عائشہ بہت خوش تھی۔ بات بھی خوشی کی تھی۔ اللہ اسے ایک کے بعد ایک خوشی سے نواز رہا تھا اور وہ یہ سوچ رہی تھی کہ نہ جانے اس کی کونسی نیکی اللہ کو اس قدر بھائی تھی کہ اس کی نوازشات کا سلسلہ تھمنے میں ہی نہیں آ رہا تھا۔
آج سے دو مہینے پہلے جب اس کیلئے سفیان کا رشتہ آیا تھا تو اس نے شادی کی سخت مخالفت کی تھی۔ اگرچہ اس کی پڑھائی مکمل ہو چکی تھی لیکن وہ والدین کی اکلوتی ہونے کے ناطے کام کر کے اپنے والدین کا ہاتھ بٹانا چاہتی تھی۔ لاکھ کوشش کے باوجود اس کی ایک نہ چلی اور اس کے والدین نے اس کی سفیان سے بات پکی کر دی تھی۔
تب وہ جتنی اداس تھی، آج اس سے کہیں زیادہ خوش تھی۔ اللہ پر اس کا یقین ایک دم نہایت پختہ ہو گیا تھا۔ واقعی اللہ مسبب الاسباب ہے اور ہمیں اس کی رضا میں راضی رہنا چاہیے۔ سامان پیک کرتے ہوئے عائشہ کے ذہن میں یہی خیالات آ رہے تھے۔ سفیان اسے شادی کے فوراً بعد عمرہ پر لے کر جا رہا تھا۔ پاسپورٹ وغیرہ سب کچھ ارینج ہو چکا تھا۔
بروز بدھ ان کی شادی بخیر و عافیت انجام پائی اور جمعرات کی صبح وہ دونوں جہاز میں بیٹھے سرزمین حجاز کی جانب گامزن تھے۔
پہلی بار خانہ کعبہ کو رئیل لائف میں دیکھا تو عائشہ دیکھتی ہی رہ گئی۔ اللہ کے گھر کا ایسا رعب و دبدبہ تھا کہ جھرجھری سی آ گئی۔ آنکھوں میں آنسو لئے اس نے سفیان کے ہمراہ طواف کیا اور نوافل ادا کئے۔ رش کم ہونے کی وجہ سے عبادات میں آسانی رہی اور وہ دونوں بخیر و عافیت اپنے ہوٹل کے کمرے میں لوٹ آئے جہاں سے خانہ کعبہ صاف نظر آتا تھا۔ کھانا کھا کر فارغ ہوئے تو سفیان کی طبیعت مچلنے لگی اور بار بار عائشہ کو اپنی جانب کھینچنے لگا۔ عائشہ حرم شریف کی قربت کی وجہ سے روکتی رہی کہ کہیں بے ادبی نا ہو جائے لیکن سفیان نے اسے بتایا کہ اگر ایسا کرنا بے ادبی ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تو کبھی ایسا کرتے ہی نہ۔ یہ بات عائشہ کے دل کو لگی لیکن جھجھک ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوئی تھی۔ سفیان کے بوسوں نے اسے گرم کر دیا تھا اور دونوں بے لباس ہو کر ایک دوسرے سے چپکے نئے قائم شدہ جسمانی تعلق سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اگرچہ عائشہ کے جذبات میں حدت تھی لیکن اس حالت میں بھی وہ یہ بات نہ بھولی کہ دوران مباشرت پاؤں قبلہ رخ نہ ہوں۔
اگلے دن جمعہ تھا اور رش کئی گنا زیادہ۔ ہوٹل قریب ہونے کی وجہ سے وہ دونوں ہوٹل سے ہی احرام باندھ کر نکلے۔ اگرچہ خواتین کیلئے اجازت ہے کہ وہ کپڑوں میں ہی احرام کی نیت کر سکتی ہیں لیکن عائشہ نے باقاعدہ سفید چوغہ نما احرام پہنا جو کہ ایک ڈھیلا سا قمیض نما لباس ہی تھا۔ لمبا اتنا کہ ٹخنوں تک اور کھلا اتنا کہ عائشہ جیسی دو لڑکیاں اس میں سما جاتیں۔ جیسے مرد ایک چادر لپیٹ کر احرام باندھتے ہیں اور نیچے کچھ نہیں پہنتے، عائشہ نے بھی لباس کے نیچے کچھ نہیں پہنا تھا۔
گزشتہ روز رش نہ ہونے کی وجہ سے عائشہ کا دھیان اس جانب نہیں گیا تھا لیکن اب اتنا شدید رش دیکھ کر ایک لمحے کو اس کے دل میں خیال آیا کہ اگر خواتین اور مردوں کا طواف علیحدہ ہوتا تو کیا زیادہ بہتر نا ہوتا جیسے زندگی کے ہر شعبے میں اسلامی تعلیمات کے مطابق مردوں اور عورتوں کا علیحدہ ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ شاید اس میں اللہ کی کوئی مصلحت ہو گی۔ یہ سوچ کر اپنے شوہر کا ہاتھ تھامے وہ طواف کیلئے رش میں داخل ہو گئی۔ دونوں کو انتہائی تیزی سے قدم اٹھانے پڑ رہے تھے کیونکہ باقی لوگوں کی رفتار بھی کافی تیز تھی۔ ابھی انہیں طواف شروع کئے چند منٹ ہی ہوئے تھے جب عائشہ کو ایسا محسوس ہونا شروع ہو گیا جیسے لوگ اسے جان بوجھ کر چھو رہے ہوں۔ اس نے اپنا دھیان اللہ کے گھر کی طرف لگانے کی کوشش کی اور یہی سوچا کہ رش کی وجہ سے انجانے میں لوگوں سے جسمانی اعضا چھوئے جا رہے ہیں اور یہ دانستہ عمل نہیں ہے۔ شاید وہ یہی سوچ کر طواف جاری رکھتی مگر جب اسے اپنے کولہوں پر ایک دم سے کسی کے ہاتھ کا دباؤ محسوس ہوا تو وہ چونکے بنا نا رہ سکی۔ اس نے فوراً مڑ کر دیکھا لیکن صرف چند سیکنڈز کیلئے ہی دیکھ پائی کیونکہ سفیان اس کا ہاتھ تھامے تیزی سے طواف میں مصروف تھا اور عائشہ کو اس کا ساتھ بہرحال دینا ہی تھا۔ جن چند سیکنڈز کیلئے عائشہ نے مڑ کر دیکھا تھا اسے کئی مرد نظر آئے تھے جن کی زبان پر لبیک اللہم لبیک جاری تھا۔ اللہ جانے کون تھا جس نے خانہ کعبہ جیسی مقدس ترین جگہ پر بھی اپنی ہوس قابو میں نہ رکھی تھی۔ عائشہ کے دل میں ایک دم سے نفرت انگیز جذبات نے جنم لیا لیکن وہ بے بس تھی۔ یکے بعد دیگرے عائشہ کو کئی مرتبہ لوگوں کے ہاتھ اپنے جسم پر محسوس ہوئے۔ کسی نے اس کے کولہے پکڑ کر زور سے دبائے تو کسی نے ایسے ہی ہاتھ پھیرنے پر اکتفا کیا۔ عائشہ نے لاکھ خود کو سمیٹنے کی کوشش کی لیکن ناکامیاب رہی کیونکہ اتنے رش میں یہ ناممکن تھا۔ آہستہ آہستہ سفیان اور عائشہ خانہ کعبہ کے قریب ہوتے جا رہے تھے تاکہ حجر اسود کی زیارت کر سکیں اور اسے بوسہ بھی دے سکیں۔ جیسے جیسے طواف ہو رہا تھا، ویسے ویسے لوگ عائشہ کے جسم سے کھلواڑ بھی جاری رکھے ہوئے تھے۔ عائشہ کی زبان پر بھی لبیک اللہم لبیک جاری تھا لیکن اس کی سوچ کہیں دور بھٹک رہی تھی۔ اس نے تو ہمیشہ خانہ کعبہ کا تصور دنیا کی مقدس ترین جگہ کے طور پر کیا تھا جہاں صرف پاکیزگی بھرے خیالات اور عبادات ہوں لیکن آج جو تجربہ اس کے ساتھ ہو رہا تھا اس نے عائشہ کو اپنی سوچ بدلنے پر مجبور کر دیا۔ وہ سوچنے لگی آخر کیوں مرد ایسا کرتے ہیں؟ کیا شیطان انہیں اس بات پر اکساتا ہے کہ وہ اللہ کے گھر میں لڑکیوں کے جسم چھو کر مزے لیں؟ عائشہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ خانہ کعبہ میں شیطان کا وجود ہو سکتا ہے۔ تو پھر کون ہے جو مردوں کو اس کام پر اکسا رہا یے۔ اس کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا لیکن وہ چاہتے ہوئے بھی اس سوچ کو دل سے نہ نکال پائی کہ کیوں اللہ تعالیٰ اپنے گھر میں ایسا برا کام کرنے والوں کو نہیں روکتے. نعوذباللہ اللہ کوئی بے بس تو ہیں نہیں۔ قادر و مطلق ہیں۔ کن فیکون سے سب کچھ کر سکتے ہیں تو پھر اتنا ذرا سا کام کیوں نہیں کرتے۔ ایکدم سے عائشہ کے ذہن میں کچھ مہینے پہلے کی ایک خبر گھوم گئی جب ایک انگریز نے سر عام قرآن مجید کو آگ لگائی تھی۔ تب عائشہ کا دل خون کے آنسو رویا تھا اور ایک لمحے کو اس نے تب بھی یہی سوچا تھا کہ اگر اللہ نے اپنے کلام کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے تو پھر ایک ادنی انسان کیسے اسے آگ لگا کر جلانے میں کامیاب کو گیا۔ کیوں اللہ نے اسے روکا نہیں۔ تب تو عائشہ نے فوراً ایسے خیالات جھٹک دئیے تھے کہ مبادا کہیں کسی گستاخی کا ارتکاب نہ کر بیٹھے لیکن اب دوران طواف مسلسل لوگوں کی جانب سے اس کے جسم سے لطف اندوز ہونے پر وہ دوبارہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی۔