Language:

Search

عمرہ ہنی مون 8

  • Share this:

نیا دن سفیان اور عائشہ کیلئے صرف نیا دن ہی نہیں تھا، نئی زندگی تھا۔ گزشتہ رات کے واقعات نے ان دونوں کے ازدواجی رشتے کو نئی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔ پیار تو پہلے بھی تھا لیکن اب تو عشق تھا۔ اب تو ایک دوسرے کیلئے جان قربان کر دینے تک کا جذبہ تھا۔ دنیا کی ہر چیز، ہر انسان سے زیادہ وہ دونوں ایک دوسرے کو چاہتے تھے۔ دونوں بہت خوش تھے۔
اس نئی بے انتہا محبت کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ان دونوں نے آپس کے تمام پردے گرا دئے تھے۔ شرم و حیا، جھجھک اور رازداری کو دفن کر دیا تھا۔ دونوں نے عہد کیا تھا کہ ایک دوسرے سے کوئی چیز نہیں چھپائیں گے۔
سو کر اٹھے تو ظہر کا وقت تھا۔ روم سروس سے ناشتہ منگوا کر کھایا لیکن ہوٹل سے خانہ کعبہ جانے کی ہمت تھی نہ چاہت۔ عائشہ کو زندگی میں پہلی بار سیکس میں اتنا مزہ آیا تھا کہ وہ ابھی تک خود کو اسی لطف کے زیر اثر محسوس کر رہی تھی۔ کھانا کھاتے ہی وہ بستر میں گھس گئی اور سفیان کو بھی گھسیٹ لیا لیکن سفیان کی توقعات کے برعکس کچھ ہی دیر میں عائشہ نیند کی وادی میں جا پہنچی۔ سفیان ہاتھ کمبل میں ڈال کر ٹراؤزر کے اوپر سے ہی اپنا عضو تناسل دھیرے دھیرے مسلنے لگا۔ رات کے واقعات اس کے ذہن میں تازہ تھے۔ وہ یہ سوچے بنا نہ رہ سکا کہ وہ کتنا خوش قسمت ہے کہ اللہ نے اسے اس قدر خوبصورت اور جنسی طور پر پرکشش بیوی سے نوازا ہے۔ ایک طرف اس کا عضو تناسل تن گیا تھا اور دوسری طرف اس کے دل میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کیلئے شکر کے جذبات بھی تھے۔ اس نے فوراً ہاتھ ہٹایا اور آہستہ سے کمبل سے نکلنے کی کوشش کرنے لگا تاکہ عائشہ کی نیند برقرار رہے۔
بستر سے نکل کر غسل کیا اور باوجود عضو تناسل کے بار ںار کھڑے ہونے کے، اس نے مشت زنی سے پرہیز کیا۔ جسم پاک صاف کر کے صاف کپڑے پہنے اور قبلہ رخ جائے نماز بچھا کر دو رکعت شکرانے کے نفل پڑھنے کیلئے نیت باندھ لی لیکن عضو تناسل تھا کہ ابھی تک نرم نہ ہوا تھا۔ بہت کوشش کی کہ توجہ نماز میں لگائے لیکن خیالات بھٹک بھٹک جاتے تھے۔ اچانک سفیان کے ذہن میں عائشہ کی وہ بات آ گئی جب اس نے بتایا تھا کہ خانہ کعبہ میں لوگوں نے اس کے جسم کو چھوا تھا۔ اس وقت تو سفیان کو غصہ آیا تھا لیکن اب جذبات مختلف تھے۔ وہ اپنے ذہن میں خاکہ سا بنانے لگا کہ کیسے اس کی بیوی کو غیر مردوں نے چھوا ہو گا۔ وہ سوچنے لگا کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ عائشہ نے غیر مردوں کے چھونے سے لطف اٹھایا ہو۔ عائشہ کے ردعمل سے تو ایسا نہیں لگتا تھا۔ وہ تو غصے میں تھی اور اداس تھی کہ لوگ ایسی بیہودہ حرکات سے باز نہیں آتے۔
