"یہ ان دنوں کی بات ہے جب فیصل کے ابا کا انتقال ہوا۔ فیصل بہت چھوٹا تھا اور میں بھری جوانی میں بیوہ ہو کر بے سہارا۔ ایسے میں کسی رشتے دار نے کوئی مدد نہ کی۔ قریب تھا کہ میں بھیک مانگنے پر مجبور ہو جاتی کہ ایک ایسے شخص نے میری مدد کی جس سے مجھے مدد کی امید ہی نہیں تھی۔"
فیصل کی والدہ نے اتنا کہہ کر نظریں اٹھا کر ان دونوں کی جانب دیکھا۔
فیصل اور شنکر دونوں کی نگاہوں میں تجسس واضح تھا۔
فیصل کی والدہ نے بات جاری رکھی۔
"منشی رام چند نے فیصل کے والد کی وفات کے بعد مجھے سہارا دیا۔ ان کے مجھ پر اس قدر احسانات ہیں کہ میں زندگی بھر ان کے پیر دھو کر پیوں تو بھی ان کے احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتی۔"
فیصل اپنی والدہ کی باتیں سن کر حیران تھا کیونکہ اس کے والد کی زندگی میں منشی رام چند نے کبھی ان سے ہنس کر بات تک نہ کی تھی اور وفات کے بعد اس کے والدہ پر اس قدر احسانات؟ یقیناً دال میں کچھ کالا ہے۔
فیصل کی والدہ کی آنکھوں میں آنسو تھے اور شنکر بھانپ گیا تھا کہ وہ مزید واضح انداز میں کچھ بھی کہنے سے ہچکچا رہی ہیں۔ انہیں مزید مشکل میں ڈالنے کی بجائے وہ فیصل کے پاس سے اٹھ کر اس کی والدہ کے ساتھ جا بیٹھا اور ایک بازو ان کی گردن کے پیچھے سے گزار کر ان کے کندھے کو ہاتھ سے مسلنے لگا۔ فیصل کی والدہ اپنے پر قابو نہ رکھ پائیں اور ان کی آنکھوں سے پانی نکلنے لگا۔ شنکر نے حوصلہ دیا لیکن اس کا الٹا ہی اثر ہوا اور فیصل کی والدہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ شنکر نے دوسرے ہاتھ سے ان کے چہرے پر سے آنسو صاف کرنے چاہے مگر فیصل کی والدہ نے اس کا ہاتھ پیچھے دھکیل دیا اور ایک دم اس کے سینے سے اپنا چہرہ لگا دیا۔ وہ روئے چلے جا رہی تھیں۔ شنکر انہیں دلاسہ دینے کی اپنی سی کوشش جاری رکھے ہوئے تھا جبکہ فیصل ہکا بکا بیٹھا تھا۔ اسے سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کیا کرے۔ اس کی خوبصورت ننگی والدہ اس کے ننگے دوست کے ساتھ چپکی بیٹھی تھیں اور ان کے جسموں کا ملاپ فیصل کو ایک عجیب طرح کی لذت مہیا کر رہا تھا۔ باوجود کوشش کے وہ اپنے لنڈ کو کھڑا ہونے سے نہ روک پایا۔ اسے ڈر تھا کہیں شنکر یا اس کی والدہ کی نظر اس کے لنڈ پر نہ پڑ جائے اسلئے اس نے ایک ہاتھ لنڈ پر رکھ لیا۔
شنکر فیصل کی والدہ کا دکھ سمجھ چکا تھا۔ اس کے مسلسل حوصلہ دینے پر ان کا رونا کم ہو گیا لیکن وہ اب بھی شنکر سے چپکی بیٹھی تھیں۔ شنکر کے دونوں ہاتھ ان کے جسم پر تھے۔ ایک ان کی کمر پر جبکہ دوسرا ان کے چہرے پر۔ فیصل کی والدہ کے پستان شنکر کے سینے اور پیٹ کے بالکل درمیان چھو رہے تھے۔ جب تک فیصل کی والدہ روتی رہیں، شنکر کی تمام تر توجہ ان کو چپ کروانے پر مرکوز رہی لیکن ان کے چپ ہونے پر اس کی توجہ خود بخود ان کے جسم پر مرکوز ہو گئی۔
