یجہ کے والدین اگرچہ پاکستانی تھے لیکن وہ امریکہ میں پیدا ہوئی تھی، وہیں پلی بڑھی تھی۔ خدیجہ ایک قابل طالبہ تھی۔ اپنی کلاس کی پریزیڈنٹ تھی۔ جس کالج میں وہ پڑھتی تھی وہ ایک چھوٹا سا پرائیویٹ کالج تھا۔ اسے اپنا کالج بہت پسند تھا۔ کالج کے ہر فنکشن میں وہ آگے آگے ہوتی تھی اور ہر طرح کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھی۔ اسے اپنا کالج اور کالج لائف اس قدر پسند تھی کہ اسے کالج کا سٹاف، اساتذہ اور طلبا اپنی فیملی کا حصہ لگتے تھے۔
آج پیر کا دن تھا اور خدیجہ کالج کے پرنسپل کے دفتر کے باہر بیٹھی تھی۔ پرنسپل کا نام ڈاکٹر برن تھا۔ خدیجہ کی ملاقات دراصل آج تک پرنسپل سے اس طرح نہیں ہوئی تھی۔ کئی مواقع پر اس نے پرنسپل سے ہاتھ ملایا تھا خصوصاً جب وہ کلاس پریزیڈنٹ بنی تھی لیکن وہ تمام مواقع انتہائی مختصر نوعیت کے تھے جن میں صرف ہیلو ہائے ہی ہو سکی تھی۔ صرف انیس سال کی عمر میں کلاس پریزیڈنٹ بننا اور اب اس طرح پرنسپل کا اسے آفس میں بلانا اس کیلئے کسی اعزاز سے کم نہیں تھا۔ جب اسے پرنسپل آفس کی طرف سے پیغام ملا کہ پرنسپل اس سے ملنا چاہتے ہیں تو اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا۔ اس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا تھا اور پیشانی پر ہلکا سا پسینہ بھی آ گیا۔ عموماً وہ اتنی نروس کبھی نہیں ہوتی تھی حتیٰ کہ کالج کے بڑے بڑے فنکشنز میں کافی بڑے عہدے داروں سے بھی مصافحے کے دوران خدیجہ کی باڈی لینگویج اس کے کانفیڈنس کا پتہ دیتی تھی لیکن پرنسپل سے اس کے آفس میں ملاقات بہرحال فنکشن میں ہاتھ ملانے سے مختلف عمل تھا۔ کالج میں پرنسپل سے اوپر تو کوئی نہیں تھا اور اگر خدیجہ پرنسپل کی گڈ بک میں آ گئی تو اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتا تھا۔
پرنسپل آفس کے باہر بیٹھے یہ سب سوچنے سے خدیجہ کا منہ خشک ہونے لگا۔ اس نے ایک اور چیونگم منہ میں ڈال لی۔ چیونگم چبانا اس کی پرانی عادت تھی جس سے اس کی سانس ترو تازہ رہتی تھی۔
آج وہ اپنی طرف سے اپنا سب سے بہتریں لباس زیب تن کر کے آئی تھی۔ گلابی رنگ کا بلاؤز، گلابی سکرٹ، ٹانگوں پر جالی دار ٹائٹ ہوز اور پاؤں میں ہیلز۔ یہ لباس زیادہ اوور بھی نہیں تھا اور خدیجہ کی شخصیت میں پروفیشنل رحجان کو نمایاں کرتا تھا۔ یاد رہے ایسا لباس وہ اپنی کلاس میں کبھی پہننے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ اس کا کالج ویسے بھی قدرے روایتی واقع ہوا تھا اور طالبعلموں کو ٹی شرٹ وغیرہ پہننا ممنوع تھا۔ آج البتہ خدیجہ نے چونکہ کلاس میں نہیں جانا تھا اس لئے اس نے ایسا لباس پہنا تھا۔ وہ پرنسپل سے ملنے جا رہی تھی اور لباس ایسی کسی بھی میٹنگ میں اہمیت رکھتا تھا۔
صرف لباس ہی نہیں، خدیجہ نے پرفیوم کا استعمال بھی ضرورت سے زیادہ کیا تھا۔ جتنا زیادہ اسے انتظار کرنا پڑ رہا تھا، اتنا ہی زیادہ وہ نروس ہو رہی تھی۔ کبھی لباس کے بارے سوچتی کہ کچھ اور پہن لیتی تو بہتر تھا تو کبھی کسی اور بارے سوچنے لگتی کہ کوئی کمی نہ رہ گئی ہو۔
آخر یہ میٹنگ ہے کس بارے؟
پرنسپل آخر اس سے ہی کیوں ملنا چاہتے ہیں؟
کیا اسے کوئی ایوارڈ ملنے کا امکان ہے؟
آخری سوال پر اس نے اپنا سر جھٹک دیا جیسے کہہ رہی ہو کہ ایسے بھلا کامیابی تھوڑا ملتی ہے۔ کامیابی کیلئے محنت کرنا پڑتی ہے۔
