علی الصباح فجر کی نماز کے وقت کھڑکی کے سامنے مباشرت کے بعد دونوں اس قدر گہری نیند سوئے تھے کہ جب انکی آنکھ کھلی تو عصر کی نماز بھی گزر چکی تھی۔ ناشتہ تو کیا منگواتے، انہوں نے روم سروس سے کمرے میں کھانا منگوایا اور کھانے کے بعد اکٹھے غسل کیا۔ توقع کے عین مطابق سفیان اور عائشہ دونوں ہی کے جذبات ایک مرتبہ پھر برانگیختہ ہو گئے۔ عائشہ کے ملکوتی حسن اور پھر ننگے بدن پر پانی پڑتا دیکھ کر سفیان کا عضو تناسل ایک دم اتنا سخت ہو گیا کہ جیسے فولاد ہو۔ عائشہ نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، جھٹ سے ہاتھ میں پکڑ کر مسلنے لگی۔ پانی ان کے جسموں کے اوپر آبشار کی طرح بہہ رہا تھا اور وہ دونوں بوس و کنار میں اس قدر محو تھے کہ کسی چیز کی پرواہ نہیں تھی۔ عائشہ اندر اور باہر سے مکمل تر ہو چکی تھی۔ اس بات کا اندازہ سفیان کو تب ہوا جب اس نے بھی ہاتھ بڑھا کر عائشہ کی اندام نہانی کو چھوا لیکن کچھ پانی پڑنے کی وجہ سے اور کچھ عائشہ کے اندر سے سفید ڈسچارج سے چکناہٹ اتنی زیادہ تھی کہ اس کی انگلی پھسل کر اندر چلی گئی۔ ایک ہلکی سی آہ عائشہ کے منہ سے خارج ہوئی۔ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں محبت سے دیکھ رہے تھے اور ایک دوسرے کی شرم گاہ کو ہاتھ سے مسل رہے تھے۔ یہ سب زیادہ دیر تک نہ چل سکا کیونکہ دونوں ہی کی خواہش تھی کہ جلد از جلد شرم گاہوں کا ملاپ ہو جائے۔ باتھ ٹب میں لیٹنے کی جگہ تو تھی لیکن پانی بھرا ہونے کی وجہ سے لیٹ کر سیکس ممکن نہیں تھا۔ سفیان نے عائشہ کی ایک ٹانگ کے نیچے سے ہاتھ گزار کر اوپر اسے اوپر اٹھایا اور دوسرے ہاتھ سے اپنا عضو تناسل عائشہ کی اندام نہانی کے آغاز پر رکھ کر آہستہ سے دھکیلا۔ عائشہ کو ایک ہاتھ سے دیوار تھامنی پڑی۔ دوسرا ہاتھ اس نے سفیان کے کندھے پر رکھا ہوا تھا۔ اندام نہانی میں چکناہٹ کا یہ عالم تھا کہ سفیان کا عضو تناسل ایک ہی ہلکے سے جھٹکے میں پورا کا پورا اندر سما گیا لیکن جہاں اس چکناہٹ کا فائدہ تھا، وہیں ایک نقصان بھی تھا۔ وہ یہ کہ سفیان زیادہ دیر تک عائشہ کی اندام نہانی میں اپنا عضو تناسل اندر باہر نہ کر سکا کیونکہ بہت جلدی اس کی برداشت جواب دے گئی۔ عائشہ میں جنسی کشش اتنی زیادہ تھی کہ اس کے سامنے ٹھہرنا بہت مشکل تھا۔ سفیان عائشہ کی اندام نہانی کے اندر ہی مادہ منویہ خارج کر بیٹھا۔ عائشہ کو مزید کی طلب تھی لیکن ڈسچارج ہونے کے بعد سفیان کا عضو تناسل چھوٹا سا ہو کر لٹک گیا تھا اور مزید مباشرت ممکن نہیں تھی۔ سفیان پانی سے بھرے ٹب میں بیٹھ گیا۔ عائشہ نے بھی شاور بند کر کے سفیان کے سامنے بیٹھ کر سر پیچھے ٹب کے کنارے سے ٹکا لیا۔ سفیان دل ہی دل میں محسوس کر رہا تھا کہ عائشہ اس سے مایوس ہوئی ہے۔ بات بھی ٹھیک تھی۔ مایوسی تو عائشہ کو ہوئی تھی۔ اگر سیکس کیا جائے اور ڈسچارج نہ ہو پائیں تو مایوسی ہونا فطری بات ہے۔ اس سے تو بہتر ہے پھر سیکس کریں ہی نا۔ عائشہ بھی یہی سوچ رہی تھی کہ اب کیسے اس آگ کو ٹھنڈی کرے۔ اس نے سوچا کیوں نہ اپنی انگلیاں استعمال کی جائیں لیکن وہ ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ اسے اپنی اندام نہانی پر کسی چیز کا دباؤ محسوس ہوا۔ ایک جھٹکے سے اس نے آنکھیں کھول دیں۔ شفاف پانی میں صاف نظر آ رہا تھا کہ سفیان اپنے پاؤں کے انگوٹھے سے اس کی اندام نہانی کو دھیرے دھیرے مسل رہا تھا۔ پانی کے اندر ہونے کی وجہ سے عائشہ کو یہ عمل بہت بھلا محسوس ہوا۔ اس نے مسکرا کر سفیان کی طرف دیکھا اور اپنے دونوں پاؤں اس کے عضو تناسل کے دائیں بائیں رکھ کر اسے مسلنے لگی۔ سفیان نے صرف مسلنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ انگوٹھا عائشہ کی اندام نہانی کے اندر داخل کر کے اسے گول دائرے میں گھمانے لگا۔ عائشہ کو بہت مزہ آ رہا تھا۔ اس کی سانس تیز ہونے لگی اور آنکھیں نشے میں بند ہونے لگیں۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر سفیان کے پاؤں کا انگوٹھا تھام لیا اور دیوانہ وار اسے اپنی اندام نہانی میں آگے پیچھے دائیں بائیں کرنے لگی۔ ساتھ ہی دوسرے ہاتھ سے اپنے پستان اور نپلز دبا رہی تھی۔ چند سیکنڈز میں وہ ایک بھرپور آہ کے ساتھ ڈسچارج ہو گئی اور نڈھال ہو کر سر پیچھے ٹکا کر بیٹھ گئی۔ سانسیں نارمل ہونے میں کچھ دیر لگی اور جب دونوں غسل کر کے باہر نکلے تو مغرب کی اذان ہو رہی تھی۔
دونوں کپڑے پہن رہے تھے اور ساتھ باتیں بھی کر رہے تھے۔ باتوں باتوں میں عائشہ نے سفیان کو بتایا کہ اس کا موڈ کیوں خراب تھا۔ سفیان کو غصہ تو آیا لیکن دھیمی طبیعت ہونے کی وجہ سے غصہ جلدی ٹھنڈا ہو گیا اور وہ عائشہ کی اس بات سے اتفاق کئے بغیر نہ رہ سکا کہ یا تو خواتین کیلئے حج اور عمرہ بھی علیحدہ ہونا چاہیے یا پھر باقی شعبہ جات میں بھی اس اصول کو ختم کر دینا چاہیے۔
عبادت کیلئے بے انتہا طلب ہونے کے باوجود وہ دونوں خانہ کعبہ اتنا قریب ہو کر بھی وہاں با جماعت نماز ادا نا کر پانے پر رنجیدہ تھے۔
عائشہ کی اس بات سے پہلے سفیان کا ارادہ تھا کہ وہ دونوں نماز کیلئے نیچے خانہ کعبہ میں جائیں گے لیکن اب اس کا دل نہیں کر رہا تھا کہ کہیں عائشہ کے ساتھ پھر سے نہ کچھ ہو جائے۔ عائشہ نے سفیان کو کہہ دیا تھا کہ جیسے وہ کہے گا وہ ویسے ہی کرے گی۔ سفیان نے چند لمحات سوچ کر فیصلہ کیا کہ یہیں کمرے میں ہی نماز ادا کر لی جائے لیکن چونکہ خانہ کعبہ اتنا قریب ہے لہذا بہتر یہ ہے کہ جماعت کے ساتھ ہی ادا کی جائے۔
جیسے ہی خانہ کعبہ میں جماعت کیلئے صف بندی ہوئی، عائشہ اور سفیان بھی نماز کیلئے کھڑے ہو گئے۔ چونکہ خانہ کعبہ میں جماعت کی امامت کیلئے امام کعبہ موجود تھے، لہٰذا عائشہ اور سفیان دونوں ساتھ ساتھ کھڑے ہو گئے۔ ہو سکتا ہے وہ ایسے ہی نماز پڑھ لیتے اگر سفیان کو یاد نہ آ جاتا کہ احادیث کے مطابق دور نبوی میں خواتین پچھلی صف میں نماز ادا کیا کرتی تھیں۔ اس نے عائشہ کو بتایا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنتے ہی فوراً اپنی جانماز اٹھا کر سفیان کے پیچھے جا کھڑی ہوئی۔