(یہ کہانی خدیجہ اور مائیکل والی کہانی کا تسلسل ہے۔ اگر پہلے وہ کہانی پڑھ لیں تو آپ کو ذیادہ مزہ آئے گا)
شارلٹ جانسن اور بلال نقوی پرنسپل آفس میں کھڑے اس انتظار میں تھے کہ پرنسپل اپنی بڑی سی میز پر موجود چند کاغذات پر دستخط سے فارغ ہو جائیں اور ان کی جانب متوجہ ہوں۔ کچھ ہی دیر میں آخری کاغذ پر دستخط کر کے پرنسپل اپنی سیٹ سے اٹھے اور میز کے گرد گھوم کر ان دونوں کے قریب آ گئے۔
"میں الفاظ میں نہیں بتا سکتا کہ پروگرام کے دوسرے شرکا سے مل کر میں کتنا خوش ہوں۔" پرنسپل نے ان دونوں سے باری باری ہاتھ ملایا۔
"سر میرے لئے تو اعزاز کی بات ہے کہ میں منتخب ہو پائی۔ تھینکس ٹو یو" شارلٹ نے پر جوش لہجے میں جواب دیا۔
"مطلب کی بات پر آتے ہیں۔ آپ دونوں کو بتاتا چلوں کہ پہلی بار پروگرام میں شرکت جھجک قدرتی ہے اور ابھی یہ پروگرام ابتدائی مراحل میں ہی ہے۔ اگرچہ مائیکل اور خدیجہ کی ریپورٹ مجھ تک پہنچ چکی ہے اور مجھے خوشی ہے کہ پہلا تجربہ ہی اس قدر کامیاب رہا۔ لیکن باوجود اس کے، میں آپ دونوں کو بتا دوں کہ آپ دونوں کا یہ پہلا تجربہ ہے اس قسم کے کام کا اور کئی ایسے واقعات ہوں گے جو آج سے پہلے آپ کے ساتھ پیش نہیں آئے ہوں گے۔" پرنسپل نے کہا۔
شارلٹ کا جوش مصنوعی نہیں تھا۔ وہ پروگرام میں حد سے زیادہ دلچسپی رکھتی تھی بلکہ وہ تو پروگرام کی پہلی شریک بھی بننا چاہتی تھی لیکن بورڈ نے چونکہ خدیجہ کا انتخاب کیا لہذا اسے صبر کرنا پڑا تھا لیکن جہاں اسے بورڈ کے انتخاب پر یقین تھا کہ انہوں نے خدیجہ کو میرٹ پر منتخب کیا ہو گا وہیں اس کے ذہن میں یہ شک بھی موجود تھا کہ ہو نا ہو خدیجہ کے انتخاب میں اس کے بڑے بڑے مموں کا بھی کردار رہا ہو گا ورنہ وہ کوئی کم خوبصورت تو نہیں تھی خدیجہ سے۔ بس ممے ذرا چھوٹے تھے۔
شارلٹ کو اب بھی یقین تھا کہ اگر اس کا انتخاب پہلے ہو جاتا تو وہ پروگرام کیلئے بہتر ثابت ہوتی۔ یہ بات وہ بھی مانتی تھی کہ خدیجہ میں سیکس اپیل اس کی نسبت ذیادہ تھی لیکن یہ پروگرام کوئی سیکس سے متعلق تو نہیں تھا نا۔ یہ تو طلبا کی ذہنی نشونما، ان کی انسانی جسم کے متعلق غلط فہمیوں کے ازالے اور ان کی بہتر تربیت پر مشتمل تھا۔ شارلٹ کو ذاتی طور پر یہ آئیڈیا بہت پسند آیا تھا اور وہ مکمل یقین رکھتی تھی کہ اس سے طلبا کی قابلیت میں اضافہ ہی ہو گا۔
بلال کی بات البتہ مختلف تھی۔ وہ مالی طور کمزور تھا اور کالج کے بعد یونیورسٹی کی فیس افورڈ کرنا اس کیلئے مشکل تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے پروگرام میں شرکت کیلئے اپلائی کیا تھا کیونکہ اسے امید تھی کہ ایسا کرنے سے پرنسپل اس کیلئے کوئی لیٹر لکھ دیں گے جس سے سکالرشپ ملنے کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔
لیکن بلال بہت زیادہ جھجکتا تھا۔ اس نے پچھلے ہفتے مائیکل اور خدیجہ کو پروگرام میں شرکت کرتے دیکھا تھا۔ یہ بھی دیکھا تھا کہ جب وہ دونوں مشکل صورتحال میں پھنسے ہوتے تو کئی طلبا محظوظ ہوتے تھے بلکہ کئی طلبا نے تو مائیکل کا مذاق بھی اڑایا تھا جب اس کا لن کھڑا ہو گیا تھا۔ بلال نہیں چاہتا تھا کہ اس کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو لیکن دل کو تسلی تھی کہ بس ایک دن کی ہی بات ہے۔ ایک دن کسی نہ کسی طرح گزار کر وہ سکالرشپ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں تھا۔