اچانک فون کی آواز آئی اور خدیجہ نے سر اٹھا کر سامنے دیکھا۔ یہ مسز ایڈورڈز کے فون کی آواز تھی۔ وہ پرنسپل آفس کی انتظامی امور کی انچارج تھیں۔ ان کا چھوٹا سا شیشے کا آفس ایک کونے میں بہت خوبصورت لگتا تھا۔ شیشے میں سے آواز تو سنائی نہیں دے رہی تھی لیکن جب مسز ایڈورڈز نے فون رکھا تو وہ اپنے کیبن نما آفس سے باہر نکل آئیں اور مسکرا کر خدیجہ سے کہا، "پرنسپل اب آپ سے ملنے کیلئے تیار ہیں۔"
"جی میڈم، میں بھی تیار ہوں" خدیجہ ایک دم سے اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنے ردعمل پر مسکرانے لگی۔
مسز ایڈورڈز نے خدیجہ کی مسکراہٹ کا جواب مسکراہٹ سے دیا۔ انہیں معلوم تھا کہ پرنسپل سے ملتے ہوئے طالب علم اکثر نروس ہو جاتے تھے۔ انہوں نے لکڑی کے دروازے کی طرف اشارہ کر کے خدیجہ سے کہا، "آپ اس دروازے سے داخل ہو جائیں، مس خدیجہ۔"
"تھینک یو میڈم۔" خدیجہ کا جواب نپا تلا تھا۔ اس نے مضبوطی سے دروازے کا ہینڈل گھمایا اور دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی۔
پرنسپل آفس واقعی شاندار تھا۔ اتنا وسیع و عریض آفس اس نے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ ایک طرف پرنسپل کی میز اور کرسی تھی تو دوسری طرف ایک صوفے رکھ کر ایک میٹنگ ایریا بنایا گیا تھا۔ دیوار پر گزشتہ پرنسپل کی تصاویر آویزاں تھیں۔ خدیجہ یہ سوچے بنا نہ رہ پائی کہ کاش کسی دن وہ بھی کالج پرنسپل بن سکے۔
خدیجہ کے آفس میں داخل ہونے پر پرنسپل اپنی کرسی سے اٹھ کر آگے آئے اور خدیجہ کو ان الفاظ میں خوش آمدید کہا:
"گڈ مارننگ مس خدیجہ، مجھے خوشی ہے کہ اتنی صبح آپ نے میرے لئے وقت نکالا۔"
"کیوں نہیں سر" خدیجہ نے پرنسپل کا مصافحے کیلئے بڑھا ہوا ہاتھ مضبوطی سے تھام کر کہا۔ وہ یہ تاثر نہیں دینا چاہتی تھی کہ وہ کوئی کمزور لڑکی ہے۔ البتہ اسے یہ اندیشہ ضرور تھا کہ پیشانی پر پسینہ کے چند قطرے کہیں پرنسپل کو نظر نہ آ جائیں لیکن اسے توقع تھی کہ اس کے بال اور ہئیر اسٹائل ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ کالے لمبے گھنے بال قدرتی گھنگریالے تھے جو ماتھے پر لٹوں کی صورت میں بکھرے رہتے تھے۔ آج اس نے لٹوں کو ایسے سنوارا تھا کہ یہ نہ محسوس ہو کہ وہ بال بنائے بغیر ہی آ گئی ہے۔
"مس خدیجہ، ان سے ملئے۔ یہ ہمارے کالج کی امور نسواں کی انچارج ہیں. مسز وارن۔" پرنسپل نے خدیجہ کا مسز وارن اے تعارف کروایا۔
خدیجہ نہ صرف انہیں پہلے سے جانتی تھی بلکہ ایک پروجیکٹ پر ان کے ساتھ کام بھی کر چکی تھی۔
"جی۔ میری ان سے ملاقات ہے پہلے بھی۔" خدیجہ نے مسز وارن سے مصافحہ کیا۔
پرنسپل نے انتہائی شائستگی سے خدیجہ کی کمر پر ہاتھ رکھ کر صوفے کے طرف اشارہ کیا جیسے کہہ رہے ہوں کہ اب ادھر بیٹھ کر مزید بات چیت کریں گے۔ خدیجہ ان کی بات سمجھ گئی اور آگے بڑھ کر صوفے پر بیٹھ گئی لیکن صوفہ اتنا نرم تھا کہ خدیجہ کو لگا وہ اندر دھنس سی گئی ہے اور سکرٹ تھوڑا اونچا ہو گیا ہے۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر سکرٹ کو ٹانگوں پر نیچے کی طرف کھینچا۔ دل میں یہی دعا کر رہی تھی کہ اس کا اس طرح سے سکرٹ کو کھینچنا کہیں آفس کے آداب کے خلاف نہ ہو اور وہ دونوں اسے نظر انداز ہی کر دیں۔ اسے ڈر دراصل یہ تھا کہ کہیں پرنسپل یہ نہ سمجھیں کہ ان کے مرد ہونے کہ وجہ سے خدیجہ نے سکرٹ نیچے کیا ہے اور نہ ہی وہ یہ تاثر دینا چاہتی تھی کہ وہ کوئی فلرٹ کر رہی ہے۔ صوفے پر بجائے ٹیک لگانے کے وہ اٹھ کر کنارے پر بیٹھ گئی۔ یہ پوزیشن اتنی آرام دہ نہیں تھی لیکن لیکن مناسب تھی۔ اس نے ٹانگ پر ٹانگ رکھ لی اور ہاتھ اپنی ٹانگوں پر رکھ کر ہلانے لگی۔
