Language:

Search

حلالہ (قسط نمبر 5)

  • Share this:

ایک طرف علی اوندھا لیٹا آنسو بہا رہا تھا اور دوسری طرف بلال دروازہ بند کر کے فاطمه کی طرف بڑھ رہا تھا. ایک طرف علی اپنے کے پر پچھتا رہا تھا اور دوسری طرف بلال کو اپنی قسمت پر رشک آ رہا تھا. ایک طرف علی گزرے واقعات پر نادم تھا اور دوسری طرف بلال فاطمه کا گھونگٹ اٹھاتے ہوے الله کا شکر ادا کر رہا تھا. ایک طرف علی بےچینی سے کروٹیں بدل رہا تھا اور دوسری طرف بلال فاطمه کے ہونٹ چوم رہا تھا. ایک طرف علی کا سر درد سے پھٹا جا رہا تھا اور دوسری طرف بلال دھیرے دھیرے فاطمه کو بے لباس کر رہا تھا. ایک طرف علی کو اپنی بیوی کی یاد بے پناہ ستا رہی تھی اور دوسری طرف اسکی بیوی جھجھکتے ہوے بلال کا ساتھ دے رہی تھی. ایک طرف علی کے ہونٹ خشک ہو رہے تھے اور دوسری طرف فاطمه کے ہونٹ بوس و کنار سے تر ہو گۓ تھے. ایک طرف علی کی حالت خراب سے خراب تر ہو رہی تھی اور دوسری طرف فاطمه کی جھجھک کم ہوتی جا رہی تھی. ایک طرف علی مایوس تھا اور دوسری طرف فاطمه کے دل میں ہلچل تھی. ایک طرف علی نہ چاہتے ہوے بھی یہ سوچنے پر مجبور تھا کہ اس وقت اس کی بیوی کسی غیر مرد کے ساتھ کمرے میں اکیلی ہے اور دوسری طرف فاطمه کے دل میں علی کا خیال تک نہیں تھا. ایک طرف علی کی آنسوں میں آنسو جھلک رہے تھے اور دوسری طرف فاطمه کی آنکھوں میں خوشگوار چمک تھی. 

بلال نے بنا کوئی وقت ضایع کئے اپنا کام شروع کر دیا تھا. کمرے میں آ کر اس نے دروازہ بند کیا اور آہستگی سے فاطمه کی جانب بڑھا. گھونگٹ اٹھا کر بے اختیار آسمان کی طرف دیکھا اور الله کی بزرگی کے کلمات ادا کئے. فاطمه نظریں جھکاے بیٹھی رہی. بلال نے تھوڑی پر انگلی رکھ کر اس کا چہرہ بلند کیا تو دونوں کی نظریں ٹکرائیں. فاطمه نے ایک دم سے نظریں نیچی کر لیں. لیکن بلال نے بغیر کچھ کہے آگے بڑھ کر فاطمه کے رسیلے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے. ایک بوسہ، دو بوسے، تین بوسے اور اس کے بعد تو لائن ہی لگ گئی. فاطمه کی جھجھک کم ہو گئی. وہ بلال کا ساتھ دینے لگی. پہلے پہل اس کا خیال تھا کہ یہ رات محض رسمی کاروائی ہے اور مباشرت براۓ نام ہی ہو گی لیکن بلال کا 

