عائشہ سفیان کے بائیں جانب تھی اور اس کے بالکل پیچھے ایک ادھیڑ عمر مرد تھا۔ دائیں جانب ایک نوجوان لڑکا تھا۔ دونوں کسی اور ہی ملک کے لگتے تھے۔ توقع کے عین مطابق کچھ ہی دیر میں عائشہ کو اپنے بدن پر کسی کا لمس محسوس ہونا شروع ہو گیا۔ اس کے پیچھے آدمی اگرچہ اپنی طرف سے ایسے عائشہ کے جسم کو چھو رہا تھا جیسے وہ دانستہ ایسا نہ کر رہا ہو بلکہ رش کی وجہ سے خود بخود ایسا ہو رہا ہو لیکن عائشہ کو سب پتہ تھا۔
پتہ تو سفیان کو بھی تھا۔ عائشہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھامے چلتے چلتے جب ایک دم سے عائشہ کے ہاتھ میں وائبریشن ہوئی تو وہ سمجھ گیا تھا کہ یقیناً کسی نے اس کی بیوی کو چھوا ہے۔ احرام کے اندر اس کا عضو تناسل اکڑنے لگا اور وہ کوشش کرنے لگا کہ کسی طرح وہ کسی غیر مرد کو اپنی نئی نویلی بیوی کو چھوتے دیکھ سکے۔
عائشہ کی حالت عجیب تھی۔ پچھلی بار جب ایسا ہوا تھا تو اسے بے انتہا غصہ اور نفرت محسوس ہوئی تھی لیکن آج غصہ نہیں آیا بلکہ اسے ہلکا سا مزہ آیا۔ دل میں خود کو برا بھلا کہہ کر اس نے خود کو غصہ دلانے کی کوشش کی لیکن غصہ تھا کہ آ ہی نہیں رہا تھا۔ الٹا اسے مزہ آنے لگا۔ اس نے ایک لمحے کیلئے سفیان کی طرف مڑ کر دیکھا۔ سفیان نے بھی اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ دونوں نے بغیر کچھ کہے ایک دوسرے کو سب کچھ کہہ دیا۔ سفیان نہ اثبات میں سر ہلایا تو عائشہ دنگ رہ گئی۔ یعنی سفیان خود بھی چاہتا ہے کہ میں مزے لوں۔ عائشہ کو یقین نہیں آیا۔ اس نے تو اپنی طرف سے سفیان کو آنکھ کے اشارے سے بتایا تھا کہ کوئی اسے پیچھے سے چھونے کی کوشش کر رہا ہے اور اسے توقع تھی کہ سفیان اس کا ہاتھ تھامے جگہ تبدیل کرے گا یا اس مرد کو ہی گھور کر دیکھ لے گا سرزنش کے انداز میں لیکن جب سفیان نے اثبات میں سرہلا کر عائشہ کو آنکھ ماری تو عائشہ کی سمجھ میں نہ آیا کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔ اس کا شوہر خود اسے اجازت دے رہا ہے کہ وہ کسی غیر مرد کو اپنے جسم کو چھونے دے اور مزے لے؟ کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے؟ کیا سفیان حسد نہیں محسوس کر رہا؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں؟ عائشہ سوچ تو رہی تھی یہ سب کچھ لیکن ساتھ ہی ساتھ مزے بھی لے رہی تھی۔ پیچھے موجود مرد اب اپنے ہاتھ سے عائشہ کے نرم کولہے دبا رہا تھا۔ کبھی دائیاں تو کبھی بائیاں۔ جب وہ اپنا ہاتھ کولہوں کے درمیان لے جا کر ہلکا سا دباؤ ڈالتا تو بے اختیار عائشہ کے منہ سے سسکی نکل جاتی۔ سفیان کا عضو تناسل مکمل سختی کی حالت میں تھا اور عائشہ کی بڑھتی سسکیوں کی تاب لانا اب مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ ایک ہاتھ احرام کے اندر کر کے اس نے عضو تناسل کو چھوا لیکن فوراً ہی چھوڑ دیا کیونکہ اگر پکڑ کر رکھتا تو امکان تھا کہ وہیں ڈسچارج ہو جاتا۔ عائشہ نے سفیان کے ہاتھ ہر دباؤ بڑھا دیا تھا۔ یہ دباؤ تب تب مزید بڑھ جاتا تھا جب پیچھے موجود مرد عائشہ کی اندام نہانی ہر اپنی انگلیاں پھیرتا۔ عائشہ کی اندام نہانی مکمل تر ہو چکی تھی اور اس کے جنسی جذبات بھڑک اٹھے تھے۔ اللہ کے گھر کا طواف کرتے ہوئے اب انہیں عبادت سے زیادہ ہوس کا خیال تھا۔ بظاہر سب کی زبان ہر اللہم لبیک جاری تھا لیکن جب اس مرد نے عائشہ کے احرام کے اوپر سے ہی ایک انگلی اس کی اندام نہانی میں داخل کی تو عائشہ کے منہ سے صرف سسکیاں ہی نکل سکیں۔ احرام کا جو حصہ انگلی داخل کرنے سے اس کی اندام نہانی میں گیا تھا، وہ گیلا ہو گیا تھا۔ سفیان کو عائشہ کے ہاتھ کا اپنے ہاتھ پر دباؤ شدید سے شدید تر ہوتا محسوس ہو تھا۔ عضو تناسل بھی فولاد کی مانند سخت تھا اور سفیان کو لگتا تھا کہ کسی بھی لمحے ایک جھٹکے سے مادہ منویہ خارج ہو جائے گا۔ عائشہ کو اب اپنی اندام نہانی میں اس نامعلوم مرد کی انگلی اندر باہر ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔ خانہ کعبہ کے احاطے میں موجودگی کی وجہ سے، اتنے لوگوں کی موجودگی کی وجہ سے وہ کم وقت میں معمول سے زیادہ گرم ہو گئی۔
سفیان کو نہ جانے کیا ہوا اس نے اچانک عائشہ کا ہاتھ کھینچ کر اپنے احرام کے اندر کر دیا۔ عائشہ تو پہلے ہی جذبات میں بہہ رہی تھی، اس نے فوراً سفیان کا عضو تناسل تھام لیا اور ابھی ایک ہی بار ہاتھ پھیرا تھا کہ سفیان کے عضو تناسل کو جھٹکے لگنے لگے۔ مادہ منویہ کچھ احرام پر لگ گیا، کچھ عائشہ کے ہاتھ پر اور باقی سارا نیچے فرش پر گر گیا جو یقیناً پیچھے چلنے والے لوگوں کے پاؤں میں لگا ہو گا۔ عائشہ نے عضو تناسل تھامے رکھا اور بدستور ہلاتی رہی۔ جب سفیان ڈسچارج ہوا تو اس نے اتنی زور سے اللہم لبیک کہا کہ لوگ مڑ کر دیکھنے لگے۔ شاید وہ سب یہی سمجھے ہوں گے کہ اللہ کے گھر پہلی بار آنے والا جذباتی ہو رہا ہے۔ انہیں کیا معلوم کہ اللہ کے گھر میں اس کی بیوی کو غیر مرد کے چھونے پر وہ ڈسچارج ہو بیٹھا ہے۔
عائشہ کے پیچھے موجود مرد نے انگلی کی رفتار بہت تیز کر دی تھی کیونکہ اسے پتہ تھا کہ عائشہ بھی اب قریب ہی ہے۔ یہ مرد کافی تجربہ کار معلوم ہوتا تھا۔ سفیان کا عضو تناسل تھامے اللہم لبیک کی صداؤں میں جب عائشہ ڈسچارج ہوئی تو ایسا لگا کہ ٹانگوں سے جان نکل گئی ہو۔ ایسا شدید آرگیزم اسے اب تک نہیں ہوا تھا۔ لیکن وہ چلتی رہی کیونکہ رکنے سے طواف متاثر ہوتا تھا۔ طواف مکمل کر کے دونوں نے منی لگے احرام میں ہی نماز ادا کی اور ایک کونے میں جا بیٹھے۔ سفیان نے ستون سے ٹیک لگا لی اور عائشہ کا سر اپنی گود میں رکھ لیا اور اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا۔ عائشہ نے آنکھیں بند کر لیں اور گزشتہ واقعات کے بارے میں سوچنے لگی۔ اس کی زندگی میں اتنی بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں کہ اس کا ذہن سمجھنے سے قاصر تھا۔ شاید یہی اللہ کی رضا ہو۔