"ویسے تو مجھے یقین ہے کہ آپ دونوں نے پروگرام کے اصول و ضوابط پڑھ ہی لئے ہوں گے لیکن اگر کوئی سوال ہے آپ کے ذہن میں تو میں جواب دینے کیلئے تیار ہوں۔" پرنسپل نے کہا۔
"کیا ہمیں سیکیورٹی گارڈ ملے گا؟" بلال نے پوچھا۔
"ہاں ہاں کیوں نہیں۔ وہ آپ کے ساتھ ہی ہو گا۔ آپ کو مسز وارن نے پہلے ہی بتا دیا ہو گا کہ جو بھی آپ کو تنگ کرے گا یا پروگرام کے اصولوں کی خلاف ورزی کرے گا اس کی سزا یہ ہو گی کہ وہ پروگرام میں شامل ہوں گے۔ ہمارے کالج کے تمام طلبا اٹھارہ برس سے بڑی عمر کے ہیں اور بالغ ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ کئی طلبا بچگانہ حرکتوں سے باز نہیں آتے۔ اور ہاں بلال، اب آپ نے پوچھ ہی لیا ہے تو میں یہ بھی بتا دوں کہ ہم اپنی ڈسپلن پالیسی میں کچھ تبدیلیاں کر رہے ہیں اور آپ دونوں کے تجربے کی رپورٹ دیکھ کر ہم وہ پالیسی فائنل کریں گے۔ " پرنسپل نے بلال کو جواب دیا۔
"اگر آپ کو پروگرام کا سلسلہ ہی بند کرنا پڑ جائے تو پھر پروگرام میں مستقبل کی شمولیت سے کون ڈرے گا؟" بلال نے پوچھا۔
"تم فکر نہ کرو بلال۔ پروگرام ہو یا نہ ہو۔ تنگ کرنے والے طلبا کو سزا بہرحال ملے گی۔ ہم بس یہ چاہتے ہیں سزا ایسی ہو کہ طلبا کو سبق ملے۔ اور کوئی سوال؟"
بلال اور شارلٹ دونوں نے نفی میں سر ہلایا۔ بلال کو تو سارا دن ننگا گھومنا سزا سے کم معلوم نہیں ہوتا تھا۔ شارلٹ البتہ مسکرا رہی تھی۔
"ٹھیک ہے پھر۔ پہل کون کرے گا آپ میں سے؟" پرنسپل نے پوچھا۔
شارلٹ کا ہاتھ گولی کی رفتار سے بلند ہوا۔ "میں میں میں کروں گی پہل۔"
پرنسپل کا خیال تھا کہ لڑکی میں ذیادہ جھجک ہو گی لیکن یہاں معاملہ الٹ تھا۔
"شارلٹ میں آپ کے جوش سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ مسز وارن نے بھی آپ کی بہت تعریف کی تھی۔"
"شکریہ سر۔ کاش میں ان کی تعریفوں پر پوری اتر سکوں۔"
"ضرور۔ پھر شروع کریں اور اپنے کپڑے اتار دیں۔ یہیں سے پروگرام کا آغاز ہو گا اور یہیں اختتام ہو گا۔ اپنی آخری کلاس کے بعد آپ یہاں آ کر اپنے کپڑے وصول کر سکتے ہیں" پرنسپل نے کہا۔
"اوکے سر" شارلٹ نے کہا اور اپنے بلاؤز کے بٹن کھولنے لگی۔ اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ جس وقت کا انتظار تھا وہ وقت آن پہنچا تھا۔ شارلٹ نے پہلے ہی سوچ رکھا تھا کہ پورے دن میں اپنے جذبات اور احساسات کا بغور معائنہ کرے گی اور تفصیلی نوٹس تیار کرے گی تاکہ بعد ازاں اپنے تجربے کے بارے میں کوئی مضمون تحریر کر سکے۔
جوش اپنی جگہ لیکن جب درحقیقت کپڑے اتارنے کی باری آئی تو شارلٹ کو خود بخود جھجک محسوس ہونے گی۔ ڈاکٹر کے سامنے بھی اگر وہ کبھی ننگی ہوئی تھی تو اسے پرائویسی میں تنہائی میں کپڑے اتارنے کا موقع فراہم کیا جاتا تھا۔ کسی کے سامنے کپڑے اتارنے کا اس کا یہ پہلا تجربہ تھا اور جن کے سامنے اتار رہی تھی ان میں سے ایک کالج کا پرنسپل اور دوسرا ایک انجان اجنبی لڑکا جسے وہ جانتی تک نہیں تھی۔
دل ہی دل میں اپنے آپ کو تسلی دیتے ہوئے وہ بٹن کھولتی چلی گئی۔ سائیکالوجی کی طالبہ ہونے کے ناطے اسے یقین تھا کہ کوئی بھی سائیکالوجسٹ ننگے ہونے پر ذرا شرمسار نہیں ہو گا۔ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر سائیکالوجسٹ اتنا دھیان نہیں دیتے۔