساؤ عثمان ۔ درد ہو گا تو میں بتا دوں گی" مریم نے کہا۔
میں نے زور لگایا اور ٹوپا ان کی گانڈ میں گھسا دیا۔ ان کے منہ سے آہ نکل گئی لیکن میں آہستہ آہستہ اپنا لن اندر ڈالتا گیا حتیٰ کہ پورا کا پورا لن ان کی گانڈ میں سما گیا۔ گانڈ کا احساس پھدی سے مختلف تھا۔ ان کی پھدی اگرچہ کافی ٹائٹ تھی لیکن گانڈ تو اس سے کہیں زیادہ ٹائٹ تھی اس لئے میرا لطف بھی دوبالا ہو گیا تھا۔ پہلے میں نے انہیں آرام سے چودا لیکن جب مریم نے خود ہی تیزی سے کرنے کو کہا تو میں نے رفتار بڑھا دی۔
"یس عثمان یس۔ چودو مجھے۔ اور زور سے۔ میری گانڈ میں اپنی منی نکال دو۔" مریم کے منہ سے ایسی باتیں سن کر میرے جذبات مزید بھڑک رہے تھے۔ میں ان کی گانڈ کی تنگی دو منٹ بھی برداشت نہ کر پایا اور اتنی زور سے ان کی گانڈ میں ڈسچارج ہوا کہ زندگی میں اتنا شدید کبھی نہیں ہوا تھا۔ میرے منہ سے چیخیں نکل رہی تھیں اور لن سے منی۔ جب ساری منی نکل گئی تو میں مریم کے اوپر ہی نڈھال ہو کر گر گیا۔ ان کی گردن اور کندھوں کو چومتے ہوئے میرا دل کہہ رہا تھا کہ میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ان کا ہو گیا ہوں۔
کچھ دیر میں میری توانائی بحال ہوئی تو ہم دونوں واشروم گئے اور اپنے جسموں کو صاف کر کے واپس بیڈروم میں آ گئے۔ مریم نے ٹانگوں پر سے سٹاکنگ اتار دیں اور ہم دونوں رضائی کے اندر ننگے چپک کر لیٹ گئے۔ میں نے پیار سے ان کے سر کو چوما اور انہیں اپنے اور قریب کر لیا۔
"میں نے ذیادہ زور سے تو نہیں کیا نا۔" کچھ لمحات کی خاموشی کے بعد میں نے ان سے پوچھ ہی لیا۔
"نہیں نہیں بالکل بھی نہیں۔ تمہیں تو بلکہ حیرت ہوئی ہو گی کہ میں تمہیں اور زور سے کرنے کا کہہ رہی تھی۔"
"ہاں ہوئی تو تھی"
"میں اپنی کمپنی کی سی ای او ہوں۔ سارا دن ملازموں پر حکم چلاتی ہوں۔ اس لئے مجھے اچھا لگتا ہے کہ بیڈروم میں کوئی مجھ پر حکم چلائے۔"
"پھر تو ہم بہت بہت کچھ کر سکتے ہیں" میں نے مسکرا کر کہا جس کے جواب میں وہ بھی میری طرف دیکھ کر مسکرا اٹھیں۔
_______________________________________
اگلے ہفتے مریم نے مجھے اپنے فلیٹ کا کارڈ اور ایک چابی دے دی۔ میں نے ریسٹورنٹ کو نوکری چھوڑنے کا نوٹس دے دیا۔ ہاسٹل کا کمرہ البتہ میں نے بدستور اپنے نام پر بک رکھا۔ شاید اب بھی میرے دل میں یہ شبہ تھا کہ کہیں مریم کے ساتھ تعلقات میں خرابی نہ ہو جائے اور اگر ایسا ہوا تو ہاسٹل کی شکل میں کم از کم رہنے کہ جگہ تو میسر ہو گی نا۔ لیکن میرا یہ فیصلہ غلط ثابت ہوا۔ میں مریم کا فلیٹ استعمال کرنے لگا۔ اس فلیٹ میں علیحدہ سٹڈی روم بھی تھا جہاں بیٹھ کر میں اب دوپہر کو پڑھا کرتا تھا۔