پرنسپل شاید وقت ضائع کرنے کے عادی نہیں تھے۔ وہ فوراً مطلب کی بات پر آ گئے۔ "مس خدیجہ آج ہم نے آپ کو یہاں اس لئے بلایا ہے کہ کالج کیلئے آپ کی خدمات کی وجہ سے میرے دل میں آپ کیلئے بے پناہ عزت ہے۔"
"سر میں نے تو کچھ ایسا خاص نہیں کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ کسی بھی طالب علم کو موقع ملے تو وہ میری طرح ہی کرے گا۔"
پرنسپل اور مسز وارن دونوں مسکرا اٹھے۔ دونوں کو پتہ تھا کہ خدیجہ انکساری سے کام لے رہی ہے۔
"عاجزی کی ضرورت نہیں مس خدیجہ۔ جتنے برس میں یہاں پرنسپل رہا ہوں میں نے آپ کی ہم عمر کسی سٹوڈنٹ کو آپ کی طرح اتنا ایکٹو نہیں دیکھا۔" پرنسپل کی تعریف پر خدیجہ شرما کر رہ گئی۔ محنتی تو وہ تھی لیکن تعریف کرنے پر پرنسپل کی شکر گزار بھی تھی۔ اس کے ذہن میں بے اختیار یہ سوچ آ گئی کہ شاید اسے انعام کے طور پر پرنسپل آفس میں کوئی انٹرنشپ آفر کی جائے گی۔ اگر ایسا ہوا تو وہ بخوشی قبول کر لے گی۔ خدیجہ نے یہی سوچتے ہوئے پرنسپل کا شکریہ ادا کیا۔
"نہیں نہیں ۔ شکریہ کی بات نہیں ۔ یہ آپ کا حق ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ آپ کی کارکردگی اور قائدانہ صلاحیتیں دیکھ کر ہی میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ایک سپیشل اسائنمنٹ آپ کو دی جائے۔ یہ اسائنمنٹ ایسی ہے کہ میں آپ کے علاوہ کسی اور سٹوڈنٹ پر اس بارے بھروسہ نہیں کر سکتا۔"
"مجھے قبول ہے سر" خدیجہ کی آواز میں جوش تھا۔
پرنسپل اس کے جوش پر مسکرا اٹھے۔ جیسا انہیں مسز وارن نے بتایا تھا خدیجہ بالکل ویسی ہی تھی۔ ابھی انہوں نے اسائنمنٹ بتائی بھی نہیں تھی اور خدیجہ اس قدر پرجوش تھی کہ پہلے ہی قبول کر بیٹھی تھی۔
"مجھے امید ہے کہ آپ کا جوش ایسے ہی تب بھی برقرار رہے گا جب آپ اسائنمنٹ کی تفصیل سنیں گی۔"
"جی بالکل سر۔" خدیجہ تھوڑی اور سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔ جب پرنسپل اسے سپیشل اسائنمنٹ کیلئے اپنے آفس بلائیں گے تو جوش آنا تو قدرتی تھا۔
"یہ تو اچھی بات ہے کیونکہ ہم ایک ایسا پروگرام شروع کرنے جا رہے ہیں جو اپنی نوعیت کا پہلا پروگرام ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ اسے اس انداز میں نافذ کریں کہ خطے کے باقی کالج ہمارے نقش قدم پر چلیں۔"
خدیجہ سوچنے لگی کہ کسی انٹرنشپ کیلئے تو اتنی بڑی بات نہیں کہی جا سکتی۔ یہ تو معمولی انٹرنشپ سے کہیں بڑا پروجیکٹ معلوم ہوتا ہے۔ وہ تفصیلات سننے کیلئے ہمہ تن گوش تھی۔
"کیا آپ پروگرام سے واقف ہیں؟" پرنسپل نے خدیجہ سے پوچھا۔
ایک لمحے کو تو خدیجہ کے ذہن میں کچھ نہ آیا لیکن پھر ایک جھماکے سے اس کا ذہن ان بے تحاشا پوسٹرز کی جانب چلا گیا جو کالج میں جگہ جگہ آویزاں تھے۔ کالج کے آفیشل رسالے میں بھی اس پروگرام کا تذکرہ تھا۔ پروگرام کا موضوع ہی ایسا تھا کہ یہ کالج میں زبان زد عام تھا لیکن بشمول خدیجہ سب طالب علم اسے ایک پریکٹیکل لطیفے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے۔ ان سب کے خیال میں اس پروگرام پر عملی زندگی میں عمل درآمد ناممکن تھا۔
جب پرنسپل نے خدیجہ کو سوچ میں ڈوبے دیکھا تو انہیں اپنے انتخاب پر شک ہوا کہ مبادا انہوں نے پروگرام کیلئے درست لڑکی کا انتخاب بھی کیا ہے یا نہیں۔
"خدیجہ، آپ پروگرام سے کس حد تک واقف ہیں؟" پرنسپل نے خدیجہ سے پھر پوچھا۔