روّیہ تو کوئی اور ہی کہانی سنا رہا تھا. سچ یہ ہے کہ بلال کے بے باکانہ رویے نے ہی فاطمه کی جھجھک ختم کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا تھا. وہ بوس و کنار میں مدہوش ہی چلی جا رہی تھی. بلال کے ہونٹ تو فاطمه کے ہونٹوں پر تھے لیکن اس کے ہاتھ فاطمه کا لباس اتارنے میں مشغول تھے. ہونٹ سے ہونٹ ملاۓ اس نے جب فاطمه کو لباس سے بے نیاز کر دیا تو پیچھے ہٹ کر دیکھنے لگا. فاطمه شرما سی گئی لیکن بلال ٹک ٹک دیکھتا رہا. فاطمه کا حسن تھا ہی لازوال. دودھیا رنگ کا بدن. سینے پر دو عدد پستان ایسے ایستادہ تھے کہ جیسے مسجد کے دو گنبد. نہ بہت چھوٹے نہ بہت بڑے. بلکل مناسب سائز کے. اور ان پستانوں پر گلابی رنگ کے نپلز ایسے لگتے تھے جیسے کریم کیک پر رکھی چیری. ٹانگوں کے درمیان لکیر جس کے دونوں جانب گلابی رنگ کے ہونٹ. یہ ہونٹ تو چہرے والے ہونٹوں سے بھی زیادہ رسیلے معلوم ہوتے تھے. شائد فاطمه بوس و کنار سے جنسی طور پر مشتعل ہو گئی تھی اور اب اس کا اثر اس کی ٹانگوں کے درمیان اندام نہانی کے ہونٹوں پر چمکتے قطروں سے ٹپک رہا تھا. بلال کی نظریں اوپر سے نیچے کی جانب جاتی رہیں اور اس کی متناسب جانگوں اور پنڈلیوں سے ہوتی ہوئی اس کے خوبصورت پیروں پر آ کر رکیں. وہ تو دیوانہ ہو گیا تھا. نظریں فاطمه کے جسم پر جماۓ اس نے اپنے کپڑے اتارنے شروع کئے. ایسا لگتا تھا جیسے وہ کسی جادو کے زیر اثر آ گیا ہو. پہلے قمیض اتاری، پھر شلوار اور پھر الف ننگی حالت میں فاطمه کی جانب بڑھا اور اپنا ننگا بدن اس کے ننگے بدن سے مس کر دیا. فاطمه اس کی باہوں میں سما گئی. بلال کا رنگ گہرا گندمی تھا اور سیاہی مائل تھا. فاطمه اور بلال کے رنگ میں اس قدر فرق تھا کہ لگتا تھا دونوں متضاد ہیں. ایک گوری چٹی اور دوسرا سیاه. بلال کا عزو تناسل فاطمه کو اپنے جسم پر مس ہوتا محسوس ہو رہا تھا اور صرف مس ہونے سے ہی اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ اس کے سابقہ شوہر علی کے عزو تناسل سے کہیں بڑا اور موٹا ہے. اگرچہ ایک ماہ سے مباشرت نہ کرنے سے فاطمه پیاسی تھی لیکن بلال کے عزو تناسل کی لمبی اور موٹائی بھانپ کر کسی حد تک گھبرا بھی گئی.

بلال نے شائد فاطمه کے پورے جسم پر بوسے کرنے کا تہیہ کر رکھا تھا کیونکہ وہ ہونٹ چھوڑتا تو گردن کو چومنے لگتا اور گردن کے بعد اس کے گالوں پر بوسے ثبت کرنے لگتا. فاطمه کی آہیں اور سسکیاں اب بلند ہونے لگی تھیں لیکن وہ بھرپور کوشش کر رہی تھی کہ زیادہ بلند نہ ہونے پائیں کیونکہ لکڑی کا دروازہ اور پتلی پتلی دیواریں آوازوں کو اپنے اندر محدود نہیں رکھ سکتی تھیں. فاطمه کا اندیشہ درست تھا. اسکی آوازیں ہلکی ہلکی باہر آ رہی تھیں لیکن گھر والے ایسے اپنے اپنے کاموں میں مشغول تھے کہ جیسے سب کچھ نارمل ہو. فاطمه کی بیٹی اپنے نانا نانی کے ہمراہ کھیل رہی تھی اور اس کے بھائی فاطمه اور بلال کے ساتھ والے کمرے میں تھے.

