کم ہی لڑکیاں تھیں جنہیں مائیکل کی موجودگی سے ذرا بھی فرق نہیں پڑا تھا بلکہ الٹا ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ انجوائے کر رہی ہوں۔ صالحہ بھی ان میں سے ایک لڑکی تھی۔ وہ باقی لڑکیوں کی طرح بھاگی نہیں تھی بلکہ اٹھلا اٹھلا کر مائیکل کے سامنے سے چل کر گزری تھی۔ اس کا سینہ فخر سے تنا ہوا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ اس کے ممے خدیجہ سے بھی بڑے تھے۔ چلتے ہوئے اس نے نظریں چرا کر یہ ضرور دیکھ لیا تھا کہ مائیکل اس کی ہر ادا کو، خصوصاً مموں کو کیسے غور سے دیکھ رہا تھا۔ صالحہ کو تو ویسے ہی اپنی اداؤں سے لڑکوں کا کھڑا کرنا بہت پسند تھا اور ایسا موقع تو وہ کبھی بھی ضائع نہیں کرتی تھی۔ مائیکل کے پاس سے گزرنے کے بعد پر اس نے جان بوجھ کر اپنے شیمپو کی بوتل گرا دی اور ایسے ایکٹنگ کی جیسے غلطی سے گر گئی ہو۔ پھر بوتل اٹھانے کیلئے جھکی اور اپنے چوتڑ جان بوجھ کر ضرورت سے زیادہ اوپر اٹھائے۔
مائیکل کی آنکھیں صالحہ کے چوتڑوں پر جمی تھیں اور اس کا لن اتنا سخت ہو گیا تھا جیسے کھال پھاڑ کر اور لمبا ہو جائے گا۔ کیا خوبصورت نظارہ تھا۔ اس کی نرم نرم جانگوں کے درمیان اس کی پھدی جھانک رہی تھی۔ چکنی پھدی کو دونوں ہونٹ دکھنے میں ہی رسیلے معلوم ہوتے تھے۔ چوتڑوں کے درمیان اس کی گانڈ کا سوراخ بھی صاف نظر آ رہا تھا لیکن صالحہ رتی برابر بھی نہیں شرمائی بلکہ الٹا ایسے جھکے جھکے ہی اپنا منہ موڑ کر مائیکل سے کہنے لگی:
"ارے مائیکل کیا یہیں کھڑے رہو گے یا ہمیں شاور میں جوائن بھی کرو گے۔" یہ کہہ کر اس نے ایک ہاتھ پیچھے کر کے چوتڑ پر خارش کی لیکن خارش تو ایک بہانہ تھا، اصل مقصد تو ہاتھ سے چوتڑ کھول کر مائیکل کو کچھ دکھانا تھا۔
مائیکل ہکا بکا رہ گیا تھا۔ اس کا ہاتھ اپنے آپ ہی لن کی طرف بڑھنے لگا۔ پروگرام کے اصولوں کی ایسی تیسی۔ اس سے برداشت نہیں ہو رہا تھا اب۔ لیکن جب وہ ہاتھ بڑھا رہا تھا تو صالحہ کھلکھلا کر ہنس پڑی اور اٹھ کر شاور کی طرف چلی گئی۔ لگتا ہے اسے مائیکل پر اپنے جلوے کا اثر دیکھ کر بہت خوشی ہوئی تھی۔ مائیکل بس اس کے اوپر نیچے ہوتے چوتڑ پیچھے سے دیکھتا رہا۔ بہرحال اچھا ہی ہوا جو صالحہ چلی گئی ورنہ اب تک مائیکل ڈسچارج بھی ہو چکا ہوتا اور یقیناً پروگرام کے اصول توڑنے پر سزا کا بھی مستحق ہوتا کیونکہ جب صالحہ اسے اپنے چوتڑوں اور پھدی کا نظارہ دکھا رہی تھی تب وہ لاکر روم میں اکیلے نہیں تھے بلکہ نرسنگ کی کلاس والی عالیہ بھی وہیں تھی۔ وہ ایک کونے میں کھڑی سب کچھ دیکھتی رہی تھی۔ الف ننگی وہیں کھڑی مائیکل کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔
اس کے ممے اگرچہ خدیجہ اور صالحہ سے چھوٹے تھے لیکن تھے کافی پرکشش۔ گول مٹول دودھیا سفید ممے جن پر گلابی نپل بہت ہی خوبصورت لگ رہے تھے۔
"توبہ ہے مائیکل" شرارتی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے وہ مائیکل سے مخاطب ہوئی: "لگتا ہے تم اپنے لن کو قابو رکھ ہی نہیں سکتے۔"
مائیکل نے بھی جواب میں مسکراہٹ دی۔ عالیہ کی نرسنگ کلاس کی شرارتیں اس کی نظروں میں گھوم گئیں۔
"کیا خیال ہے کچھ کریں؟" عالیہ نے ہاتھ اپنی پھدی پر رکھ لیا اور دھیرے دھیرے مسلنے لگی۔
"اوہ نو" مائیکل کیلئے ایک کے بعد ایک آزمائش آ رہی تھی۔ عالیہ کی پھدی بھی مکمل شیو تھی۔ چکنی پھدی کے ہونٹوں کو اپنے ہاتھ سے علیحدہ کر کے دکھایا تو مائیکل کو اندازہ ہوا کہ کتنے موٹے موٹے ہونٹ ہیں اس کی پھدی کے۔ جب اس نے کھولے تو مائیکل کو لگا جیسے کسی پھول کی پتیاں ہوں۔ اندر سے گیلا پن چمک رہا تھا۔ ٹھرک ، بے چینی ، کنفیوژن اور حیرت کے ملے جلے جذبات سے مجبور مائیکل کا حلق خشک ہو گیا۔ یہ ناممکن تھا کہ مائیکل یہاں لاکر روم میں عالیہ کی آفر مان کر اس کے ساتھ کچھ کرتا۔ اسے پتہ تھا وہ چند سیکنڈز میں ہی ڈسچارج ہو جائے گا لیکن مسلہ یہ نہیں تھا، اصل مسلہ یہ تھا کہ یہاں کچھ بھی کرنا بہت بڑا رسک تھا اور اپنا تعلیمی کیرئر خطرے میں ڈالنے والی بات تھی۔ پروگرام کے اصولوں کی تو صریح خلاف ورزی تھی ہی، مائیکل کو ایسا محسوس ہوا جیسے اگر اس نے عالیہ کے ساتھ کچھ کیا تو یہ خدیجہ کے ساتھ بے وفائی ہو گی۔ لیکن اس کے باوجود وہ گومگو کی کیفیت میں تھا۔ آج تک کسی لڑکی نے اسے ایسی آفر نہیں کی تھی اور عالیہ کی بات اور اشاروں سے یہ واضح تھا کہ وہ چدائی کی دعوت دے رہی ہے۔ پروفیسر عافیہ کے مائیکل کے لن کو چھیڑنے اور پھر اتنی ساری ننگی لڑکیوں کو دیکھنے کے بعد مائیکل کے لن کی برداشت جواب دے رہی تھی۔ اب تو ٹٹوں تک میں درد ہونے لگا تھا۔
"جلدی کرو مائیکل۔ یہ آفر محدود مدت کے لیے ہے۔"
"اوہ۔ کیا کروں میں۔ عالیہ میں تو کرنا چاہتا ہوں لیکن یہ رولز کے خلاف ہے۔" مائیکل نے کہا۔
عالیہ کو رولز کی رتی برابر بھی پرواہ نہیں تھی۔ یہ بات نہیں تھی کہ مائیکل کوئی بہت ہی پرکشش لڑکا تھا۔ کیوٹ ضرور تھا تھوڑا لیکن تھا تو آخر کتابی کیڑا ٹائپ ہی نا۔ تاہم، پروگرام کا پہلا لڑکا تھا اور اس بات کی بہت اہمیت تھی۔ عالیہ اب اپنے دونوں ہاتھ نیچے لے جا کر پھدی کھول کر مائیکل کو دکھائی اور کہنے لگی: "اصول تو ہوتے ہی توڑنے کیلئے ہیں. آؤ نا۔"
"نہیں۔ نہیں میں یہ نہیں کر سکتا" مائیکل نے جلدی سے کہا اور تیزی سے شاور کی طرف بڑھ گیا۔