فیصل کی والدہ بالکل بے سدھ شنکر کے جسم سے چپکی بیٹھی تھیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے آہستہ آہستہ وہ کسی گہری سوچ میں ہیں۔
شنکر البتہ اپنے اوپر قابو برقرار رکھنے میں دشواری کا سامنا کر رہا تھا۔ اگرچہ اس کا کالا لنڈ ابھی تک کھڑا نہیں ہوا تھا لیکن اسے ڈر تھا کہ اگر فیصل کی والدہ ایسے ہی چپکی رہیں تو لنڈ کھڑا ہونے میں کچھ زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور سر صوفے سے ٹکا کر ذہن کہیں اور لگانے کی کوشش کرنے لگا۔ اس نے سوچا تھا کہ خیالات کی تبدیلی سے اس کی توجہ فیصل کی والدہ سے ہٹ جائے گی اور وہ شاید اس میں کامیاب بھی ہو جاتا اگر فیصل کی والدہ اس کا لنڈ نہ تھام لیتیں۔
شنکر کی آنکھیں بند تھیں لیکن فیصل نے سب کچھ دیکھا تھا۔ کیسے اس کی والدہ نے آنکھیں کھولی تھیں اور فیصل ان کی آنکھوں میں بدلے ہوئے تاثرات دیکھ کر حیران تھا لیکن اس کی کی والدہ نے اسے زیادہ دیر تک تجسس میں نہیں رکھا تھا۔ اپنے بیٹے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے انہوں نے اپنا ہاتھ شنکر کے کالے لنڈ کی طرف بڑھایا اور اسے تھام لیا۔ عین اسی لمحے دو کام ہوئے۔ شنکر کی آنکھیں ایک جھٹکے سے کھل گئیں اور فیصل کے لنڈ سے منی نکل گئی۔ وہ لنڈ پر ہاتھ رکھے غسل خانے کی جانب بھاگا جبکہ فیصل کی والدہ نے چہرے کا رخ موڑ کر شنکر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔
شنکر کے جسم میں جیسے بجلی کی لہریں دوڑ گئیں۔ ایک جھٹکے سے اس کا لنڈ کھڑا ہو گیا۔ فیصل کی والدہ کو نہ جانے کیا ہو گیا تھا۔ ایک ہاتھ شنکر کے لنڈ پر رکھ کر اسے مسلے جا رہی تھیں تو دوسرے ہاتھ کی شہادت کی انگلی شنکر کے ہونٹوں پر رکھ کر اسے خاموش رہنے کی بے الفاظ تلقین بھی کر دی۔ شنکر کے دیکھتے ہی دیکھتے فیصل کی والدہ نے اپنا چہرہ نیچے کیا اور اس کے لنڈ پر ایک بوسہ ثبت کر دیا۔ شنکر کو لگتا تھا جیسے وہ سورگ میں ہے۔ سورگ ہندو جنت کو کہتے ہیں۔ فیصل کی والدہ نے اس کے لنڈ کا اگلا حصہ اپنے منہ میں داخل کیا اور منہ اوپر نیچے کرنے لگیں۔
فیصل نے غسل خانے میں اپنا لنڈ دھویا اور واپس آنے کیلئے قدم بڑھایا ہی تھا کہ یہ سوچ کر رک گیا کہ اپنی والدہ کا سامنا کیسے کرے گا۔ وہ کیا سوچیں گی کہ وہ کیسا بیٹا ہے جو اپنی ہی ماں کو دیکھ کر مٹھ مار بیٹھا ہے۔ ابھی وہ ان ہی سوچوں میں گم تھا کہ کمرے سے شنکر کی آہ کی آواز آئی۔ اس نے بجائے باہر جانے کے دروازے سے جھانک کر دیکھا اور منظر دیکھ کر اس کے ہوش اڑ گئے۔
فیصل کی والدہ شنکر کے لنڈ پر منہ رکھے اسے ایسے چوس رہی تھی جیسے اس میں سے آب زم زم نکلنے کی امید ہو۔ فیصل کو اپنی والدہ کی آنکھوں میں ایسی چمک نظر آئی جو اس نے مہینوں میں نہیں دیکھی تھی۔ یقیناً وہ بے انتہا خوشی محسوس کر رہی تھیں۔ فیصل کا ایک ہاتھ اپنے لنڈ کی طرف بڑھ گیا اور وہ اپنی والدہ پر نظریں گاڑے اسے سہلانے لگا۔