خدیجہ نے پہلے سوچا کہ لا علمی کا اظہار کر دے۔ دراصل پروگرام تھا ہی اتنا عجیب و غریب کہ اس بارے پرنسپل سے بات کرتے وہ جھجھک محسوس کر رہی تھی۔ لیکن پھر اس نے سوچا کہ آج وہ جس مقام پر تھی وہاں پہنچی ہی اس لئے تھی کہ اس نے ہمیشہ ایسے مواقع پر اپنے کانفیڈنس کو استعمال کر کے جھجھک پر قابو پایا تھا۔ اس نے تھوک نگلا، نظریں اٹھا کر پرنسپل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور مضبوط لہجے میں بولنا شروع کیا، "جی میں نے پروگرام کے بارے یہی سنا ہے کہ یہ طلبا میں ان کے بدن سے آگاہی اور شعور پیدا کرنے کیلئے ہے۔"
"مختصراً یہی بات ہے۔ آپ واقعی انتہائی ذہین ہیں مس خدیجہ۔"
"شکریہ سر لیکن میں یہ ماننے میں عار محسوس نہیں کرتی کہ میں نے ہمیشہ یہی سمجھا کہ پروگرام ایک پریکٹیکل لطیفے سے زیادہ کچھ نہیں۔ "
پرنسپل اور مسز وارن دونوں ہی ہنس پڑے۔ خدیجہ کو سمجھ نہیں آئی کہ آیا اس کی بات درست ہے اور کیا واقعی یہ ایک پرینک ہے؟ اور کیا وہ بھی پرینک کا حصہ بن چکی ہے۔ اگر ایسی بات تھی تو یہ تو بہت غلط ہے۔ خدیجہ سوچ رہی تھی اس نے کتنے چاؤ سے آج تیاری کی تھی۔ اگر یہ صرف ایک پرینک کیلئے تھی تو اسے بہت مایوسی ہونی تھی۔
پرنسپل نے خدیجہ کے چہرے پر مایوسی کے تاثرات بھانپ کر فوراً ہی کہا، "نہیں نہیں ، یہ کوئی لطیفہ یا پرینک نہیں۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ اسے آپ نے کیوں پرینک سمجھا لیکن پروگرام ایک حقیقت ہے اور ہم اپنے انڈر گریجویٹ نصاب میں اسے شامل کرنا چاہتے ہیں۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ ہم پہلا کالج بننا چاہتے ہیں جو اسے نافذ کرے تو زیادہ مناسب ہو گا۔"
خدیجہ کی آنکھیں مارے حیرت کے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ تو کیا پروگرام واقعی سچ تھا؟ اس کے دل کی دھڑکن بہت تیز ہو گئی۔
پرنسپل نے بات جاری رکھی: "سچی بات تو یہ ہے کہ میں اپنے کالج کو اس پروگرام کیلئے نہایت موزوں ہے۔ یہاں لڑکوں اور لڑکیوں کو یکساں مواقع دستیاب ہیں اور ہم چاہتے ہیں مسز وارن کے وژن سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ ایک وقت تھا کہ ہمارا کالج پوری ریاست میں نمبر ون تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ پروگرام کے نافذ ہونے پر ہمارا کالج پھر سے ریاست میں پہلی پوزیشن پر آ جائے گا۔ میری یہاں تقرری کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ میں اس کالج کو پوری ریاست میں ٹاپ پر لے آؤں۔ "
خدیجہ کو پرنسپل کی تقرری کے وقت کے قصے یاد تھے۔ ہر کوئی یہی سمجھتا تھا کہ نئے پرنسپل انقلابی فیصلے کریں گے۔
"ہمیں نمبر ون بننا ہے خدیجہ اور ہمیں تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔" پرنسپل نے خدیجہ سے کہا۔
خدیجہ اب بھی سوچوں میں گم تھی۔ اب اسے اچھی طرح معلوم ہو گیا تھا کہ اتنی صبح اسے یہاں بلانے کا کیا مقصد تھا۔ وہ سٹوڈنٹ لیڈر ضرور تھی لیکن وہ خود سے کبھی بھی اپنے آپ کو رضاکارانہ طور پر پروگرام کا حصہ بننے کیلئے پیش نہ کرتی۔ برہنہ پن؟ کون پاگل ایسا کرنے کا سوچے گا بھی۔ لیکن ایک نقطہ یہ بھی تھا کہ دنیا میں آگے نکلنا اتنا اسان نہیں۔ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ایسے ہو نئی چیزوں کو لیڈ کرنے والے لوگ سب سے آگے نکل جاتے ہیں۔ جب اس نے یہ سوچا تو اسے کچھ فخر بھی محسوس ہوا کہ پرنسپل نے پروگرام جیسے مشکل کام کی سربراہی کیلئے اس کا انتخاب کیا۔ اب اسے مسز وارن کی یہاں موجودگی کا مقصد بھی سمجھ آ گیا تھا۔ کسی بھی فی میل کیلئے پبلک میں برہنہ ہونے سے متعلق گفتگو نرم سے نرم الفاظ میں بھی ایک انتہائی حساس موضوع تھا۔
