عائشہ کی آنکھ خانہ کعبہ میں فجر کی اذان سن کر کھل گئی۔ سفیان کی طرف دیکھا تو وہ بے سدھ سو رہا تھا۔ عائشہ کو اپنا ذہن بالکل ہلکا محسوس ہوا۔ جو دباؤ رات کو بے انتہا سوچنے سے ذہن پر تھا، وہ اب چھٹ چکا تھا۔ عائشہ نے سوچا سفیان کو فجر کی نماز کیلئے اٹھائے لیکن نہ جانے کیوں وہ ایک دم سے رک گئی۔ کھڑکی سے باہر خانہ کعبہ کی طرف دیکھا جہاں لوگ دور سے چیونٹیوں کی مانند نظر آ رہے تھے۔ عائشہ کا اب وہاں جانے کا دل نہیں کر رہا تھا۔ اس نے منہ پھیر لیا اور سفیان کو دیکھنے لگی جو نیند میں بالکل کسی معصوم بچے کی طرح لگ رہا تھا۔ اچانک عائشہ کو ایک شرارت سوجھی۔ بغیر آواز پیدا کئے وہ ذرا سا کھسک کر سفیان کے قریب آ گئی۔ کمبل اٹھا کر دیکھا۔ سفیان ٹراؤزر پہن کر سوتا تھا۔ تھوڑا نیچے ہو کر سفیان کی ٹانگوں کے پاس عائشہ نے اپنا منہ کمبل کے اندر کیا اور آرام سے سفیان کا ٹراؤزر نیچے کرنے لگی۔ اس نے اس بات کا خاص خیال رکھا تھا کہ اس کی حرکات سے سفیان جاگنے نہ پائے۔ ویسے بھی سفیان کی نیند بہت گہری تھی۔
ٹراؤزر نیچے کیا تو سفیان کا عضو تناسل عائشہ کے سامنے عیاں ہو گیا۔ عائشہ نے کمبل سے منہ نکال کر ایک بار پھر دیکھا اور کمبل آہستہ سے ہٹا کر سائیڈ پر کر دیا۔ اب سفیان کی ٹانگیں اور عضو تناسل عائشہ کی آنکھوں کے سامنے تھے۔ عائشہ نے نظریں سفیان کے چہرے پر رکھیں اور ہاتھ بڑھا کر سفیان کا عضو تناسل تھام لیا۔ سفیان بدستور دنیا و مافیہا سے بے خبر ہلکے ہلکے خراٹے لے رہا تھا۔ عائشہ نے منہ آگے کیا اور سفیان کے سوئے ہوئے عضو تناسل پر ایک محبت بھرا بوسہ ثبت کر دیا۔ اس کی نظریں اب بھی سفیان کے چہرے پر تھیں جبکہ سیدھا ہاتھ اس کے عضو تناسل پر جسے وہ آہستہ آہستہ سہلا رہی تھی۔
خانہ کعبہ کے سامنے، عین اذان کے وقت، احرام پہنے جب عائشہ اپنے شوہر کا عضو تناسل مسل رہی تھی، اس وقت عائشہ کی ذہنی کیفیت عجیب تھی۔ اسے کسی چیز کا ڈر نہ تھا۔ آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک اور شرارت تھی۔ جب موذن اللہ اکبر کہہ رہا تھا تو عائشہ سفیان کے عضو تناسل کو چوم رہی تھی اور جب موذن نے لا الہ الااللہ کہا تو عائشہ نے عضو تناسل پورا منہ میں لے لیا اور نرمی سے اسے چوسنے لگی۔ شادی کے بعد وہ سفیان سے کئی مرتبہ مباشرت کر چکی تھی اور اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ جنسی طور پر گرم ہونا کسے کہتے ہیں۔ آج جو کیفیت اس کی تھی، وہ جنسی طور پر تو گرم تھی ہی لیکن لطف ہزار گنا زیادہ آ رہا تھا۔ کیا ایسا خانہ کعبہ کی قربت کی وجہ سے تھا۔ کیا ایسا اذان کی وجہ سے تھا یا پھر عائشہ کے احرام پہنے ہوئے ہونے کی وجہ سے تھا۔ یا پھر ان تمام چیزوں کی وجہ سے عائشہ کے جذبات ہزار گنا زیادہ بھڑک گئے تھے۔
اپنے عضو تناسل پر عائشہ کی زبان کی گرمی سفیان زیادہ دیر تک برداشت نہ کر سکا اور بیدار ہو گیا۔ عائشہ کی نظریں سفیان پر ہی تھیں۔ اس نے سفیان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر عضو تناسل کو مزید گرمجوشی سے چوسنا شروع کر دیا۔ اپنے منہ میں اپنے شوہر کا عضو تناسل نرم سے سخت ہوتے محسوس کرنا بہت لطف انگیز عمل تھا۔ عائشہ کو اپنی ٹانگوں کے درمیان نمی محسوس ہو رہی تھی۔ سفیان ہکا بکا عائشہ کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا یہ اسے ہو کیا گیا ہے۔ اس کے فرشتوں کو بھی یہ توقع نہ تھی کہ شادی کے محض ایک ہفتے کے اندر عائشہ اسے اس قدر لطف دے سکے گی۔ مارے حیرت اور لطف کے اس کے منہ سے ایک لفظ نہ نکلا لیکن عائشہ کو ایک پورن سٹار کی طرح اپنا عضو تناسل چوستے دیکھ کر وہ اپنے منہ سے نکلنے والی آہ آہ نہ روک سکا۔ اس کا عضو تناسل اب مکمل تن چکا تھا اور عائشہ کے تھوک سے چکنا ہو کر چمک رہا تھا۔ عائشہ اتنی محو تھی چوسنے میں کہ اسے کسی چیز کی پرواہ نہیں تھی۔ والہانہ انداز میں کبھی پورا منہ میں لے کر اندر باہر کرتی تو کبھی عضو تناسل کی سائیڈز پر زبان پھیر کر ایسے چاٹتی کہ جیسے آئس کریم کی کون کو چاٹتے ہیں۔