شنکر تو جیسے ہواؤں میں اڑا جا رہا تھا۔ اس کے ہاتھ فیصل کی والدہ کے سر پر تھے اور وہ آہستہ آہستہ ان کا سر نیچے دھکیل رہا تھا تاکہ اپنا لنڈ ان کے منہ میں پورا داخل کر دے۔ تقریبآ تین چوتھائی لنڈ تو پہلے ہی ان کے منہ میں تھا اور وہ بغیر وقفے کے اپنا منہ اس پر اوپر نیچے کر رہی تھیں۔ فیصل کی والدہ کے منہ میں اتنی گرمی تھی کہ شنکر کو لگتا تھا وہ ڈسچارج ہو جائے گا۔ فیصل کی والدہ نے بھی یہ بات بھانپ لی تھی۔ انہوں نے ایکبار اپنے ہونٹ اوپر کی جانب کئے تاکہ اس کا لنڈ پورا کا پورا ان کے منہ سے باہر آ گیا سوائے ٹوپے کے۔ پھر انہوں نے ایک زوردار جھٹکے سے اپنا منہ نیچے کیا اور شنکر کا لنڈ پورا ان کے منہ میں سما گیا۔ شنکر نے دونوں ہاتھوں سے فیصل کی والدہ کا سر اپنے لنڈ پر دبا دیا تاکہ وہ اس کا لنڈ باہر نہ نکال سکیں۔
پانچ سیکنڈز، دس سیکنڈز, تیس سیکنڈز گزرے۔ ایک منٹ گزر گیا۔ فیصل کی والدہ کا منہ مکمل بھرا ہوا تھا اور لنڈ کا اگلا حصہ ان کے حلق میں تھا جس کی وجہ سے ان کی سانس رک رہی تھی۔ انہوں نے ہاتھ ہوا میں ہلانے شروع کر دئیے کہ جیسے شنکر کو اشارے کر رہی ہوں کہ انہیں سانس نہیں آ رہی۔ شنکر سمجھ تو رہا تھا لیکن وہ اتنی جلدی اتنے بھرپور مزہ ختم نہیں کرنا چاہتا تھا۔
فیصل بھی دیکھ رہا تھا کہ اس کی والدہ کے حلق سے خرررر خرررر کی آوازیں آ رہی ہیں اور ہونٹوں کے دونوں جانب سے تھوک بہنے لگا ہے۔ بطور فرمانبردار بیٹے کے اس کا فرض تھا کہ فوراً اپنی ماں کو اس مصیبت سے چھٹکارا دلاتا لیکن وہ بے غیرتوں کی طرح اپنے لنڈ پر اور تیزی سے ہاتھ چلانے لگا۔ نہ جانے اپنی ماں کو اس حالت میں دیکھ کر اسے کیوں اتنا مزہ آ رہا تھا۔
پانچ منٹ ہونے کو تھے۔ شنکر بدستور فیصل کی والدہ کا سر اپنے لنڈ پر دبائے ہوئے تھا اور فیصل کی والدہ اب ہیجانی انداز میں اپنے ہاتھ ہلا رہی تھیں۔ بلاآخر شنکر نے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے ہاتھ ان کے سر سے ہٹا ہی لئے۔ فیصل کی والدہ نے سر اٹھایا اور ایسے سانس لینے لگیں جیسے مرتے مرتے بچی ہوں۔ شنکر کے چہرے پر ایک مسکراہٹ تھی۔ اس نے فیصل کی والدہ کو زیادہ دیر تک موقع نہیں دیا اور ان کا سر پکڑ کر پھر سے اپنے لنڈ پر رکھ دیا اور لنڈ ان کے منہ میں اوپر نیچے کرنے لگا۔ اب کی بار وہ اس تیزی سے ان کے منہ کو اپنے لنڈ پر اوپر نیچے کرنے لگا کہ جیسے کوئی منہ نہ ہوا بلکہ پھدی ہو گئی۔ وہ اپنے لنڈ سے فیصل کی والدہ کے منہ کو ایسے چود رہا تھے جیسے کسی پھدی کو چود رہا ہو۔