"میں تیار ہوں سر"
"زبردست مس خدیجہ" پرنسپل اور مسز وارن دونوں ہی خدیجہ سے شدید متاثر نظر آ رہے تھے۔ ان دونوں کو ہی یہ توقع تھی کہ انہیں کسی بھی لڑکی کو راضی کرنے کیلئے کافی پاپڑ بیلنے پڑیں گے لیکن یہ کوئی عام لڑکی نہیں تھی۔ یہ تو خدیجہ تھی، ہمیشہ ہر کام کیلئے تیار۔ محنت اور لگن کی جیتی جاگتی تصویر۔
"مس خدیجہ۔ آپ یقیناً ایسا معیار سیٹ کریں گی جو بعد میں پروگرام میں شرکت کرنے والوں کیلئے مشعل راہ ہو گا۔ یہ بھی کہتا چلوں کہ آپ کا نام اس کالج کی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا کہ آپ نے پروگرام کے نفاذ میں بے مثال کردار ادا کیا۔"
خدیجہ اب مجسم فخر تھی۔ اتنی تعریفوں کی تو اسے خواب میں بھی توقع نہیں تھی اور خصوصاً کالج کی تاریخ میں نام آنا ایک بہت بڑی بات تھی۔
"سر میں تو کالج کی خدمت کیلئے کسی بھی کام کیلئے تیار ہوں۔"
"ہم بہت متاثر ہیں آپ سے خدیجہ۔ اور خوش بھی بہت ہیں۔" مسز وارن نے پہلی بار منہ کھولا۔
"سر، اس کا آغاز کیسے ہو گا؟" خدیجہ نے یہ سوال اس لئے پوچھا تھا کیونکہ وہ یہی سمجھ پائی تھی کہ چونکہ اسے لیڈر منتخب کیا گیا تھا اس لئے اب اسے پروگرام کیلئے کسی لڑکے کا انتخاب کرنا ہو گا۔ اسے یقین تھا کہ لڑکی کے ساتھ پروگرام میں شرکت کیلئے کافی لڑکے بلا جھجک تیار کو جائیں گے لیکن خدیجہ کو کسی مضبوط اعصاب والے لڑکے کا انتخاب کرنا تھا۔ اب وہ ذہنی طور پر اپنے آپ کو بطور لیڈر تیار کر رہی تھی
"آغاز تو ظاہر ہے کپڑے اتارنے سے ہی ہو گا۔" پرنسپل نے جواب دیا۔
"کیا؟؟؟" خدیجہ کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا، "میرے کپڑے؟"
"جی مس خدیجہ، پروگرام آج سے ہی شروع ہو رہا ہے۔ ہمارا یہی خیال ہے کہ پہلی بار کپڑے اتار کر کسی کے سامنے برہنہ ہونے کیلئے پرنسپل آفس بہترین جگہ ہے۔ اس سے ہمیں پروگرام میں شرکت کرنے والے طالب علموں کے رویے کا تجزیہ کرنے میں بھی آسانی ہو گی۔
خدیجہ کے دماغ میں طوفان برپا تھا۔ وہ تو سمجھی تھی کہ اسے پروگرام کے انتظامی امور کی سربراہی کیلئے منتخب کیا گیا ہے۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اسے پروگرام میں اس طرح سے شرکت کرنا ہو گی۔ کیا کروں؟ کیا کروں؟ اس نے سوچا انکار ہی کر دے۔ یقیناً پرنسپل اور مسز وارن سمجھ جائیں گے کہ خدیجہ کو غلط فہمی ہوئی تھی۔ لیکن دو مرتبہ اتنے مضبوط اور پرجوش لہجے میں پروگرام میں شرکت کی حامی بھرنے کے بعد ایسے انکار کرنا کہیں اسے ان کی نظروں میں گرا نہ دے۔ کیا سوچیں گے وہ خدیجہ کے بارے میں کہ پہلے اقرار کیا اور اب مکر گئی۔ ہو سکتا ہے بعد میں جتنا عرصہ اس کی تعلیم رہے، اسے پرنسپل اور مسز وارن کی جانب سے سرد رویے کا سامنا کرنا پڑے۔ اور یہ بات چھپی بھی نہیں رہے گی۔ جب طالب علموں میں یہ بات پھیلے گی کہ خدیجہ کو پروگرام کے پہلے شراکت دار کے طور پر دعوت دی گئی لیکن خدیجہ نے انکار کر دیا، تو خدیجہ مارے شرم کے ڈوب ہی تو جاہے گی۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ لیکن کپڑے اتارنا بھی تو آسان کام نہیں تھا۔
"ابھی؟ یہاں؟ آپ دونوں کے سامنے؟" بلاآخر خدیجہ نے اپنی سوچوں کو الفاظ میں ڈھالنے کی ہمت پیدا کر ہی لی۔
