Language:

Search

عمرہ ہنی مون 10

  • Share this:

ہوٹل کے کمرے میں پہنچ کر دونوں ایک دوسرے پر ایسے جھپٹے تھے کہ جیسے برسوں کے بچھڑے آج ملے ہوں۔ دیوانہ وار ایک دوسرے کو چوم رہے تھے، چاٹ رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ ایک دوسرے کو بے لباس بھی کر رہے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ ایک دوسرے کیلئے وحشیانہ حد تک جذبات رکھتے ہوں۔ سیکس تو پہلے بھی کئی بار کیا تھا۔ پہلی رات کا سیکس یادگار ہوتا ہے لیکن سفیان اور عائشہ کیلئے تو ہر تجربہ منفرد ثابت ہو رہا تھا۔ پہلے جانماز پر سیکس کیا، پھر خانہ کعبہ کے احاطے میں دوران طواف ڈسچارج ہوئے۔ اب دونوں ایسے ایک دوسرے کے جسم کو چاٹ رہے تھے جیسے جانور چاٹتے ہیں۔ ہر عمل دونوں کی شہوت بڑھا رہا تھا۔ اتنا وحشیانہ سیکس دونوں نے پہلی بار کیا تھا۔ دونوں کے بدن پر جا بجا کاٹنے کے نشانات تھے۔ جب سفیان نے عائشہ کی اندام نہانی میں اپنا عضو تناسل داخل کیا تو عائشہ اس قدر گرم ہو گئی کہ اس نے سفیان کے ہاتھ اپنی گردن پر رکھ دئے کہ جیسے کہہ رہی ہو دباؤ اسے۔ سفیان نے اس کا گلا دباتے ہوئے دھکے لگائے تو عائشہ نے ایک نیا مزہ دریافت کیا۔ اس کی سانس رک رہی تھی لیکن اندام نہانی میں اندر باہر ہوتا سفیان کا عضو ایک عجیب کیفیت پیدا کر رہا تھا۔ سفیان نے ایک ہاتھ سے عائشہ کا گلا دبائے رکھا اور دوسرے ہاتھ سے عائشہ کے گالوں پر تھپڑ مارنے شروع کر دئیے۔ چٹاخ چٹاخ کی آوازیں، عائشہ کے منہ سے بہتی رال اور اوغ اوغ کی آواز، عضو تناسل اندام نہانی کی پچ پچ کی آواز، ان سب نے مل کر سماں باندھ دیا تھا۔ جب دونوں ڈسچارج ہوئے تو کتنی ہی دیر بستر ہر بے سدھ پڑے رہے۔ محسوس ہوتا تھا جسم میں جان نہیں رہی۔ 
جب ہمت بحال ہوئی تو ایک دوسرے سے چپک کر لیٹ گئے اور ایک دوسرے کیلئے اپنی محبت کا اظہار کرنے لگے۔ ایسا لگتا ہی نہیں تھا کہ ان دونوں کی ارینج میرج تھی۔ انہیں تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ دونوں بنے ہی ایک دوسرے کیلئے ہوں۔ شادی سے پہلے دونوں جتنے شریف تھے، اب اتنے ہی شرارتی ہو گئے تھے۔ 
عائشہ سفیان کے بالوں میں دھیرے دھیرے ہاتھ پھیر رہی تھی اور سفیان اس کے گالوں کو سہلا رہا تھا۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈالے سفیان نے جب عائشہ سے پوچھا کہ اسے کیسا لگے گا اگر وہ شخص بجائے چھپ کر پیچھے سے عائشہ کے جسم سے مزے لینے کے، تسلی سے عائشہ کے ساتھ ہم بستری کرے۔ شرم کے مارے عائشہ کی نظریں بے اختیار نیچے ہو گئیں۔ سفیان نے اسے تسلی دی کہ جو بھی اس کے دل میں ہے وہ بے دھڑک کہہ سکتی ہے۔ وہ برا نہیں منائے گا۔ عائشہ کو دو اندیشے تھے۔ ایک تو یہ کہ کہیں سفیان برا نا مان جائے کیونکہ جذبات میں بہہ کر کوئی بات کہنا اور عملی طور پر کچھ کرنا، دو مختلف چیزیں ہیں اور دونوں کا اثر بھی انسانوں پر مختلف ہوتا ہے۔ دوسرا اسے یہ بات پریشان کر رہی تھی کہ اگر وہ جنسی جذبات کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے شوہر کے علاوہ کسی سے سیکس کر گزری تو کہیں بعد میں احساس گناہ اسے نہ آ لے۔ وہ ساری زندگی احساس ندامت میں مبتلا نہیں رہنا چاہتی تھی۔ 
سفیان بھانپ گیا کہ عائشہ کسی کشمکش میں مبتلا ہے۔ اس نے عائشہ کو یقین دلانے کی بھرپور کوشش کی کہ جو بھی ہو گا عائشہ کی مرضی سے ہی ہو گا۔ 