فیصل کی والدہ کے منہ سے تھوک بہہ رہا تھا اور منہ سے آوازیں نکل رہی تھیں۔ ان کے ساتھ پہلی بار کسی نے ایسا کیا تھا اور کرنے والا بھی کوئی اور نہیں ان کے اپنے سگے بیٹے کا ہندو دوست تھا۔ لیکن انہیں یہ سب برا نہیں لگا بلکہ جتنی تیزی سے شنکر ان کے منہ کو اپنے لنڈ پر دھکیلتا تھا، ان کی پھدی اتنی ہی گیلی ہوتی جاتی تھی۔ ایک ہاتھ اپنے ٹانگوں کے بیچ لے جا کر وہ اپنی پھدی مسلنے لگیں۔
فیصل کو کچھ ہوش نہیں تھا۔ اس کی نظریں اپنی والدہ کے جسم سے چپک کر رہ گئی تھیں۔ والدہ نے بھی تو کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ پہلے شنکر کا لنڈ ایسے چوستی رہیں جیسے وہ کوئی مسلمان باکردار خاتون نہیں بلکہ کوئی بازاری رنڈی ہیں اور پھر جب لنڈ چوس چوس کر تھک گئیں تو شنکر کے اوپر چڑھ گئیں۔ شنکر کا کالا ناگ جیسا لنڈ اپنی والدہ کی چوت میں داخل ہوتے دیکھنا فیصل کیلئے ایک ناقابل فراموش واقعہ تھا لیکن حیران کن طور پر ناخوشگوار نہیں۔ فیصل کو بطور مسلمان، بطور ایک بیٹے کے غصہ آنا چاہیے تھا لیکن اسے دور دور تک بھی غصے کے کوئی آثار محسوس نہیں ہو رہے تھے۔ اگر کوئی جذبہ تھا تو صرف ہوس۔
فیصل کی والدہ شنکر کے لنڈ پر ایسے سواری کر رہی تھیں جیسے کسی گھوڑے پر بیٹھی ہوں اور گھوڑا سرپٹ دوڑ رہا ہو۔ شنکر اور فیصل کی والدہ اس قدر محو تھے ایک دوسرے میں کہ انہوں نے فیصل کی موجودگی کو مکمل نظر انداز کر دیا تھا۔ فیصل نے اپنا پینسل کے مشابہ لنڈ جسے للی کہنا زیادہ مناسب ہو گا، چھوڑ دیا کیونکہ اسے لگتا تھا کہ اگر وہ ایسے ہی مسلتا رہا تو بہت جلدی منی خارج کر بیٹھے گا۔ اچانک اس کے ذہن میں خیال آیا کیوں اپنی والدہ کے جسم کو چھو کر دیکھے۔ اگر دور سے دیکھنے پر اتنا مزہ آ رہا تھا تو چھونے پر تو یقیناً کہیں زیادہ مزہ آئے گا۔
یہی سوچ کر فیصل غسل خانے سے نکل کر واپس آیا اور صوفے پر بیٹھ گیا۔ اس کی والدہ کی پشت اس کی جانب تھی۔ ہاتھ بڑھا کر اس نے اپنی والدہ کے کولہوں کو چھونا چاہا لیکن ایک لمحے سے بھی پہلے شنکر نے اس کا ہاتھ بری طرح جھٹک دیا۔ شنکر کے دونوں ہاتھ اس کی والدہ کے چوتڑوں پر تھے اور وہ انہیں اٹھا کر اپنے لنڈ پر زور سے دبا رہا تھا۔ فیصل کو شدید ہتک محسوس ہوئی لیکن کچھ کرنے کی ہمت اپنے اندر نہ پا کر چپکا بیٹھا رہا۔
فیصل کی والدہ نے چند جھٹکوں کے بعد ایک زوردار چیخ ماری اور ان کا جسم ایسے جھٹکے کھانے لگا جیسے ہزار وولٹ کا کرنٹ ان کے جسم سے گزر رہا ہو۔ فیصل سمجھ گیا کہ وہ ڈسچارج ہو گئی ہیں۔ تقریباً آدھا منٹ ایسے جھٹکے کھانے کے بعد وہ شنکر کے جسم پر گر گئیں۔ شنکر نے کچھ دیر رکنے کے بعد انہیں ایک سائیڈ پر دھکیلا اور خود نیچے سے نکل کر ان کے پیچھے آ گیا۔ فیصل کی والدہ خود ہی صوفے پر اپنے ہاتھوں اور پیروں پر ڈوگی پوزیشن میں آ گئیں۔ بالکل ایک کتیا کی طرح۔ شنکر نے اپنا لنڈ ان کی چوت کے دہانے پر رکھا اور ایک ہی جھٹکے میں پورا اندر گھسا دیا۔ فیصل کی والدہ کے حلق سے ایک فلک شگاف چیخ بلند ہوئی۔ شاید انہیں درد ہوا تھا کیونکہ ڈسچارج ہونے کے بعد چوت گیلی نہ رہی تھی۔ شنکر نے البتہ کوئی لحاظ نہ کیا۔ فیصل کی والدہ بدستور چیخیں مارتی رہیں لیکن ایک آدھ منٹ کے بعد ان کی چیخیں خود بخود لطف اندوز آوازوں میں بدل گئیں۔
