Language:

Search

عمرہ ہنی مون 5

  • Share this:

'اللہ اکبر' امام کعبہ کی آواز سننے کیلئے انہوں نے کھڑکی کھول دی تھی۔ دونوں نے ہاتھ کانوں تک لے جا کر نماز کیلئے باندھ لئے۔ سفیان نے زیر ناف اور عائشہ نے سینے پر۔ امام کعبہ نے تلاوت شروع کی۔ سفیان انتہائی توجہ سے سماعت کر رہا تھا لیکن عائشہ باوجود کوشش کے اپنا ذہن امام کعبہ کی تلاوت پر مرکوز نہ کر پائی۔ نظریں بھی سجدے کی جگہ سے بار بار بھٹک رہی تھیں۔ رکوع میں جانے کیلئے سفیان جھکا تو عائشہ بھی جھک گئی۔ ایسا لگتا تھا اسکی توجہ نماز میں ہے ہی نہیں اور محض سفیان کی نقل کر رہی ہے۔ سفیان سجدے میں گیا تو وہ بھی چلی گئی، سجدے سے اٹھا تو وہ بھی اٹھ گئی۔ نماز میں توجہ نہ ہونے کے باعث اس کی سوچ کبھی کہیں چلی جاتی تو کبھی کہیں۔ کبھی اسے اپنے گھر کا خیال آنے لگتا کہ امی ابو کیسے ہوں گے تو کبھی وہ گزشتہ واقعات یاد کر کے روہانسی ہو جاتی جب خانہ کعبہ میں اس کے جسم کو غیر مردوں نے چھوا۔ کبھی وہ گزشتہ رات کا سفیان کے ساتھ سیکس یاد کرنے لگتی تو کبھی غسل خانے میں گزرے لمحات کو یاد کرنے لگتی۔ غرض یہ کہ نماز کے علاوہ اس کی سوچ ہر چیز کی طرف جا رہی تھی۔
نماز اب دوسری رکعت میں داخل ہو چکی تھی اور عائشہ سوچنے لگی کہ اس کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ کیا اسے شیطان بہکا رہا ہے؟ لیکن کیا شیطان خانہ کعبہ اتنا قریب موجود ہے؟ کیا شیطان خانہ کعبہ میں بھی تھا جس نے ان مردوں کو بہکایا تھا؟ اگر واقعی ان سب کاموں کا ذمہ دار شیطان ہی تھا تو پھر تو اس کا مطلب یہ تھا کہ شیطان بھی اللہ کی طرح ہر جگہ موجود ہے۔ عائشہ کی سوچ کہاں سے کہاں نکل گئی۔ وہ سوچنے لگی کہ اس طرح ہر کام کو شیطان پر ڈال دینا درست عمل نہیں۔ اس طرح تو ہم اپنے برے کاموں سے بہت آسانی سے جان چھڑا سکتے ہیں بس یہ کہہ کر کہ شیطان نے ورغلا دیا تھا۔ اور دوسری بات یہ کہ اگر اللہ شیطان کو اپنے گھر میں ہی قابو نہیں کر سکتا تو پھر اتنی طاقت کا کیا فائدہ۔ ان اللہ علی کلی شئی قدیر والی آیت کیا نعوذ باللہ جھوٹ ہے۔ اللہ ہر چیز ہر قادر نہیں؟ عائشہ کو جھرجھری سی آ گئی یہ سوچ کر لیکن پھر بھی سوچ اس کے دماغ میں بہت تیزی سے آ رہی تھی۔ اس کی سوچوں کا تانتا تب ٹوٹا جب سفیان نے سلام پھیرا۔ اس نے بھی دیکھا دیکھی سلام پھیر لیا۔ دعا کے بعد سفیان نے منہ عائشہ کی طرف کیا اور عائشہ کو اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا۔ سر پر حجاب لپیٹے عائشہ اتنی اچھی لگی کہ بے اختیار اس نے عائشہ کے ہونٹوں پر بوسہ ثبت کر دیا۔ عائشہ نے بھی خوب ساتھ دیا اور چند لمحات میں ہی دونوں ایک دوسرے سے لپٹے بوس و کنار میں مشغول ہو گئے۔
جائے نماز پر ہی لیٹے لیٹے ایک دوسرے کو بے لباس کر دیا اور عائشہ کو کتیا کی طرح گھٹنوں کے بل پوزیشن میں لا کر سفیان نے پیچھے سے اپنا عضو تناسل اس کی اندام نہانی میں ڈال دیا۔ حیران کن طور پر عائشہ کی اندام نہانی مکمل تر تھی اور عضو تناسل ایک لمحے میں اندر تک چلا گیا۔ سفیان نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور لگا جھٹکے مارنے۔ زور زور سے جھٹکے مار رہا تھا اور عائشہ مسلسل اوں آں کر رہی تھی۔ واقعی اس قدر لطف اسے زندگی میں کبھی نہیں آیا تھا۔ سفیان نے فرط لذت سے آنکھیں بند کر لیں اور پورا زور لگانے لگا۔ عائشہ نے منہ نیچے ٹکا دیا جہاں جائے نماز پر خانہ کعبہ کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ عائشہ کی آنکھیں بھی بند ہو چلی تھیں لیکن ہر دھکے پر آہ اب بھی نکل رہی تھی۔
سفیان کو لگا وہ عائشہ کی تنگ اور چکنی اندام نہانی کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر پائے گا اسلئے اس نے آنکھیں کھول دیں۔ نیچے دیکھا تو جائے نماز پر عائشہ کو کتیا کی طرح پوزیشن میں دیکھ کر اسے جیسے آگ ہی لگ گئی۔ دھکوں کی رفتار میں یکدم اضافہ ہو گیا اور ہاتھ بڑھا کر اس نے ایک ہاتھ سے عائشہ کے بال پکڑ لئے۔ جیسے جیسے پیچھے سے دھکے لگ رہے تھے، عائشہ کے بال بھی کھنچ رہے تھے اور دونوں کولہے بھی مسلسل ہل رہے تھے۔ کھڑکی کھلی ہونے کی وجہ سے باہر سے لبیک اللہم لبیک کی صدائیں ان کے کانوں میں پڑ رہی تھیں۔ یہ سب ماحول ان دونوں کو مزید گرم کئے جا رہا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں ایک ساتھ ڈسچارج ہو گئے اور نڈھال ہو کر جائے نماز پر ہی لیٹ گئے۔ دونوں کی سانسیں تیز تیز چل رہی تھیں اور دونوں ہی سوچ رہے تھے کہ یہ کیا کر بیٹھے۔ ایسی نماز پڑھنا تو دور کی بات ہے، انہوں نے تو ایسا کرنے کا کبھی سوچا تک نہ تھا۔
 

Quratulain Tahira

Quratulain Tahira