وہ رات عائشہ کی آنکھوں میں کٹی۔ سوچیں تھیں کہ جان ہی نہیں چھوڑتی تھیں۔ کبھی اس پر جنسی جذبات غالب آ جاتے تو وہ سوچتی اسے سفیان کی بات مان کر کسی اور سے سیکس کر لینا چاہیے لیکن جب اس کام کے منفی نتائج ذہن میں آتے تو اس کا ارادہ بدل جاتا۔ منفی اثرات اگرچہ لازم نہیں تھے لیکن امکان تو تھا۔ عائشہ نے سوچا کہ اگر وہ احتیاط سے کام لیں تو شاید کسی کو اس بات کا پتہ بھی نہ چلے اور سفیان جب خود کہہ رہا ہے کہ اسے کوئی حسد نہیں ہو گا تو پھر اسے مان ہی لینی چاہیے سفیان کی بات۔ 
بلاآخر یہی سوچ کر عائشہ نے آنکھیں بند کریں کہ صبح وہ سفیان کو اپنی رضامندی سے آگاہ کر دے گی۔ 
سفیان کیلئے یہ ایک عجیب احساس تھا۔ کبھی سوچا تک نہیں تھا کہ ایسا بھی ہو گا کہ اس کی بیوی اس کے سامنے یو شرمیلے انداز میں اس بات کا اقرار کرے گی کہ وہ اپنے شوہر کے علاوہ کسی اور سے ہم بستری کرنے کیلئے تیار ہے۔ جب عائشہ نے سفیان کو اپنی رضامندی سے آگاہ کیا تو سفیان کا عضو تناسل سپرنگ کی طرح ایک دم سے تن گیا اور وہ عائشہ کو محبت بھری نگاہوں سے دیکھنے لگا۔ عائشہ سر جھکا کر بیٹھی تھی۔ سفیان نے اسے گلے لگا لیا اور چومنے چاٹنے لگا۔ شاید وہ اسے بے لباس کر کے مزید کچھ کرتا لیکن اتنے میں ظہر کی اذان ہونے لگی۔ آج ان کا یہاں آخری دن تھا اور ان دونوں نے برائے نام ہی عمرہ ادا کیا تھا۔ حتیٰ کہ سر منڈوانا جو عمرہ میں ضروری ہوتا ہے، سفیان نے وہ بھی نہیں کیا۔ بس چند نمازیں ادا کی تھیں کعبہ میں اور طواف کیا تھا کئی بار۔ انہوں نے تو مدینہ جانے کا بھی تکلف نہیں کیا اور زیادہ تر دن اور راتیں ہوٹل میں سیکس کرتے گزار دی تھیں۔ جانماز پر سیکس کرنا اب دونوں کیلئے نارمل تھا۔ ویسے تو بستر پر سیکس بھی اچھا خاصہ مزے دار ہوتا تھا لیکن جانماز پر قبلہ رو ہو کر نماز کی پوزیشن میں سیکس کا اپنا ایک مزہ تھا۔ 
دونوں باوضو ہو کر کعبہ پہنچے اور نماز ادا کر کے ایک کونے میں بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ 
ہر قومیت کے لوگ خانہ کعبہ میں موجود تھے۔ سفیان نے ایک کالے حبشی کی طرف اشارہ کر کے عائشہ سے پوچھا اس کے بارے میں کیا خیال ہے۔ عائشہ سمجھ تو گئی تھی کہ سفیان کے پوچھنے کا مقصد کیا ہے لیکن جان بوجھ کر انجان بنی رہی۔ وہ سفیان کے منہ سے سننا چاہتی تھی اس لئے پوچھنے لگی کہ کیسا خیال؟ 
سفیان نے عائشہ کی آنکھوں میں دیکھا۔ شرارتی سی چمک دیکھ کر بے اختیار اس کا جی چاہا کہ وہیں مسجد میں ہی اس کے ہونٹ چوم کے لیکن بمشکل خود کو کنٹرول کیا اور اس کے بناوٹی بھول پن کو بھانپ کر اسے بتانے لگا کہ اس حبشی سے ہم بستری کے بارے میں کیا خیال ہے۔ 
عائشہ کا منہ لال ہو گیا۔ مارے شرم کے سر جھک گیا اور باوجود چاہنے کے منہ سے ایک لفظ نہ نکلا۔ سفیان نے عائشہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر مسلنا شروع کر دیا۔ سفیان نے پھر سے پوچھا تو عائشہ نے انکار میں سر ہلا دیا۔ اس نے ہمیشہ یہی سنا تھا کہ کالے لوگ بہت وحشی قسم کے ہوتے ہیں اس لئے اس کے دل میں ڈر تھا کہیں وہ کالا اسے نقصان نہ پہنچا دے۔ 
سفیان نے نظریں دوڑائیں اور مختلف لوگوں کی طرف اشارہ کر کے عائشہ سے ان کے بارے پوچھنے لگا۔ عائشہ کو شرم آ رہی تھی۔ وہ اپنے منہ سے کیسے اقرار کرتی۔ سفیان کے سامنے حامی تو بھری تھی لیکن تھی تو ایک مشرقی اسلامی بیوی ہی، اپنے شوہر کے ساتھ خانہ کعبہ میں بیٹھ کر اپنے لئے کسی مرد کی تلاش ہر شرم تو آنی ہی تھی۔ 
 

Quratulain Tahira

Quratulain Tahira