Language:

Search

فیصل قسط نمبر 7

  • Share this:

پورا ایک مہینہ گزر گیا۔ فیصل، شنکر اور فیصل کی والدہ نے اب نیوڈزم پوری طرح سے اپنا لیا تھا۔ فیصل اور شنکر سکول سے اکٹھے فیصل کے گھر آتے جہاں فیصل کی والدہ ان کا انتظار کر رہی ہوتیں۔ آتے ساتھ وہ دونوں اپنے کپڑے اتار کر سلیقے سے الماری میں ٹانگتے۔ پھر منہ ہاتھ دھو کر تینوں اکٹھے کھانا کھاتے۔ فیصل کی والدہ ان دونوں سے دوران تناول ہی سکول میں گزرے وقت کے بارے میں پوچھتیں۔ اسی طرح ہنستے مسکراتے وقت گزر جاتا اور کھانا ختم ہو جاتا۔ پھر فیصل کی والدہ برتن سمیٹتیں اور دھوتیں جبکہ فیصل اور شنکر کمرے میں جا کر سکول کا کام کرتے۔ شروع شروع میں تینوں افراد ہی جنسی طور پر مشتعل ہو جاتے تھے لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، ان کا اپنے جنسی جذبات پر کنٹرول بڑھتا گیا۔ فیصل کی والدہ کو بھی یہ طرز زندگی بہت پسند آیا تھا۔ چونکہ ان کا گھر سے باہر بہت ہی کم جانا ہوتا تھا اس لئے سارا دن گھر میں ہی ننگی رہنا پڑتا تھا۔ اس سے پہلے جب وہ کپڑے پہنا کرتی تھیں تو وقت کا پتہ بھی نہیں چلتا تھا۔ گھر کے کام کاج اور ٹی وی دیکھنے میں وقت بہت جلدی گزر جاتا تھا لیکن جب سے انہوں نے ننگا پن اپنایا تھا، تب سے ان کے پاس فارغ وقت بہت زیادہ تھا۔ دراصل وقت تو اتنا ہی تھا، بات یہ تھی کہ ننگی ہونے کی وجہ سے ان کی کام کاج میں دلچسپی بہت بڑھ گئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جو کام پہلے وہ ایک گھنٹہ لگا کر کیا کرتی تھیں، اب وہی کام آدھے گھنٹے میں کر لیتی تھیں۔ ایسے میں جب فیصل کی والدہ گھر میں تنہا ہوتیں اور کرنے کو کوئی کام نہ ہوتا تو ان کا ہاتھ بے اختیار اپنی چوت کی جانب بڑھ جاتا۔ ایسے ہی نارمل انداز میں اپنی چوت کو انگلیوں سے آہستہ آہستہ مسلتی رہتیں لیکن مسلتے مسلتے جب چوت اندر سے مکمل گیلی ہو جاتی تو بے قابو ہو کر پہلے ایک انگلی اندر گھسا دیتیں، پھر دوسری۔ بسا اوقات تو تین انگلیاں ایک ساتھ اندر ڈال کر آگے پیچھے کرتی رہتیں، حتیٰ کہ ڈسچارج ہو جاتیں۔ جہاں انہیں کپڑوں کے بنا ایک آزادی کا سا خیال رہتا تھا وہیں ننگے پن نے ان کی جنسی طلب بھی کئی گنا بڑھا دی تھی۔ پہلے وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اداس ہوتی تھیں کہ منشی رام چند کا دن آنے والا ہے جبکہ اب وہ خود ہی منشی رام چند کے بارے میں سوچ کر فنگرنگ کرنے لگی تھیں۔ انہوں نے سوچا تو یہی تھا کہ منشی رام چند کے بارے میں حقیقت سے اپنے بیٹے فیصل اور اس کے دوست شنکر کو آگاہ کر دیں گی لیکن ابھی تک ان کی ہمت ہی نہیں بندھی تھی۔ منشی رام چند کے آنے میں اب صرف ایک ہفتہ باقی تھا۔ انہیں جو بھی کرنا تھا سات دن کے اندر اندر ہی کرنا تھا۔