جب تک مائیکل شاور میں نہیں آیا تھا، تب تک تمام لڑکیوں کا موضوع وہی تھا۔ کچھ لڑکیاں اس بات پر متجسس تھیں کہ مائیکل کی کوئی گرل فرینڈ ہے یا نہیں۔ اس لئے نہیں کہ وہ خود مائیکل سے تعلق قائم کرنے کی متمنی تھیں بلکہ اس لئے کہ اگر مائیکل کوئی نازیبا حرکت کرے تو وہ اس کی گرل فرینڈ کو شکایت لگا سکیں۔ لیکن کوئی بھی لڑکی مائیکل کو اتنا قریب سے نہیں جانتی تھی۔ اندازہ اکثریت کا یہی تھا کہ اس کی کوئی گرل فرینڈ نے نہیں ہے۔
جب مائیکل شاور میں آیا تو لڑکیوں نے پھر سے ویسی ہی آوازیں نکالیں جیسے پہلی بار مائیکل کے لن کو دیکھنے پر نکالی تھیں۔ جہاں ان سب لڑکیوں کے تبصروں میں ناپسندیدگی واضح تھی، وہیں کچھ لڑکیاں موقع سے فائدہ اٹھا کر مائیکل کے لن پر اچٹتی نظریں ڈال رہی تھیں۔ ان میں سر فہرست صالحہ تھی۔ وہ تو نظریں چرانا بھی ضروری نہیں سمجھ رہی تھی اور گھورے چلے جا رہی تھی۔
لڑکیوں کو اپنے اپنے شاور کے نیچے نہاتے دیکھنا تو انہیں کپڑے اتارنے دیکھنے سے بھی بہتر تھا۔ نہاتے ہوئے لڑکیاں اپنا جسم صاف کرنے کیلئے طرح طرح کے پوز بناتیں تو مائیکل کو نت نئے نظارے دیکھنے کو ملتے۔ وہ خود بھی شاور لینے میں مشغول تھا لیکن شاور اسے لڑکیوں کو دیکھنے سے نہیں روک سکتا تھا۔ سب سے زیادہ اسے جھکنے والا پوز ہی پسند آیا جب لڑکیاں اپنے ٹخنوں پر صابن لگانے کیلئے جھکیں۔ دوسرے نمبر پر اس کا پسندیدہ عمل ان لڑکیوں کا اپنے مموں، پھدی اور چوتڑوں پر صابن رگڑنا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اپنے جسموں سے کھیل رہی ہوں اور مائیکل اپنے خیالات میں ان کے گیلے، چکنے اور سیکسی جسموں سے کھیل رہا تھا۔
جسم دھونے کے بہانے مائیکل کو اپنا لن مسلنے کا موقع بھی مل گیا۔ لن پر بار بار اسے صابن رگڑنے کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی لیکن وہ مسلسل لن نہیں رگڑ رہا تھا بلکہ جسم کے دوسرے اعضا پر بھی درمیان میں صابن لگا رہا تھا۔ جب بھی وہ لن پر صابن رگڑتا یا ہاتھ سے اسے مسلتا تو اسے محسوس ہوتا کہ وہ ڈسچارج ہونے کے قریب ہے اس لئے وہ فوراً ہاتھ ہٹا لیتا۔
ایک طرف تو مائیکل شدت سے ڈسچارج ہونا چاہتا تھا لیکن ایسے اتنی لڑکیوں کے سامنے ڈسچارج ہونا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ اگرچہ شاور میں ڈسچارج ہونے سے منی بھی صابن کے جھاگ کی طرح بہہ جاتی لیکن اگر ایک بھی لڑکی اسے ڈسچارج ہوتے دیکھ لیتی اور شکایت لگا دیتی تو مائیکل مشکل میں پڑ جاتا۔ کئی لڑکیاں ویسے بھی اسے دیکھ رہی تھیں۔ خصوصاً صالحہ تو اسے بہت ہی حوصلہ افزا نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ مائیکل نے بہرحال اپنے آپ پر قابو رکھا۔