شنکر نے جی بھر کر فیصل کی والدہ کو چودا۔ فیصل کی اپنی والدہ کو چھونے کی دوبارہ ہمت تک نہ کوئی۔ ایسا لگتا تھا جیسے شنکر نے اس کی والدہ پر قبضہ کر لیا ہو۔
فیصل اپنی والدہ کو چدتے دیکھتا رہا اور سوچتا رہا۔ مختلف سوچیں اس کے ذہن میں آتی گئیں اور وہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ کیا اس کی والدہ اندر سے ایک رنڈی ہی تھیں ہمیشہ سے۔ اس کے ذہن میں گزرے کوئے ان گنت لمحات ایک فلم کی طرح چلنے لگے۔ کیسے اس کی والدہ پانچ وقت نماز پڑھتی تھیں بلکہ اب بھی پڑھتی ہیں۔ کیسے وہ اپنے حجاب کا خیال رکھتی تھیں کہ کہیں کوئی نا محرم انہیں دیکھ نہ لے۔ اوپر سے اتنی پاکیزہ اور اندر سے ایک گشتی. فیصل کی سوچ کا رخ اپنی والدہ سے ہٹ کر دیگر مسلمان لڑکیوں اور خواتین کی جانب چلا گیا۔ کیا باقی خواتین بھی اندر سے ایسی ہی ہیں۔ اس کا دماغ کہہ رہا تھا کہ ہاں تمام مسلمان خواتین اندر سے رنڈی ہی ہوتی ہیں۔ بات صرف موقع ملنے کی ہے اور رازداری کی ہے۔ اگر مسلمان خواتین کو یہ گارنٹی ہو کہ ان کی پاکدامنی معاشرے میں ایسے ہی برقرار رہے گی تو وہ اپنی چوت کی پیاس بجھانے کیلئے ہر حد تک جانے کو تیار ہوتی ہیں۔ اپنی والدہ کی مثال تو اس کے سامنے ہی تھی۔
فیصل کی سوچوں کا تانتا تب ٹوٹا جب اس کے کانوں میں شنکر کی آواز آئی۔ وہ اس کی والدہ کی چوت میں ہی ڈسچارج ہو گیا تھا اور جب اس نے اپنا لنڈ فیصل کی والدہ کی چوت سے باہر نکالا تو اس کی منی بھی باہر نکل کر بہنے لگی۔ فیصل کی والدہ کچھ دیر ایسے کتیا بنی رہیں اور ان کی چوت سے شنکر کی منی بہتی رہی۔ فیصل کیلئے تابوت میں آخری کیل اپنی والدہ کی وہ ادا ثابت کوئی کہ جب انہوں نے کتیا بنے ہوئے اپنے چوتڑ ایسے ہلائے جیسے کوئی پورن سٹار ہلاتی ہے۔ فیصل کے لنڈ سے بھی منی نکل گئی لیکن محض دو جھٹکوں میں ہی ساری نکل گئی۔ شنکر کے مقابلے میں اس کی منی کی مقدار بہت کم تھی۔
شنکر اور اس کی والدہ بغیر کچھ کہے، ایک دوسرے کی بانہوں میں ہاتھ ڈالے غسل خانے کی طرف چل نکلے۔ غسل خانے میں ان کے اٹھکھیلیاں کرنے کی آوازیں سن کر فیصل کا لنڈ پھر سے کھڑا ہونے لگا تھا لیکن فیصل مزید مٹھ نہیں مارنا چاہتا تھا۔ وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ اس رات وہ سو نہیں سکا۔ ایک تو سوچیں اور اوپر سے شنکر اور اسکی والدہ کی آوازیں۔ وہ لوگ ساری رات چدائی کرتے رہے تھے۔