مریم ایک مرتبہ مجھے ساتھ لے کر اسی پرانے ریسٹورنٹ گئیں۔ فاخرہ کو دیکھ کر میں جھینپ سا گیا لیکن فاخرہ مجھے مریم کے ساتھ دیکھ کر خوش ہوئی۔ اس نے واپسی پر مجھے گڈ لک بھی کہا تھا۔ میں اس کے رویے میں تبدیلی پر حیران تھا لیکن خوش بھی تھا۔
مریم مجھے اپنی فیملی سے ملوانے بھی لے گئیں۔ ان کی والدہ کافی بزرگ تھیں اور وہ سمجھ بھی نہیں سکی تھیں کہ مریم اور میرے درمیان کیسے تعلقات ہیں۔
میں نے بھی اپنے والدین کو بتایا کہ مجھے ایک لڑکی پسند آ گئی ہے اور وہ عمر میں مجھ سے بڑی ہے۔ والدین نے گھر بلایا تو میں مریم کو ساتھ لے گیا لیکن وہاں جاتے ہوئے میں بری طرح نروس تھا کیونکہ مریم کوئی لڑکی نہیں بلکہ اچھی خاصی میچور خاتون تھیں۔ بہرحال مریم جس طرح تیار ہوئی تھی اور جس طرح کا انہوں نے رویہ رکھا، میرے والدین نے کوئی بڑا اعتراض نہیں کیا۔ وہ اپنے بیٹے کی خوشی میں خوش تھے۔
میں نے اپنی ڈگری بھی مکمل کر لی اور مریم نے مجھے حبیبہ کی جگہ آپریشنز کے شعبے میں ڈائریکٹر لگنے کی پیش کش کر دی کیونکہ حبیبہ اب ریٹائرمنٹ لے رہی تھی۔ میں نروس تھا کہ کہیں بنا بنایا بزنس نہ بگاڑ کر رکھ دوں لیکن مریم نے میری خوب حوصلہ افزائی کی۔
میں اپنے اور مریم کے بارے میں تو بتانا ہی بھول گیا۔ جب پہلی بار میں نے ان کی گانڈ ماری تھی، اس کے کچھ ہی دیر بعد میں نے ان سے اپنے دلی جذبات کا کھل کر اظہار کر دیا تھا۔ میں نے انہیں بتایا تھا کہ میں ان پر مر مٹا ہوں اور ان سے بے پناہ محبت کرنے لگا ہوں۔ مریم نے کہا کہ یہ احساسات دو طرفہ ہیں اور وہ بھی میرے بارے میں ایسا ہی محسوس کرتی ہیں۔ انتہائی رومینٹک سین تھا وہ۔
اب دو سال گزر چکے ہیں اور ہم دونوں کے درمیان محبت انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ ہر بار ہمارا سیکس ایسے ہوتا ہے جیسے دوبارہ ہمیں موقع ہی نہیں ملے گا۔ میرا دل ان کے سیکسی جسم سے کبھی بھرتا ہی نہیں ہے۔
مریم کو البتہ ذرا رف سیکس پسند ہے اس لئے اب ہم اکثر نئی نئی چیزیں ٹرائی کرتے ہیں مثلاً ان کے چوتڑوں پر تھپڑ یا پھر ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر سیکس کرنا۔ ہم نے سیکس ٹوائز بھی خرید لئے ہیں جنہیں ہم اکثر دوران سیکس استعمال کرتے ہیں۔ ہفتے میں ایک یا دو بار مریم مجھ سے گانڈ ضرور مرواتی ہیں خاص طور پر تب جب وہ خود اپنی پھدی میں ڈلڈو گھسائے خود لذتی کر رہی ہوتی ہیں۔
ختم شد
_______________________________________