مائیکل نے شاور میں کافی وقت لگایا۔ لڑکیاں زیادہ دیر تک نہیں رک رہی تھیں۔ جلدی جلدی جسم صاف کر کے کھسکتی جا رہی تھیں۔ فرش پر ان کے گیلے پاؤں کی چھپ چھپ کی آوازیں بھی مائیکل کو اب تو گرم کر رہی تھیں۔ گیلی گیلے بدن لئے لڑکیاں لاکر روم میں لوٹ رہی تھیں جہاں انہوں نے کپڑے بدلنے تھے۔ تاہم، کچھ لڑکیاں ابھی بھی شاور میں ہی تھیں۔ ان کی اگرچہ دلچسپی مائیکل میں ہی تھی لیکن شاور چونکہ کلاس کا حصہ تھا لہذا ان کے پاس بہانہ تو خوب تھا۔
مائیکل البتہ سب لڑکیوں کے جانے کا انتظار نہیں کرنا چاہتا تھا۔ خاص طور پر صالحہ اور عالیہ کے ساتھ شاور میں اکیلا رہ جانے کا رسک وہ کسی طور نہیں لینا چاہتا تھا۔ وہ دونوں بھی شاید کسی موقع کے انتظار میں ابھی تک شاور میں ہی تھیں۔ اگر ایسا موقع آتا تو مائیکل کیلئے اب برداشت کرنا ناممکن ہوتا۔ ویسے بھی وہ لڑکیوں کو کپڑے پہنتا دیکھنا چاہتا تھا۔ شاور میں اب بہت کم لڑکیاں تھیں جب مائیکل شاور سے نکل کر لاکر روم کی جانب بڑھا۔
"ڈرپوک" عالیہ کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔ اس کی آواز میں شرارت اب بھی برقرار تھی لیکن مائیکل نہ رکا۔
بدقسمتی سے جب مائیکل وہاں پہنچا تو اکثر لڑکیاں کپڑے پہن کر وہاں سے جا چکی تھیں۔ مائیکل چند لڑکیوں کو ہی برا پہنتے دیکھ سکا۔ لڑکیوں کو کپڑے پہنتے دیکھنا بہت سیکسی تھا۔ مکمل ننگی سے بتدریج کپڑوں میں ملبوس ہوتے چلے جانا۔ مائیکل کو تو پتہ تھا ان کپڑوں کے نیچے کیا ہے۔ اسے ایسا لگا جیسے اس کی نظروں میں ایکس رے فٹ ہو گیا ہے۔ سوزی کی میچنگ گلابی برا اور پینٹی اسے بہت اچھی لگی۔ گلابی رنگ پر سفید پتیاں بنی ہوئی تھیں۔ بہت سیکسی لگ رہی تھی۔
مائیکل کو کسی قدر مایوسی ہوئی جب اس نے اوپر سے اپنا سکرٹ پہنا۔ مائیکل نے سوچا جب بھی وہ اسے دیکھے گا تو اسے لازمی اس موقع کا خیال آئے گا اور وہ تب بھی سوچے گا کہ شاید سوزی نے آج بھی وہی گلابی سیٹ پہنا ہو اور نیچے اس کے وہی ممے، وہی چوتڑ، وہی پھدی ہوں گے جنہیں مائیکل کتنے غور سے دیکھ چکا تھا۔
صالحہ اور عالیہ بھی اب واپس لاکر روم میں آ کر اپنا جسم خشک کر رہی تھیں۔ مائیکل پہلے ہی کر چکا تھا۔ اس نے کچھ دیر رکنے کا سوچا کیونکہ اسے پتہ تھا کہ یہ دونوں لازماً اس کیلئے کچھ نہ کچھ کریں گی۔ لیکن ایک تو اسے ڈر تھا کہیں اگلی کلاس کیلئے لیٹ نہ ہو جائے اور دوسرا اسے یہ بھی ڈر تھا کہ خدیجہ اس پر شک نہ کرے کہ وہ اکیلا لاکر روم میں صالحہ اور عالیہ کے ساتھ کیا کر رہا تھا۔ نکل جانا ہی بہتر تھا۔
"بائے صالحہ ۔ بائے عالیہ۔ " مائیکل نے ہاتھ ہلا کر کہا۔
" بائے مائیکل ۔ پھر ملیں گے۔" ان دونوں نے کہا۔
مائیکل نے دل میں کہا کاش اور لاکر روم سے باہر آ گیا جہاں واقعی خدیجہ سیکیورٹی گارڈ کے ہمراہ اس کی راہ تک رہی تھی۔