پرنسپل مسکرائے۔ ان کی مسکراہٹ میں ایک پدرانہ شفقت نمایاں تھی۔
"میں سمجھ سکتا ہوں کہ یہ ایک مشکل کام ہے خصوصاً پہلی مرتبہ۔ اسی لئے تو ہم نے پرنسپل آفس کا انتخاب کیا ہے۔ میں آپ کو اس بات کی گارنٹی دیتا ہوں کہ ہم دونوں کا رویہ انتہائی معقول ہو گا۔ جب دن ختم ہو گا تو آپ اپنے کپڑے یہیں میرے آفس سے وصول کر سکتی ہیں۔" پرنسپل نے شفقت بھرے لہجے میں خدیجہ سے کہا۔
خدیجہ نے خود کو صوفے سے اٹھایا اور ان دونوں کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ اس نے اپنا رخ مسز وارن کی طرف کر لیا۔ یہ عمل بلا ارادہ تھا۔ شاید بطور ایک عورت خدیجہ کو ان سے سپورٹ کی توقع تھی۔
خدیجہ کو یہ سوچ کر خود پر ہنسی آ گئی کہ اس نے کتنا وقت اپنے لباس کے انتخاب میں لگایا تھا۔ کیسے اس نے خود کو لباس میں بار بار دیکھ کر سنوارا تھا۔ اور اب اسے یہ لباس اتارنا پڑ رہا تھا۔ کیسا مذاق تھا یہ۔
اس نے نظریں جھکا کر اپنے بلاؤز کی طرف دیکھا اور ایک ایک کر کے بٹن کھولنے لگی۔ ہاتھ بٹن کھولنے میں مصروف تھے تو ذہن پروگرام کی دیگر تفصیلات یاد کرنے میں۔ ذہن پر زور ڈالا لیکن کچھ یاد نہ آیا۔ دراصل اس نے کبھی غور سے پروگرام کے اصول پڑھے ہی نہیں تھے کیونکہ تب اس کے نزدیک تو یہ محض ایک مذاق تھا۔ یہ اور بات تھی کہ اب یہ مذاق حقیقت بن چکا تھا۔
بلاؤز کے بٹن کھولنے کے بعد سکرٹ کی باری تھی۔ جسمانی مشقت سے زیادہ اسے دماغی قوت درکار تھی بے لباس ہونے کیلئے۔ اس نے اپنی ڈائریکشن ایڈجسٹ کی اور رخ ان دونوں کی متضاد سمت کر لیا۔ آج سے پہلے اس نے کبھی کسی کے سامنے اس طرح اپنا لباس نہیں اتارا تھا سوائے اپنی چند قریبی دوستوں کے اور ورزش کی کلاس میں۔ اسے ان دونوں کی نظریں اپنے جسم میں گڑی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔ اس نے احتیاط سے اپنا سکرٹ اتار کر تہہ کر کے صوفے کے بازو پر رکھ دیا۔
"یہ میں کیا کر رہی ہوں" خدیجہ نے دل ہی دل میں سوچا مگر زبان سے کچھ نہ کہا۔
پرنسپل اور مسز وارن اب اس کی ٹانگیں اوپر تک دیکھ سکتے تھے لیکن اوپری حصہ اب بھی بلاؤز کے نیچے چھپا ہوا تھا جسے اتارنے میں خدیجہ جھجک رہی تھی۔ شرماتے جھجکتے اس نے دونوں بازو بلاؤز سے نکال لئے اور آہستگی سے بلاؤز اتار کر فولڈ کر کے سکرٹ کے ساتھ ہی رکھ دیا۔
خدیجہ اب صرف برا، پینٹی، ہوز اور ہیلز پہنے ہوئے تھی۔ اسے بہت شرم آ رہی تھی اگرچہ اس کی پشت ان دونوں کی جانب تھی۔
تاہم، محض اس کی خوبصورت ٹانگیں اور پینٹی دیکھ کر ہی پرنسپل کے انڈر وئیر میں حرکت شروع ہو گئی تھی۔ انہوں نے گلا کھنکار کر صاف کیا اور ایک ٹانگ دوسری پر رکھ کر رخ تھوڑا سا مسز وارن سے پھیر لیا۔ پروگرام کیلئے خدیجہ ک انتخاب کرتے وقت شاید وہ بھول گئے تھے کہ ایک جوان لڑکی کا جسم ان پر کس طرح اثر انداز ہو سکتا ہے۔ خدیجہ کا صرف اپنے زیر جامہ میں ملبوس ہونا اور اس کی واضح بے چینی یہ سب پرنسپل کے جذبات کو مزید ہوا دے رہا تھا۔ ان کے انڈر وئیر میں مزید حرکت ہونے لگی لیکن ساتھ ہی یہ احساس بھی ہونے لگا کہ یہ غلط ہے۔
"شاباش خدیجہ ، بس تھوڑی سی ہمت اور" مسز وارن نے خدیجہ کا حوصلہ بڑھایا۔
"جی میڈم۔" خدیجہ نے انہیں جواب دیا اور دونوں ہاتھ اپنی کمر پر لے جا کر برا کا ہک کھول دیا۔ تھوڑا سا آگے جھک کر برا اتار دی۔ ایک کپ کو دوسرے کے اندر ڈال کر برا فولڈ کر کے باقی کپڑوں کے ساتھ رکھ دی۔ برا اتارنے کے بعد کی حرکت سے اس کے پستان ہلنے لگے تھے۔ اس نے دل میں شکر ادا کیا کہ منہ دوسری طرف تھا۔