دوسری جانب فیصل اور شنکر کے درمیان اب تعلقات کی نوعیت تبدیل سی ہو کر رہ گئی تھی۔ فیصل کو اب بھی شنکر کے لنڈ سے انسیت تھی جبکہ شنکر کو فیصل سے زیادہ اب فیصل کی والدہ میں دلچسپی تھی۔ شروع شروع میں تو وہ روزانہ اتنا گرم ہو جاتا تھا کہ اسے جلد اجازت لے کر ہاسٹل جانا پڑتا جہاں جا کر وہ فیصل کی والدہ کے تصور میں ڈوب کر ایک زوردار مٹھ مارتا تھا۔ آہستہ آہستہ وہ فیصل کی والدہ کو ننگی دیکھنے کا عادی ہوتا گیا۔ تقریباً تین ہفتوں کے بعد اب وہ اس قابل ہو گیا تھا کہ اگر فیصل کی والدہ اس کے سامنے ننگی بیٹھی ہوں اور ان کی پھدی شنکر کی نظروں سے اوجھل ہو تو وہ اپنے لنڈ کو کھڑا ہونے سے باز رکھ لیتا تھا۔ فیصل بیچارہ اگر کسی لڑکی میں کشش محسوس کرتا تھا تو وہ اس کی اپنی والدہ تھیں۔ والدہ کے علاوہ کسی اور لڑکی کو وہ دوسری بار نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا تھا۔ والدہ میں بھی اسے جو کشش محسوس ہوتی تھی وہ والدہ کا کسی اور مرد کے ساتھ تصور کر کے ہی ہوتی تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ فیصل اب ہم جنس پرستی میں داخل ہو چکا تھا تو غلط نہ ہو گا۔ شنکر نے فیصل کے ساتھ اب باڈی کانٹیکٹ کم کر دیا تھا۔ پہلے پہل وہ روزانہ ایک دوسرے کی مٹھ مارتے تھے اور ایک دوسرے کا لنڈ بھی منہ میں لے کر چوستے تھے لیکن جب سے شنکر نے فیصل کی والدہ کو ننگی دیکھا تھا، اس کے ذہن پر ایک ہی دھن سوار تھی کہ کسی طرح وہ فیصل کی والدہ کو چود سکے۔ ننگے رہ رہ کر اب ان تینوں میں بے تکلفی کافی بڑھ گئی اس کا ثبوت یہ تھا کہ پہلے پہل جب تینوں ایک دوسرے کے سامنے ننگے ہوئے تو ان کی کوشش یہی تھی کہ ایک دوسرے کے جسم کو چھونے سے ہر ممکن حد تک احتراز برتا جائے لیکن اب آہستہ آہستہ ان تینوں نے ہاتھ ملانے بھی شروع کئے بلکہ اب فیصل اور شنکر ایک دوسرے سے ننگے ہو کر گلے بھی ملتے تھے۔ خصوصاً جب شنکر ہاسٹل جانے کیلئے فیصل کے گھر سے روانہ ہوتا تو فیصل اسے گلے مل کر ہی رخصت کرتا تھا۔ فیصل کی والدہ شفقت بھرا ہاتھ شنکر کے سر پر پھیرتی تھیں جس سے شنکر کو شفقت کی بجائے کچھ اور ہی محسوس ہوتا تھا۔ مٹھ مارتے ہوئے وہ طرح طرح کی چیزیں تصور کرتا۔ فیصل کی والدہ کو پورن سٹار کے روپ میں تو کبھی ان کے منہ میں اپنا لنڈ گھسا کر۔ اب تو وہ جب بھی پورن دیکھتا تھا تو اسے لگتا تھا کہ سامنے فیصل کی والدہ ہی ہیں۔
ایسے ہی ایک دن جب فیصل اور شنکر سکول سے واپس آئے تو فیصل کی والدہ نے کھانا کھانے کے بعد ان دونوں کو ہدایت کی کہ سکول کا کام کر کے ڈرائنگ روم میں آ جائیں، ایک ضروری بات کرنی ہے۔ منشی رام چند کی آمد اگلے دن متوقع تھی اور فیصل کی والدہ کے پاس اب سوچ بچار کا وقت ختم ہو گیا تھا۔ اسی لئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ نتائج کی پرواہ کئے بغیر انہیں بچوں کو سب کچھ بتانا ہو گا۔ ویسے بھی ان کے اپنے منہ سے یہ بات سننا کسی اور کے منہ سے سننے سے بہتر تھا۔
 

Quratulain Tahira

Quratulain Tahira