بلال نے جب اپنا چہرہ فاطمه کے سینے پر مرکوز کیا اور اس کے چیری جیسے نپلز کو منہ میں لیا تو فاطمه کے منہ سے بے اختیار ہلکی سی چیخ نکل گئی. بلال کو پرواہ نہیں تھی. اس کا جوش ہر لمحے بڑھ رہا تھا. فاطمه کے نپلز پر منہ گاڑے وہ باری باری دونوں نپلز چوسنے لگا. فاطمه نے منہ پیچھے کی جانب جھٹک دیا تھا اور ماہی بے اب کی طرح تڑپ رہی تھی. ایک ہاتھ نیچے لے جا کر بلال نے فاطمه کی ٹانگوں کے درمیان رکھا تو نمی سے اس کی انگلیاں بھیگ گئیں. بلال یک دم پیچھے ہوا اور فاطمه کی ٹانگیں اٹھا کر اپنے کندھوں پر رکھیں اور عزو تناسل فاطمه کی اندام نہانی پر رکھ کر اندر کرنے لگا. کوشش تو اسکی یہی تھی کہ ایک ہی جھٹکے میں اندر گھسا دے اور توقع بھی یہی تھی کہ وہ کامیاب رہے گا لیکن فاطمه کی اندام نہانی اتنی تنگ تھی کہ محض عزو تناسل کا اگلا حصّہ ہی اندر جا پایا. اور اس پر بھی فاطمہ کی آہیں سننے لائق تھیں. فاطمه آہ آہ کر رہی تھی لیکن بلال اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ آہیں درد کی آہیں نہیں بلکہ لذّت کی آہیں ہیں. حقیقت تو یہ تھی کہ یہ آہیں بلال کا جذبہ بڑھاۓ چلے جا رہی تھیں. بلال نے پوری قوت سے ایک اور جھٹکا لگایا. اس بار فاطمہ کی چیخ باہر تک سنائی دی تھی اور فاطمه کی والدہ کا دل دہل گیا. انہوں نے اپنے خاوند سے اجازت چاہی کہ بیٹی کی خیریت پتا کر آئیں لیکن فاطمه کے والد نے انہیں منع کر دیا کہ آج کی رات بیٹی بلال کی امانت ہے اور بلال جیسے چاہے اسے استعمال کرے. مداخلت کی صورت میں حلالہ میں خلل کا امکان ہے اور پیچیدگیاں پیدہ کرنا اس وقت کسی کے حق میں نہیں. فاطمه کی والدہ مجبوراً بستر پر لیتی اپنی بیٹی کی ہلکی ہلکی چیخیں سنتی رہیں جو کہ بتدریج بلند ہوتی جا رہی تھیں. بلند ہونے کی وجہ اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتی تھی کہ بلال نے ایک کے بعد ایک دھکا لگا کر اپنا عزو تناسل فاطمه کی اندام نہانی میں پورا گھسا ڈالا تھا. اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے فاطمہ کی اندام نہانی نے اس کے عزو تناسل کو مضبوطی سے تھام رکھا ہو. تنگی اتنی تھی کے چکناہٹ کے باوجود اسے عزو واپس باہر نکالنے میں کافی محنت کرنی پڑی. ایسا لگتا ہی نہیں تھا کہ فاطمه شادی شدہ ہے اور ایک بچی کی ماں ہے. بلال کو تو ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ کسی کنواری لڑکی سے مباشرت کر رہا ہو. اس نے عزو باہر کھینچا لیکن دہانہ اندر رہنے دیا اور پوری قوت سے دھکا لگایا. فاطمه کی چیخوں کی پرواہ نہ کرتے ہوے اس نے مشینی انداز میں عزو تناسل کو اندر باہر کرنا شروع کر دیا. فاطمه کے منہ سے آہ آہ جاری رہی، بلال کا عزو تناسل اندر باہر ہوتا رہا، فاطمه کو ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ آسمانوں پر اڑ رہی ہو. اتنی لذّت اسے پہلے کبھی محسوس نہ ہوئی تھی. وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر بلال کا عزو تناسل اپنی اندام نہانی میں لیتے ہوے بے پناہ لذّت میں کراہتی رہی اور بلال اس کے چہرے کو دیکھ کر فاطمه کی پاس بجھاتا رہا. فاطمه کو کچھ ہوش نہیں تھا. چند منٹوں میں ہی اس کی آہیں بڑھ گئیں اور وہ ڈسچارج ہو گئی لیکن بلال نہ رکا. وہ تب تک فاطمه کی گلابی پھولوں کی پنکھڑی جیسی اندام نہانی میں اپنا عزو تناسل اندر باہر کرتا رہا جب تک خود اس کے عزو تناسل سے مادہ منویہ نہ نکل گیا اور اتنا نکلا کہ فاطمہ کی اندام نہانی مکمل بھر گئی اور مادہ اس کے ہونٹوں سے باہر نکل کر بیڈ شیٹ تر کرنے لگا. بلال فاطمه کے اوپر ہی گر گیا. دونوں کی سانسیں بہت تیز تھیں. فاطمه نے پیار سے اپنے دونوں ہاتھ بلال کی کمر کے گرد باندھ دیے اور اس کے گال پر ایک بوسہ ثبت کر دیا.

کچھ دیر میں بلال کا عزو تناسل اپنی سختی کھو بیٹھا اور نرم پڑ کر اندام نہانی سے باہر نکل آیا. بلال فاطمه کے اوپر سے ہٹ گیا اور اسے اپنی باہوں میں لے کر لیٹ گیا. نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی. ابھی تو رات کا آغاز ہوا تھا.

 
Quratulain Tahira

Quratulain Tahira