سفیان بمشکل تین سے چار منٹ ہی برداشت کر پایا اور ایک زوردار آہ کے ساتھ منی خارج کر بیٹھا جسے عائشہ نے اپنے منہ میں ہی وصول کیا۔ اپنے محبوب شوہر کے عضو سے نکلنے والی منی کا ایک قطرہ بھی اس نے بیڈ پر نہ گرنے دیا۔ منہ میں منی لئے سفیان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اس نے ایک گھونٹ بھرا اور ساری منی پیٹ میں اتار لی۔ سفیان بیڈ سے اٹھنے ہی لگا تھا کہ غسل خانے جا کر بدن پاک کرے اور نماز کیلئے جائے لیکن عائشہ نے اسے نہ اٹھنے دیا بلکہ اس کا ہاتھ تھام کر اپنے قریب کیا اور ایک بوسہ اس کے ہونٹوں پر ثبت کر دی۔ عائشہ کے ہونٹوں پر اپنی ہی منی کا ذائقہ چکھ کر سفیان کو عجیب ضرور محسوس ہوا مگر ناخوشگوار نہیں۔ عائشہ نے سفیان کا ہاتھ تھام کر بیڈ سے نیچے کھینچا اور کھڑکی کے پاس لے آئی۔ سفیان مکمل برہنہ تھا جبکہ عائشہ احرام میں ملبوس تھی۔
دونوں خانہ کعبہ کی طرف دیکھنے لگے جہاں فجر کی نماز با جماعت جاری تھی۔ چند لمحے دونوں ایسے ہی دیکھتے رہے۔ سفیان دل ہی دل میں فجر کی نماز ممکنہ قضا ہونے پر اداس تھا لیکن عائشہ کے دل میں سکون تھا۔ اسے ایسا لگتا تھا جیسے کل کے واقعات بے معنی نہیں تھے بلکہ یہ واقعات اس کے دل سے ڈر نکالنے کیلئے رونما ہوئے تھے۔ بھلا اگر لوگ اللہ کے گھر میں بھی لڑکیوں کو چھیڑنے سے باز نہیں آتے اور اللہ کا ڈر ان کے دل میں نہیں اور اللہ بھی انہیں کچھ نہیں کہتا تو پھر عائشہ کو کیا ضرورت ہے ڈر ڈر کے زندگی گزارنے کی۔ کیا ضرورت ہے ان کاموں سے خود کو روکنے کی جن سے اسلام نے محض اس لئے منع کیا ہے کہ اللہ کا حکم ہے۔ یہ سوچ کر عائشہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔ اس نے گردن موڑ کر سفیان کو دیکھا اور دونوں ہاتھ اس کی گردن میں ڈال کر اس کا منہ اپنی جانب کھینچا۔ سفیان نے بھی اس کا ساتھ دیا اور دونوں وہیں کھڑکی میں ایک دوسرے کو ایسے چومنے لگے کہ جیسے کئی برس کے بچھڑے عاشق ملے ہوں۔ عائشہ نے ایک ہاتھ نیچے لے جا کر سفیان کے عضو تناسل کو مسلنا شروع کر دیا جسے کھڑا کرنے میں کچھ زیادہ دقت پیش نہ آئی۔ جیسے ہی سفیان کا عضو تناسل کھڑا ہوا، عائشہ نے اپنا منہ کھڑکی کی طرف کیا اور سفیان اس کے پیچھے آ کر اس کا احرام اٹھا کر اوپر کرنے لگا۔ کچھ ہی دیر میں کمرہ عائشہ کی آہ آہ سے گونج رہا تھا۔ عائشہ کی نظریں خانہ کعبہ پر جمی تھیں۔ لوگوں کو دوران مباشرت نماز پڑھتے دیکھ کر اسے ایسا سرور مل رہا تھا کہ آج تک نا ملا تھا۔ سفیان بس اسی بات پر خوش تھا کہ اس کی نئی نویلی بیوی جنسی طور پر بہت گرم ہے۔ یہ سوچ سوچ کر کہ مستقبل میں ان کی سیکس لائف کتنی مزے دار ہونے والی ہے، وہ مسلسل عائشہ کی اندام نہانی میں عضو تناسل اندر باہر کئے جا رہا تھا۔ عائشہ کے جسم پر اب بھی احرام تھا لیکن نیچے سے اوپر کرنے کی وجہ سے سفیان کو عائشہ کے کولہے نظر آ رہے تھے جو ہر جھٹکے پر ایسے ہلتے تھے کہ سفیان کیلئے خود پر قابو رکھنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ دونوں ہی کے منہ سے لطف آمیز آہوں کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ دونوں ایک ساتھ ڈسچارج ہوئے اور ڈسچارج ہونے پر ایسا لگا جیسے جسم سے جان نکل گئی ہو۔ اتنے لطف آمیز پیار کے بعد دونوں ایک دوسرے کی باہوں میں سمٹ کر بیڈ پر لیٹے اور قضا نماز کی پرواہ کئے بغیر نیند کی وادی میں جا پہنچے۔ جب خانہ کعبہ میں لوگ نماز کے بعد دعا مانگ رہے تھے تب عائشہ اور سفیان ننگے ہو کر چپکے سو رہے تھے۔ یہ پہلا واقعہ تھا جس نے ان کی آنے والی زندگی پر گہرا اثر چھوڑا۔