سفیان نے جلدی جلدی نماز ختم کی اور بغیر دعا کے جائے نماز اٹھا کر رکھ دی۔ عائشہ کے پہلو میں لیٹ کر سوچوں کا تانتا پھر سے باندھ لیا۔ کبھی اسے یہ سوچ کر مزہ آنے لگتا کہ اس کی پاکباز بیوی کو غیر مردوں نے چھوا۔ کبھی اسی بات پر اسے ندامت ہونے لگتی کہ وہ کیسا شوہر ہے کہ اپنی بیوی کو غیر مردوں کے چھونے پر مزے لے رہا ہے۔ یہ کشمکش اس وقت تک ہی جاری رہ سکی جب تک اس نے اپنے عضو تناسل کو ہاتھ نہیں لگایا کیونکہ جیسے ہی اس نے ٹراؤزر میں ہاتھ ڈال کر عضو تناسل کو چھوا، احساس ندامت ایسے ہوا ہو گیا جیسے تھا ہی نہیں۔ سفیان اپنی طرف سے باتیں بنا کر سوچنے لگا۔ عائشہ نے تو اسے یہی بتایا تھا کہ اسے غیر مردوں نے چھوا تھا لیکن سفیان سوچنے لگا کہ اگر کوئی غیر مرد اس کی بیوی کو نہ صرف چھوئے بلکہ چومے اور بے لباس کرے اور پھر اس کے ساتھ ہم بستری کرے تو عائشہ کو کیسا لگے گا۔ یہ سوچ ہی اس قدر گرم کر دینے والی تھی کہ سفیان کے عضو تناسل سے بے اختیار ایک دم سے مادہ منویہ خارج ہو گیا حالانکہ ابھی اس نے صرف ہاتھ میں پکڑا ہی ہوا تھا اور ہلایا نہیں تھا۔
سفیان اچھی طرح جانتا تھا کہ اس کی سوچ انتہائی واہیات ہے اور صرف جنسی جذبات کے زیر اثر وہ یہ سب کچھ سوچ رہا ہے۔ اس بات کا سب سے بڑا ثبوت تو یہ تھا کہ ڈسچارج ہوتے ہی اس کی یہ سوچ غائب ہو جاتی تھی اور شدید پچھتاوا ہوتا تھا کہ آخر اس نے ایسا کیوں کیا۔ لیکن کچھ دیر میں جب پچھتاوا دھیرے دھیرے ختم ہوتا اور وہ عائشہ کو دیکھتا تو پھر سے اسے کسی غیر مرد کے ساتھ تصور کر کے گرم ہونے لگتا۔ عجیب کیفیت تھی۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے۔
عمرے میں چند دن ہی باقی رہ گئے تھے۔ اس نے بمشکل عائشہ کو خانہ کعبہ چلنے کیلئے راضی کیا۔ احرام باندھے دونوں اللہ کے گھر کا طواف کر رہے تھے لیکن سفیان کی نظریں اور توجہ عائشہ کی جانب تھیں۔ عائشہ محتاط تھی کہ کہیں پھر سے پہلے جیسا واقعہ نہ ہو جائے۔ رش جمعہ سے تو کم تھا لیکن اتنا کم بھی نہیں تھا۔ عائشہ سفیان کے کہنے پر آ تو گئی تھی لیکن اسے یہی دھڑکا لگا تھا ہو نہ ہو اس کے ساتھ وہی سب کچھ پھر سے ہو گا اور کہیں کوئی بدمزگی نہ ہو جائے۔
اب جبکہ سفیان بھی عائشہ کے ساتھ پیش آئے واقعات سے آگاہ تھا تو اس کی توجہ بھی اس جانب ہی تھی البتہ بظاہر دونوں طواف میں مشغول تھے۔ کچھ ہی دیر میں دونوں کو یہ محسوس ہونا شروع ہو گیا کہ ان دونوں کے ارد گرد رش بڑھتا جا رہا ہے۔ آگے کیا ہونے والا تھا یہ دونوں کو معلوم تھا لیکن دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے کعبہ کے گرد چکر کاٹنے میں مصروف رہے۔
 

Quratulain Tahira

Quratulain Tahira