Language:

Search

حلالہ (قسط نمبر 3)

  • Share this:

مذہبی رحجان ہونے کی وجہ سے فاطمه کے والد نے جھجھکتے جھجھکتے اپنی زوجہ کو حلالہ کے مسائل سمجھا تو دئے لیکن اپنی زوجہ کے چہرے کا رنگ شرم سے لال ہوتے دیکھ کر انہیں خود بھی شرم آ گئی. اگر دین میں یہ حکم نہ ہوتا تو شائد وہ ایسا کبھی سوچتے بھی نا. چونکہ اب دین کا حکم تھا، الله کی رضا تھی، نبی پاک صلی الله علیہہ وسلم کی بھی یہی مرضی تھی تو وہ کون ہوتے تھے انکار کرنے والے. ان کے لئے تو دین کے احکام سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں تھا، دین کی راہ میں جان قربان ہو جاۓ تو وہ بھی کم تھا. 

فاطمه کا بھی کچھ ایسا ہی رد عمل تھا جیسا اس کی والدہ کا تھا. شرم سے چہرہ لال بھبھوکا ہو گیا اور اگرچہ زبان سے کچھ نہیں کہ سکی لیکن دل میں سوچے بنا نا رہ سکی کہ دین کا یہ حکم عجیب و غریب ہے. بھلا غلطی سے طلاق ہو بھی گئی ہے تو ایک پردے دار خاتون کو واپس اپنے شوہر سے رجوع کرنے کے لئے کسی غیر مرد کے بستر کی زینت بنانا عجیب نہیں تو کیا ہے. لیکن یہ بس سوچ ہی تھی. دین کے احکام سے روگردانی تو ممکن نہیں تھی اور اگر دین کے احکام پر عمل کرنا ہی تھا تو پھر دل میں بھی کسی حکم کو برا ماننا غیر منطقی تھا کیونکہ اگر خوش دلی سے دین کے احکام پر عمل کیا جاۓ تو یقیناً الله بھی خوش ہوں گے اور ثواب بھی ملے گا. اسکی مثال ایسی ہی ہے جیسے کے ایک شخص بے دلی سے نماز پڑھے اور ایک شخص خوش دلی سے تو یقیناً خوش دلی سے نماز پڑھنے والے سے ہی الله خوش ہوں گے اور ثواب بھی اسے ہی ملے گا. بے دلی سے نماز ادا کرنے والے کے حصے میں سواۓ گناہ کے اور کچھ نہیں آے گا. فاطمه کو بات تو سمجھ آ گئی تھی اور الله کی خوشنودی اس کے لئے بہرحال سب سے پہلے تھی لیکن پھر بھی شوہر کے علاوہ کسی مرد سے جسمانی تعلقات قائم کرنا ایک ایسا عمل تھا کہ جھجھک اور ہچکچاہٹ دل میں رہنی ہی تھی. والدہ کی بات سمجھ کر فاطمه نے انہیں یقین دلا دیا کہ وہ الله کی رضا میں راضی ہے اور جیسا الله اور اسکے رسول چاہتے ہیں، میں ویسا ہی کروں گی. والدہ کی آنکھوں میں بیٹی کی دین سے رغبت دیکھ کر بے اختیار آنسو آ گۓ اور انہوں نے آگے بڑھ کر فاطمه کی پیشانی چوم لی. انہیں آج اپنی تربیت پر بے انتہا فخر محسوس ہو رہا تھا.

فاطمه کے والد نے اپنے بیٹوں کو بھی اعتماد میں لیا اور انہیں آگاہ کیا کہ اگلا مرحلہ ایک ایسے شخص کی تلاش ہے جو فاطمه کو ایک رات کے لئے اپنے نکاح میں لے اور فاطمه کے ساتھ ہم بستری بھی کر سکے. فاطمه کے والد نے جب سے علم دین کا لیکچر سنا تھا، دین کی خدمات کا جذبہ ان کے دل میں موجزن تھا اور وہ احادیث پر من و عن عمل کرنا چاہتے تھے. چونکہ ان احادیث میں عدت سے متعلق کوئی ہدایت نہیں تھی، لہٰذا فاطمه کے والد عدّت ختم ہونے سے پہلے ہی یہ معاملہ نمٹا دینا چاہتے تھے. اپنے اپنے حلقہ احباب میں فاطمه کے والد اور بھائیوں نے کسی قبل اعتماد شخص کی تلاش شروع کر دی.

فاطمه کو اگرچہ یہ سارا معاملہ عجیب لگا تھا لیکن جب رات کو سونے کیلئے تنہائی میں بستر پر دراز ہوتی اور اپنے سابقہ خاوند علی کی یاد ستاتی، تو وہ سوچنے لگتی کہ نا جانے کیسا شخص ہو گا جس کے ساتھ اس کا حلالہ ہو گا. کیا وہ بھی علی ہی کی طرح ہو گا. نا جانے اس کے جسم کا لمس اپنے جس پر کیسا لگے گا. یہ اور اس جیسے ان گنت سوالات فاطمه کے دماغ میں گردش کرتے اور فاطمه بجاے علی کے بارے سوچنے کے، اپنے حلالہ والے شخص کے بارے میں زیادہ سوچتی. جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا، ویسے ویسے علی اس کے دل سے محو ہوتا جا رہا تھا اور اب زیادہ تر وقت اس کے دل میں حلالہ کے متعلق ہی خیالات آتے. یہ بات نہیں تھی کہ وہ علی کی طرف لوٹ کر نہیں جانا چاہتی تھی، وہ تو دل و جان سے علی کی بیوی بن کر بقیہ زندگی گزرنا چاہتی تھی. بات یہ تھی کہ متوقع حلالہ نے اس کی سوچوں کو اس بری طرح جکڑ لیا تھا کہ اب اس کی توجہ حلالہ پر مرکوز ہو کر رہ گئی تھی. آخر کو تھی تو وہ بھی انسان ہی نا. اس کے بھی تو جذبات تھے. جنسی جذبات جنہیں پہلے تو علی ٹھنڈا کر دیا کرتا تھا لیکن اب ایک مہینے سے نا تو علی سے بات ہو پائی تھی اور نا ہی اسے جنسی سکوں میّسر ہوا تھا. حلالہ کو سوچ کر فاطمه کے جنسی جذبات بھڑک بھڑک جاتے تھے لیکن وہ خود پر قابو رکھتی اور قابو نا بھی رکھتی تو کرنے کو تھا بھی کیا. اب تو اس کا دل کرتا تھا کہ بس جلدی سے حلالہ والا دن آ جاۓ اور اس کی پاس بجھ جاۓ تاکہ وہ اپنے خاوند کے پاس لوٹ سکے.


 

Quratulain Tahira

Quratulain Tahira