پھر خدیجہ نے دونوں ہاتھوں کے انگوٹھے پینٹی اور ہوز کے دونوں اطراف گھسا دئیے۔ گھر پر ہوتی تو شاید وہ ہوز اتارنے میں احتیاط کرتی کیوں کہ نیٹ کا کپڑا نازک ہوتا ہے لیکن یہاں اگر وہ آہستہ آہستہ اتارتی تو شاید پرنسپل اور مسز وارن یہ سمجھتے کہ وہ جان بوجھ کر آہستہ آہستہ اپنا جسم عیاں کر رہی ہے جیسے کلب میں سٹرپ ٹیز ہوتا ہے۔ خدیجہ ہر گز یہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ ایسا سوچیں۔
خدیجہ نے ایک ہی جھٹکے میں پینٹی اور ہوز اتارنے چاہے لیکن ہوز کافی تنگ تھا لہٰذا خدیجہ کو رکنا پڑا، جھکنا پڑا اور نہ چاہتے ہوئے بھی رفتار آہستہ رکھنی پڑی۔ اگر وہ بیٹھی ہوتی تو اتنی دقت نہ ہوتی لیکن بیٹھنے کی صورت میں اسے منہ موڑنا پڑتا جو وہ نہیں چاہتی تھی۔ خدیجہ جانتی تھی کہ اس کی یہ خواہش مضحکہ خیز تھی کیونکہ جلد یا بدیر اسے مڑ کر پرنسپل اور مسز وارن کا سامنا تو کرنا ہی ہے۔
خدیجہ نے جتنی کوشش کی کہ وہ کوئی غلط تاثر نہ دے، ہوز اتارنے میں مشکلات کی وجہ سے اتنی ہی پریشانی ہوئی۔ کبھی ایک ٹانگ تو کبھی دوسری ٹانگ پر سے ہوز نیچے کرنے کی وجہ سے اس کے چوتڑ کبھی ٹائٹ ہو جاتے تو کبھی ڈھیلے۔ اس کی سڈول ٹانگیں اور چوتڑ یوں اوپر نیچے ہوتے دیکھ کر پرنسپل کو پینٹی کے اوپر سے ہی خدیجہ کی پھدی کے خدو خال کا اندازہ ہو رہا تھا۔ ایک تو پینٹی کافی ٹائٹ تھی، دوسرا خدیجہ کے جھکے ہوئے ہونے کی وجہ سے مزید ٹائٹ ہو گئی تھی اور تیسرا خدیجہ کے ٹانگوں کو بار بار اٹھانے کی وجہ سے اس کی پھدی کے گلاب کی پنکھڑی جیسے ہونٹ بالکل نمایاں ہو رہے تھے۔ پرنسپل کا لن اب انڈر وئیر کے اندر کھڑا ہو گیا تھا۔ ان کا دل تو کر رہا تھا کہ ہاتھ میں پکڑ کر کچھ مزے لیں لیکن یہ انتہائی نامناسب ہوتا۔ تاہم اس عمر میں بھی اتنی جلدی لن کھڑا ہونے پر انہیں دل ہی دل میں فخر محسوس ہوا اگرچہ وہ اس فخر کا اظہار کسی سے نہیں کر سکتے تھے۔
سب سے بہترین نظارہ تو تب میسر ہوا جب خدیجہ کو پینٹی ہوز اتارنے کیلئے ہیلز اس کے پائنچوں میں سے گزارنی پڑیں۔ خدیجہ جانتی تھی کہ وہ بہت سیکسی نظارے پیش کر رہی ہے لیکن اسے توقع تھی کہ پرنسپل اور مسز وارن کی نظریں اس کی پرائیویٹ جگہ پر نہیں ہوں گی۔
"شاباش خدیجہ، اب ذرا مڑ کر ہماری طرف رخ کریں تاکہ ہم دیکھ سکیں۔" پرنسپل سے رہا نہ گیا۔
مسز وارن اپنی سیٹ میں بے چین تھیں۔ شاید بطور ایک عورت انہیں احساس تھا کہ خدیجہ پر کیا گزر رہی ہے۔ لیکن انہیں معلوم تھا کہ یہ سب پروگرام کا حصہ ہے اور اس کے اصولوں کے مطابق ہے۔ کسی کے سامنے برہنہ ہونا بہت سے ایشوز کو واضح کر دیتا ہے مثلاً اپنے جسم کے بارے میں انسیکیور ٹی ، اپنی نظروں میں اپنا امیج، جذبات، جنسی تضادات، دوسروں سے کمیونیکیشن وغیرہ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اگر ان سب چیزوں کی لسٹ بنائی جائے جو پبلک نیوڈیٹی سے عیاں ہوتی ہیں تو یہ لسٹ بہت ہی لمبی بنے۔ مسز وارن نے پروگرام کا اچھا خاصہ مطالعہ کر رکھا تھا۔ وہ جانتی تھیں کہ کسی بھی ادارے کیلئے اس کا آغاز انتہائی مشکل ہے لیکن انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ اگر پروگرام کا آغاز کر لیا جائے اور کامیابی سے اصولوں پر عمل کیا جائے تو نتیجہ بہت ہی کارآمد نکلتا ہے۔ مختصراً یہ کہ کامیابی سے پروگرام پر عمل کی صورت میں طالب علموں میں جنسی ہراسگی بہت کم ہو جاتی ہے اور اپنے بدن سے آگاہی بہت بڑھ جاتی ہے۔
خدیجہ نے ایک ہاتھ اپنی چھاتیوں پر اور دوسرا پھدی پر رکھ لیا اور آہستہ آہستہ اپنا رخ تبدیل کر لیا۔ اس کا چہرہ لال بھبھوکا ہو رہا تھا اور شرم کے مارے وہ زمین میں گڑی جا رہی تھی۔ اسے ایسا لگتا تھا جیسے کسی نے اسے شاور سے نکلتے ہوئے دیکھ لیا ہو حالانکہ پرنسپل اور مسز وارن کیلئے اسے شاور سے نکلتے دیکھنا ناممکن تھا۔
بلاشبہ ایک جوان لڑکی کو ننگی دیکھنا جذبات بھڑکا دیتا ہے لیکن اگر وہ لڑکی اپنے پرائیویٹ پارٹس چھپانے کی کوشش کر رہی ہو تو منظر میں حدت کئی گنا بڑھ جاتی ہے کیونکہ آپ کو پتہ ہوتا ہے کہ وہ لڑکی کتنی بے چین ہے اور آپ عنقریب اس کے جسم کے وہ حصے دیکھنے والے ہیں جنہیں وہ لڑکی سب سے چھپانا چاہتی ہے۔
حقیقت تو یہ تھی کہ خدیجہ کے ہاتھ کچھ زیادہ چھپا نہیں پا رہے تھے۔ یہ سچ ہے کہ اس نے نپلز چھپا لئے تھے لیکن اس کی بڑی بڑی چھاتیوں کا اکثر حصہ بخوبی نظر آ رہا تھا۔ بلکہ اس کے اپنے بازو کی مدد سے یوں نپلز چھپانے کی وجہ سے چھاتیاں دب کر رہ گئی تھیں اور بیچ کی لکیر زیادہ واضح ہو گئی۔ دوسرے ہاتھ سے پھدی چھپانے کی ناکام کوشش بھی جاری تھی۔
"بیٹا آپ کو اپنے ہاتھ ہٹانے ہوں گے" مسز وارن نے خدیجہ سے کہا۔
"میڈم کیا یہ ضروری ہے؟" خدیجہ کو اب بھی امید تھی کہ شاید کوئی صورت ہو بچ نکلنے کی۔
"جی مس خدیجہ یہ ضروری ہے۔ بھلا اگر ہاتھ سے چھپانا ہی مقصود ہو تو پھر کپڑے اتارنے کا کیا فائدہ؟" مسز وارن کی جگہ پرنسپل نے خود خدیجہ کو جواب دیا۔
نہ چاہتے ہوئے بھی خدیجہ پرنسپل کی بات سے سو فیصد متفق تھی۔
"مجھے پورا یقین ہے کہ آپ نے پروگرام کے اصول پڑھ رکھے ہوں گے لیکن میں یہاں دہراتا چلوں کہ پروگرام کے اصولوں کے مطابق آپ نے پورا دن ایسے ہی ننگی گزارنا ہے، آپ نے اپنے جسم کو کسی چیز کی مدد سے چھپانے کی کوشش نہیں کرنی۔ نہ ہاتھوں سے نہ کتاب سے نہ پرس سے نہ کسی اور چیز سے۔ اگر کوئی آپ سے کسی پوز کی فرمائش کرے تو آپ کو پوری کرنا ہو گی بشرطیکہ کہ فرمائش کرنے والا قابل احترام انداز میں فرمائش کرے اور آپ کے جسم کو چھونے سے گریز کرے۔ شاید آپ کو ابھی تو یہ سب عجیب لگ رہا ہو لیکن جب آپ کو اس سب کی عادت ہو جائے گی تو آپ ایک مضبوط اور صحت مند لڑکی بن کر ابھریں گی۔ آپ کو اپنے جسم سے متعلق کسی قسم کا احساس کمتری نہیں ہو گا۔ آپ کا کانفیڈنس کئی گنا بڑھ جائے گا۔ چلئے شاباش اب اچھی بچی بنیں اور ہاتھ ہٹا لیں۔" پرنسپل نے تو پوری تقریر جھاڑ دی۔
"یس سر" خدیجہ نے کہا اور دونوں ہاتھ سائیڈوں پر گرا دئیے۔
پرنسپل کو اب سمجھ آیا کہ خدیجہ کا ہاتھوں سے اپنے جسم کو چھپانے کی ناکام کوشش کرنا کیوں اتنا سیکسی لگ رہا تھا۔ انہیں کسی جوان لڑکی کو ننگی دیکھے کافی وقت بیت چکا تھا۔ اب جب خدیجہ کا ننگا جسم ان کی نظروں کے سامنے آیا تو وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ پائے۔ دل ہی دل میں وہ یہی سوچ رہے تھے کہ بس خدیجہ اور مسز وارن ان کے اندر پیدا ہونے والی ٹھرک کو نہ بھانپ سکیں۔ خدیجہ کی چھاتیاں سینے پر ایسے فخریہ آویزاں تھیں کہ جیسے پکے ہوئے خربوزے۔ نپلز اور اس کے گرد کا کچھ حصہ سرخی مائل تھا۔ پرنسپل اپنا آفس ہمیشہ ائیر کنڈیشنڈ رکھتے تھے۔ شاید ٹھنڈ کی وجہ سے خدیجہ کے نپلز اتنے سخت ہو گئے تھے۔ پرنسپل کا بہت شدید دل کر رہا تھا کہ وہ اپنا لن تھام لیں۔